Sunday 29 June 2014

Sex and drugs at the core of the EU’s economic development?

www.swatsmn.com

Sex and drugs at the core of the EU’s economic development?By Patrick L Young  "RT"
Sex and drugs building a better economy is the latest weird promise from the European Commission.
Some see the EU as a deranged trip to the dark side of power with fudged up deals in smoke-filled backrooms (well, before clean-air, anti-nicotine directives took effect). Meanwhile all the hallmarks of morally-dubious authority are vested in a somewhat unseemly supranational body where the accounts are dodgy (just ask the auditors), fraud apparently commonplace and the entire entity seems to lurch from crisis to crisis while espousing wondrous promise, but ultimately delivering a hotchpotch of over-regulated chaos and an ongoing descent into poverty for many citizens.
With many EU governments having espoused a deranged socialist ‘spend like a footballer’s wife’ mantra for decades, the result is little short of economic chaos. Social spending is bloated beyond belief, taxes are stretched to the point of destroying commercial incentives and Europe’s very own currency resembles a multinational fiat money disaster area, built on foundations of sand liberally diluted with Euro-hubris.
Against this background of decreasing economic power relative to the rest of the world, Euro-wonks floated a proposal to rebrand bankruptcy in favor of a more. Just when the Kafka-esque EU charade cannot seemingly get worse, Brussels has delivered a mega-whacky mandate to national governments. The absurd triumphs over traditional values.
Statisticians working overdrive to define a smoke and mirrors fudge to reduce burgeoning debt to GDP ratios have finally hit pay dirt, building upon previous moves towards economic Machiavellianism such as defenestrating savers by enabling legalized theft of private pension fund bond portfolios (e.g. in Hungary and Poland).
That was a mere warm up act for the latest statistical dodges which, are as difficult to believe as they are tricky to outline on pages without age restrictive censorship criteria.
The EU’s latest move to increase economy size, is not merely sleight of hand, it involves sleight of an awful lot else too. How better to grow an economy overnight than instantly incorporating some darker activity from the black economy?
This is perhaps the most significant back to basics approach to economics since Adam and Eve indulged in that forbidden quantitative easing fruit as part of their five-a-day quota.
When the going gets tough, EU economic gurus advocate sex to reduce Europe’s debt ratios.

However, mere love or procreation doesn’t count economically. Rather, only commercial congress commands econometricians’ attention. By adding a proxy for prostitution, EU nations reduce their debt ratios! Never before have commercial consumers of the world’s oldest profession been so prized! Doing your bit to reduce the general indebtedness of society has never been easier, if admittedly perhaps causing some element of conflict with, say, organized religion (perhaps the price of penance can be modeled to further reduce that all important debt to GDP ratio?).

Drugs and Crime chief researcher Angela Me told a news conference on Thursday

www.swatsmn.com
Afghanistan heads the field documenting a massive increase in 2012, with at least 209,000 hectares devoted to the cultivation of opium. Myanmar comes in second place, with a total of 57,800 hectares used to grow the primary ingredient of heroin. 





“The main area of cultivation in Afghanistan was in nine provinces in the southern and western part of the country, while the major increase was observed in Helmand and Kandahar. In Myanmar, the increase in the area of cultivation was not as pronounced as in Afghanistan,” says the report. 

According to the document, the production of opium has not increased as radically as its cultivation. The UN estimates that in 2013 6,883 tons were produced, “which is a return to the levels observed in 2011 and 2008.” According to the report, the production of heroin, on the other hand, has risen, totaling 560 tons in 2013, compared to 2008’s figure of 600 tons. 

The UNODC classifies drug use around the world as stable, estimating that 5 percent of the world’s population aged between 15 and 64 years used an illegal drug in 2012. It says that around 27 million people are considered “problem drug users,” about 6 percent of the world’s population. 

The UN body found that marijuana remains the world’s most consumed drug, with almost 180 million people consuming the drug in 2012. The report also notes that North America has witnessed an increase in the use of the recreational drugs, which it attributes to a widespread perception of “lower health risks.” 

The UN has been critical of the decision to legalize the drug in the states of Washington and Colorado this year. It maintains that the repeated use of pot can lead to serious health disorders, including memory impairment and lung disorders. 

"Medical research tells us clearly that the use of cannabis, particularly at early ages, can be very harmful for the health," UN Office on Drugs and Crime chief researcher Angela Me told a news conference on Thursday, Reuters reported. 

The South American nation of Uruguay became the first country in history to fully legalize cannabis last year. The country’s President Jose Mujica dismissed criticism from the UN and has championed the initiative as a way of bringing Uruguay’s illegal drugs market under state control.

Wednesday 25 June 2014

ایک میچ ہارنے پر آپ کو ’شٹ اپ‘ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی

www.swatsmn.com
برصغیر میں لڑکیوں کے لیے گورا رنگ سب سے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں میری چچی، چچا اور چچازاد بہنوں کو فکر تھی کہ اگر میرا رنگ سیاہ ہوگیا تو شادی کیسے ہوگی۔ یہ خوف ہندوستانی ثقافت کا حصہ ہے۔"
ثانیہ مرزا

لوگ مجھ سے بار بار پوچھتے ہیں کہ میرے بعد کون؟ گزشتہ دس برس سے تو میں ہی ہوں۔ میں نے اس سمت میں کچھ کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ بھارت میں ٹینس کو قائم رکھا جا سکے۔ نہیں تو میرے ریٹائر ہونے کے بعد تو کوئی ہوگا ہی نہیں۔"
ثانیہ مرزا
ثانیہ مرزا اپنے شوہر کے بارے میں کہتی ہیں ’جو کھیل کو سمجھتے ہوں اور اعلیٰ سطح پر خود کھیل چکے ہوں ان سے شادی کا فائدہ تو ہوتا ہی ہے۔ ایک میچ ہارنے پر آپ کو ’شٹ اپ‘ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ کچھ گھنٹوں تک خاموش رہیں اور انھیں خود اس سے نمٹنے دیں۔ تسلیم کریں یا نہیں لیکن شادی میں ان باتوں کی اپنی ایک الگ اہمیت ہوتی ہے۔‘
ثانیہ کے مطابق ’لوگ مجھ سے بار بار پوچھتے ہیں کہ میرے بعد کون؟ گزشتہ دس برس سے تو میں ہی ہوں۔ ایسے میں میں نے اس سمت میں کچھ کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ بھارت میں ٹینس کو قائم رکھا جا سکے۔ نہیں تو میرے ریٹائر ہونے کے بعد تو کوئی ہوگا ہی نہیں۔‘

جہاز ہی کیوں اڑ کر آ جاتا ہے


ایک جہاز سری لنکا سے آیا، میں نے اسے روکنے کی بڑی کوشش کی لیکن وہ اڑتا گیا

www.swatsmn.com
جہاز ہی کیوں اڑ کر آ جاتا ہے
پہلے ایک جہاز سری لنکا سے آیا، میں نے اسے روکنے کی بڑی کوشش کی لیکن وہ اڑتا گیا اور پھر تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ میرے ساتھ کیا ہوا۔ چلو میں ایک مرتبہ پھر بتا دیتا ہوں۔
کچھ عرصے بعد مجھے بھی زبردستی ایک جہاز میں بیٹھا کر ایک اور پاک سر زمین بھیج دیا گیا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ لاہور سے اچھی یا کم اچھی تھی پر ’لاہور لاہور اے‘۔
میں نے وہاں اللہ کو بہت یاد کیا اور آخر اللہ نے میری سن لی، لیکن اس مرتبہ بھی جہاز ہی میری قسمت میں آیا۔ میں جہاز میں بیٹھا، یقیناً اپنی مرضی سے، لیکن یہ کیا کہ انھوں نے مجھے اپنے گھر جانے ہی نہیں دیا۔ جہاز فوراً واپس بھیج دیا۔ ایسا نہیں کہ میرے اور گھر نہیں ہیں لیکن میں تو لاہور والے گھر میں جانا چاہتا تھا۔ میں نے پھر جہاز پکڑا اور یہ جا وہ جا۔
لیکن میری اور جہاز کی کہانی وہیں ختم نہیں ہوئی۔
میرے آتے ہی ایک شخص جہاز میں بیٹھا اور نکل گیا۔ لوگوں نے اسے بہت سمجھایا کہ جہاز کا سفر خطرناک ہے اور یہ جس گاؤں جا رہا ہے وہاں جاتے تو اپنی مرضی سے ہیں لیکن وہاں سے آنا اپنی مرضی سے ممکن نہیں۔ وہاں کے باسی بہت مہمان نواز ہیں۔ سچ بتاؤں مجھے مہمان کو دیکھ کر بہت مزا بھی آ رہا تھا۔
لیکن یہ میڈیا والے بھی عجیب ہیں، روز روز یہ باتیں کرنے لگیں ہیں کہ کہیں دور سے کوئی جہاز آئے گا اور میرے مہمان کو اڑا لے جائے گا۔
میں جہازوں کو روکنے اور مسافروں کی چھان بین کرنے لگا اور ابھی اسی میں مصروف تھا کہ ایک اور مہمان بنا بلائے جہاز میں بیٹھ کر آ گئے۔
ہیں تو یہ میرے شہر سے ہی پر مجھے ذرا نہیں بھاتے۔ میں نے ان کا جہاز اسلام آباد کی طرف سے صرف اپنی مہمان نوازی کی وجہ سے موڑ دیا۔ بھئی کیوں نہ اپنے شہر جاؤں یہ پہاڑوں میں کیا کرو گے۔
لیکن وہ صاحب تو بس جہاز سے ہی جڑ گئے، گرمی کا خیال بھی نہیں کیا اور نہ ہی دوسرے مسافروں کا۔ آخر جیسے ہی اے سی بند کیا وہ باہر آگئے۔ سابق وزیرِ اعلیٰ کو انھیں اپنی اے سی والی کار دینی پڑی۔

میں تو ان جہازوں سے تنگ آ گیا ہوں۔ سوچتا ہوں اب چند اونٹ ہی رکھ لوں۔

آئینِ پاکستان کے مطابق کسی بھی شہری کو ملک میں کہیں بھی بغیر روک ٹوک جانے کی آزادی ہے



www.swatsmn.com
سندھ حکومت کا خدشہ ہے کہ وزیرستان سے بے گھر ہونے والے کراچی میں آ کر آباد ہوں گے
 آئینِ پاکستان کے مطابق کسی بھی شہری کو ملک میں کہیں بھی بغیر روک ٹوک جانے کی آزادی ہے۔
کراچی ٹول پلازہ پر اندرون ملک سے آنے والی بسوں کی قطار لگی ہے۔ ان میں شامل نیلے رنگ کی بس بنوں سے آئی ہے۔
بلٹ پروف جیکٹ پہنے ہوئے رینجرز کا ایک جوان بس میں سوار ہوتا ہے اور لمبے بالوں کو رومال سے باندھ ہوئے نوجوان سے سوال کرتا ہے کہ کہاں سے آرہے ہوں؟ نوجوان بتاتا ہے لکی مروت سے۔
شمالی وزیرستان میں داوڑ اور وزیر قبائل رہتے ہیں جن کے رشتے دار کراچی میں موجود نہیں، بلکہ بنوں، پشاور، چکوال اور ڈیرہ اسماعیل خان میں مقیم ہیں۔ اس کے برعکس کراچی میں سوات کے لوگ اور محسود قبائل کئی سالوں سے آباد ہیں جس وجہ سے ماضی میں ہونے والے آپریشن کے متاثرین نے یہاں کا رخ کیا تھا۔"
صحافی ضیاالرحمٰن

Tuesday 24 June 2014

تیس جون کو پہلا روزہ ہونے کی نوید سنا دی

www.swatsmn.com
محکمہ موسمیات نے تیس جون کو پہلا روزہ ہونے کی نوید سنا دی


محکمہ موسمیات نے تیس جون بروز پیر پہلا روزہ ہونے کی نوید سنائی ہے۔ ڈی جی محکمہ موسمیات عارف محمود نے کہا ہے کہ ہفتہ 28 جون کو رمضان المبارک کا چاند نظر آنے کا امکان نہیں ہے۔ 

لاہور: (ویب ڈیسک) دنیا نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی محکمہ موسمیات عارف محمود کا کہنا تھا کہ ہفتہ 28 جون کو رمضان المبارک کا چاند نظر آنے کا امکان نہیں ہے۔ چاند نظر آنے کے لیے اس کی عمر 31 گھنٹے سے زائد ہونی چاہیے۔ ڈی جی محکمہ موسمیات کا کہنا تھا کہ پہلا روزہ پیر 30 جون کو ہونے کا امکان ہے۔ اکتیس گھنٹے سے زائد عمر ہونے پر غروب آفتاب کے بعد چاند پچاس منٹ تک نظر آ سکتا ہے۔ عارف محمود کا کہنا ہے کہ رویت ہلال کمیٹی کا مرکزی اجلاس ہفتے کی شام کو کراچی میں طلب کر لیا گیا ہے۔ اتوار کو اکثر علاقوں میں مطلع جزوی طور پر ابرآلود رہنے کا امکان ہے۔


-uf

ملک میں انتشار نہیں دیکھ سکتا عمران خان

www.swatsmn.com

ملک میں انتشار نہیں دیکھ سکتا، انقلاب کیلئے طاہر القادری کے ساتھ مل سکتا ہوں: عمران خان

24 جون 2014 (20:36)

ملک میں انتشار نہیں دیکھ سکتا، انقلاب کیلئے طاہر القادری کے ساتھ مل سکتا ہوں: عمران خان
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ملک میں انتشار نہیں دیکھ سکتا، انقلاب کے لئے طاہر القادری سے مل سکتا ہوں، جب تحریک چلائیں گے سب کو دعوت دیں گے۔ نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ تحریک انصاف نے فیصل آباد اور سیالکوٹ سمیت ریکارڈ جلسے کئے، مسلم لیگ ن کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ مینار پاکستان کو عوام سے بھر کے دکھائے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں کرپٹ ترین الیکشن نظام ہے، تحریک انصاف نے انتخابات قبول کئے مگر دھاندلی قبول نہیں کی، آج تک کسی کا پتلا نہیں بنا، نہ بنوں گا، کسی سے ڈکٹیشن لی ہے نہ کبھی لوں گا، ملک کیلئے سیاست کر رہا ہوں، مجھے کسی سے ڈر نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کے اثاثے 85 کروڑ روپے سے 15 ارب تک پہنچ گئے، کاش میاں صاحب ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا بیٹا ارسلان افتخار کرپٹ آدمی ہے جسے بلوچستان انویسٹمنٹ بورڈ کا وائس چیئرمین بنایا گیا ہے۔

اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر رنگ رلیاں منانے والی پارٹی میں شامل ہوگیا

www.swatsmn.com

کپتان کی فحش حرکتوں نے کشتی ڈبودی

24 جون 2014 (19:01)

کپتان کی فحش حرکتوں نے کشتی ڈبودی
نیویارک (نیوز ڈیسک) امریکہ میں ایک تفریحی کشتی اُس وقت خطرناک حادثے کا شکار ہوگئی جب اس کا کپتان اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر رنگ رلیاں منانے والی پارٹی میں شامل ہوگیا۔ یہ کشتی نیویارک کے لاگارڈیا ایئرپورٹ کے قریب محو سفر تھی کہ کشتی کے مالک 51 سالہ گیلوکی نظر ایک جوڑے پر پڑی اور اس نے انہیں اپنے ساتھ لطف اندوز ہونے کی دعوت دی۔ بنینٹو اور میری نامی اس جوڑے نے دعوت قبول کی اور کچھ دیر بات چیت اور شراب نوشی کے بعد بے تکلفی اس قدر بڑھ گئی تینوں نے فیصلہ کیا کہ اب بات چیت کی بجائے کچھ دیگر طریقوں سے لطف اندوز ہوا جائے اور تینوں فوری طور پر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوگئے۔ کشتی کے مالک کو یہ بات یاد ہی نہ رہی کہ اس کے ذمہ کشتی چلانے کا کام بھی ہے۔ اسی دوران زبردست ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی تیزی سے پانی میں لگے اس ٹاور کی طرف بڑھ رہی تھی کہ جس کے اوپر ایئرپورٹ کے رن کی طرف رہنمائی کرنے والی روشنیاں لگی ہوئی تھیں اور پھر اچانک ایک دھماکے کے ساتھ کشتی آہنی ستونوں کے ساتھ جاٹکرائی اور ملبہ سواروں کے اوپر آگرا۔ میری کے ناک اور جبڑے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ کپتان لیگو کے چہرے پر زخم آئے اور جبکہ بنینٹو محفوظ رہا۔ پولیس نے کپتان کے خلاف شراب پی کر کشتی چلانے پر کارروائی کا آغاز کردیا جبکہ رنگا رنگ پارٹی کو اُن کا ذاتی معاملہ قرار دیا گیا ہے

بینظیر ایئرپورٹ سے سو سے زائد ہتھ ریڑھیاں غائب

www.swatsmn.com

بینظیر ایئرپورٹ سے سو سے زائد ہتھ ریڑھیاں غائب

24 جون 2014 (16:43)

بینظیر ایئرپورٹ سے سو سے زائد ہتھ ریڑھیاں غائب
راولپنڈی (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈاکٹر طاہرالقادری کی بے نظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پرآمد کے باعث افراتفری پھیلنے کے باعث ہتھ ریڑھیاں ادھر ادھر ہوگئیں جس سے ایک ہزار سے زائد مسافروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ًتفصیلات کے مطابق طاہر القادری کی بینظیر ایئر پورٹ آمد کے پیش نظر ہوائی اڈے میں کسی کوبھی داخلے کی اجازت نہ دی گئی اور اس دوران مشکل سے ایئرپورٹ پہنچنے میں کامیاب ہونے والے سینکڑوں مسافروں کو داخلے کی اجازت نہ ملنے پر گھنٹوں ایئرپورٹ کے باہر سڑک کنارے بیٹھ کر طویل انتظار کرنا پڑا ۔ ایئرپورٹ کی حدود میں سامان کی نقل و حرکت کیلئے استعمال ہونے والی ایک سو سے زائد ہتھ ریڑھیاں غائب ہوگئیں۔

غیر قانونی سبزی منڈی سے گرنیڈ ز اور بارودی مواد برآمد

www.swatsmn.com

دہشت گردی کا منصوبہ ناکام ،غیر قانونی سبزی منڈی سے گرنیڈ ز اور بارودی مواد برآمد

24 جون 2014 (12:25)

دہشت گردی کا منصوبہ ناکام ،غیر قانونی سبزی منڈی سے گرنیڈ ز اور بارودی مواد برآمد
 اسلام آباد (وحید ڈوگر ) حساس اداروں نے واپس جانے والے عوامی تحریک کے کارکنوں کے قافلوں کو بڑی تباہی سے بچا لیا۔تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ایکسپریس ہائی وے پر کھنہ پل کے نزدیک واقع غیرقانونی سبزی منڈی سے حساس اداروں نے کارروائی کے دوران ریڑھیوں کی آڑ میں چھپائے گئے بارودی مواد اور گرنیڈ ز کو ناکارہ بنا دیا۔ادھر تھانہ شہزاد ٹاﺅن پولیس کے مطابق سبزی منڈی ریڑھیوں سے دو گرنیڈ ز برآمد ہوئے ہیں،بڑی مقدار میں بارودمواد ملنے پر شہریوں میں شدید خوف وہراس پھیل گیا ۔واضح رہے اس سے قبل حساس اداروں کی جانب سے کئی بار وی وی آئی پی اور وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے اس سبزی منڈی کو سیکیورٹی رسک قرار دیا جا چکا ہے ۔دوسری طرف ڈپٹی کمشنر اسلام آباد مجاہد شیر دل کی جانب خبر پر ایکشن لیتے ہوئے چندماہ قبل غیر قانونی سبزی منڈی کو مسمار کرنے کے حکامات جاری کئے جانے پر اسسٹنٹ کمشنر رورل مریم ممتاز علاقہ مجسٹریٹ کامران چیمہ کی زیرنگرانی غیر قانونی سبزی منڈی کی آڑ میں گرین بیلٹ پر قیام تجاوزات کو ختم کر دیاگیا تھا تاہم بعدازں سی ڈی اے اورپولیس افسران کی مبینہ ملی بھگت سے دوبارہ اس سبزی منڈی کو قا ئم کر دیا گیا۔

ہے جسے ’’ممنوعہ شہر‘‘ (Forbidden City)

www.swatsmn.com

چین کے دارالحکومت بیجنگ کے وسط میں عظیم الشان اور قدیم عمارتوں کا ایک ایسا مجموعہ واقع ہے جسے ’’ممنوعہ شہر‘‘ (Forbidden City) کا نام دیا جاتا ہے۔
یہ ممنوعہ شہر دنیا میں سب سے بڑا اور سب سے بہتر طور پر محفوظ شاہی محلات اور دیگر عمارات کا ایک کمپلیکس ہے۔ اس کی 800 عمارات میں 9999 کمرے ہیں۔ قدیم چینیوں کا عقیدہ تھا کہ ایک ہزار کا ہندسہ ’’الوہی اکملیت‘‘ کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی لیے یہاں کمروں کی تعداد ایک ہزار سے ایک ہندسہ کم رکھی گئی۔
پوری پانچ صدیوں تک یہ محلات اس ملک کا انتظامی مرکز رہے۔ یو آن، ہنگ اور چنگ بادشاہ اور ان کی ملکائیں و شاہی خاندان یہاں رہائش پذیر رہے ہیں۔1421ء میں تعمیر سے لے کر 1925ء تک، جب اسے ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا، یہ حکومتی و انتظامی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ 24 مینگ اور چنگ حکمرانوں کی پرائیویٹ رہائش گاہ رہا۔ چین کا آخری بادشاہ آئسن گیارو پوئی (1908-11ء) یہاں رہتا رہا جب 1911ء میں چین جمہوریہ بنا۔ اس کے بعد اس بادشاہ کو 1924ء تک اسی رہائش گاہ میں نظر بند رکھا گیا۔ اس سے اگلے سال 1925ء میں ممنوعہ شہر ایک میوزیم میں تبدیل کردیا گیا۔
ممنوعہ شہر آج دنیا کا سب سے بڑا میوزیم ہے جو دنیا کی سب سے بڑا آبادی والی قوم کی ملکیت ہے۔ یہاں چینی آرٹ کے نادر اور قیمتی خزانے موجود ہیں۔ قدیم نوادرات، مصوری اور بادشاہوں کے استعمال میں رہنے والی قیمتی اشیاء اور اس کا تعمیراتی حسن دیکھنے کے لیے ہر سال لاکھوں لوگ یہاں آتے ہیں۔ 1987ء میں یونیسکو (Unesco) نے ممنوعہ شہر کو دنیا کے عظیم، قومی اور ثقافتی ورثوں میں شامل کر لیا۔
ممنوعہ شہر جسے اب پیلس میوزیم کہا جاتا ہے اب ممنوعہ نہیں رہا۔ اس کا نام ممنوعہ شہر اس لیے پڑا تھا کہ عام لوگوں کو خصوصی اجازت کے بغیر یہاں داخلے کی اجازت نہیں تھی۔ 74 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا یہ شہر اپنے اردگرد 10 میٹر اونچی دیوار یا فصیل میں محصور ہے۔ اس دیوار کے چاروں کونوں پر منفرد تعمیر کے حامل ٹاور کھڑے ہیں۔ ان ٹاوروں پر سے محلات اور بیرونی شہر دونوں کا منظر بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ ممنوعہ شہر دو حصوں میں منقسم ہے۔ جنوبی حصے یا بیرونی کورٹ میں بادشاہ اپنے اعلیٰ ترین اختیارات استعمال کرتا تھا اور شمالی حصے میں اپنے شاہی خاندان کے ساتھ رہائش رکھتا تھا۔
اس کمپلیکس کی تعمیر روایتی چینی طرز کے مطابق ہوئی ہے۔ لکڑی کے فریم چھتوں کو سہارا دیتے ہیں۔ چونکہ ان عمارتوں میں لکڑی کا استعمال نہایت کثرت سے کیا گیا تھا اس لیے کئی بار یہاں آگ لگنے سے تباہی ہوئی لیکن اس کی 600 سالہ تاریخ میں ہر بار اس کی تعمیر نو اور مرمت کا کام اس کی اصل شکل و صورت کو برقرار رکھتے ہوئے کیا گیا۔ مثلاً شاہ چیانگ لانگ (1736-95ء) کے دور میں اس کی اکثر عمارتیں دوبارہ تعمیر ہوئیں اور کچھ نئی عمارتوں کا بھی اضافہ کیا گیا۔ اس کے ولی عہد جیاکنگ نے بھی 1797ء اور 1799ء کے دوران تین مرکزی پرائیویٹ ہال دوبارہ تعمیر کیے جو اس سے پہلے تباہ ہوچکے تھے۔
جدید محلات اور عمارتوں کے مقابلے میں ممنوعہ شہر شوخ اور رنگارنگ ڈیزائنوں سے آراستہ ہے۔ سرخ دیواریں، سبز ستون، درمیان سے اونچی چھتیں جن میں چمکتے ہوئے زرد رنگ کی ٹائلیں لگائی گئی ہیں ان پر آرائشی تصاویر کندہ کی گئی ہیں چونکہ زرد رنگ شاہی خاندان کی خصوصی علامت تھا اس لیے ممنوعہ شہر میں یہ رنگ سب سے حاوی ہے۔ چھتیں چمکتی زرد ٹائلوں سے بنی ہیں۔ محل کی تزئین و آرائش بھی زرد رنگ میں کی گئی ہے۔ حتیٰ کہ فرش کی اینٹوں کو بھی ایک خاص عمل کے ذریعے زردی عطا کی گئی ہے تاہم اس میں ایک بات یہ ہے کہ یہاں کی شاہی لائبریری کی چھت سیاہ ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ چینیوں کے عقیدے کے مطابق سیاہ رنگ پانی کی نمائندگی کرتا ہے اور پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔
ممنوعہ شہر کی تعمیر کا آغاز 1406ء میں ہوا اور 14 سال بعد 1420ء میں اس کی تکمیل ہوئی۔ تاریخ دانوں کے مطابق 10 لاکھ کاریگروں اور مزدوروں نے یہاں کام کیا تھا جن میں ایک لاکھ آرٹسٹ اور دستکار شامل تھے۔ یہاں کے لیے پتھر بیجنگ کے قریبی قصبوں سے لایا جاتا تھا اور کہا جاتا ہے کہ ہر 50 میٹر بعد سڑک کے ساتھ کنویں کھودے گئے تھے جن کا پانی سردیوں میں سڑکوں پر چھڑک کر یہاں کی برف پر پڑے چٹانی پتھروں کو پھسلا کر یہاں لایا جاتا تھا۔
(عجائبات عالم کا انسائیکلوپیڈیا از عبدالوحید)

کلاچی، قازقستان کا ایک چھوٹا سا گاؤں

www.swatsmn.com
کلاچی، قازقستان کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔
دوردراز علاقے میں واقع یہ گاؤں اطراف کے قصبوں سے بالکل کٹا ہوا ہے۔ مگر ان دنوں ذرائع ابلاغ  میں اس کا چرچا ہورہا ہے۔ اس کی وجہ کلاچی کے باسیوں میں پھیلنے والی ایک عجیب و غریب اور پراسرار بیماری  ہے جسے  ماہرین  نے ’’ سلیپنگ بیوٹی‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس بیماری سے متاثرہ فرد بیٹھے بٹھائے اچانک نیند  میں ڈوب جاتا  ہے اور مسلسل چھے چھے روز تک محوخواب رہتا  ہے۔
نیند سے بیدار ہونے کے بعد  وہ بالکل نارمل ہوتا ہے۔ اس عجیب وغریب بیماری نے کلاچی کی بیشتر آبادی کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ چلتے پھرتے اور روزمرّہ کاموں میں مصروف لوگ اچانک نیند کی وادی میں چلے  جاتے  ہیں۔ تشویش ناک بلکہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ڈاکٹر، ماہرین طب اور سائنس داں ابھی تک ’’ سلیپنگ بیوٹی‘‘ کا سبب نہیں جان پائے۔
یہ بیماری وقفے وقفے سے کلاچی اور اطراف کے علاقوں کو نشانہ بناتی ہے۔ اس ’ وبا ‘ کی پہلی لہر مارچ 2013ء میں آئی تھی۔ دو ماہ کے وقفے سے پھر کلاچی کے باشندے سلیپنگ بیوٹی کا شکار بنے۔ رواں برس کے آغاز پر اور پھر گذشتہ ماہ میں اس بیماری نے زور پکڑا۔ اس گاؤں میں  40 سے 60  لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ بیماری کا شکار ہونے کے بعد بیشتر افراد کی یادداشت بھی عارضی طور پر چلی جاتی ہے۔
سلیپنگ بیوٹی کے اولین شکاروں میں سے ایک پچاس سالہ ماریا فیلک بھی ہے۔ وہ اس بارے میں بتاتی  ہے،’’ میں حسب معمول صبح سویرے گائے کا دودھ دوہ رہی تھی کہ اچانک مجھ پر شدید نیند طاری ہونے لگی اور میں سوگئی اور اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں۔ آنکھ کھلی تو میں اسپتال میں تھی۔ نرسوں سے پتا چلا کہ میں دو دن کے بعد بیدار ہوئی ہوں۔‘‘
ایک اور حیران کن بات یہ ہے کہ یہ بیماری صرف  مقامی رہائشیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کے مہمان بھی اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تیس سالہ ایلیکسی گوم کلاچی میں اپنی ساس کی خیریت دریافت کرنے کے لیے آیا ہوا تھا۔
گوم کا کہنا ہے کہ اگلے روز صبح کے وقت وہ اپنا لیپ  ٹاپ کھولے بیٹھا تھا کہ اچانک  ایسے محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے دماغ کا سوئچ  آف کردیا ہے۔ پھر اسپتال ہی میں اس کی آنکھ کھلی، مگر ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ وہ تمام ضروری ٹیسٹ کرچکے ہیں اور اسے کوئی مرض لاحق نہیں ہے، وہ بالکل صحت مند ہے۔ گوم ایک روز کے بعد ہوش میں آگیا تھا، مگر کلاچی میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ایک ایک ہفتے کے بعدنیند سے بیدار ہوئے۔
حیران کُن امر یہ بھی ہے کہ کلاچی میں بسنے والے تمام خاندان سلیپنگ بیوٹی کا نشانہ نہیں بنے۔ کچھ گھرانے ایسے ہیں جن کے اراکین ہر بار اس بیماری میں مبتلا ہوئے اور کچھ ابھی تک اسے محفوظ ہیں۔
جب 2013ء میں پہلی بار لوگوں کے اچانک نیند میں ڈوب جانے کے واقعات  ہوئے تو ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ اس کی وجہ ناقص شراب تھی۔ بعد میں یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ  اچانک سو جانے والے چھے میں سے کسی بھی فرد نے شرا ب نوشی نہیں کی تھی۔ کچھ مقامی  لوگوں کا خیال ہے کہ سلیپنگ بیوٹی کا سبب فضائی درجۂ حرارت میں ہونے والا اضافہ  ہے، جب کہ کچھ قریب ہی واقع یورینیم کی متروک کان میں سے آنے والے پانی کو اس کی وجہ سمجھتے ہیں جو دریا میں شامل ہوکر گاؤں تک پہنچتا ہے۔
اس پراسرار بیماری کا راز جاننے کے لیے اب تک متعدد سائنس داں کلاچی اور آس پاس کے علاقے کا دورہ کرچکے ہیں۔ انھوں نے اس علاقے کی مٹی اور پانی کے 7000 ٹیسٹ کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس مرض کا شکار  ہونے والے افراد کے خون، بال اور ناخنوں کے نمونے حاصل کرکے ان کے بھی ٹیسٹ  کیے گئے ہیں۔ سائنس دانوں نے کلاچی کے مکانات کا بھی جائزہ لیا ہے کہ آیا ان میں ریڈون گیس، بلند سطح کی تاب کاری، بھاری دھاتوں کی نمکیات، بیکٹیریا اور وائرس تو موجود نہیں۔ تاہم ان تمام تجربات سے بھی کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکا۔
ضلعی ہیڈکوارٹر میں واقع اسپتال کے ڈاکٹر Kabdrashit Almagambetov کا کہنا ہے کہ ’’ سلیپنگ بیوٹی ‘‘ کے مریض کو ہوش میں آنے کے بعد کچھ بھی یاد نہیں ہوتا۔ پھر بہ تدریج اس کی یادداشت بحال ہوتی چلی جاتی ہے۔ ڈاکٹر کبدرشت کے مطابق بدقسمتی سے تمام تر ٹیسٹ کیے جانے کے باوجود ابھی تک اس عجیب و غریب بیماری کا سبب دریافت نہیں کیا جاسکا تاہم ٹومسک پولی ٹیکنیکل یونی ورسٹی میں جیوایکولوجی کے پروفیسر  Leonid Rikhvanov نے دعویٰ  کیا ہے کہ ان کے  کیے گئے تجربات کے مطابق اس بیماری کا سبب یورنیم کی کان میں سے اٹھنے والے ریڈون گیس کے بخارات ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ریڈون گیس ہی اس کی وجہ ہے تو پھر گاؤں کے تمام باشندوں کو یہ مرض لاحق ہونا چاہیے تھا، کیوں کہ سب ہی اسی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ قازقستان کے وزیر برائے ماحولیاتی تحفظ اور آبی وسائل نے سائنس دانوں اور محققین سے درخواست کی ہے کہ وہ اس عجیب وغریب بیماری کی وجوہ کا سراغ لگائیں اور اس کا علاج دریافت کریں

کائنات کے ایک اور راز کو افشاں کردی

www.swatsmn.com
نیویارک: کائنات کی کھوج میں لگے سائنس دانوں نے کائنات کے ایک اور راز کو افشاں کردیا اور  نظام شمسی کے سیارے زحل کے چاند ٹائٹن پر نظر آنے والے پراسرار ’طلسمی جزیرے‘ نے سائنس دانوں کو اس وقت حیرت میں ڈال دیا ہے جب وہ غائب ہونے کے بعد دوبار منظر عام پر آگیا۔
کچھ عرصہ قبل کیسینی نامی خلائی جہاز نے زحل کے اس چاند کے گرد اپنی ایک گردش کے دوران اس جزیرے کی تصویر لی تھی تاہم دوسری گردش میں وہ جزیرہ وہاں سے غائب تھا۔ سائنس دانوں نے کہا ہے کہ یہ برف کا تودہ بھی ہو سکتا ہے اور اس کے دوسری بار نظر نہ آنے کی وجہ سمندر سے اٹھنے والی لہریں اور گیس کے بلبلے بھی ہو سکتے ہیں۔
سائنس دان اس چاند میں اس لیے بھی زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں کیونکہ زحل کے اس بڑے چاند کی زمین سے بہت مشابہت ہے۔ ٹائٹن کے پہاڑ اور میدان مٹی کے بجائے برف سے بنے ہوئے ہیں جس میں موجود میتھین اور ایتھین ہو بہو وہی کردار ادا کرتے ہیں جو زمین پر، جس طرح زمین پر بارش ہوتی ہے اور پانی میدانی علاقوں میں نالوں کی شکل میں بہتا ہے اسی طرح نو دریافت جزیرے پر بھی موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، بارش ہوتی ہے اور پانی نالوں کی طرح بہتا ہے۔
تحقیق کرنے والے  جیسن ہوف گارٹنر کا نو دریافت سیارے کے حوالے سے کہنا ہے کہ اگرچہ اسے طلسمی جزیرہ کہا جاتا ہے لیکن ہمارے خیال سے یہ کوئی جزیرہ نہیں۔ یہ اس قدر جلدی جلدی ابھرتا اور غائب ہوتا ہے کہ یہ آتش فشاں بھی نہیں ہو سکتا۔
درحقیقت ٹائٹین پر جزیرے کا دریارفت ہونا سائنسدانوں کے لیے ایک بہت اہم دریافت ہے، ٹائیٹن زحل کا سب سے بڑا اور نظام شمسی کا دوسرا بڑاچاند ہے اور واحد چاند ہے جس پر زمین کی طرح موسمیاتی سائیکل وجود میں آتی ہے جو دوبارہ بننے میں 30 سال لگاتی ہے۔
واضح رہے کہ ٹائٹن کے قریب سے گزرتے ہوئے کیسینی نے 10 جولائی  2013 میں جس جزیرے کو دیکھا تھا وہ اس کے بعد لی جانے والی تصویروں میں نہیں تھا۔ جب 26 جولائی کو سٹیلائٹ کیسینی ادھر سے گزرا تو وہ پھر وہاں نہیں تھا اور وہ اس کے بعد دو چکروں کے دوران بھی نظر نہیں آیا۔

پنجاب کے مستعفی وزیر قانون رانا ثنا اللہ

www.swatsmn.com
لاہور: پنجاب کے مستعفی وزیر قانون رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے 17 مئی کو ماڈل ٹاؤن میں پولیس کو مظاہرین پر تشدد کی کوئی ہدایت نہیں دی تھی۔ 
لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ ماڈل ٹاؤن واقعہ بدانتظامی اور حالات کے باعث پیش آیا، گلوبٹ اور ریاض بابر کے کردار بدانتظامی کے زمرے میں آتے ہیں۔ 17 جون کو پولیس اور سول انتظامیہ منہاج القرآن سیکریٹریٹ اور ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر قائم بیریئرز ہٹانے ماڈل ٹاؤن گئی تھی، اس کارروائی میں کسی کو نقصان پہنچانے کا فیصلہ نہیں ہوا تھا نہ ہی پولیس کو مظاہرین پر تشدد کی کوئی ہدایت دی گئی تھی۔
مستعفی صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ انسانوں اور جماعتوں پر مشکل وقت آتے رہتے ہیں ان حالات میں کئی مشکل فیصلے بھی کرنا پڑتے ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کے قیام کے بعد مسلم لیگ (ن) اور وزیر اعلٰی نے درست قدم اٹھایا، ان کے مستعفی ہونے سے جوڈیشل کمیشن کی کارروائی کو شفاف بنانے میں مدد ملے گی، انہیں جوڈیشنل کمیشن پر مکمل اعتماد ہے وہ کمیشن کے سامنے عام آدمی کی طرح پیش ہوکر اپنا موقف پیش کریں گے اور انہیں یقین ہے کہ وہ سرخرو ہوں گے۔  انہوں نے کہا کہ اگر کوئی لڑے تو لڑنا چاہئے  اور اگر کوئی راستہ دے تو اس پر چڑھ دوڑنا کسی طرح بھی بہادری نہیں، انسانی جانوں کو بچانے کے لئے طاہرالقادری کا طیارہ اسلام آباد کے بجائے لاہور اتارا  

Monday 23 June 2014

طاہر القادری کی انتقام لینے کی دھمکی


کارکنان میں بڑی تعداد میں خواتین بھی شامل تھیں

www.swatsmn.com
انقلاب‘ کے نعرے کے ساتھ وطن لوٹنے والے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری ایک طویل اور ڈرامائی سفر کے بعد پیر کی شام لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن کی اپنی رہائش گاہ پہنچ گئے ہیں۔
اپنے سفر کے آخری مرحلے میں طاہر القادری امارات فضائی کمپنی کی ایک پرواز کے ذریعے جب دبئی سے اسلام آباد پہنچے تو ان کے طیارے کو بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترنے کی اجازت نہیں مل سکی اور جہاز کو کچھ دیر دارالحکومت کی فضا میں چکر لگانے کے بعد لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترنے کا حکم ملا۔
یہ وہ ہی ایئرپورٹ ہے جہاں سات سال کی جلا وطنی کے بعد موجودہ وزیراعظم نواز شریف مشرف کے دور میں لندن سے نجی ایئر لائن کے ذریعے پہنچے تھے تو جگہ جگہ پولیس ناکے تھے اور ن لیگ کے کارکنوں کے ساتھ تقرییاً ایسا ہی سلوک دیکھنے میں آیا جسیا کہ تئیس جون دو ہزار چودہ میں دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم اس وقت بھی ایک ڈرامائی صورتحال تھی۔ یہ ڈرامائی سفر آخر میں جدہ پر اختتام پذیر ہوا جب نواز شریف دوبارہ جلاوطن ہو کر لندن سے راولپنڈی اور راولپنڈی سے جدہ پہنچے۔
طاہر القادری کی آمد پر راولپنڈی اور اسلام آباد میں زبردست حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے اور ہوائی اڈے کو جانے والے تمام راستوں کو ’سیل‘ کر دیا گیا تھا اور ہوائی اڈہ مکمل طور پر جڑواں شہروں سے کٹ گیا تھا۔ سڑکوں کو کنٹینر لگا لگا کر بند کر دیا گیا تھا۔
راولپنڈی میں موجود پاکستان عوامی تحریک کے ہزاروں کارکنوں کی جن میں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی پولیس سے کئی جگہوں پر جھڑپیں ہوئیں۔ پولیس کی بھاری نفری نے جو طاہر القادری کے سیاسی کارکنوں کو ہوائی اڈے سے دور رکھنے کے لیے تعینات کی گئی تھی عوامی تحریک کے کارکنوں پر وقفے وقفے سے آنسو گیس کی شیلنگ کرتی رہی۔ اس دوران ہونے والی جھڑپوں میں پولیس نے اپنے سو اہلکاروں کے زخمی ہونے کا دعوی کیا۔
طاہرالقادری نے ہوائی جہاز کے لاہور پہنچنے پر طیارے سے باہر آنے سے انکار کردیا۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ وہ صرف فوج کی حفاظت میں طیارے سے باہر آئیں گے۔ کئی گھنٹوں تک طیارے میں رہنے کے بعد آخر کار پیر کی شام میں وہ گورنر پنجاب محمد سرور اور پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کے سربراہ چوہدری پرویز الہی کے ہمراہ طیارے سے باہر آئے۔

Sunday 22 June 2014

Rafee from matta swat

Rafee from matta swat
Swat Matta: Sher Muhammad s/o Sher Azim khan ko apny biwi ke bhaio ne qatal kr diya..
Maqtool 3 din pehly apni biwi se milne gaya ar waha pr bhi mulziman ne motor cycle jala kr maqtool ko laholuhan kr diya. ar baad me FIR bhi apni taraf se likh diya.
Maqtool hamary police se chup raha tha ke isi doran wo Nasir general store matta me beta pani pee raha tha, ar mulzilam aman ullah ar umar ali ne banddoq se fir kr ke Sher muhammad ka pao zakhmi kr diya.
Maqtool ka zakham itna gehra na tha maga matta ar saidu ke qabl tareen doctors br waqat marham patti me nakam ho gaye.
Is ke elawa zakhmi sher muhammad 4 ganty tak ambulance ka intizar krta raha.
www.swatsmn.com

سرحدیں پوری طرح اس کے کنٹرول میں ہیں اور مکھی تک بلا اجازت آر پار نہیں ہو سکتی

www.swatsmn.com
دنیا میں کوئی ملک دعوی نہیں کر سکتا کہ اس کی سرحدیں پوری طرح اس کے کنٹرول میں ہیں اور مکھی تک بلا اجازت آر پار نہیں ہو سکتی۔ حکومتیں بارڈر کنٹرول، سرحدی محافظوں، سراغرساں اداروں اور جدید نگرانی آلات پر مسلسل اربوں ڈالر خرچ کرتی ہیں۔ آرپار جانے والوں کا ٹریک ریکارڈ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں اور اس کام میں دوست ممالک اور اداروں سے بھی مدد حاصل کی جاتی ہے۔
سارا کشٹ اس لیے اٹھایا جاتا ہے کہ ریاست ناپسندیدہ خارجی عناصر، اسلحے، منشیات ، انسانی اسمگلنگ اور دہشت گردوں وغیرہ کی آمد و رفت سے محفوظ رہے اور سرحدوں سے باہر کہیں بھی جو بھی گند اچھل رہا ہے اس کے چھینٹے ریاست اور اس کے ماحول پر نہ پڑیں۔ تاکہ ریاست کا اندرونی نظم و نسق اور شہری سلامت رہیں۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو دنیا کی چھٹی بڑی گنجان ریاست پاکستان کے پاس عزت و وقار کے ساتھ پرامن زندگی کے لیے جوہری ہتھیاروں سے لیس مسلح افواج سمیت کم از کم چھبیس ایسے تربیت یافتہ عسکری و نیم عسکری اور سراغرساں ادارے ہیں جن کے معیار تک پہنچنے کی کئی ممالک صرف تمنا کرسکتے ہیں۔ ان اداروں کی مجموعی افرادی قوت لگ بھگ ڈیڑھ ملین نفوس ہے۔
تو پھر اتنے طاقتور اور باصلاحیت ملک کا کم از کم تیس فیصد علاقہ ریاستی رٹ سے بالکل یا جزوی آزاد کیوں ہے۔ افغانستان سمیت اندازً درجن بھر ممالک کے لگ بھگ ڈھائی ملین شہری برسوں سے مکمل، نامکمل و جعلی رہائشی و سفری دستاویزات یا ان کے بغیر اندرونِ ملک جہاں چاہے کیسے رہ رہے ہیں۔ ان میں تقریباً آٹھ ہزار ایسے غیرملکی جنگجو بھی شامل ہیں جو مقامی مسلح گروہوں کے ہمراہ ریاست کے اندر ریاست ہیں حالانکہ اپنی اپنی حکومتوں کو دہشت گردی و انتہا پسندی کے تعلق سے مطلوب ہیں۔ یہ کیسے اور کہاں جائیں گے ؟
جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ سب چھتیس برس پرانے افغان جنگی بحران کے عطا کردہ تحائف ہیں۔ ٹھیک ہے سن اسی کے عشرے میں ان غیرملکی مہمانوں کو افغان جہاد میں تیزی لانے کے لیے امریکہ، خلیجی ممالک اور پاکستان کے مشترکہ اسٹریٹیجک مفادات کے ایندھن کے طور پر یہاں لایا گیا مگر جنہیں تین عشرے پہلے لایا گیا ان میں سے تو اکثر کی عمر اب تک ساٹھ برس ہوچکی ہوگی۔ تو پھر آج کے نوجوان غیر ملکی جنگجو کس کے کھاتے میں ڈالے جائیں۔ انہیں کب اور کیوں لایا گیا یا آنے دیا گیا؟ اور اگر شدت پسندانہ جنگجوئیت افغان مسئلے کا ہی شاخسانہ ہے تو افغانستان کی سرحد تو پاکستان سمیت چھ ممالک سے لگتی ہے۔ اکیلا پاکستان ہی اس شاخسانے کے اثرات پچھلے چھتیس برس سے کیوں بھوگ رہا ہے۔ ازبکستان ، تاجکستان ، ترکمانستان ، چین اور ایران میں عالمی و علاقائی جہاد کے مسلح حامیوں کے اعلانیہ یا خفیہ ٹھکانے کیوں نہیں پنپ سکے؟ تحریکِ طالبان افغانستان و پاکستان ہی کیوں ہے۔ افغانستان کے باقی پانچ ہمسائیوں میں کیوں نہیں؟
میں شکر گذار ہوں گا اگر کوئی یہ تفصیلات بھی فراہم کردے کہ گذشتہ تیس برس کے دوران کتنے داخلی و خارجی گروہ ریاستی اجازت سے یا بلا اجازت انڈونیشیا تا مراکش کتنے مسلمان ممالک کو پاکستان اور افغانستان جیسی عسکری اکیڈمی بنانے میں کامیاب ہو سکے ہیں؟ آخر اس وقت یمن، عراق، شام، صومالیہ، مالی، نائجیریا، افغانستان اور پاکستان ہی کیوں مقامی اور بین الاقوامی مجاہدوں کے لیے شہد کا چھتہ ہیں؟ باقی اننچاس مسلمان ممالک کیوں ان فیوض و برکات سے محروم ہیں؟
پاکستانی حکومت اس وقت تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے
آپ کہہ سکتے ہیں کہ ارے بھئی یمن، عراق، شام، صومالیہ، مالی، نائجیریا اور افغانستان وغیرہ کے پاس نہ تو ویسی مضبوط و معیاری فوج ہے اور نہ ہی ماہر سراغرساں ادارے جو ریاست کو داخلی یا خارجی میدانِ جنگ بننے سے روک سکیں۔
تو پھر پاکستان کیوں بین الاقوامی، علاقائی اور مقامی جہاد کی پرکشش لیبارٹری ہے؟ اس کے پاس تو یمن، عراق، شام، صومالیہ، مالی اور افغانستان کے برعکس مضبوط، آزمودہ، پیشہ ورانہ عسکری و نیم عسکری ڈھانچہ بھی ہے اور ایسے ایسے انٹیلی جینس ادارے بھی کہ جن کا دعوی ہے کہ وہ اڑتی چڑیا کے پر گننے سے پہلے اس کی نیت کے رنگ تک گن لیتے ہیں۔
ان اداروں کو متعدد مغربی و مشرقی طاقتوں کا اعلانیہ و غیر اعلانیہ دوطرفہ اسٹریٹیجک و مادی تعاون بھی برسوں سے میسر ہے۔ پھر بھی پاکستان پچھلے پھچلے دس برس سے بالخصوص مذہبی، نسلی و لسانی و ادارتی دہشت گردی کا بیک وقت سب سے بڑا شکار اور گڑھ کیوں بتایا جاتا ہے ؟
میری نانی کہتی تھیں ’سوتے کو تو جگا لوں پر جاگتے کو کیسے جگاؤں۔‘ ایک گجراتی محاورہ ہے کہ ’ان دیکھا چور تو سب ہی پکڑ لیں، سامنے کا کون پکڑے۔‘ ایک چینی کہاوت ہے کہ ’ڈاک۔۔۔خیر چھوڑیں کیا فائدہ اس سب بکواس کا۔

Saturday 21 June 2014

بابا مجھے پیاس لگی ھے۔

www.swatsmn.com
میں ان تصاویر کی باتیں سنتا ھوں۔ لیجئے آپ بھی سنیئے
بچہ : بابا مجھے پیاس لگی ھے۔
بابا : سوچوں میں غرق، ان مویشیوں کے لئے گھاس کہاں سے لاونگا ؟ کیا کیمپ میں وہ مجھے مویشی رکھنے دیں گے بھی یا نہیں؟ یا اللہ میری عزت و ناموس کو محفوظ کردیں۔
بچہ: بابا پیاس لگی ھے، بابا بابا بابا ۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بابا : ھائے اللہ پتہ نہیں پھر واپس آئینگے یا نہیں، کھیتوں کا کیا بنے گا، 
بچہ : دوڑ کر بابا کا پائنچہ پکڑ کر کہتا ھے بابا مجھے پیاس لگی ھے میں اور نہیں چل سکتا ۔
بابا : تھوڑی سی ھمت کر لو ، یہ دیکھو ، یہ گائے کس طرح خاموشی سے چل رھی ھے۔ یہ بکریاں دیکھوں یہ کیسے خاموشی سے ھمارے ساتھ جا رھی ھے۔
بچہ : بابا ھم کہاں جا رھے ھیں ؟
بابا: مجھے نہیں معلوم بس یہ ھماری گائے جدھر جائیگی ھو ھم خاموشی سے اس کے پیچھے وہاں جائیں گے۔ ھماری کوئی منزل نہیں، نہ کوئی رھبر ھے۔ بغیر منزل اور بغیر رھبر کے کارواں گائے اور بکری کے نقش قدم پر چلتے ھیں۔
وطن پال
Like
Like ·  · 

کیا ہم نے استعفی مانگا؟

www.swatsmn.com


شہباز شریف صاحب کے دور میں نجانے کتنے دہشتگردی کے واقعات ہوۓ پنجاب میں
کیا ہم نے استعفی مانگا؟
.
شہباز شریف صاحب کے دور میں مناواں پولیس اکیڈمی پر دن دیہاڑے حملہ ہوا 
نجانے کتنے پولیس والے مارے گئے 
کیا ہم نے استعفی مانگا؟
.
شہباز شریف صاحب کے دور میں کتنی پھول سی پچیوں اور بچوں کو مسلا گیا، اور شہباز شریف صاحب نے \"نوٹس\" لینے کے علاوہ اور میڈیا کے ساتھ ان کے گھر جا کر الٹا مزید بدنامی کا سبب بننے کے سوا کچھ کیا؟
کیا ہم نے استعفی مانگا؟
.
معاملے معاملے کی نوعیت میں فرق ہوتا ہے 
.
لاہور واقعے میں حکومتی احکامات پر، حکمران جماعت کے ایک پٹھو کی قیادت میں پولیس نہتے لوگوں اور حاملہ عورتوں پر گولیاں کھول دیتی ہے، ایک بھی گولی کسی کو سینے سے نیچے نہیں لگتی 
استعفی بنتا ہے اور ضرور بنتا ہے 
.
کوتاہی اور ظلم میں زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے 
یہ اگر ایک کوتاہی ہوتی تو ہم بھی کہتے جی انکوائری کروا لیں 
یہ ایک کوتاہی نہیں دانستہ ظلم تھا جس میں ملزم ہیں پنجاب حکومت کے سرکردہ رہنما اور پولیس کے اعلی ترین افسران
استعفی بنتا ہے اور ہر قیمت پر بنتا ہے 
.
یہ نوے کا دور نہیں ہے کہ جب آپ جھوٹ بولتے تھے، عوام کو فراڈ لگاتے تھے اور عوام تالیاں بجاتی تھی-
.
اب ہم بولیں گے اور تم سنو گے، زیادہ سے زیادہ قتل کر دو گے نا؟ گھروں سے اٹھوا لو گے نا؟ کر لو، ہم اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کی حفاظت اور بہتری کے لئے لڑ رہے ہیں اپنی زندگی کے لئے نہیں 
.
ایاک نعبد وا ایاک نستعین 
ہم الله کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے الحمدللہ

Thursday 19 June 2014

میرے پاکستانیو اگلے پانچ سال میں برداشت کرلوںگا مگر آپ برداشت نہیں کر پاؤ گے۔عمران خان

www.swatsmn.com
میرے پاکستانیو اگلے پانچ سال میں برداشت کرلوںگا مگر آپ برداشت نہیں کر پاؤ گے۔عمران خان





"میرے پاکستانیو اگلے پانچ سال میں برداشت کرلوں
گا مگر آپ برداشت نہیں کر پاؤ گے۔عمران خان
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا؟
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

یہاں ہے گلو، وہاں ہے گلو‘ کے غوغے میں شریک ہوگئی

www.swatsmn.com
جتنے کیمرے اتنی باتیں۔ کسی کا دعویٰ ہے کہ آپ سینئر پولیس ٹاؤٹ ہیں۔ کسی کو گمان ہے کہ آپ درمیانے درجے کے نوسر باز ہیں اور کوئی آپ کو مسلم لیگ نواز کا جانثار کارکن بتا رہا ہے۔ جب ہر چینل پر گلو بٹ، گلو بٹ کی جے جے کار مچی تو بادلِ نخواستہ مقامی انتظامیہ بھی ’ کون ہے گلو، کہاں ہے گلو، یہاں ہے گلو، وہاں ہے گلو‘ کے غوغے میں شریک ہوگئی

عمران خان صحیح کہتا ہے ۔ کہ لاہور ہی پاکستان ہے ۔ باقی صوبے پاکستان کے پڑوسی ممالک ہے

www.swatsmn.com
Facebook : 
پنجاب مین پنجاب پولس نے طاہر قادری کے کارکنان کی کیمپ پہ دھاوا بول دیا جس مین سات اموات اور کئی زخمیون کی اطلاعات ہین.
نواز حکومت سے اور کوئی توقع بھی نہین کی جا سکتی مگر طاہر قادری خود بھی اس واقعے کے ذمیداران مین شامل ہین جس کی اپنی چکنی چپڑی باتون کی وجہ سے لوگون کا قتل عام نظر آتا ہے جس نے ایسی بھیانک حرکت پی پی حکومت مین کی تھی.
بحرحال لوگ مرے ہین ان کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے.
لیکن ذرا سوچنے کا مقام ہے کہ پنجابی خون کتنا قیمتی ہے نہ کہ سات پنجابیون کا خون بہنے پہ پورا پنجاب، پنجاب نواز چمچون اور فیس بکی دانشورون کے کلیجے پھٹنے کو آ رہے ہین اور کافیون کے پاس سے الفاظ کا ذخیرہ تک گم ہو گیا 
ہے.

اچھی بات ہے دکھ ہونا بھی چاہیئے، میرا کلیجہ بھی پھٹ رہا ہے لیکن یہ کلیجہ تب کسی کا کیون نہین پھٹتا جب سندھ مین مسخ لاشین دی جاتی ہین؟
جب بلوچستان مین سو سو لوگون کی اجتمائی قبرین دریافت ہوتی ہین؟
جب بیس ہزار سے زائد بلوچ سندھی کارکنان غائب ہین جن کا کچھ اتا پتا نہین کہ وہ زندہ ہین بھی یا وہ سب بھی کسی اجتمائی قبرون مین مدفون ہو چکے ہین؟
ہزارہ اور شیعہ قتل عام بھی ہے تو کراچی مین مرتے ہزارون لوگ یا کراچی ایئرپورٹ کے کولڈ اسٹور مین تڑپ تڑپ کے آھستہ آہستہ جھلسنے والے سات جوانون کی اموات پہ؟
محض اس لیئے کہ وہ پنجابی نہین تھے.
مگر انسان تو وہ بھی تھے انسان تو تیس لاکھ بنگالی بھی تھے، یا انسان صرف پنجابی ہین؟ خدا نہ خواستہ اتنابڑا قتل عام 
پنجابیون کا ہوا ہوتا تو کیا ہوا ہوتا؟

سندھ کے شہر سیہون میں گرمی کی وجہ سے 43 افراد ہلاک

www.swatsmn.com

لعل شہباز کے عرس میں گرمی کی وجہ سے 43 افراد ہلاک


پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر سیہون میں قلندر لعل شہباز کے عرس کے پہلے دو دنوں میں بدھ کی شام تک شدید گرمی کی وجہ سے 43 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
صوبہ سندھ کے ضلع جامشورو اور دادو ان اضلاع میں شامل ہیں جہاں درجہ حرارت آج کل 48 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔ صبح دس بجے سے گرمی بڑھتی جاتی ہے جو مغرب تک برقرار رہتی ہے۔
ایدھی مرکز کے انچارج نے کہا کہ عرس کے آغاز سے ایک روز قبل 14 افراد جان بحق ہو ئے تھ

Wednesday 18 June 2014

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان آج اٹھترویں سالگرہ منارہےہیں

www.swatsmn.com
تازہ ترین۔

پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان آج اٹھترویں سالگرہ منارہےہیں.



بھوپال سے پاکستان ہجرت کے بعد 16 سالہ عبدالقدیرخان نےکراچی کے مشہور زمانہ \"D.J سائنس کالج\" میں داخلہ لیا،،،اور طبعیات اور شماریات میں B.Scکی ڈگری حاصل کی،،، 1956ء میں جامعۂ کراچی کا رُخ کیا،،،اور علُومِ دھات سازی (Metallurgy) میں اعلی نمبروں سے B.Scکی دوسری ڈگری حاصل کی،،،اُن کی خداداد قابلیت کو مانتے ہوئے عالمی انجینئرنگ ادارےSiemens نے انھیں جرمنی میں اعلٰی تعلیم کیلئے اسکالرشپ عطا کیا،،، عبدالقدیرخان نے ٹیکنیکل یونیورسٹی برلن جاکر میٹالرجی انجینئرنگ میںM.Sc کی تعلیم شروع کی،،،یہاں اُن کی ملاقات ایک ہونہارمحقق،،،ڈچ خاتون \"مس ہینی\" سے ہوئی اور دونوں رشتۂ ازدواج میں بندھ گئے،،، 1972ء تا 1974ء میں چار سال کے مختصر عرصے میں ڈاکٹرعبدالقدیرخان نے یورینئم کی افزُودگی کے ذریعئے ایٹمی طاقت پیدا کرنے کی تکنیکی مہارت حاصل کرلی،،، جولائی 1976ء میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی خدمات پاکستان کیلئے پیش کردیں،،،اورکہوٹہ\" میں \"خان ریسرچ لیباریٹریزKRL \" کے جھنڈے تلے پاکستانی نیوکلیائی پروگرام نئے عزم سے شروع کیا،،، اس دوران ہالینڈ کی حکُومت نے اہم معلُومات چُرانے کے الزامات کے تحت ڈاکٹر صاحب پر مقدمہ بھی دائر کیاگیا،،،تاہم جن معلومات کو چُرانے کی بناء پر مقدمہ داخل کیا گیا تھا،،وہ سب عام کتابوں میں موجود تھیں،،،جس کے بعد ہالینڈ کی عدالتِ عالیہ نے ڈاکٹرعبدالقدیرخان کو باعزّت بری کردیا،،،اٹھائیس مئی 1998ء میں ڈاکٹر عبدالقدیرخان کی قیادت میں بلوچستان کے صحرائی علاقے \"چاغی \" میں کامیاب ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان عالمی ایٹمی اقوام کی صف میں شامل ہوگیا.

MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan EXTED.pk

Admission open  MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan   http://facebook.com/ exted.p k http://www.exted.pk/ Lowest Fee ,   No IELTS...