Tuesday 30 September 2014

مبارک ہو الله نے آپکو ایک اور بیٹا عطا کیا ہے

www.swatsmn.com
فون کی گھنٹی بجی دوسری جانب سے آواز آئی حضور سیمینار میں چلنا نہیں ہے کیا؟
خاکسار نے جواب دیا کونسا سیمینار ؟
یار اپنی ای میل دیکھ آج ہمیں خصوصی افراد کے حوالے سے سیمینار میں جانا تھا
میں نے کہا کہ یار میرا تو کوئی ارادہ نہیں، بلاوجہ وقت کا ضیاع ہوگا اور بور الگ ہونگے
ارے یار چلتے ہیں چائے اور سینڈوچ کھا کر آجائیں گے
چل تو کہتا ہے تو چلتے ہیں
اور پھر ہم دونوں سیمینار ہال کی جانب چل پڑے سیشن کا ایجنڈا خصوصی افراد اور ہمارا معاشرہ تھا۔
معمول کی طرح تمام کارروائی ایک کان سے سنی اور  دوسرے سے نکال دی، وقفے کے دوران چائے بسکٹ نوش فرمائے  اور واپس جانے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ جانے کیوں دل میں خیال آیا کہ تھوڑی دیر اور بیٹھ جاتے ہیں۔ جیسے ہی ہم بیٹھے قوت سماعت سے محروم نوجوان کی کہانی کی ویڈیو چلنا شروع ہوگئی۔
مبارک ہو الله نے آپکو ایک اور بیٹا عطا کیا ہے  مگر یہ پیدائشی طور پر ایک کان سے سن نہیں سکتا تھا اور دوسرے کان سے بہت اونچا سنے گا،  یہ خبر اس کے والدین پر بجلی بن کر گری، ابھی اس کی ماں اسکی پیدائش کے دوران ہونے والی پیچیدگیوں اور  تکلیف سے بمشکل نکل پائی تھی کہ یہ خبر—– ماں تو مایوس ہی ہو گئی، باپ کی ڈاکٹر نے ہمّت باندھی کہ الله پر بھروسہ رکھیں وہ بڑا کارساز ہے الله نے چاہا تو یہ معذوری دور ہو جائے گی۔
اولاد کیسی بھی ہو والدین کو پیاری ہی ہوتی ہے، یہ پیار اور محبت تو پروردگار دلوں میں ڈالتا ہے۔ فہد گھر کا سب سے چھوٹا تھا تو لاڈلا بھی تھا  والدین اور بڑے بہن بھائی اسکا بے حد خیال رکھتے اسے اشاروں اور ہونٹوں کی جنبش سے بات  سمجھانا سکھاتے دن گزرتے گئے اور وہ اسکول جانے کی عمر کو پہنچ گیا،  قوت سماعت کی کمزوری کی وجہ سے فہد کو بولنے میں بھی بہت دشواری  تھی وہ بمشکل ٹوٹے پھوٹے الفاظ ادا کر پاتا، 4 برس کا ہوا  تو ڈاکٹرز نے مشورہ دیا کہ اس کے  ہیرینگ ایڈ لگوا دیں، اس وقت تک پاکستان میں صرف انالوگ ہیرنگ ایڈ ہی دستیاب تھے جن کا بنیادی نقص یہ تھا کہ اس لگانے سے کان میں ایک عجیب سا شور سا ہوتا تھا۔ مگر یہ اسکی واحد اور آخری امید تھی اور اس کے علاوہ کوئی متبادل بھی نہیں تھا اس لئے  مجبوراً اسے وہی استعمال کرنا پڑا  ڈاکٹر نے  یہ بھی مشورہ دیا کہ  اسے نارمل بچوں کے اسکول میں داخل کروائیں تاکہ وہ ٹھیک سے  بولنا سیکھ سکے لہذا والدین نے قریبی اسکول میں داخل کرادیا۔
اسکول میں داخلے کے بعد فہد کیلئے ایک مشکل سفر کا آغاز ہوگیا، اونچا سننے کی وجہ سے وہ باقی بچوں کی طرح استاد کی بات مشکل سے سمجھ پاتا اور بولنا تو اسکے لئے پہلے ہی مشکل تھا،  ٹیچر اسے نکمہ اور کن ذہن  سمجھ کر سب سے آخر میں بیٹھا دیتے۔ بچے کبھی مذاق اڑاتے  کبھی طرح طرح کے ناموں سے پکارتے تو کبھی آلہ سماعت سے چھیڑ چھاڑ کرتے – فہد کبھی غصہ میں  آلہ سماعت اتار کر پھینک دیتا،   کبھی برداشت کرتا اور کبھی بے بس ہو کر رو پڑتا اپنی ماں سے شکایت کرتا باپ سے گلہ کرتا بھائی  سے ناراض ہو جاتا وہ اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتا تھا۔
کس قدر مشکل ہے یہ زندگی کا سفر
خدا نے مرنا حرام کیا لوگوں نے جینا
ماں اسے سمجھاتی کہ بیٹا خدا کبھی دے کر آزماتا ہے اور کبھی لے کر تو دوسروں کی باتوں پر کان نہ دھرا کر بس اوپر والے سے دعا کیا کر اسکے گھر دیر ہے اندھیر نہیں، ماں کی یہ بات اسکی ہمت بڑھا دیتی خدا نے اسے بہت  ہمت اور حوصلے سے نوازہ تھا۔ فہد نے اپنی تعلیم جاری رکھی پہلی دوسری تیسری جماعت آہستہ آہستہ کچھ کچھ  بولنا بھی سیکھ لیا  اور پھر وہ وقت بھی آیا جب اس نے میٹرک کا امتحان پاس کرلیا گو کہ بہت اچھے نمبروں سے نہیں مگر عام بچوں کا مقابلہ کرنا یقیناً اس کے لئے بڑی کامیابی تھی،اس کامیابی سے اسکا حوصلہ مزید بڑھ گیا۔
مگر یہ تو ابھی آغاز سفر تھا ابھی تو اسے بہت منزلیں طے کرنا تھیں وہ اپنے گھر والوں  پر بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا۔  وقت کا پہیہ گھومتا رہا فہد  نے پہلے انٹر اور پھر بی کام کا امتحان پاس کرلیا۔ سائنس نے بھی ترقی کے سفر طے کئے اور سائنسدانوں نے ڈیجیٹل ہیرنگ ایڈ ایجاد کرلیا جس سے اس کی مشکلات میں کافی حد تک کمی آگئی تھی اب وہ بہتر طور پر سن سکتا تھا۔ اس نے ایم بی اے میں داخلے کے لئے ٹیسٹ دیا اور میریٹ پر منتخب بھی ہوگیا، اس تیز رفتار زمانے میں اسکا ایم بی اے کرنا کسی معجزے سے کم نہیں تھا اس نے اچھے نمبروں سے امتحان پاس کیا اور اپنے سے زیادہ قابل لوگوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔
فہد کے اس کے بڑے بھائی نے اس کی صلاحیتوں میں اضافے کے لئے اسے کچھ  انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سرٹیفیکیشن کے امتحانات کی تیاری کروائی، وہ امتحانات بھی امتیازی نمبروں سے پاس ہوگا اور ان سرٹیفیکیشن کی بدولت اس نے شہر کی ایک بڑی آئی ٹی کمپنی میں نوکری حاصل کرلی۔  اس تیز رفتار دور میں جہاں ایک پوزیشن کے لئے ہزاروں امیدوار نوکری حاصل کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں وہاں ایک قوت سماعت سے محروم شخص کا بغیر کسی سفارش پر نوکری حاصل کرنا واقعی قابل ستائش تھا۔ مگر کچھ لوگوں کو اس کی ترقی ایک آنکھ نہ بھائی، یہ دنیا کسی کو کہاں چین سے جینے دیتی ہے۔ آس پاس کے لوگ اس کے خلاف سازشیں کرنے لگے،  اس کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر عیاری سے مختلف شعبے میں تبادلہ کراتے رہے۔ فہد لڑتا رہا محنت کرتا رہا۔
ان تمام تجربات کے بعد اس نے اپنی زندگی ان لوگوں کے نام کردی جو کسی نہ کسی ذہنی یا جسمانی معذوری کا شکار ہیں۔ فہد نے ایک غیر سرکاری تنظیم میں رضاکار شمولیت اختیار کرلی۔  نہ دن دیکھتا نہ رات اسکا مقصد   اب اپنی بہتری سے زیادہ دوسرے لوگوں کی بہتری تھی وہ معذور افراد کے لئے مختلف اسکولوں، یونیورسٹی اور اداروں کا رخ کرتا اور ان کے لئے فنڈز اکھٹا کرتا ان کے ساتھ وقت گزارتا۔
شاعر نے بھی کیا خوب کہا کہ؛
اپنے لئے تو سبھی  جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
اس نے شعر کو حقیقت کا رنگ دے دیا، فہد نے، ایک معذور انسان جسے خود سہاروں کی ضرورت تھی لیکن اب وہ دوسروں کی سہاروں اور امیدوں کا مرکز ہے۔ فہد کو اسٹیج پر بلایا گیا، جیسے ہی وہ نوجوان اسٹیج پر پہنچا پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور ہر شخص اس کی جانب ایسے دیکھ رہا تھا جیسے اسے سلیوٹ کر رہا ہو۔
میں چپ چاپ کہانی سن رہا تھا  اور سر شرم سے جھکا ہوا کہ پروردگار نے مجھے صحت تندرستی سے نوازہ  اور کسی بھی قسم کی جسمانی اور ذہنی کمزوری سے دور رکھا مگر کیا میں اس کا شکر ادا کر رہا ہوں؟  کیا میں بھی اس نوجوان کی طرح اپنے ارد گرد بسے ہوئے لوگوں کی بہتری کے لئے کوئی کام کررہا ہوں ؟ یہی سوال میں قارئین کے لئے بھی چھوڑے جا رہا ہوں، کیا ہم سب اپنے حصے کا فرض ادا کررہے ہیں۔

س طرح حکومت عوام کی آہ و بکا پر چپ سادھے ہوئے ہے

www.swatsmn.com
اگر آپ عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی کمانا اور کھانا چاہتے ہیں، اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ زندگی گزارنے کے لیے آپ کو جتنی بھی آزادی اور اختیار ملا ہے وہ آپ کے پاس برقرار رہے  اور کوئی آپ کے ہنستے بستے گھر کو میلی آنکھ سے نہ دیکھے تو آپ کو ایک بہت ہی قیمتی اور نادر تجویز دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ آپ اپنے اوپر ہونے والے ظلم ، زیادتی، ناانصافی پر بالکل اِسی طرح خاموش رہیں جس طرح حکومت عوام کی آہ و بکا پر چپ سادھے ہوئے ہے۔
میں جانتا ہوں کہ لوگ میری اِس کمزوری اور حالات سے سمجھوتہ کرنے والی عادت پر طعنے دینگے اور کہیں کہ نہیں جناب اب کچھ ہوجائے ظلم برداشت نہیں کیا جائے گا ۔۔۔ یہ جذبہ اور حالات سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ قابل ستائش ہے مگر جناب یہ مشورہ  تو آج صبح ہونے والے واقع کے بعد دینے کی خواہش کی۔
مجھے اُمید نہیں یقین ہے کہ گزشتہ دنوں یعنی 16 ستمبر کو پی آئی اے کی فلائٹ میں وی آئی پی کلچر کے خلاف ہونے والے واقعہ تو آپ سب کو ہی یاد ہوگا۔ جب فلائٹ کو محض اِس لیے 2 گھنٹے روکا گیا کہ اُس میں پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر رحمان ملک اور پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار کو سوار ہونا ہے جس پر لوگ سیخ پا ہوگئے اور غصہ اِس نہج پر پہنچا کہ دونوں شخصیات کو جہاز میں سوار نہیں ہونے دیا۔
یہ واقعہ پاکستان میں وی آئی پی کلچر کے خاتمے کا آغاز قرار دیا جارہا تھا  اور یقینی طور پر یہ تھا بھی مگر پھر وہی کچھ ہوا جو ہر ترقی پذیر ملک میں ہوتا ہے۔جس فرد نے اُس جہاز میں جائز بغاوت کا آغاز کیا تھا آج صبح پرائیوٹ کورئیر کمپنی نے بغیر کوئی وجہ بتائے اُنہیں نوکری سے ہی نکال دیا۔ حکومت کی بار بار غلطیوں کو دیکھنے کے بعد  یہ مثال بار بار ذہن میں آتی ہے کہ’’ جب گیدر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کو ہی بھاگتا ہے!‘‘
اگرچہ یہ ایک نجی کمپنی کا ملازم ہے اور بظاہر حکومت کا کسی بھی نجی کمپنی کے معاملے میں کوئی کردار نہٰن ہوتا لیکن پھر سوچتا ہوں کہ سرکار تو سرکار ہوتی ہے۔۔۔ وہ صرف سرکاری ہی نہیں بلکہ نجی ملازمین کو بھی فارغ کرنے کی قوت رکھتی ہے۔ لیکن اِس قوت کے باوجود بھی میں یہ مان لیتا ہوں کہ اِس پورے واقعہ میں حکومت کا کوئی کردار نہیں یہ محض ایک اتفاق ہے۔لیکن آج کل کا دور میڈیا کا دور ہے اور وہ بھی اِس قدر خطرناک کہ دن کو رات اور رات کو دن بنانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ۔بس یہ اطلاع آنی  تھی اور پورے میڈیا نے زمین آسمان ایک کردیا کہ دیکھیے ناظرین یہ انجام ہوتا ہے پاکستان میں وی آئی پی کلچر کو چیلنج کرنے کا۔ تو اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ حکومت اِس پورے واقعہ سے بالکل لاتعلق ہے تو  خداراہ لاتعلق نہ رہے بلکہ معاملہ کی چھان بین کرے کہ اچانک ایک فرد کو بغیر وجہ بتائے نوکری سے کس طرح نکالا جاسکتا ہے اور جس کے نکالنے سے لوگ حکومت کی طرف شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں جیسے اِس پوری کہانی کے پیچھے حکومت ہے۔
ذاتی طور پر مجھے دھرنوں اور دھرنے والوں سے کچھ اختلافات ہیں لیکن اختلاف یہ ہرگز نہیں کہ حکومت کے خلاف احتجاج کیوں کیا جارہا ہےبلکہ اختلاف تو یہ ہے کہ جس طریقہ کار کو وزیراعظم کے خاتمے کے لیے اپنایا جارہا ہے وہ کچھ مناسب نہیں۔وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے آئین میں طریقہ بتادیا گیا ہے مگر اُس طریقہ کار میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ سڑک پر بیٹھ جائیں اور ایک چھوٹے بچے کی طرح زد کی جائے کہ بس کچھ ہوجائے وزیراعظم استعفی دیں۔ لیکن جہاں دھرنے والوں کی کچھ غلطیاں ہیں وہاں حکومت کی غلطیاں چار گنا زیادہ ہیں۔اپوزیشن کا تو کام ہی حکومت کے خلاف احتجاج کرنا ہے لیکن ذمہ داری تو حکومت کی بنتی ہے کہ معاملے کو کس طرح حل کیا جائے۔اور شاید یہ سب حکومت کی غلطیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ معاملہ اب مسلسل طوالت اختیار کرتا جارہا ہے اور جہاں لوگ ایک ایسے نظام کو قبول کرچکے تھے جس میں وہ ہر ہر خرابی ہے جس کا تصور کیا جاسکتا ہے مگر اب احتجاج اور مسلسل حکومت مخالف تقاریر کے بعد لوگوں میں احساس بیداری جنم لے رہی ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان حکومت اور اِس گلے سڑے نظام سے مستفید ہونے والی اشرافیہ کو ہوگا۔ اگرچہ یہ ایک اچھی بات ہے مگر افسوس تو اِس بات ہے کہ جو اِس گلے سڑے نظام کے خلاف بغاوت کررہے ہیں اُن کا اپنا دامن بھی صاف نہیں بس یہی وہ ایک نقطہ ہے جو مسلسل پریشان کررہا ہے۔
خیر یہ تو اِدھر اُدھر کی باتیں تھی اصل بات اب بھی یہی ہے کہ جناب تبدیلی اب بھی دور ہے تو لہذا اِسی نظام کو قبول کرتے رہیں کیونکہ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہوتی ہیں ۔۔۔۔ اگر آپ نے بڑے لوگوں سے پنگا لیا تو سزا بھی بڑی ملے گی اور چونکہ نظام گلہ سڑا ہے تو زیادتی کرنے والے سے باز پرس بھی نہیں ہوگی۔

سسٹم بچانے کے لئے بہتر ہوگا کہ وزیراعظم خود وسط مدتی انتخابات کا اعلان کریں، خورشید شاہ

www.swatsmn.com
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کہتے ہیں کہ حکومت کو اپنی غلطیوں کی وجہ سے یہ دن دیکھنا پڑرہے ہیں اور وزیر اعظم خود وسط مدتی انتخابات کا اعلان کریں تو یہ نظام کے لئے بہتر ہوگا۔
پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں اپنے چیمبر میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ملک میں جمہوریت کی بقا اور پارلیمنٹ کا قیام چاہتی ہے، عمران خان سندھ فتح کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں حقیقیت میں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، کراچی میں 18اکتوبرکا جلسہ صرف جمہوریت کی مضبوطی کے لئے ہے، ہم کسی نواز شریف ، عمران خان یا طاہر القادری کی حمایت نہیں کررہے، نواز شریف آئینی  وزیراعظم ہیں اور مینڈیٹ ملنے پر پیپلز ہارٹی کے شریک چیرمین آصف  زرداری اور عمران خان انہیں مبارکباد بھی دے چکے ہیں۔ تو اب معاملے كو حل كرنے كے لئے مثبت قدم اٹھانے ميں كوئی حرج نہيں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اپنی غلطیوں کی وجہ سے یہ دن دیکھنا پڑرہے ہیں،پیپلز پارٹی  نے غلطیاں کی تو مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی،اب مسلم لیگ (ن) غلطیاں کرے گی تو کسی اور کو حکومت کا موقع ملے گا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی کی سپریم کورٹ کے ذریعے تحقیقات کرائی جائیں، وزیر اعظم خود وسط مدتی انتخابات کا اعلان کریں تو یہ نظام کے لئے بہتر ہوگا۔ وزیر اعظم سے گن پوائنٹ پر ایسا کرانا مناسب نہیں اور نہ ہی ڈنڈے کے زور پر ہونے والے مڈ ٹرم انتخابات کو پیپلز پارٹی قبول کرے گی،اگرایسا ہوا تو نظام نہیں بچے گا۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے سیاسی جرگے کو کہا تھا کہ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات کرے،مسئلے کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی ہوگا ورنہ تیسری قوت فائدہ اٹھائے گی۔  اگراسپیکرنے تحریک انصاف کے اراکین کی عدم حاضری کے باوجود استعفے منظور کرلئے ان کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

آپ کی کمائی صرف انتخابات کے دنوں میں ہی ہوتی ہے

www.swatsmn.com
پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کمیٹی کے اجلاس میں بعض اہم اور دلچسپ حقائق سامنے رکھے گئے۔

پرنٹنگ کارپوریشن کی طرف سے  بتایا گیا کہ کارپوریشن کو حکومت کی طرف سے کوئی فنڈزجاری نہیں کئے جاتے۔ اس پر ایم کیوایم کے کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ پھر ایسا لگتا ہے کہ آپ کی کمائی صرف انتخابات کے دنوں میں ہی ہوتی ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے بتایا کہ انتخابات کے بعد غیر استعمال شدہ بیلٹ پیپرز کی نقل و حرکت ریٹرننگ افسران کے ذریعے ہوتی ہے اور وہ ریکارڈ الیکشن کمیشن کے بجائے ضلع کے سرکاری خزانے میں جمع ہو جاتا ہے۔
اس نقل و حرکت کی شفافیت سے متعلق جب سینیٹر فاروق ایچ نائیک اور شیخ رشید احمد نے استفسار کیا کہ اس کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ بیلٹ پیپرز محفوظ ہاتھوں میں ہیں تو سیکرٹری نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو آپ ارکان پارلیمنٹ ہی پتہ کروا سکتے ہیں۔

Sunday 28 September 2014

سٹوڈنٹس کا کہنا تھا کہ وہ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ چاہتے ہی

www.swatsmn.com
VIP system is gone down ............................
ہفتہ کے روز لاہور میں ٹورازم کی تقریر 11بجے شروع ہوئی تھی لیکن کالجز پنجاب یونیورسٹی اور سکولوں کے طلباء 9بجے سے آئے ہوئے تھے جبکہ حمزہ شہباز تقریر کیلئے ایک بجے آئے تو سٹوڈنٹس نے شدید غصے میں تھے جونہی حمزہ شہباز شریف ٹورازم پر بات چیت شروع کی تو سٹوڈنٹس خاموشی سے سنتے رہے لیکن جونہی حمزہ شہباز نے ٹورازم کی تقریر سے ہٹ کر دھرنوں کی بات کرنے لگے تو تمام سٹوڈنٹس سراپا احتجاج ہوگئے اور تمام سٹوڈنٹس نے ’’ گو نواز گو ‘‘ کے نعروں سے حال کو سر پر اٹھا لیا جس کے باعث حمزہ شہباز کو تقریر کو ادھورا چھوڑ کر جانا پڑا جبکہ جب حمزہ شہباز گاڑی میں بیٹھنے کیلئے ہال سے روانہ ہونے لگے تو تمام سٹوڈنٹس نے حمزہ کے سامنے شدید نعرے بازی بلند کی جس کے باعث حمزہ شہباز کو پیچھے کا راستہ اختیار کرنا پڑا اس موقع پر سٹوڈنٹس کا کہنا تھا کہ وہ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ چاہتے ہیں جو کہ گیارہ بجے کی بجائے ایک بجے آکر تقریر کرتے ہیں اور ٹورازم کی تقریر کی بجائے سیاست اور دھرنوں کی سیاست کرتے ہیں جبکہ آج ٹورازم ڈے ہے ۔ -

Thursday 18 September 2014

سارے کا سارا

www.swatsmn.com

بہت عرصہ پہلے میرے علاقے میں ایک انتہائی ماڈرن قسم کی بیوہ عورت وہاں آ کر رہنے لگی اس کے دو بچے بھی تھے - ہم نے دیکھا کہ ایک عجیب و غریب کردار آکر ہمارے درمیان آباد ہو گیا ہے - اور اس کا انداز زیست ہم سے ملتا جلتا نہیں ہے ایک تو وہ انتہائی اعلا درجے کے خوبصورت اور باریک کپڑے پہنتی تھی ، پھر اس کی یہ خرابی تھی کہ وہ بڑی خوبصورت تھی تیسری اس میں خرابی یہ تھی کہ اس کے گھر کے آگے سے گزرو تو خوشبو کی لپٹیں آتیں تھیں -
اس کے جو دو بچے تھے وہ گھر سے باہر بھاگتے پھرتے تھے ، اور کھانا گھر پر نہیں کھاتے تھے - لوگوں کے گھروں میں چلے جاتے اور جن گھروں میں جاتے وہیں سے کھا پی لیتے - یعنی گھر کی زندگی سے ان بچوں کی زندگی کچھ کٹ آف تھی -
اس خاتون کو کچھ عجیب و غریب قسم کے مرد بھی ملنے آتے تھے - گھر کی گاڑی کا نمبر تو روز دیکھ دیکھ کر آپ جان جاتے ہیں - لیکن اس کے گھر آئے روز مختلف نمبروں والی گاڑیاں آتیں تھیں - ظاہر ہے اس صورتحال میں ہم جیسے بھلے آدمی اس سے کوئی اچھا نتیجہ نہیں اخذ کر سکتے -
اس کے بارے میں ہمارا ایسا ہی رویہ تھا ، جیسا آپ کو جب میں یہ کہانی سنا رہا ہوں ، تو آپ کے دل میں لا محالہ اس جیسے ہی خیالات آتے ہو نگے - ہمارے گھروں میں آپس میں چہ میگوئیاں ہوتی تھیں کہ یہ کون آ کر ہمارے محلے میں آباد ہو گئی ہے -
میں کھڑکی سے اسے جب بھی دیکھتا ، وہ جاسوسی ناول پڑھتی رہتی تھی - کوئی کام نہیں کرتی تھی - اسے کسی چولہے چوکے کا کوئی خیال نہ تھا - بچوں کو بھی کئے بار باہر نکل جانے کو کہتی تھی -
ایک روز وہ سبزی کی دکان پر گر گئی ، لوگوں نے اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے وینٹے مارے تو اسے ہوش آیا اور وہ گھر گئی - تین دن کے بعد وہ فوت ہوگئی ، حالانکہ اچھی صحت مند دکھائی پڑتی تھی - جو بندے اس کے ہاں آتے تھے - انھوں نے ہی اس کے کفن دفن کا سامان کیا -
بعد میں پتا چلا کے ان کے ہاں آنے والا ایک بندہ ان کا فیملی ڈاکٹر تھا - اس عورت کو ایک ایسی بیماری تھی جس کا کوئی علاج نہیں تھا - اس کو کینسر کی ایسی خوفناک صورت لاحق تھی skin وغیرہ کی کہ اس کے بدن سے بدبو بھی آتی رہتی تھی - جس پر زخم ایسے تھے اور اسے خوشبو کے لئے اسپرے کرنا پڑتا تھا ، تا کہ کسی قریب کھڑے کو تکلیف نہ ہو - اس کا لباس اس لئے ہلکا ہوتا تھا اور غالباً ایسا تھا جو بدن کو نہ چبھے دوسرا اس کے گھر آنے والا وکیل تھا ، جو اس کے حقوق کی نگہبانی کرتا تھا - تیسرا اس کے خاوند کا چھوٹا بھائی تھا ، جو اپنی بھابھی کو ملنے آتا تھا -
ہم نے ایسے ہی اس کے بارے میں طرح طرح کے اندازے لگا لیے اور نتائج اخذ کر لیے اور اس نیک پاکدامن عورت کو جب دورہ پڑتا تھا ، تو وہ بچوں کو دھکے مار کر گھر سے نکال دیتی تھی اور تڑپنے کے لیے وہ اپنے دروازے بند کر لیتی تھی -
میرا یہ سب کچھ عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم تنقید اور نقص نکالنے کا کام الله پر چھوڑ دیں وہ جانے اور اس کا کام جانے - ہم الله کا بوجھ اپنے کندھوں پر نہ اٹھائیں ، کیونکہ اس کا بوجھ اٹھانے سے آدمی سارے کا سارا "چبہ" ہو جاتا ہے ، کمزور ہو جاتا ہے ، مر جاتا ہے -
الله تعالیٰ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے آمین
از اشفاق احمد زاویہ ٢

Wednesday 3 September 2014

لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے اپریشن کے دوران فضل رحمان اپوزیشن لیڈر تھے

www.swatsmn.com
ذرا سوچئے
لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے اپریشن کے دوران فضل رحمان اپوزیشن لیڈر تھے
باجوڑ مدرسے پر بمباری کے وقت حکومت کس کی تھی
وانا وغیرہ میں اپریشن کے دوران حکومت کس کی تھی
پرویز مشرف کو اعتماد کے ووٹ کس نے دئے
پیپل پارٹی کیساتھ اتحاد کس نے کیا


پرویز مشرف نے کتوں کے ذریعے کس کی تالاشی لی
نواز شریف کو کون سپورٹ کر رھا ھے
نیشنل پارٹی والوں کیساتھ صوابی میں اتحاد کس نے کیا
ساجد نقوی شیعہ کے اقتداء میں نماز کس نے ادا کی
طالبان کے نام پر ووٹ لیکر طالبان کی مخالفت کس نے کی
پانچ سال صوبہ سرحد پر حکومت اسلام کے نام پر کرکے ایک اسلامی قانون کے ایک جز کو نافذ نھیں کیا یہ کس نے کیا
امریکی حکومت سے وزارت عظمی کو کس نے مانگا
امریکی سفیر رچرڈوالسن سے مصافحہ خندہ پیشانی کے انداز میں کس نے کیا
امریکی سفیر کو عشائیہ پر کس نے مدعو کیا
بونیر میں گورسرن لال ھندو اور ھری پور میں ایک اور ھندو کو اسلام کے نفاذ کیلئے صوبائی اسمبلی کا سیٹ کس نے دیا
اسمبلی میں تقریر کرکے یہ ارشاد کس نے فرمایا
کہ طالبان اور اسلام آباد میں صرف مارگلہ کی پھاڑ باقی ھے

پی ٹی وی پر حملہ

www.swatsmn.com

پی ٹی وی پر حملہ میں دو گروپوں میں تصادم اور ایک دوسرے کے سر پھاڑنے کے انکشافات

0,,17892225_303,00اسلام آباد (قدرت نیوز) پی ٹی وی ہیڈ کواٹرز کی عمارت پر آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے شرکاء کی جانب سے حملہ اور توڑ پھوڑ کے دوران عمارت میں گھسنے والے مظاہرین کے آپس میں جھگڑ نے کا بھی انکشاف ہوا ہے حتی کہ توڑ پھوڑ کرنے والے مظاہرین نے روکنے والے مظاہرین کے سر پھاڑ دئے، مظاہرین کے بعد میں آنے والے ریلے میں موجود افراد مسلسل موبائل فون کے ذریعے کسی سے ہدایات لے رہے تھے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان ٹیلی ویژن ہیڈ کواٹرز کی عمار ت پر پیر کے روز ہونے والے حملہ کے دوران مظاہرین کے مختلف گروہ عمارت میں داخل ہوئے۔ عمارت میں دوسری منزل پر آنے والے مظاہرین کے ریلے کو پہلے آنے والے دو درجن مظاہرین نے روکنے، اوپر نہ آنے اور عمارت اور اشیاء کو نقصان نہ پہنچانے کی درخواست کی، تاہم دوسرے ریلے جس میں افراد کی تعداد زیادہ تھی نے روکنے ولے مظاہرین پر حملہ کر کہ بعض افراد کے سر کھول دئیے اورزبردستی اندر گھس کر توڑ پھوڑ کی۔ اس دوران مظاہرین میں موجود بعض مشکوک افراد اپنے موبائل فونز کے زریعے مسلسل نہ صرف کسی سے رابطہ میں تھے بلکہ مسلسل ہدایات لے رہے تھے۔

مسرت آحمد زیب نے استفعی نہ دے کر خود ہی اپنے آپ کو پارٹی سے نکلوانے کا انتظام کیا


www.swatsmn.com
مسرت آحمد زیب ریاستِ سوات کےوالی میانگل جہانزیب کی بہوں ہے۔ اِس نےمارچ 2013 میں پی ٹی آئی میں شمولیت کی اور الیکشن کے فوراٰ بعد اسے خواتین کی نشست پر ایم این اے بنا لیا گیا۔ جس نے بھی خان صاحب کو اس خاتون کے ایم این اے بنانے کا مشورہ دیا ہوگا وہ بھی پارٹی کے ساتھ مخلص نہیں تھا۔ محترمہ نے اقتدار میں آتے ہی طاقت کا بےدریغ استمعال شروع کیا۔ اپنےگھرکے احاطے میں ایک مسجد کا وضوخانہ شامل کرنے سے شروع کرکے محترمہ نے اپنے اک پرانے بلڈ نگ پر ایک سکول بلڈنگ تعمیرکی جس میں پرانے بلڈ نگ سے باہرایک مشہوردرخت اورایک شہید کی قبرکو بھی شامل کیا اور تجاوزات کیے۔ اپنی کچھ متنازع زمینوں، جن کے کیسیز سالوں سے عدالتوں میں چل رہے تھے، ان کو ریوینوں، ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے زریعے اپنے نام کروایا اور پولیس کو دباؤ میں لا کر عوام کے خلاف استعمال کیا جس پر لو گ اس تحریک انصاف کے خلا ف ھو گئے جسے انہوں نے بھا ری مینڈ یٹ دیا تھا۔ اقتدار سے پیلے اس نے آرمی کے زریعے بھی کچھ لوگوں کو حراساں کرنے کی کوشش کی کیونکہ اس نے اپنے مفادات کیلئے آرمی میں بھی چند لوگوں کو اپنا ہمدرداور گرویدہ بنایا تھا۔
10 جولائی، 2014 کو اس کے اپنے یونین کونسل کے لوگ اس کے خلاف نکلے اور پریسں کانفرنسں کی ۔ عمران خان کو جب یہ سب کچھ پتہ چلا اور ان کو شواہد ملےتو انہوں نے اپنے ایک منتخب نمائندے کے سامنے یہ اظہار کیا کہ اس خاتون کا پارٹی میں کوئی مستقبل نہیں ہے اور وہ اسے ہٹانے کا موقع ڈھونڈ رہے تھے کہ اتنے میں پارٹی کا حکومت کے خلاف احتجاجاُ قومی اسمبلی سے استفعوں کا فیصلہ آیااور مسرت آحمد زیب نے استفعی نہ دے کر خود ہی اپنے آپ کو پارٹی سے نکلوانے کا انتظام کیا۔
یہ فوٹو البم ان تمام باتوں کا ثبوت پیش کر رہا ہے جن کا ذکر کیا گیا ہے۔

MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan EXTED.pk

Admission open  MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan   http://facebook.com/ exted.p k http://www.exted.pk/ Lowest Fee ,   No IELTS...