Tuesday 29 September 2015


www.swatsmn.com

ایک ہزار سال قدیم مسجد کی سیر


امجد علی سحاب

ضلع سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے مغرب کی جانب 6.6 کلومیٹر کی مسافت پر اوڈیگرام کے علاقے میں واقع سلطان محمود غزنوی کی ایک ہزار سال پرانی مسجد اس وقت کے فنِ تعمیر کا شاہکار ہے۔ اس کی چھت زمین سے 30 فٹ اونچی ہوا کرتی تھی۔ ماہانہ دو ہزار سے زائد سیاح آج بھی ملک کے کونے کونے سے اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔


تاریخ کے اوراق سے گرد ہٹائیں تو پتہ چلتا ہے کہ سلطان محمود غزنوی نے دو نومبر بروز منگل سنہ 971ء کو سبکتگین کے ہاں غزنی میں آنکھ کھولی تھی۔ وہ 997ء سے اپنے انتقال تک سلطنتِ غزنویہ کے حکمران تھے۔ انہوں نے غزنی شہر کو دنیا کے دولت مند ترین شہروں میں تبدیل کیا تھا اور ان کی وسیع سلطنت میں موجودہ مکمل افغانستان، ایران اور پاکستان کے کئی حصے اور شمال مغربی بھارت شامل تھا۔


مسلمان حکمرانوں میں سے وہ پہلے حکمران تھے جنہوں نے 'سلطان' کا لقب اختیار کیا۔ انہوں نے ہندوستان پر 17 بار حملہ کیا۔ انہی حملوں میں سے ایک اس نے راجا گیرا (جو موجودہ شمالی پاکستان کے علاقوں سوات وغیرہ کا طاقتور اور خوشحال بادشاہ شمار کیا جاتا تھا) کی سلطنت پر کیا۔



اوڈیگرام میں لب سڑک سلطان محمود غزنوی مسجد کی طرف نشاندہی کرتا ہوا بورڈ۔




پہاڑی کے دامن میں مسجد کی طرف جاتا ہوا راستہ




مسجد کی طرف جانے والا کچا راستہ




مسجد کی طرف جانے والے کچے راستے کی ایک اور تصویر




مسجد کے باہر معلوماتی بورڈ.




مسجد کی قلعہ نما بیرونی دیوار.




بیرونی دیوار کا ایک اور منظر.



مشہور ہے کہ یہاں سلطان محمود غزنوی نے پیر خوشحال کو اپنی فوج کا سپہ سالار بنا کر ایک بڑی لڑائی لڑی۔ اسی معرکے میں پیر خوشحال بڑی بے جگری سے لڑا اور بالآخر زندگی کی بازی ہار بیٹھا۔ پیر خوشحال اب یہاں سوات میں ہی دفن ہے۔ اس معرکے میں سلطان کے دو بیٹے بھی سدھار گئے تھے اور وہ بھی سوات ہی میں مدفون ہیں۔ ایک خونریز لڑائی کے بعد راجا گیرا کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔


راجا کی شکست کے بعد سلطان واپس غزنی چلا گیا اور 30 اپریل 1030ء کو انتقال کر گیا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ضلع سوات سے واپسی کے وقت یہاں ایک مسجد تعمیر کرنے کا حکم صادر کیا تھا۔


مسجد کے باہر لگے ایک بورڈ پر مسجد کی مختصر تاریخ لکھی گئی ہے جس کے مطابق سلطان محمود غزنوی نے مسجد کی بنیاد 49-1048 میں ڈالی تھی۔ یہ شمالی پاکستان کی سب سے پرانی مسجد مانی جاتی ہے۔ اس کے احاطے سے 1984 میں ایک کتبہ دریافت ہوا تھا جس پر درج تھا کہ محمود غزنوی نے اپنے بھتیجے حاکم منصور کو اس کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ حاکم منصور نے اپنے سپہ سالار نوشگین کی نگرانی میں اسے تعمیر کیا تھا۔ مذکورہ کتبہ ہاتھ آنے کے بعد ہی اٹلی کے ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے 1984 میں 'سلطان محمود غزنوی مسجد' کو دریافت کیا تھا۔



مسجد کا دروازہ جسے سیاحوں یا آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ہی کھولا جاتا ہے۔




مسجد کے احاطے میں بنا ہوا راستہ.




مسجد کے صحن میں اترنے والی سیڑھیاں.




رہائشی کمروں کی طرف جانے والا راستہ۔




طالب علموں کے رہائشی کمروں تک جانے والا راستہ۔




مسجد میں تازہ پانی لانے کی غرض سے اس دور میں بنائی گئی ایک لائن کا منظر۔




مسجد کا کچن.



آج سے ایک ہزار سال پہلے بنائی گئی اس مسجد کا طرزِ تعمیر اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں پر گارڈز مسجد میں داخل ہونے سے پہلے سیاحوں کو ایک بات کی تلقین خاص طور پر کرتے ہیں کہ آپ کو مسجد کے احاطے میں کسی بھی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا ہے۔ کیوں کہ اس سے ’’نیچر ڈسٹرب‘‘ ہونے کا احتمال ہے۔ بالفاظ دیگر ایک ہزار سال پہلے جو چیز جہاں رکھی گئی تھی، اگر اسے وہاں سے اٹھایا گیا، تو اس کی فطری کشش میں کمی واقع ہوجائے گی۔


مسجد تعمیر کرتے وقت اس کے صحن کے عین درمیان پانی کا ایک تالاب بنایا گیا تھا جسے آج بھی اسی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اُس دور میں لوگ نماز پڑھنے کی خاطر وضو اسی حوض کے پانی سے کیا کرتے تھے۔ اسی طرح مسجد میں داخل ہوتے وقت اس جگہ کو بھی دیکھا جاسکتا ہے جو پانی کی سپلائی لائن کہلاتی ہے۔ مسجد سے بارش یا پھر وضو کے استعمال شدہ پانی کو نکالنے کا طریقہ بھی اس دور کی انجینیئرنگ کا ایک شاہکار ہے۔


تقریباً ایک اسکوائر فٹ نالی باقاعدہ ایک سیڑھی کی شکل میں بنائی گئی ہے، جس کی مدد سے پانی مسجد کے احاطے سے باہر نکال دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ مسجد کے ہال میں ایک محراب بھی نمایاں نظر آتی ہے۔ مسجد کی دیواریں عام پتھروں سے بنائی گئی ہیں۔ قبلہ رو کھڑے ہو کر بائیں جانب کی دیوار تیس فٹ اونچی ہے، یعنی آج کی تعمیرات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کسی بھی تین منزلہ عمارت جتنی اونچی دیوار ہے۔



مسجد کی محراب.




صحن میں بنے پانی کے حوض کا منظر جہاں نمازی وضو کیا کرتے تھے۔




مسجد کے احاطہ سے وضو یا بارش کا پانی نکالنے کے لیے بنائی گئی سیڑھی نما نالی۔




رہائشی کمروں کا ایک منظر۔




رہائشی کمروں کا ایک منظر۔




ستون جس پر مسجد کی چھت کھڑی رہتی تھی۔




مسجد کی دوسری جانب سے لی گئی تصویر جس میں 30 فٹ اونچی دیوار دیکھی جاسکتی ہے۔



قبلے سے بائیں جانب محراب سے آگے ایک چھوٹا سا راستہ رہائشی کمروں کی طرف جاتا ہے۔ دراصل اس دور میں یہ مسجد مدرسے کے طور پر بھی استعمال ہوا کرتی تھی جس میں کئی طلبہ بیک وقت دینی علوم حاصل کیا کرتے تھے۔ قبلے سے دائیں جانب ایسے دو راستے اور بھی رہائشی کمروں کی طرف نکلتے ہیں، اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت مسجد میں زیرِ تعلیم طلبہ اور اساتذہ انہی کمروں میں رہائش پذیر تھے۔


مسجد میں جگہ جگہ چھوٹے کتبے لگائے گئے ہیں جن سے نوواردوں کو اچھی خاصی رہنمائی مل جاتی ہے۔ اسی طرح مسجد کے احاطے میں بھی ایک کتبہ لگایا گیا ہے کہ یہاں پر کبھی اسٹوپا ہوا کرتا تھا اور بدھ مت کے پیروکار اپنی مذہبی رسوم یہاں ادا کیا کرتے تھے۔


اطالوی مشن کے پاکستان میں سربرای ڈاکٹر لوکا ماریا اولیویری کے مطابق ہر ماہ آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والے دو ہزار کے قریب لوگ اس تاریخی اثاثے کو دیکھنے آتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر سوات میں آثارِ قدیمہ پر خصوصی توجہ دی گئی، تو کوئی امر مانع نہیں کہ یہ نہ صرف خیبر پختونخواہ بلکہ پورے ملک کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب نہ کریں۔

Thursday 24 September 2015

شاباش ڈی آئی جی صآحب

www.swatsmn.com

thanks .. cry Pakistan ....
ریٹائرڈ ڈی آئی جی افتحار حسین کا تعلق ازاخیل سے ھے. گرمی میں سائیکل چلاتے ھوئے میں نے پوچھا. کہ آپ ریٹائرڈ ڈی آئی جی ھوں.. اور آپ اتنے سخت گرمی میں سائیکل چلا رھے ھوں.. آپ کے پاس بنگلہ ، بڑی گاڑی *****ایک سانس میں کافی سوالات پوچھ لیا __ جب میں چپ ھوگیا. تو ڈی آئی جی صآحب نے ھنس کے جواب دیا.. کہ بیٹا میرے پاس اللہ تعالی ھے.. اور اُس مالک نے مجھے اتنی زبردست گاڑے (سائیکل ) دی ھے. جو مجھ سے پٹرول نھیں مانگتا ھے.. کیونکہ میرے پاس پٹرول ڈالنے کے لیے پیسے نھیں.. جو پنشن ملتا ھے.. اُس سے گھر کا نظام چلا رھا ھوں.. میں تو پھر بڑا خوش قسمت والا ھے.. کہ اللہ تعالی نے سائیکل دی ھے.. . کیونکہ میرا بیٹا آج بھی سائکل سے محروم ھے.. اور وہ مارکیٹ وغیرہ کے لیے کرائے کا گاڑی استعمال کر رھا ھے.. دوستوں یہ سب باتیں سُننے کے بعد مجھے وہ بات یاد آ گئی.. کہ دُنیا اچھے لوگوں کی وجہ سے قائیم ھے. اور پولیس کے خلاف نفرت میں تھوڑی سی کمی بھی آگئی ___ شاباش ڈی آئی جی صآحب __



Thursday 3 September 2015

موت ہو تو ایسی کہ تاریخ رقم ہو۔۔۔۔ برٹش پاکستانی خاتون بشریٰ فاروقی


بیرون ملک مقیم وہ پاکستانی خاتون جس کی عرب ریاست میں موت پورے پاکستانی گاؤں کو افسردہ کر گئی


بئی سٹی (مانیٹرنگ ڈیسک) دبئی سے تعلق رکھنے والی برٹش پاکستانی خاتون بشریٰ فاروقی کی کوہ پیمائی کے دوران موت نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے ایک گاؤں کے ہر باشندے کو سوگوار کردیا ہے۔


نیوز سائٹ thenational.ae کے مطابق بشریٰ فاروقی دیگر کوہ پیماؤں کے ساتھ ایک عمانی وادی میں مہم جوئی کررہی تھیں کہ حادثے کی شکار ہوگئیں۔ ان کی لاش ایک عمانی ہیلی کاپٹر کے ذریعے اگلے روز جائے حادثہ سے نکالی گئی۔
بلتستان میں واقع سدپارہ گاؤں کے باسیوں کو جب یہ خبر ملی تو ان پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ اس گاؤں میں بشریٰ فاروقی کو نہایت احترام اور محبت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا کیونکہ انہوں نے یہاں کے بچوں کو تعلیم سے مال مال کرنے کیلئے بے مثال کوششیں اور مدد کی تھی۔ انہوں نے دور دراز پہاڑی گاؤں میں بچیوں کی تعلیم کا آغاز کیا اور بعدازاں سدپارہ کے 140 اور دیگر قریبی دیہاتوں کی 360 لڑکیوں کی تعلیم کا اہتمام کیا۔ انہوں نے ایک تنظیم قائم کی اور بیرون ملک سے فنڈ اکٹھے کرکے شمالی علاقہ جات کے بچوں کی تعلیم پر خرچ کئے۔
ان کی تنظیم Inspire Initiative کے جنرل منیجر غلام محمد نے بتایا ’’جب مجھے ان کی وفات کی خبر ملی تو میں رو پڑا۔ وہ ہمارے خاندان کے فرد کی طرح تھیں۔‘‘ سدپارہ کے بچے انہیں اپنی ماں کی طرح سمجھتے تھے اور ان کی دنیا سے رخصتی پر شدید غمزدہ ہیں۔ آج(بدھ) بچوں نے بڑی تعداد میں جمع ہوکر ان کیلئے دعائے مغفرت بھی کی۔

MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan EXTED.pk

Admission open  MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan   http://facebook.com/ exted.p k http://www.exted.pk/ Lowest Fee ,   No IELTS...