Sunday 25 October 2015

مزدور کا مقدر لے کر پیدا ہوا تھا



www.swatsmn.com

وہ مزدور کا مقدر لے کر پیدا ہوا تھا لیکن اس نے اپنے وژن، محنت اور ایمانداری سے اپنا مقدر بدل دیا، وہ 2007ء میں دنیا کا چوتھا امیر ترین شخص بن گیا۔

وہ 1926ء میں سویڈن کے ایک گاؤں Agonnaryd میں پیدا ہوا، اس کے والدین ایک فارم ہاؤس ایلمٹریاڈ (Elmtaryd) میں مزدوری کرتے تھے، اس کے والدین نے پانچ برس کی عمر میں اسے بھی مزدوری پر لگا دیا لیکن اس نے مزدور کی بجائے کاروبار کا فیصلہ کیا، اس کا نام تین سال کی عمر میں رکھا گیا، اس کے نام کے دو حصے تھے انگوار اور کیمپارڈ، اس نے گیارہ سال کی عمر میں ماچسیں بیچنا شروع کیں، وہ ماچسوں کے ڈبے لیتا اور سائیکل پر گلی گلی ماچسیں بیچتا رہتا، وہ یہ کام چھ ماہ تک کرتا رہا پھر ایک دن اسے معلوم ہوا اگر وہ شہر سے تھوک میں ماچس خرید لے اور یہ ماچس گاؤں کے دکانداروں اور پھیری بازوں کو بیچ دے تو وہ زیادہ منافع کما سکتا ہے۔

انگوار اگلے دن اسٹاک ہوم چلا گیا اور وہاں سے تھوک میں ماچس خرید لایا، اس نے یہ ماچسیں تھوڑا سا منافع رکھ کر بیچ دیں، اس نے اگلے سال تک ماچسوں کے کاروبار کو مچھلی، کرسمس ٹری، کرسمس کارڈز، پھولوں کے بیج، بال پوائنٹس اور پینسلوں تک پھیلا دیا، وہ یہ ساری اشیاء تھوک میں خریدتا تھا اور بعد ازاں گاؤں کے دکانداروں کو فروخت کر دیتا تھا، وہ 17 سال کا ہوا تو اس کے والد نے اسے تھوڑے سے پیسے دیے۔

اس نے اس معمولی سی رقم سے ایک ایسی کمپنی کی بنیاد رکھ دی جس نے آنے والے دنوں میں پوری دنیا کا لائف اسٹائل تبدیل کر دیا، انگوار نے اس رقم سے وزن میں ہلکا لیکن رنگوں میں تیز فرنیچر بنانا شروع کر دیا، لوگوں کا خیال تھا اس کا آئیڈیا ناکام ہو جائے گا کیونکہ اس وقت لکڑی کے بھاری بھر کم فرنیچر کا رواج تھا، لوگ ایک مرتبہ فرنیچر بنواتے تھے اور یہ فرنیچر تین نسلوں تک ان کا ساتھ دیتا تھا چنانچہ اس وقت یورپ میں فرنیچر ایک ایسی پراڈکٹ سمجھا جاتا تھا جس کی مانگ نہ ہونے کے برابر تھی، اس وقت تک فرنیچر کے اسٹورز اور شو رومز بھی شروع نہیں ہوئے تھے۔

لوگ ترکھانوں سے اپنی ضرورت کا فرنیچر بنوا لیتے تھے لیکن انگوار نے فرنیچر کو کاروبار کی شکل دینے کا فیصلہ کیا، اس کا خیال تھا آنے والے دنوں میں پوری دنیا میں نقل مکانی شروع ہو جائے گی، لوگ روزگار کے لیے آبائی شہروں سے باہر نکلیں گے لہٰذا اس نقل مکانی کے دوران بھاری فرنیچر کی نقل و حمل مشکل ہو جائے گی۔

اس کا خیال تھا مستقبل قریب میں بڑے شہروں پر آبادی کا دباؤ بڑھ جائے گا جس کے نتیجے میں مکانوں اور فلیٹوں کا سائز چھوٹا ہو گا چنانچہ لوگوں کو چھوٹے سائز کے مکانوں کے لیے فرنیچر بھی چھوٹے سائز کا چاہیے، اس کا خیال تھا مستقبل رنگوں کا دور ہو گا، آنے والے دنوں میں ہر چیز رنگین ہو جائے گی چنانچہ اس نے ان تمام امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اکیا (ikea) کے نام سے یورپ میں فرنیچر سازی کی پہلی کمپنی کی بنیاد رکھی۔

’’اکیا‘‘ ایک لایعنی لفظ تھا، یہ چار حروف آئی، کے ، ای اور اے کا مجموعہ تھا، اس نے چار حرف اپنے نام اور اپنے گاؤں سے لیے تھے، آئی اس کے نام انگوار کو ظاہر کرتا تھا، کے سے مراد کیمپارڈ تھی، ای کا تعلق اس فارم ہاؤس ایلمٹریاڈ سے تھا، جس میں اس نے پرورش پائی تھی اور اے اس کے آبائی گاؤں Agunnaryd کا پہلا حرف تھا، انگوار نے جب اپنی کمپنی کا نام ’’اکیا‘‘ رکھا تو لوگوں کا خیال تھا اس کے بزنس کی طرح اس کی کمپنی کا نام بھی لایعنی ہے لہٰذا یہ کاروبار اور یہ کمپنی چند ماہ میں ماضی کا قصہ بن جائے گی لیکن انگوار نے آنے والے دنوں میں لوگوں کے سارے خدشات باطل ثابت کر دیے۔

اس نے سائز میں چھوٹا، وزن میں ہلکا اور رنگوں میں تیز فرنیچر بنوایا اور یہ فرنیچر آنے والے دنوں میں دنیا کا لائف اسٹائل بن گیا، اس نے دنیا کی نفسیات اور طرز رہائش بدل کر رکھ دی ’’اکیا‘‘ بیس برس بعد یورپ کی سب سے بڑی کمپنی بن گئی، اس کی یہ کامیابی اس کے وژن، محنت اور ایمانداری کا نتیجہ تھا، اس نے وقت کی تبدیلی کو بھانپ لیا تھا، وہ سمجھ گیا تھا چھوٹی اور کارآمد چیزوں کا دور آنے والا ہے لہٰذا مستقبل میں صرف وہی چیزیں کامیاب ہوں گی جو سائز میں چھوٹی، وزن میں ہلکی اور استعمال میں وسیع ہوں گی، 1980ء میں اس نے بزنس کو ایک اور کروٹ دی، اس نے گھر میں استعمال ہونے والی ہر قسم کی مشینری بنانا شروع کر دی، وہ اس وقت کچن میں استعمال ہونے والی چھوٹی چمچ سے لے کر گھر میں استعمال ہونے والے باتھ ٹب تک ہر چیز بنا رہا ہے۔

اس کا کاروبار یورپ سے لے کر امریکا تک اور دبئی سے لے کر نیوزی لینڈ تک دنیا کے 34 بڑے ممالک میں پھیلا ہوا ہے، اس کے اسٹورز پر روزانہ 900 ملین ڈالر کی سیل ہوتی ہے اور آج یہ کہا جاتا ہے یورپ میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو گا جس میں ’’اکیا‘‘ کی کوئی نہ کوئی چیز نہ ہو، مارچ 2007ء میں فوربس انٹرنیشنل نے مزدور کے اس بیٹے کو دنیا کا چوتھا امیر ترین شخص قراردیا تھا جب کہ جون 2015ء میں Bloomberg Billionaires Index نے اسے دنیا کا آٹھواں امیر ترین شخص قرار دیا، اس وقت اس کے ذاتی اکاؤنٹ میں 43 بلین ڈالر جمع ہیں جب کہ اس کی دولت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

انگوار کیمپارڈ ایک انتہائی دلچسپ شخص ہے، وہ ارب پتی ہونے کے باوجود انتہائی سادہ زندگی گزارتا ہے، وہ پندرہ سال پرانی والو گاڑی استعمال کرتا ہے، اپنی گاڑی خود چلاتا ہے، ہمیشہ جہاز کی اکانومی کلاس میں سفر کرتا ہے، اس نے سات سال کی عمر میں کرسمس پیپر بیچنے کا کام شروع کیا تھا وہ اب تک یہ کاروبار کر رہا ہے، وہ ہر سال کرسمس پیپر خریدتا ہے اور کرسمس کے بعد ان پیپرز کی سیل لگاتا ہے، اس نے ’’ اکیا ‘‘ کے تمام ملازمین کو کاغذ کی دونوں سمتیں استعمال کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔

اس کے کسی دفتر میں اگر کوئی شخص ایک سمت استعمال کر کے کاغذ ردی کی ٹوکری میں پھینک دے تو وہ لڑنے مارنے پرآمادہ ہو جاتا ہے، وہ ہمیشہ سستے ریستورانوں میں کھانا کھاتا ہے، اس نے چالیس برس قبل ’’اکیا‘‘ کے دفاتر اور فیکٹریوں میں ملازموں کے لیے سستا کھانا شروع کرایا تھا، وہ اگر کھانے کے وقت اپنی کسی فیکٹری یا دفتر کے نزدیک ہو تو وہ ہمیشہ ’’ اکیا‘‘ کے کیفے ٹیریا میں کھانا کھاتا ہے اور دو تین ڈالر ، پاؤنڈ ، مارک یا کراؤن بچا کر خوش ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ انتہائی فراخ دل شخص بھی ہے، اس نے INGKA Fondation کے نام سے ایک فلاحی ادارہ بنا رکھا ہے۔

وہ اس ادارے کے ذریعے اب تک 36 بلین ڈالر کی چیرٹی کر چکا ہے، دنیا کے نامور میگزین اکانومسٹ کے مطابق انگوار فلاح عامہ میں بل گیٹس کے مقابلے میں کہیں زیادہ رقم خرچ کرتا ہے لیکن وہ اپنی چیرٹی کے تمام کاموں کی تشہیر نہیں کرتا لہٰذا دنیا اس کی خیرات اور فلاحی کاموں سے پوری طرح واقف نہیں، اگر انگوار کیمپارڈ کی ذات کا مطالعہ کیا جائے تو وہ ایک ’’ کنجوس سخی، ، محسوس ہوتا ہے، وہ ایک طرف اپنے کسی ورکر کو ایک پنسل ضایع کرنے کی اجازت نہیں دیتا، وہ کاغذ کی دوسری پرت ضایع کرنے کے جرم میں اپنے ایم ڈی تک کو فارغ کر دیتا ہے جب کہ دوسری طرف وہ اربوں کھربوں ڈالر خیرات کر دیتا ہے، وہ شاید اس وقت دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد شخص ہو گا۔

مجھے انگوار کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا، اس انٹرویو میں اس نے دو دلچسپ باتیں کیں ، اس نے بتایا ’’ دنیا میں نوکری کرنے والا کوئی شخص خوشحال نہیں ہو سکتا، انسان کی معاشی زندگی اس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ اپنے کام کا آغاز کرتا ہے‘‘ اس کی دوسری بات اس سے بھی دلچسپ تھی، اس کا کہنا تھا ’’کامیابی اور ترقی کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں، اس کا کہنا تھا ’’اگر تعلیم سے روٹی کمائی جا سکتی تو آج دنیا کے تمام پروفیسر ارب پتی ہوتے‘‘ اس کا کہنا تھا اس وقت دنیا میں ساڑھے نو سو ارب پتی ہیں لیکن ان میں ایک بھی پروفیسر ، ڈاکٹر یا ماہر تعلیم شامل نہیں‘‘ اس کا کہنا تھا ’’دنیا میں ہمیشہ درمیانے پڑھے لکھے لوگوں نے ترقی کی، یہ لوگ وقت کی قدر و قیمت سمجھتے ہیں چنانچہ یہ لوگ ڈگریاں حاصل کرنے کی بجائے طالب علمی کے دور ہی میں کاروبار شروع کر دیتے ہیں چنانچہ ان کی کامیابی انھیں کالج یا یونیورسٹی سے اسٹور، کارخانے یا منڈی میں لے جاتی ہے‘‘ اس کا کہنا تھا وہ زندگی میں کبھی کالج نہیں گیا لیکن اس وقت اس کی کمپنی میں 30 ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین و حضرات کام کر رہے ہیں۔

یہ تعلیم یافتہ لوگ وژن، علم اور دماغ میں اس سے کہیں بہتر ہیں بس ان میں ایک خامی تھی، ان میں نوکری چھوڑنے کا حوصلہ نہیں تھا، انھیں اپنے اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں تھا‘‘ اس کا کہنا تھا ’’اگر کوئی شخص انگوار کے لیے کام کر سکتا ہے تو وہ خود اپنے لیے بھی کام کر سکتا ہے، بس اس کے لیے ذرا سا حوصلہ چاہیے‘‘ اس نے دنیا بھر کے نوجوانوں کو پیغام دیا ’’ترقی چیونٹی کے پاؤں لے کر پیدا ہوتی ہے لیکن جوان ہونے تک اس کے پاؤں ہاتھی جتنے بڑے ہو جاتے ہیں‘‘ اس کا کہنا تھا ’’دنیا میں ہر چیز کا متبادل موجود ہے لیکن محنت کا کوئی شارٹ کٹ نہیں‘‘ اس نے کہا ’’ دنیا کا کوئی کیمیائی عمل لوہے کو سونا نہیں بنا سکتا لیکن انسانی ہاتھ وہ طاقت ہیں جو دنیا کی کسی بھی دھات کو سونے میں بدل سکتے ہیں‘‘۔

اس نے کہا ’’ دنیا میں نکمے لوگوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں جب کہ کام کرنے والوں کے لیے پوری دنیا کھلی پڑی ہے‘‘ اس نے کہا ’’ہنر مند شخص کا ہنر اس کا پاسپورٹ ہوتا ہے‘‘ میں نے جب انگوار کے یہ خیالات سنے تو میں نے سوچا کاش میں یہ خیالات پاکستان کے ان تمام بے روزگار نوجوانوں تک پہنچا سکوں جو دن رات بے روزگاری کا رونا روتے رہتے ہیں، کاش میں ان نوجوانوں کو بتا سکوں اگر فارم ہاؤس کا ایک مزدور مسلسل محنت سے انگوار بن سکتا ہے تو پاکستانی نوجوانوں کے راستے میں کیا رکاوٹ ہے؟ یہ لوگ کامیاب کیوں نہیں ہو سکتے، انگوار نے کہا تھا ’’آگے بڑھنے کا راستہ انھیں ملتا ہے جو چلنا جانتے ہیں‘‘ میرا خیال ہے ہمارے نوجوانوں کو چلنے کا ہنر نہیں آتا۔

The post ترقی چیونٹی کے پاؤں لے کر پیدا ہوتی ہے appeared first on ا

Tuesday 20 October 2015

9 People Who Gave Everything To Pakistan

www.swatsmn.com

1. Abdul Sattar Edhi

13997052397c4ca-original-1
Abdul Sattar Edhi, is a prominent Pakistani philanthropist, social activist, ascetic and humanitarian. He is the founder and head of the Edhi Foundation, the largest non-profit social welfare organisation in world. Edhi has been helping the destitute and sick for more than 60 years, filling the hole left by a state that has largely neglected the welfare of its citizens. Funded by donations from fellow citizens, his 250 centers across the country take in orphans, the mentally ill, unwanted newborns, drug addicts, the homeless, the sick and the aged.

2. Bilquis Edhi

Missing_women17-1227x822
Bilquis Bano Edhi wife of Abdul Sattar Edhi, is a professional nurse and one of the most active philanthropists in Pakistan. She's called "The Mother of Pakistan". She heads the Bilquis Edhi Foundation. Her charity runs many services in Pakistan including a hospital and emergency service in Karachi. Together with her husband their charity has saved over 16,000 unwanted babies.

3. Agha Hasan Abedi

mi-bm996_bcci2_dv_20120109193749
In Pakistan, Abedi was seen as a modern Robin Hood, taking from the West and giving to the Third World. His bank built hospitals and schools in Pakistan, and the BCCI foundation gave millions of dollars in scholarships and research grants. Many of us who don’t  know about MR.AGHA HASAN ABEDI  also known as “Agha Sahab”   born in Lucknow (India), in a family of noble descent. When banks in Pakistan were nationalised in 1972, Agha went on to start the Bank of Credit and Commerce International (BCCI). Agha made sure that a majority of the employees were Pakistani nationals. Agha was a visionary. He donated Rs100 million to form the BCCI Foundation for Advancement of Science and Technology (FAST) in 1980 to promote computer science in Pakistan. The year 2000 saw this foundation create FAST National University of Computer and Emerging Sciences. Moreover, Ghulam Ishaq Khan Institute (GIKI) was also a brainchild of the same man.

4. Dr. Muhammad Ramzan Chhipa

tumblr_inline_nil7714xWn1rf0rvw
He is the man behind Chhipa welfare trust and is easily recongisable by his attire. Ramzan Chhipa is one of the leading philanthropists in Pakistan whose love for humanity forced him to leave everything else and dedicate his life for the poor and needy with the priority to serve and save human. His work initially focused on Karachi is now nationwide and has the largest Ambulance fleet. Ramzan Chhipa has established a network of centers to provide services in case of any emergency.

5. Ansar Burney

Ansar-Burney_1979267c
Ansar Burney needs no introduction. He is one man who is respected for what he does and what he stands for. Mr. Burney is a lawyer by profession and is Pakistan’s first human rights activist who stood up against brutalities against prisoners in Pakistani jails in 1980s. He has helped over 700, innocent prisoners from countries all around the world. These include persons locked up on false charges, those released from illegal prisons, sane persons illegally detained in mental asylums, illegal immigrants and those released from labor camps.. His work is not bounded by boarders, but truly linked with humanity. Ansar Burney is considered instrumental in stopping child abuse and human trafficking in to Middle East, where women were forced into prostitution and children used as camel jockeys.

6. Saylani Welfare Trust

11115861_1112315552127720_411709688712480142_n
Saylani Welfare International Trust is a Pakistani charity focusing primarily on feeding the homeless. It was established in May 1999 and is headquartered at Bahdurabad, Karachi, Pakistan. It was founded and headed by famous spiritual and religious scholarMaulana Bashir Farooq Qadri. With an estimated monthly expenditure of Pakistani Rupees above 30 million, Saylani Trust, provides food twice a day to more than 30,000 poor people through its 100 centers (generally known as Dastar-Khawan), most of them are serving in Karachi. Distribution of CNG rickshaws among the jobless citizens of Karachi in April, 2011 with the help of prominent business community of Karachi was the turning point in its popularity. 

7. Imran Khan

imran_khan_file_6702
Khan focused his efforts solely on social work. By 1991, he had founded the Shaukat Khanum Memorial Trust, a charity organisation bearing the name of his mother, Mrs. Shaukat Khanum. As the Trust's maiden endeavour, Khan established Pakistan's first and only cancer hospital, constructed using donations and funds exceeding $25 million, raised by Khan from all over the world. The hospital claims that 75 percent of its patients are being treated free of cost. In 2013, the hospital admitted 9,211 new cancer patients while the hospital recorded nearly 175,000 visits of cancer patients in the outpatient department. About 33,783 patients received chemotherapy and 53,451 got radiation treatment in 2013.
8.Sir Adamjee Haji Dawood
2649220244_8aa8f140c6
Sir Adamjee Haji Dawood (30 June 1880 - 27 January 1948) was a renowned businessman and philanthropist in British India and later Pakistan. Accumulating significant wealth, Adamjee went on to establish schools, colleges and hospitals in various parts of India and Burma. A philanthropist to the core, Adamjee never refused to support a deserving cause. In 1933, realizing the overriding need for education in his own ethnic Gujarati Memon community, he established the Memon Education & Welfare Society (MEWS) to support the financially deprived students. His charitable activities were greatly appreciated by Muslims in India and they demanded that he be officially recognized for it.

9. Shehzad Roy

Shehzad-Roy-in-Chicago-for-Zindagi-Trust-Flood-Disaster-Fund-Raising-25
In 2002, Shehzad established Zindagi Trust, a non-governmental, non-profit organisation that strives to improve the quality of education available to the average Pakistani. In 2003, the Trust pioneered the concept of I-am-paid-to-learn, a non-profit that offers working children an alternative to child labour; makes them aware of their rights as children, as workers and as citizens. With nearly 1800 students in schools across Pakistan, a 2.2-year accelerated primary education course is taught to the children who spend most of their days working in car-repair shops & other general stores in Karachi, Lahore & Rawalpindi. The programme also sponsors the continuing education of top graduates who are encouraged to enroll in mainstream secondary schools.

Sunday 18 October 2015

وکی لووز مونیومینٹس 2015: پاکستان کی دس بہترین تصاویر

www.swatsmn.com
سی نے حال ہی میں وکی پیڈیا وزٹ کی ہے تو انہوں نے ہر صفحے کے اوپر ایک بینر دیکھا ہوگا کہ دنیا کا سب سے بڑا فوٹوگرافی کا مقابلہ 2015 میں ایک بار پھر ہو رہا ہے۔
"وکی لووز مونیومینٹس" (Wiki Loves Monuments) نامی یہ مقابلہ حال ہی میں اختتام کو پہنچا ہے اور اس کا مقصد دنیا کے ثقافتی ورثے کی مفت دستیاب (فری لائسنس) فوٹوگرافی تھا۔
یہ مقابلہ سال 2010 سے منعقد کیا جا رہا ہے اور اسے باقاعدہ طور پر گنیز ورلڈ ریکارڈز کی جانب سے دنیا کا سب سے بڑا فوٹوگرافی مقابلہ قرار دیا گیا ہے۔
گذشتہ سال پاکستان پہلی بار اس مقابلے کا حصہ بنا تھا۔ 2015 کے عالمی مقابلے میں 33 ممالک سے 6,200 سے زیادہ افراد نے حصہ لیا جبکہ ستمبر کے مہینے میں 2 لاکھ 20 ہزار سے زیادہ تصاویر مقابلے میں جمع کروائی گئیں۔
پاکستان سے 325 کے قریب لوگوں نے حصہ لیا اور 2,200 تصاویر جمع کروائیں جس سے پاکستان مقابلے میں حصہ لینے والوں کی تعداد کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر رہا۔
اس پورے مقابلے کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ تمام تصاویر کا لائسنس مفت ہے، یعنی انہیں کسی بھی مقصد کے لیے (کمرشل مقاصد بھی) استعمال کیا جا سکتا ہے، جب تک کہ استعمال کرنے والا فوٹوگرافر کا حوالہ بھی دے۔
وکی لووز مونیومینٹس 2015 کا عالمی مقابلہ جیتنے والوں کا اعلان ہو چکا ہے، اور 2015 کے مقابلے میں جیت کا اعزاز کا پاکستان کے حصے میں آیا ہے. پاکستان کی جیوری کی جانب سے پاکستان کی نمائندگی کرنے والی سرِفہرست 10 تصاویر ذیل میں ہیں:

فیصل مسجد اسلام آباد۔ — فوٹو علی مجتبیٰ

مینارِ پاکستان لاہور۔ — فوٹو محمد اشعر

عباسی مسجد بہاولپور۔ — فوٹو اسامہ شاہد

اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور۔ — فوٹو حمزہ نیازی

اُچ میں بی بی جیوندی کا مزار۔ — فوٹو معز اسماعیلی۔

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور۔ — فوٹو عمر

نور محل بہاولپور۔ — فوٹو عثمان مسکی۔

ملتان میں شاہ رکنِ عالم کا مزار۔ — فوٹو بیسل

کراچی میں قائدِ اعظم کا مزار۔ — فوٹو محمد عرفان۔

خپلو محل، خپلو۔ — فوٹو صمد خان۔

Thursday 8 October 2015

قدرتی حسن سے مالا مال کیرتھر نیشنل پارک

پاکستان: قدرتی حسن سے مالا مال کیرتھر نیشنل پارک

(Asghar Karim, Karachi)
www.swatsmn.com


کراچی کی ہنگامہ خیز مشینی زندگی، بھاگ دوڑ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شب و روز کی مصروفیات نے یہاں کے لوگوں کو زندگی کے لطف سے تقریباً محروم کردیا ہے۔ ذہنی اور جسمانی تھکاوٹ نے لوگوں کے مزاج غیر محسوس طور پر بدل کر رکھ دئیے ہیں بعض اوقات ذہن معمولاتِ زندگی سے اس قدر اکتا جاتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کسی پرسکون اور خوبصورت مقام پر بھاگ جانے کو دل چاہتا ہے۔ یوں تو پاکستان فطرت کے حسین اور دلکش مناظر سے آراستہ ایک ایسی سرزمین ہے جہاں فلک بوس پہاڑی سلسلے بھی ہیں۔ وسیع و عریض ریگستان بھی سیاحوں کو اپنے حسن سے مسحور کرتی سرسبز وادیاں گنگناتے دریاؤں سے لے کر طویل سمندری ساحل سرسبز اور خشک پہاڑ گھنے جنگلات جو جڑی بوٹیوں سے لے کر نایاب جنگلی حیات سے پر ہیں۔ شمالی علاقہ جات کی تو بات ہی کچھ اور ہے مگر وہاں تک رسائی ہر کسی کے بس کی بات نہیں کبھی وقت اجازت نہیں دیتا اور کبھی معاشی وسائل خواہشات کا خون کردیتے ہیں لیکن پریشانی کی کوئی بات نہیں ہم آپ کو کراچی سے صرف 70 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک خوبصورت جگہ لے چلتے ہیں جہاں پہاڑ بھی ہیں، ریتیلے میدان بھی، جنگل بھی اور مختلف النوع جانور اور پرندے بھی، جی ہاں یہ کیرتھر نیشنل پارک ہے۔
 

کیرتھر نیشنل پارک کراچی سے صرف 70 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ کیرتھرنیشنل پارک کا قیام 28 اکتوبر 1973 کو عمل میں آیا۔ ہوا یوں کہ 1970 کے عشرے میں ورلڈ وائلڈ لائف (W.W.F) کے جارج شیلر نے کیرتھر رینج میں اسٹڈی کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو رپورٹ دی کہ اس علاقے میں بعض نایاب جانور موجود ہیں اگر انہیں بروقت تحفظ نہ دیا گیا تو ان کی نسل ختم ہوجائے گی۔ معاملے کی اہمیت کے پیش نظر اس پر سنجیدگی سے غور کیا گیا اور یوں 28 اکتوبر 1973 کو اس پارک کا قیام عمل میں آیا۔ ورلڈ وائلڈ لائف کے قوانین کے تحت اس نیشنل پارک کو کٹیگری پانچ میں شمار کیا گیا۔ اس کٹیگری میں شمار ہونے والے نیشنل پارک میں جنگلی حیات کے تحفظ کا مکمل اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہاں ملک کا سربراہ بھی کسی جانور کا شکار نہیں کرسکتا۔ پارک کے قیام کے وقت اس میں 48 جنگلی بھیڑیں 12 سو کے قریب سندھ آئی بگس اور ایک دو چنکارہ ہرن کے علاوہ کچھ تعداد میں چیتے بھی موجود تھے۔ سندھ وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ حکومت پاکستان اور چند عالمی اداروں کے تعاون سے یہاں جنگلی حیات کے تحفظ کے خاطر خواہ انتظامات کئے گئے۔ آج یہاں 15 سو کے قریب چنکارہ ہرن، 2 ہزار کے قریب جنگلی بھیڑیں اور تقریباً 4 ہزار کی تعداد میں سندھ آئی بگس موجود ہیں۔ ان تین کے علاوہ کیرتھر نیشنل پارک میں سیاہ گوش، صحرائی بلے، بھیڑیں، جنگلی چوہے، کانٹے دار چوہے، نیولے، چھپکلیوں، گرگٹ اور سانپوں کی کئی نایاب اقسام محفوظ اور قدرتی ماحول میں پروان چڑھ رہی ہیں۔ پرندوں کی بھی مختلف اقسام یہاں موجود ہیں جبکہ چڑیا سے لے کر راج ہنس تک تقریباً 700 اقسام کے پرندے سائبیریا، یورپ اور دیگر ممالک سے سرد موسم میں ہجرت کرکے اس طرف آتے ہیں۔ سرد موسم میں ہمالیہ کا سنہرا عقاب اور گرے ہپوکولیس جیسا خوبصورت پرندہ بھی یہاں دیکھا جاسکتا ہے۔ کسی زمانے میں یہاں گلدار (چیتے) بھی موجود تھے لیکن 1982 میں آخری چار چیتے ایک حادثے کی نذر ہوگئے۔

کیرتھر نیشنل پارک میں انتظامی حوالوں اور جنگلی حیات پر تحقیق کرنے والوں کی سہولت کے پیش نظر دو سینٹر، کار سینٹر اور کرچار سینٹر موجود ہیں جبکہ دو سب سینٹر بھی ہیں جن میں ایک تھانو احمد خان اور دوسرا بچانی سب سینٹر کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ جنگلی حیات پر تحقیق کرنے والوں کو حتی الامکان سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ مطالعاتی دورے پر جانے کے لئے ان کے دفتر جو کہ کراچی پریس کلب اور YMCA کے قریب واقع ہے سے پیشگی اجازت لینی پڑتی ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی ایڈونچر کلب نے اساتذہ کے لئے مطالعاتی دورے کا اہتمام کیا جس میں ڈی جے کالج، گورنمنٹ ڈگری کالج برائے طلباء نارتھ کراچی، جناح کالج، آدمجی سائنس کالج، گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم آباد، شپ اونر کالج، پریمئر کالج، قائد ملت کالج، بفرزون کالج ، ایس ایم سائنس کالج اور کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ شامل تھے۔
 

کیرتھر نیشنل پارک کے کھار سینٹر روانگی کے وقت ہمارا خیال تھا کہ وہاں جنگل میں دھول مٹی اور جھاڑ جھنکاڑ سے واسطہ پڑے گا، روشنی کے لئے ایمرجنسی لائٹس ، کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر ضروری ساز و سامان کے ہمراہ ہم سرجانی ٹاؤن والے راستے سے روانہ ہوئے۔ یاد رہے کہ کھار سینٹر کا ایک راستہ سپر ہائی وے پر گڈاپ کے قریب سے بھی جاتا ہے۔ جب ہم کھار سینٹر پہنچے تو ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی آراستہ ڈرائنگ روم، ڈائننگ ہال اور کئی کمروں پر مشتمل ایک بہترین ریسٹ ہاؤس ہمارا منتظر تھا اس جنگل ویرانے میں ریسٹ ہاؤس کی سب سے بڑی خوبی بجلی اور میٹھے پانی کی موجودگی تھی۔ اسٹور میں چھوٹے بڑے برتن، گدے، کمبل، چارپائیاں ایک بڑے مطالعاتی دورے کے شرکاء کی ضرورت کے لحاظ سے موجود تھیں۔ ریسٹ ہاؤس کے اردگرد بھی کئی چھوٹے چھوٹے مکمل رہائشی یونٹ موجود تھے جو ریسرچ کرنے والوں کے لئے بنائے گئے تھے۔

یہ ریسٹ ہاؤس کافی بلندی پر بنایا گیا ہے یہاں سے کافی دور تک کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔ بائیں جانب واقع حب جھیل بھی یہاں سے نظر آتی ہے۔ سامنے کی طرف وسیع و عریض جنگل میں بعض نایاب جانور مکمل قدرتی ماحول میں موجود ہیں۔ دائیں جانب نظر دوڑائیں تو بلند و بالا پہاڑے سلسلے حدِ نظر تک پھیلے نظر آتے ہیں۔ ریسٹ ہاؤس کی پچھلی طرف بڑی تعداد میں مور موجود ہیں۔

پارک میں ہماری رہنمائی کے لئے سندھ وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کے رفیق احمد راجپوت کراچی سے ہمارے ساتھ چلے تھے۔ جنگلی حیات کا مطالعہ ان کے پیشہ ورانہ فرائض میں شامل ہے۔ جنگلی حیات اور فطرت سے انہیں عشق ہے۔ اکہرے بدن کا یہ شخص جنگلی حیات کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا ثابت ہوا اپنے شوق کے باعث وہ مختلف ممالک کے نیشنل پارکس کے علاوہ تقریباً 15 ہزار فٹ بلند دنیا کی بلند ترین سطح مرتفع ’’دیوسائی‘‘ کی یخ بستہ فضاؤں میں کئی کئی مہینوں تک بھورے ریچھوں پر ہونے والی تحقیق میں شامل رہے۔ معروف پاکستان سیاح اور قلمکار مستنصر حسین تارڑ نے رفیق راجپوت کی معلومات اور ان کے کام سے متاثر ہوکر اپنی کتاب ’’دیوسائی‘‘ میں باقاعدہ ایک عنوان ’’رفیق راج بھوت‘‘ کے نام سے لکھا ہے۔ تارڑ کا خیال ہے کہ یہ شخص اپنی معلومات اور جنگلی حیات پر ریسرچ کرتے کرتے بھوت بن چکا ہے۔
 

اردو اور فارسی زبان کے شعرائے کرام نے ہرنی کی چال اور چشمِ غزال کی ایسی تعریف کی ہے کہ ہم غزال کی تلاش میں رفیق راجپوت کے ساتھ جنگل میں گھومتے پھرے اور آخرکار انہیں آزاد ماحول میں چوکڑیاں بھرتے دیکھ کر ہی دم لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس شوقِ دیدار میں ہمارے کئی ساتھیوں کا دم ہوا ہوگیا تھا۔ ذرا دیر سستانے کو رکے تو ایک پتھر پر بڑی خوبصورت سی رنگین چھپکلی نظر آئی۔ رفیق راجپوت نے بتایا کہ اسے مقامی زبان میں ’’ہنٹر کھنٹر‘‘ کہا جاتا ہے مقامی لوگ اس سے بہت خوف کھاتے ہیں ان کا خیال ہے کہ اگر یہ کسی کے بدن سے چھوجائے تو اس شخص کی موت فوری طور پر واقع ہوجاتی ہے۔ رفیق کا کہنا تھا کہ یہ محض وہم ہے یہ چھپکلی بے ضرر ہے ایک خاص بات جو رفیق راجپوت نے بتائی وہ یہ تھی کہ پورے پاکستان میں چار پیروں پر رینگنے والا کوئی جانور زہریلا نہیں ہے۔

کیرتھر نیشنل پارک کے وسیع علاقے اکثر مقامات پر گوٹھ بھی موجود ہیں جو جنگلی حیات کے تحفظ میں بورڈ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ ہماری ملاقات چاچا اسحاق سے کرائی گئی جنہوں نے اڑیال کے چند بچوں کو بڑی توجہ سے پالا تھا آج اڑیال کی ایک بڑی تعداد یہاں موجود ہے اور چاچا اسحاق سے اس قدر مانوس ہے کہ ان کی آواز سن کر بہت سے اڑیال دوڑتے ہوئے ان کے قریب جمع ہوجاتے ہیں۔ چاچا اسحاق بھی ان سے اپنی اولاد کی طرح محبت رکھتے ہیں۔
 

کیرتھر نیشنل پارک بڑی متنوع جگہ ہے مختلف المزاج لوگوں کی دلچسپی کا سامان یہاں موجود ہے۔ اگر آپ جنگلی جانوروں اور پرندوں میں دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ کے دیکھنے اور جاننے کے لئے یہاں بہت کچھ ہے۔ اگر جنگلی پودوں جڑی بوٹیوں پر تحقیق آپ کا میدان ہے تو میلوں پر پھیلا ہوا جنگل آپ کی تحقیقی صلاحیتوں کو چیلنج کررہا ہے۔ اگر آپ کوہ پیمائی کا شوق رکھتے ہیں تو کیرتھر کے بلند و بالا پہاڑی سلسلے آپ کو اپنا عزم و حوصلہ آزمانے کی دعوت دیتے ہیں اگر آپ مناظر قدرت کے دلدادہ ہیں اور شہر کے شور شغف سے دور کچھ وقت حسنِ فطرت کی آغوش میں گزارنا چاہتے ہیں تو بھی یہاں آکر آپ کو مایوسی نہیں ہوگی۔

کسی کو پسند کرنا کوئی گناہ تو نہیں

www.swatsmn.com

کسی کو پسند کرنا کوئی گناہ تو نہیں

(Faraz Tanvir, Lahore)

اپنی پسند کا اظہار کرنا کوئی ناقابلِ تلافی جرم خطا گنا ہ تو نہیں جبکہ اسلام میں بالغ لڑکے اور لڑکی کے لئے والدین کی رضامندی سے اپنی پسند سے شادی کرنے کی اجازت ہے تو پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں اسے ناکردہ گناہ کی پاداش میں عمر بھر محبت سے محرومی کی سزا سنا دی گئی ۔۔۔آ ج بھی ایسا ہوتا ہے اپنے حق سے آگاہی کا شعور دے کے بھی عورت کو اپنے حق کے اظہار کی اجازت نہیں یہ کیسا انصاف ہے یہ کیسی محبت ہے یہ کیسا بھلا ہے؟؟؟

وہ یونیورسٹی کے زمانے سے ہی اسے پسند کرنے لگی تھی وہ اس کی شخصیت میں کچھ ایسا تھا کہ وہ اپنے دل میں پنپنتے محبت کے جذبات کو روک نہ پائی پہلی نظر میں ہی اسے سنجیدہ مزاج ہونے کے باوجود اس کے چہرے پر ہمیشہ ایک خاص اور معصوم قسم کی مسکراہٹ نظر آتی ہے اچھے کردار اور اخلاق اس کی شخصیت کا خاص وصف ہے مجموعی طور پر اس کے یہ تمام اوصاف ہی اسے یونیورسٹی کے دیگر طلبا سے نمایاں کرتے ہیں-

وہ معصوم مسکراہٹ سنجیدہ طبیعت دراز قد سنہری رنگ روپ والا لڑکا اس کے من کو بھا گیا جب کہ وہ خود بھی کافی ذہین اخلاق و کردار اور ظاہری شخصیت کے اعتبار سے کافی معقول ہے شرم و حیا کی پیکر دکھائی دینے والی معصوم اور خوبصورت لڑکی جو صرف اپنے ساتھی طالبعلموں سے نوٹس وغیرہ کے علاوہ کوئی بات چیت نہ کرتی نہ ہی کسی سے زیادہ دوستی رکھتی بس کام کی حد تک ہی بے تکلف تھی اس سے زیادہ نہیں وہ ماسٹرز کے پہلے سال میں تھی اور وہ سینئیر تھا ایک ہی ڈیپارٹمٹ سے وابستہ ہونے کے باعث اسائنمنٹ وغیرہ کے سلسلے میں اکثر ایک دوسرے کی بات چیت ہوتی رہتی رفتہ رفتہ دونوں میں ذہنی ہم آہنگی اور یہ ذہنی ہم آہنگی رفتہ رفتہ دوستی اور پھر محبت کے رشتے میں بدل گئی لیکن وہ دونوں اس سب کے باوجود حد فاصل سے کبھی تجاوز نہ کیا اور کرتے بھی کیوں نہ دونوں نے فیصلہ کیا کے تعلیم مکمل کرنے کے بعد گھر والوں سے بات کر لیں گے یقیناً دونوں میں سے کسی کے گھر والوں کو احتراز نہیں ہو گا کیونکہ دونوں میں سے کسی میں بھی بظاہر کوئی ایسی بات وجہ تردید دکھائی نہیں دیتی بلکہ لگتا کہ جیسے اقدرت نے ان دونوں کو ایک دوسرے کے لئے ہپی تراشا ہو-

وقت اسی دوستی اور قربت میں پر لگا کر اڑتا گیا لڑکی ماسٹرز کرنے کے بعد شعبہ تعلیم سے وابستہ ہو گئی اور لڑکا بھی ایم فل کے بعد پروفیسر بن چکا ہے یونیورسٹی میں دو بہنوں کی شادی کے بعد اب لڑکے کے والدین کو اپنے ہونہار بیٹے کے سر پہ سہرا سجانے کا ارمان شدت پکڑ گیا -

دوسری طرف اب لڑکی کے گھر والوں کو بھی لڑکی کی شادی کی فکر ہوئی اب موقعہ تھا کہ دونوں اپنے یونیورسٹی میں کئے گئے ارادے کی تکمیل کے لئے عملی قدم اٹھاتے اور گھر والوں کو اپنی مرضی بتا کر راضی کرتے لڑکے نے جب اپنے والدین سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو وہ بخوشی مان گئے اور بیٹے کی پسند تک رسائی کے ذریعے کی جستجو میں لگ گئے-

دوسری طرف جبکہ لڑکے والے راضی ہیں پوری طرح تو لڑکی نے یہ درخواست کی کہ ہمارے گھر کا ماحول اتنا آزاد نہیں کہ کوئی لڑکی اپنی شادی کی بات خود کر سکے تو آپ اپنے والدین کو بھیج کر میرا رشتے کی درخوست گھر والوں کے سامنے پیش کر دیں اس پر بھی لڑکا راضی ہو گیا گھر کا ایڈریس لڑکی کے والد کا آفس کا نمبر وغیرہ لے لیا اب لڑکی کے والد سے بات کرنے کے لئے لڑکی کہ انکل جو کہ کسی نہ کسی طرح لڑکے کے والد کے واقف نکل آئے ان سے کہا کہ پہلے آپ اس سلسلے میں میرے بیٹے کے حوالے سے بات کریں تا کہ ہم باقاعدہ رشتہ لے کر ان کے گھر باآسانی جا سکیں-

لڑکی کے انکل نے بہت اعتماد سے لڑکی کے والد سے بات کی اور انہیں اپنی واقفیت کا حوالہ بھی دیا لڑکے اور والد کے بارے میں بھی بتایا کہ اچھے خاندان کے شریف لوگ ہیں مالی لحاظ سے بھی ٹھیک ٹھاک گھرانہ ہے مقدر والوں کو ایسے رشتے نصیب ہوتے ہیں-

لڑکی کے والد نے خاموشی سے انکل کی بات سنی اور پھر قدرے توقف کے بعد آنکھوں سے چشمہ اوپر بتا کے انکل کی طرف استعجابیہ نگاہ ڈالتے ہوئے دریافت کیا کہ انہیں کیسے پتہ چلا میرے گھر کا کہاں دیکھا ان لوگوں نے میری بیٹی کو ۔۔۔؟

انکل نے ساری تفصیل بیان کر دی فی الحال تو لڑکی کے والد خاموش رہے اور گھر جا کے دریافت کیا لڑکی نے اپنی والدہ کو ساری بات بتا دی اور کہہ یونیورسٹی میں ساتھ پڑھتے تھے اور اب میرے لئے اپنے گھر والوں کو بھیجنا چاہتے ہیں-

اتنا سننا تھا کہ لڑکی کے والد کا غصہ آسمان سے باتیں کرنے لگا اور انہوں نے فوراً حکم صادر فرما دیا کہ یہ لڑکی کل سے سکول نہیں جائے گی گھر بٹھاؤ اسے ہم نے تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجا تھا عشق لڑانے کے لئے نہیں مجھے اس کے ہاتھ میں موبائل فون یا لیپ ٹاپ نظر نہ آئے نہ ہی یہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھی نظر آئے یوں لڑکی کو اپنی پسند کے اظہار کی پاداش میں نظر بند کر دیا گیا اور آنے جانے پر پابندی لگادی یہ کہہ کے آئیندہ میں اس لڑکے کا تذکرہ نہ سنوں جس کا انتخاب بیٹی نے خود کیا ہے اپنے لئے اور اس کی شادی کب اور کہاں ہوگی اس کا فیصلہ میں خود کروں گا-

دوسری طرف لڑکے کے والد کو فون کر کے بپھرے ہوئے لہجے میں اعلانیہ انداز سے کہا کہ میری بیٹی کا رشتہ لینا چاہتے تو ہماری لاشوں سے گزرنا پڑے گا اور اگر آپ کے بیٹے نے میری بیٹی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو آپ کو برے نتائج بھگتنا ہوں کے پولیس میں رپورٹ کروادی جائیگی آپ کے بیٹے کے خلاف اب کوئی بچیوں والا شریف آدمی چاہے گا کہ اسکی اولاد کا رشتہ ایسی جگہ ہو جہاں معروف طریقے سے رشتہ بھیجنے پر دھمکیاں جواب میں ملیں لڑکے کے والد نے سمجھایا کہ بیٹا دیکھ یہ صورتحال ہے کیا تو اب بھی چاہے گا اس لڑکی کو اپنانا ہاں اگر لڑکا صرف اپنے بارے میں سوچتا تو شاید ڈٹ جاتا لیکن اس کی یہ تربیت نہیں کے وہ محض اپنی خوشی کے لئے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے لئے بھی مشکلات کھڑی کر دے سو دستبردار ہو گیا اپنی پسند سے کے اب جیسے آصپ کی مرضی آپ خود جو انتخاب میرے لئے کریں گے مجھے منظور ہوگا-

جبکہ لڑکی کے والد نے جلد ہی اپنے جاننے والوں میں اپنے خاندان میں بات کی اور اپنے بھائی کے بیٹھے سے جو عمر میں کافی بڑا بھی تھا لڑکی کے مقابلے میں جبکہ ظاہری صورت میں اور ذہنیت کے اعتبار سے بھی لڑکی کے انتخاب سے یکسر متضاد مگر وہ بھی مشرقی لڑکی تھی چپ کر کے رہ گئی سر جھکا لیا اپنے والدین کے فیصلے کے آگے جھک گئی -

اب جئیں گے دونوں اپنا اپنا مقدر اپنی مرضی کے خلاف کے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں لیکن کیا یہ دونوں وہ خوشی حاصل کر پائینگے زندگی سے جس کے خواب دیکھے تھے دونوں کی آنکھوں نے وہ بھی پورے وظوق پورے یقین کے ساتھ کہ ان کی زندگی کے فیصلے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو گی کوئی ایسے رشتوں سے انکار نہیں کرتا قسمت والوں کو ملتے ہیں اچھے رشتے آج کل تو ویسے بھی اچھے رشتوں کا کال پڑا ہے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں لوگ ایسے رشتے مگر نصیب مقدر قسمت سب کے دٰعوے اور خوش فہمیوں کو کھا جاتے ہیں چاٹ جاتے ہیں اور پھر انسان سوچتا رہتا ہے کیا تھا جو یوں ہوتا اور یوں نہ ہوتا تو کیا۔۔۔۔۔۔؟

زندگی گزر جاتی ہے وقتے گزر جاتا ہے اولاد بھی ہو جاتی ہے شادیاں بھی ہو جاتی ہیں لیکن اپنی محبت نہ پانے کا احساس زندگی بھر انسان کی دل میں خلش بن کے چبھتا رہتا ہے اور سچی خوشی سے محروم ہی رہتا ہے محرومِ محبت ہمیشہ زندگی میں واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں کہانیاں جنم لیتی رہتی ہیں لوگ کبھی جیتے جی مرتر ہیں اور کبھی مر مر کے جی رہے ہوتے ہیں اور ہم سوچتے ہیں کہ کیا اپنی پسند سے اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کرنا ایسا جرم ہے کہ جس کی سزا جسکی تکلیف انسان تاحیات سہتا رہتا ہے-

کہانی تو ختم ہو گئی لیکن میرے ذہن میں یہ باتیں گردش کر رہی ہیں کئی روز سے یہ سوال ذہن میں ابھر رہے ہیں-

جو آج نظرِ قارئین کرنے کی جسارت کی ہے ملاحظہ کیجیئے

یہ اتنی بڑی خطا تو نہیں کہ کوئی تعلیم یافتہ خاتون اپنی پسند سے شادی کا اظہار کر دے لیکن اس کے لئے تو خطا بن گئی اسے تو گمان بھی نہ تھا کہ اس کے گھر والے بیٹی کے لئے اننے اچھے خاندان کے برسر روز گار مذہبی اور شریف لڑکے کے آئے ہوئے رشتے کو یوں رد کریا جائیگا ناصرف انکار بلکہ لڑکے کے گھر والوں کو دوبارہ رشتے کی بات کرنے پر لڑکے کے خلاف پولیس میں رپورٹ کروانے کی دھمکی اور یہ کہنا کہ ایسا کرنے کے لئے ہماری لاشوں سے گزرنا ہوگااور بیٹی کو دی گئی تمام سہولیات اور مراعات سے محروم کردینا موبائل فون لیپ ٹاپ واپس لے لینا ایم اے پاس لڑکی جو کہ اب ایک استاد کی حیثیت سے اسکول میں فرائض انجام دے رہی تھی اسکول کا سکول چھڑوا دینا کیا کوئی لڑکی کے احساسات و جذبات کی کیفیت کا اندازہ کر سکتا ہے کہ جو اپنے حق سے آگاہی کا شعور رکھتے ہوئے اپنے حق کا اظہار نہ کر سکتی ہو بیٹی کی مرضی کے خلاف جبراً خاندان میں رشتہ طے کر دیا گیا تو کیا لڑکی خوش رہسکے گی تا عمر کیا عمر کے کسی حصے میں شاکی نہ ہو گی اس فیصلے پر جس سے رشتہ کردیا جانا کیا بھول پائے گا لڑکی کا شوہر یہ بات کبھی کہ اس کی شریک حیات یونیورسٹی میں کسی کو پسند کرتی رہی ہے اور شادی کی خواہشمند بھی رہی ہے ۔۔۔؟کیا بھول پائے گی اپنی پہلی محبت کو جب کہ رشتے سےانکار کی ماسوا اس بات کے کہ لڑکا اور لڑکی میں پسندیدگی ہو گئی -

لڑکی نے لڑکے سے درخواست کی کہ مجھے یقین ہے میرے والدین کو کوئی احتراز نہیں ہو گا کیونکہ لڑکا ذہین حافظ قران نیک شریف اسلامی سکالر ہے اور اب فارغ التحصیل ہونے کے بعد پنجاب کی ایک مشہور یونیورسٹی میں بطور پروفیسر درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہا ہے گھر بار بھی اچھا ہے دو بہنیں ڈاکٹر ہیں دو چھوٹے بہن بھائی بھی اعلٰی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جب کے والد بھی ایک مشہور کمپنی میں اعٰلی عہدے پر فائز ہیں معاشی اعتبار سے کوئی کمی نہیں تعلیم یافتہ مہذہب گھرانہ ہونے کے باوجود محض اس بنا پہ رشتے سے انکار کر دینا کہاں کا انصاف کیسی محبت اور کیسی شریعت ہے جبکہ ہمارے مذہب میں بالغ لڑکا لڑکی با اختیار ہیں اپنی پسند سے شادی کرنے کے لئے گھر والوں کی رضا مندی سے ۔۔۔کاش کے گھر والے اپنی اولاد کی خوشی پر راضا مندی ظاہر کر دیا کریں تو کافی حد تک اپنی اولاد کا مستقبل خوشگوار دیکھ سکتے ہیں اگرچہ آگے کے حالات اور قسمت کا کچھ پتا نہیں لیکن بخوشی اپنی اولاد کو اگر اولاد کی پسند واقعی قابل رشک ہو قابل قبول ہو تو ایسی جگہ رشتہ کرنے میں پس و پیش نہیں کرنا چاہئیے والدین کے لئے اولاد کی خوشی اور اولاد کے لئے والدین کی رضا مندی دونوں کے لئے ہی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے کاش کہ بخوشی راضی ہو جاتے اس کے والدین تو آج وہ اپنی شادی کے دن صرف والدین کے گھر سے رخصت ہونے پر آنسو نہ بہاتی بلکہ اپنی من چاہی خوشیوں کو پانے کے خیال سے بھی اس کا دامن دل بھرا ہوتاپر اس کا یہ جرم اس کے لئے خطا بن گیا جسکی پاداش میں اس سے بہت کچھ چھین لیا گیا مسکراہٹ سچی خوشی محبت بھرم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس ایک خطا بن کے رہ گئی اس کی یہ آرزو کے اپنی محبت کی شریک حیات بن سکتی ۔۔۔کاش۔۔۔؟

یوسف رضا گیلانی اور ایشوریا رائے

www.swatsmn.com

یوسف رضا گیلانی اور ایشوریا رائے

(Muhammad Anwer, Karachi)

پاکستان کے نووارد وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی کا ماننا ہے کہ وہ بھارتی اداکارہ ایشوریا رائے کے مداع ہیں اور ایشوریا رائے انہیں اس قدر پسند ہے کہ جب وہ جیل میں تھے تو اپنے لیپ ٹاب پر وہ اکثر ایشوریا رائے کی فلمیں دیکھا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی گلوکارہ لتا منگیشکر کے بھی وہ مداح ہیں۔

پاکستانی حکمرانوں کی دیگر خصوصیات میں ایک یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ پڑوسی ملک کے دیگر معاملات میں دلچسپی لینے کے ساتھ وہاں کے فنکاروں کے بارے میں بھی غیر معمولی دلچسپی لیا کرتے ہیں۔ لیکن نہ جانے کیوں بھارت کے سیاست داں ہمارے ملک کے فنکاروں کے بجائے صرف سیاست دانوں پر ہی توجہ دیتے ہیں؟ میں نے جب یہ سوال اپنے ایک صحافی دوست مسعود انور سے پوچھا تو اس نے برجستہ کہا کہ یار وہاں کے سیاست دان ہمارے ملک کے سیاست دانوں ہی کو فنکار سمجھتے ہونگے۔ 

ویسے اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ سیاست دان چاہے کسی ملک کا بھی ہو فنکارانا صلاحیتیں تو اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہیں۔ کیوں کہ ان کو اکثر و بیشتر اپنی انہیں صلاحیتون سے فائدہ اٹھانا پڑتا ہے۔

ہمارے دیس کے سابق صدر مرحوم ضیاءالحق صاحب بھارتی اداکار شتروگن سنہا کے اس قدر مداح تھے کہ انہوں نے سنہا صاحب کو پاکستان کے دورے کی دعوت بھی دی تھی امید ہے کہ وزیراعظم پاکستان یوسف گیلانی بھی اپنی پسند کے حوالے سے ایسا ہی کریں گے۔

بات ہورہی تھی بھارتی فنکاروں میں پاکستانی سیاست دانوں اور حکمرانوں کی دلچسپی کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے موجودہ صدر بھی اس معاملے میں کچھ کم نہیں ہیں وہ تو پورے بھارت سے ہی محبت کرتے ہیں اور وہاں کی اداکارہ رانی مکھرجی ان کو بہت ہی اچھی لگتی ہے ہوسکتا ہے یہ اطلاع غلط ہو مگر اطلاع یہ ہی ہے ۔۔۔۔۔۔ بہرحال جب میں نے اپنے دوست مسعود سے دریافت کیا کہ یار میاں نواز شریف کی دلچسپی کے حوالے سے کیا کہتے ہو؟ مسعود نے ایک گہرا سانس لیکر کہا کہ بھائی وہ نہ صرف وطن پرست ہیں بلکہ اپنے آس پاس ہی اپنے دلچسپی کے معاماملات چاہتے ہیں ان کی دلچسپی فنکاروں کے حوالے سے ایک گلوگارہ پر رہی ہے لیکن وہ بھی اپنے ہی وطن کی تھیں اب یہ واضع نہیں ہے کہ کیا صورتحال ہے اس دلچسپی کی؟

میں سوچ رہا تھا کہ اگر ہماری اگر خاتونِ اول کے اعزاز کی طرح ہمارے وزراء اعظم یا صدور کی پسندیدہ اداکاراؤں کو بھی کوئی اعزاز سے نوازنے کی روایت ہوتی تو یہ اعزازات زیادہ تر بھارتی اداکاراوں کے حصے میں آجاتے اور اگر کوئی بچ جاتا تو ایک آدھ ہماری گلوگارہ کو بھی مل جاتا۔ بہرحال شکر ہےکہ یہ روایت نہیں ہے۔ ورنہ بھارت ہمارے حکمرانوں کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اپنے ملک کے اداکاراؤں کی خدمت حاصل کرنے پر زیادہ توجہ دیتا نہ کہ کشمیر پر۔

دُنیا کی سب سےزیادہ جھوٹی عورت

www.swatsmn.com

دُنیا کی سب سےزیادہ جھوٹی عورت

(Zeeshan Raza Khan, Karachi)

گرمیوں کی لُو سے بھری ایک دوپہر تھی جب وہ اسکول سے گھر لوٹا، گھر میں داخل ہوتے ہی اسے محسوس ہوا جیسے ماں کے چہرے کا رنگ ایکدم تبدیل ہو گیا۔

ماں اسے دیکھ کر مسکرائی اور کہا، جلدی سے کپڑے بدل لو میں کھانا لاتی ہوں۔

جب وہ بیدلی سے کپڑے بدل کر آیا تو سامنےسبزی یا دال کی جگہ کچھ اسکی پسندیدہ ڈش، ایک پیالی میں میٹھا اور گلاس میں ستّو موجود تھا۔

اُس نے پوچھا امی آج اتنا کچھ؟ خیریت تو ہے؟

ماں نے کہا ، ہاں مہمان آئے تھے اس لئے یہ سب بنایا۔

اُس نے کہا، آپ بھی آ جائیں۔

ماں بولی ،"میں نے مہمانوں کے ساتھ کھا لیا تھا اب توپانی پینے کی جگہ بھی نہیں ،تم کھاؤ نا ٹھنڈا ہو جائے گا" یہ کہہ کر ماں پھر سے کچن میں چلی گئی۔

وہ روز منہ بنا کر کھانا کھاتا تھا لیکن آج پسند کا کھانا دیکھ کر جلدی جلدی سب چٹ کر گیا۔ برتن اٹھا کر وہ جیسے ہی کچن میں داخل ہوا تو اُس نے دیکھا کہ "دُنیا کی سب سےزیادہ جھوٹی عورت فرش پر بیٹھی کئی دنوں کے بھوکوں کی طرح باسی روٹی کو پانی میں ڈبو کر کھا رہی تھی۔"

ایک بڑے آدمی کی ڈائری سے چند سطریں، جسے دنیا تو چھوٹا آدمی کہتی ہے لیکن اسکی ماں تو ۔ ۔ ۔

MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan EXTED.pk

Admission open  MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan   http://facebook.com/ exted.p k http://www.exted.pk/ Lowest Fee ,   No IELTS...