Saturday 26 July 2014

افتخار چوہدری انصاف کے شکنجے میں اگءے .....Justice Iftikhar Chaudhry came into conflict

www.swatsmn.com
لاہور ( این این آئی) اپوزیشن لیڈر پنجاب میاں محمود الرشید نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے 2013ءکے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کے عوام سے حقائق بیان کئے اور ان تمام افرا د کو بے نقاب کررہے ہیں جن کا دھاندلی کے حوالے سے کہیں نہ کہیں کوئی کردار تھا۔ اپوزیشن لیڈر پنجاب نے پنجاب اسمبلی میں اپنے چیمبر میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری قوم کو درج ذیل سوالات کا جواب دیں، (1) چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہم نے 28مارچ 2013ءکو ہدایت جاری کی کہ کوئی ادارہ الیکشن عمل میں مداخلت نہ کرے ، اس ہدایت کے 5روز بعد3اپریل 2013 ءکو افتخار محمد چودھری نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر ز اور اسسٹنٹ ریٹرننگ آفیسر ز کو براہ راست خط کیوں لکھا جبکہ مذکورہ جوڈیشل افسران کی خدمات الیکشن کمیشن کے سپرد ہو چکی تھیں؟(2)کاغذات نامزدگی کے عمل کے دوران چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کی حیثیت سے افتخار محمد چودھری نے 5اپریل 2013ءکو کراچی ،6اپریل 2013ءکو حیدر آباد ، 7اپریل 2013ءکو لاہور 8اپریل 2013ءکو پشاوراور 14اپریل 2013ءکو کوئٹہ میں ریٹرننگ افسروں کو خطاب کیوں کیا؟اور انتخابی عمل جب عروج پر تھا تو چاروں صوبائی ہیڈ کوارٹر ز کے طوفانی دورے کیوں کئے؟(3)جوڈیشل پالیسی 2009ءکے مصنف افتخار محمد چودھری خود تھے جوڈیشل پالیسی 2009ءکے صفحہ 11اور پیراگراف 3پر لکھا ہے۔'in future the judiciary would avoid its involvement in the conduct of election'اپنی ہی بنائی ہوئی پالیسی کی خلاف ورزی افتخار محمد چودھری نے 3،5،6،7،8اور 14اپریل 2013ءکو کیوں کی؟انہوں نے کہا کہ کسی ایک شخص کی انا سے زیادہ کروڑوں ووٹرز کا حق زیادہ اہم اور مقدس ہے جسے ہائی جیک کر لیا گیااور تحریک انصاف نے مینڈیٹ کے ہائی جیکروں کو بے نقاب کرنے کا عزم کررکھا ہے۔
جواب مانگ لیے

غزہ پر بمباری،عمران خان بازی لے گئے

www.swatsmn.com
USA

Email: sgcentral@un.org 25 July 2014

THE GAZA MASSACRE

Excellency,

I write to you as the Chairman of the second largest political party in Pakistan and on behalf of the Pakistani nation that has always been the lead nation in UN peacekeeping across the globe. We have been watching in shock and horror as the state of Israel has unleashed the massacre of Palestinians in Gaza during the Muslim Holy month of Ramazan and the UN has stood by as a silent spectator. The death toll of the Palestinians in Gaza has risen above 800 and the Israeli aggression continues. The residents of Gaza cannot seek escape as Egypt has kept its border with Gaza sealed. The Egyptian authorities have also prevented medical supplies from going in to Gaza and the UN has issued not a word of protest.

Yet the UN’s primary responsibility is to maintain global peace and to prevent aggression. From the UN Charter’s preamble to Article 2:4 to Chapter V11, the UN has a duty to ensure that people are not persecuted and states do not aggress against other states and territories. The Office of Secretary General has a critical role to play in the maintenance of international peace and prevention of state aggression and war. Chapter XV Article 99 defines the special responsibility the SG has in this regard and Article 100.1 also calls on the SG not to be influenced by any state in the carrying out of his functions.

The SG has to ensure the credibility of the UN in times of crises and war. At present the UN is undergoing a major challenge in terms of sustaining its institutional credibility. The massacre of innocent women, children, and elderly by the state of Israel cannot simply be ignored by the UN and by yourself as its SG. Nor can the Israeli aggression under false claims of “self defence” be ignored – especially by the UN and its SG. The UN Charter clearly circumscribes the notion of self-defence in Chapter VII and the ICJ Advisory Opinion on the Israeli Wall further countered the Israeli claims of self defence. How can the bombing of a hospital, a cemetery and a UN school be regarded as acts of self-defence?

As the world watches Israel losing all sense of humanity and breaking all international norms of behaviour, it is the UN to which it looks for intervention. After the UN World Summit of 2005 the international community asserted the principle of the Right to Protect as part of humanitarian intervention. The primary responsibility for enforcing this rests with the UN and its SG. I call on you to immediately exercise this responsibility to prevent a genocide of the Palestinians in Gaza.

As SG your actions will decide whether the UN is to remain credible as the harbinger of peace, the protector of the weak and the institution that ensures aggression remains unsuccessful around the globe. After all the UN was founded “to prevent future generations from the scourge of war”. It is up to you to ensure that the UN fulfills the mandate given to it by the comity of nations.

My country has always been one of the prime supporters of the UN in its peace and security functions. My Party has justice and human dignity as underlying principles. We cannot now allow the UN to lose all credibility because one powerful state is allowing Israel to conduct aggression against Gaza with impunity. We have a right to demand that you as the SG enforce the UN Charter and play an active role in halting Israeli military aggression against the Palestinian population of Gaza. As SG you must also demand and ensure Egypt open its border with Gaza to allow medical assistance and essential supplies to go into Gaza. You have a duty to ensure that the plan of genocide of the Palestinians by the Israeli state is thwarted. It is time for you as the UNSG to fulfill this critical duty.

Yours,

Imran Khan

Chairman PTI

Imran Khan writes a letter to the United Nations, expressing his support for‪#‎Gaza‬ and to condemn the Zionist invasion. Do you think its a good step?

Friday 25 July 2014

قدرت اللہ شہاب کی برسی ہے



www.swatsmn.com

آج نامور ادیب قدرت اللہ شہاب کی برسی ہے



قدرت اللہ شہاب 26 فروری 1917ء کو گلگت میں پیدا ہوئے تھے۔ 1941ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کرنے کے بعد وہ انڈین سول سروس میں شامل ہوئے۔ ابتدا میں انہوں نے بہار، اڑیسہ اور بنگال میں خدمات انجام دیں۔

قیام پاکستان کے بعد وہ متعدد اہم انتظامی عہدوں پر فائز رہے جن میں حکومت آزاد کشمیرکے سیکریٹری جنرل، وفاقی سیکریٹری وزارت اطلاعات، ڈپٹی کمشنر جھنگ، ڈائریکٹر انڈسٹریز حکومت پنجاب اور گورنر جنرل غلام محمد، اسکندر مرزا اور صدر ایوب خان کے پرائیویٹ سیکریٹری، سیکریٹری اطلاعات، ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر اور سیکریٹری تعلیم کے مناصب شامل تھے۔

یحییٰ خان کے دور حکومت میں وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوکر اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو سے وابستہ ہوگئے۔ اس زمانے میں انہوں نے مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیل کی شرانگیزیوں کا جائزہ لینے کے لئے ان علاقوں کا خفیہ دورہ کیا اور اسرائیل کی زیادتیوں کا پردہ چاک کیا۔ شہاب صاحب کی اس خدمات کی بدولت مقبوضہ عرب علاقوں میں یونیسکو کا منظور شدہ نصاب رائج ہوگیا جو فلسطینی مسلمانوں کی ایک عظیم خدمت تھی۔

قدرت اللہ شہاب کا ایک اہم کارنامہ پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل تھا۔ وہ خود بھی اردو کے ایک اچھے ادیب تھے ان کی تصانیف میں یاخدا، نفسانے، ماں جی اور سرخ فیتہ کے علاوہ ان کی خودنوشت سوانح عمری شہاب نامہ شامل ہے۔

قدرت اللہ شہاب 24 جولائی 1986ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔

نا کامی کے اسباب ...............Reasons for failure

www.swatsmn.com

گم نام سے زابی تک کا سفر ..........Lost a journey of zaby

www.swatsmn.com


Wednesday 23 July 2014

یہ سسک کر جان دے دے یا خود کشی کر لے



www.swatsmn.com

یہ خاتون جرمنی کے شہر لائزگ کی رھنے والی تھی۔

پیشے کے لحاظ سے یہ ڈاکٹر تھیں۔

سن 1958ء کی بات ھے اس خاتون نے 30 سال کی عمر میں پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی‘ کوڑھ اچھوت مرض ہے جس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے‘ جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے‘ کوڑھی کے جسم سے شدید بو بھی آتی ہے‘ کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے ہاتھوں‘ ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں‘ یہ مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ جس انسان کو کوڑھ لاحق ہو جاتا تھا اسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا تھا اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔

پاکستان میں 1960ء تک کوڑھ کے ہزاروں مریض موجود تھے‘ یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا‘ ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں‘ یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں‘ لوگ آنکھ‘ منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے‘ لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے‘ ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے تھے‘ پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ کوڑھ یا جزام کے شکار مریض کے پاس دو آپشن ہوتے تھے‘ یہ سسک کر جان دے دے یا خود کشی کر لے۔

یہ انتہائی جاذب نظر اور توانائی سے بھر پور عورت تھی اور یہ یورپ کے شاندار ترین ملک جرمنی کی شہری بھی تھی‘ زندگی کی خوبصورتیاں اس کے راستے میں بکھری ہوئی تھیں لیکن اس نے اس وقت ایک عجیب فیصلہ کیا‘یہ جرمنی سے کراچی آئی اور اس نے پاکستان میں کوڑھ کے مرض کے خلاف جہاد شروع کر دیا اور یہ اس کے بعد واپس نہیں گئی‘ اس نے پاکستان کے کوڑھیوں کے لیے اپنا ملک‘ اپنی جوانی‘ اپنا خاندان اور اپنی زندگی تیاگ دی‘انہوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کر دیا‘ کوڑھ کے مریضوں اور ان کے لواحقین نے اس فرشتہ صفت خاتون کو حیرت سے دیکھا کیونکہ اس وقت تک کوڑھ کو اﷲ کا عذاب سمجھا جاتا تھا‘ لوگوں کا خیال تھا یہ گناہوں اور جرائم کی سزا ہے۔

چنانچہ لوگ ان مریضوں کو گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے تنہا چھوڑ دیتے تھے‘ ان کے لیے پہلا چیلنج اس تصور کا خاتمہ تھا‘ انھیں بیماری کو بیماری ثابت کرنے میں بہت وقت لگ گیا اور اس کے بعد مریضوں کے علاج کا سلسلہ شروع ہوا‘ اس عظیم کاتون نے اپنے ہاتھوں سے ان کوڑھیوں کو دوا بھی کھلاتی تھی اور ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھی جن کو ان کے سگے بھی چھوڑ گئے تھے۔ ڈاکٹر روتھ کا جذبہ نیک اور نیت صاف تھی چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ میں شفا دے دی‘ یہ مریضوں کا علاج کرتی اور کوڑھیوں کا کوڑھ ختم ہو جاتا‘ اس دوران ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی انھیں جوائن کر لیا‘ ان دونوں نے کراچی میں 1963ء میں میری لپریسی سینٹر بنایا اور مریضوں کی خدمت شروع کردی‘ ان دونوں نے پاکستانی ڈاکٹروں‘ سوشل ورکرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی ٹریننگ کا آغاز بھی کر دیا ۔
یوں یہ سینٹر 1965ء تک اسپتال کی شکل اختیار کر گیا‘ان ہوں نے جزام کے خلاف آگاہی کے لیے سوشل ایکشن پروگرام شروع کیا‘ ڈاکٹر کے دوستوں نے چندہ دیا لیکن اس کے باوجود ستر لاکھ روپے کم ہو گئے‘ یہ واپس جرمنی گئی اور جھولی پھیلا کر کھڑی ہو گئی‘ جرمنی کے شہریوں نے ستر لاکھ روپے دے دیے اور یوں پاکستان میں جزام کے خلاف انقلاب آ گیا۔ وہ پاکستان میںجزام کے سینٹر بناتی چلی گئی یہاں تک کہ ان سینٹر کی تعداد 156 تک پہنچ گئی‘ ڈاکٹر نے اس دوران 60 ہزار سے زائد مریضوں کو زندگی دی۔
یہ لوگ نہ صرف کوڑھ کے مرض سے صحت یاب ہو گئے بلکہ یہ لوگ عام انسانوں کی طرح زندگی بھی گزارنے لگے۔ ان کی کوششوں سے سندھ‘ پنجاب‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے جزام ختم ہو گیا اور عالمی ادارہ صحت نے 1996ء میں پاکستان کو ’’لپریسی کنٹرولڈ‘‘ ملک قرار دے دیا‘ پاکستان ایشیاء کا پہلا ملک تھا جس میں جزام کنٹرول ہوا تھا‘ یہ لوگ اب قبائلی علاقے اور ہزارہ میں جزام کا پیچھا کر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے اگلے چند برسوں میں پاکستان سے جزام کے جراثیم تک ختم ہو جائیں گے۔

حکومت نے 1988ء میں ان کو پاکستان کی شہریت دے دی‘ اسے ہلال پاکستان‘ ستارہ قائداعظم‘ ہلال امتیاز اور جناح ایوارڈ بھی دیا گیا اور نشان قائداعظم سے بھی نوازا گیا۔ آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔ جرمنی کی حکومت نے بھی اسے آرڈر آف میرٹ سے نوازا۔ یہ تمام اعزازات‘ یہ تمام ایوارڈ بہت شاندار ہیں لیکن یہ فرشتہ صفت خاتون اس سے کہیں زیادہ ’’ڈیزرو‘‘ کرتی ہے‘ جوانی میں اپنا وہ وطن چھوڑ دینا جہاں آباد ہونے کے لیے تیسری دنیا کے لاکھوں لوگ جان کی بازی لگا دیتے ہیں اور اس ملک میں آ جانا جہاں نظریات اور عادات کی بنیاد پر اختلاف نہیں کیا جاتا بلکہ انسانوں کو مذہب اور عقیدت کی بنیاد پر اچھا یا برا سمجھا جاتا ہے‘ جس میں لوگ خود کو زیادہ اچھا مسلمان ثابت کرنے کے لیے دوسروں کو بلا خوف کافر قرار دے دیتے ہیں۔

ان کا نام ڈاکٹر روتھ فاؤ ھے۔۔

ڈاکٹر روتھ کا عین جوانی میں جرمنی سے اس پاکستان میں آ جانا اور اپنی زندگی اجنبی ملک کے ایسے مریضوں پر خرچ کر دینا جنھیں ان کے اپنے خونی رشتے دار بھی چھوڑ جاتے ہیں واقعی کمال ہے ۔ ڈاکٹر روتھ اس ملک کے ہر اس شہری کی محسن ہے جو کوڑھ کا مریض تھا یا جس کا کوئی عزیز رشتے دار اس موذی مرض میں مبتلا تھایا جو اس موذی مرض کا شکار ہو سکتا تھا۔ ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے یہ خاتون‘ اس کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل پاکستان نہ آتے اور اپنی زندگی اور وسائل اس ملک میں خرچ نہ کرتے تو شاید ہمارے ملک کی سڑکوں اور گلیوں میں اس وقت لاکھوں کوڑھی پھر رہے ہوتے اور دنیا نے ہم پر اپنے دروازے بند کر دیے ہوتے‘ ہمارے ملک میں کوئی آتا اور نہ ہی ہم کسی دوسرے ملک جا سکتے۔ یہ لوگ ہمارے محسن ہیں چنانچہ ہمیں ان کی ایوارڈز سے بڑھ کر تکریم کرنا ہو گی۔

کاش میری شادی نہ ہوتی‘

www.swatsmn.com
جبری اور کم عمری کی شادیاں بنگلہ دیش میں بہت پرانا سماجی مسئلہ ہے۔
گو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن دیہی علاقوں میں یہ مسئلہ آج بھی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے۔
سلہٹ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں یہ سماجی برائی موجود ہے۔
برطانیہ میں رہنے والے زیادہ تر بنگالیوں کا تعلق سلہٹ سے ہے اور برطانیہ میں بھی بنگلہ دیشی برادری میں کم عمری اور زبردستی کی شادیوں کے واقعات پیش آتے ہیں۔
اگر مجھ میں اتنی جرت ہوتی کہ میں نہ کہہ سکتی۔ میں ہر روز اور ہر وقت یہ سوچی ہوں کہ کاش میں یہ کہہ سکتی کہ میری شادی کی عمر نہیں ہے اور میرے گھر والوں نے عقلمندی سے کام لیا ہوتا تو میری پڑھائی مکمل ہو گئی ہوتی اور آج میں اپنے پیروں پر کھڑی ہوتی۔‘"
شیلا
میں ایک ایسی لڑکی سے ملنے گیا جنھیں سیکنڈری سکول میں تعلیم کے دوران ایک بنگلہ دیشی نژاد برطانوی نوجوان سے شادی کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔
گو کہ ان کا خاندان پڑھا لکھا اور خوشحال تھا لیکن پھر بھی بہتر مستقبل کے لیے ان کی شادی برطانیہ میں کر دی گئی۔
وہ بھی اپنا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتی تھیں اس لیے ان کو شیلا کا فرضی نام دیا جا رہا ہے۔ جب وہ برطانیہ پہنچیں تو انھیں علم ہوا کہ ان کے شوہر کے ایک عورت سے ناجائز تعلقات ہیں جس سے اس کا ایک ناجائز بچہ بھی ہے۔
شیلا کے ہاں جب بچہ پیدا ہوا تو وہ بنگلہ دیش واپس آ گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ شادی کے لیے تیار نہیں تھیں اور یہ سب کچھ تین چار دن میں ہو گیا اور انھیں سوچنے تک کا موقع نہیں دیا گیا۔
شیلا اب بہت بیمار ہیں اور برطانیہ اپنے بچے کے پاس واپس جانا چاہتی ہیں۔
تاہم بنگلہ دیشی نژاد برطانوی شہریوں میں جبری اور کم سنی کی شادیوں کے واقعات میں حالیہ برسوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ سلہٹ میں برطانوی ہائی کمیشن بھی اس مسئلے کے حل کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔
سلہٹ میں خواتین وکلا کی ایک تنظیم کی علاقائی صدر سیدہ شیریں کا کہنا ہے ایسے واقعات کم تو ہوئے ہیں لیکن یہ کافی نہیں ہے۔
شیرین کا کہنا ہے کہ انتظامیہ اور غیر سرکاری تنظیمیں اس بارے میں بہت چوکس اور سنجیدہ ہیں۔ لڑکیوں میں بھی آگہی پیدا ہوئی ہے۔ ایسے بہت سے واقعات ہوئے ہیں جہاں لڑکیوں نے اپنے دوستوں کو مطلع کر دیا اور انھوں نے شادیاں رکوا دیں۔ لیکن غریب اور دیہاتوں میں بسنے والے طبقات میں اب بھی یہ سماجی برائی موجود ہے اور ابھی ایسے واقعات تسلی بخش حد تک کم نہیں ہوئے۔
سلہٹ شہر میں شادیوں کا اندراج کرنے والے میاں الدین احمد کا کہنا ہے اب برطانیہ سے بنگلہ دیشی اپنے بچوں کی شادیوں کے لیے بنگلہ دیش نہیں آ رہے جس طرح ماضی میں آتے تھے۔
لیکن وہ لڑکیاں جو کم عمری میں زبردستی کی شادی کا شکار ہوئی ہیں ان کی ساری زندگی اذیت بن جاتی ہے۔ شومی اور شیلا دونوں کو ایسے ہی تجربے سے گزرنا پڑا۔ شادی کے دس سال بعد بھی شیلا سوچتی ہیں کہ اگر ان کی کم عمری میں زبردستی شادی نہ کی جاتی تو آج ان ی زندگی کتنی مختلف ہوتی۔
شیلا کہتی ہیں: ’اگر مجھ میں اتنی جرات ہوتی کہ میں نہ کر سکتی۔ میں ہر روز اور ہر وقت یہ سوچتی ہوں کہ کاش میں یہ کہہ سکتی کہ میری شادی کی عمر نہیں ہے اور میرے گھر والوں نے عقلمندی سے کام لیا ہوتا تو میری پڑھائی مکمل ہو گئی ہوتی اور آج میں اپنے پیروں پر کھڑی ہوتی۔ میری زندگی تباہ ہو گئی اور اب میں اور میرا بچہ دونوں اس کی سزا بھگت رہے ہیں۔‘

Tuesday 22 July 2014

یوم آزادی والے دن ملک کو بادشاہوں سے آزاد کرائیں گے

www.swatsmn.com
پاکستان میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔عمران خان، فوٹو: فائل
پشاور: پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن ہم یوم آزادی والے دن ملک کو بادشاہوں سے آزاد کرائیں گے۔
پشاور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن جاری ہے، آئی ڈی پیز گھروں سے باہر ہیں اور ملک حالت جنگ میں ہے لیکن وزیراعظم اس مشکل وقت میں ملک سے باہر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نوازشریف سرکاری خرچے پر اپنے اہل خانہ کو لے کر 9 روز کے لیے عمرے پر گئے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ بڑے سے بڑا ڈاکو بھی الیکشن لڑتے وقت یہی کہتا ہے کہ میں عوام کے لیے انتخاب لڑرہا ہوں جبکہ منتخب ہونے کےبعد اسے عوام کا کوئی خیال نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ ہم یوم آزادی کے روز ملک کو بادشاہوں سے آزاد کرائیں گے۔
چیرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں آنے والی تبدیلی کو سراہتا ہوں تاہم صوبے میں اسکولوں اور اسپتالوں کا نظام تبدیل کرنے کے لیے ابھی وقت درکارہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا پر بہت ظلم کیا گیا ہے لیکن اب صوبے پر ظلم سہنے کا وقت گزر چکا ہے،وزیراعلیٰ پرویز خٹک صوبے پر ظلم کے خلاف کھڑے ہوں۔ فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ مسلم حکمران بزدل ہیں،فلسطین میں نہتے اور معصوم لوگوں کو مارا جارہا ہے لیکن مسلم حکمران خاموش ہیں کیونکہ ان کے مفادات مغرب میں ہیں وہ اسی لیے اسرائیلی بربریت پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔

کپتان ہم آپ کے مشکور ہیں!

www.swatsmn.com
افواج پاکستان سے میری محبت کی وجوہات کیا ہیں؟ اس ون ملین کیوسشن کا جب بھی جواب تلاش کرنا چاہا ، دل اور دماغ جو بہت کم معاملات پر یکسو ہوتے ہیں، انہیں اس کے جواب پر ہمیشہ یکسو ہی پایا۔ 14 اگست ، 23مارچ اور 6ستمبر کی فوجی پریڈوں میں افواج کا نظم و ضبط،قوت اور وطن سے محبت کا اظہار،یکجہتی اور ملکی سلامتی کیلئے جان قربان کرنے کا عزم و ارادہ ۔پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے یہ خوبصورت اور دلکش مناظر نے ہمیشہ روح کو چھوا،دل میں وطن سے محبت کی امنگ 
کو جلا بخشی ،لیکن پھر کیا ہوا۔

نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کیا چھیڑی ۔ ہم سے تو امن و امان کی ابتر صورتحال دے کر یہ تقریب بھی چھین لی ۔ایوان صدر کی کشادہ سڑک پر ہونے والی یہ تقریب گزشتہ 13برس سے نہیں ہورہی تھی ۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ دہشتگردی کے بڑے حملے کے خوف کے باعث اس وقت کے آمر نے جذبوں کو توانائی بخشے والی تقریب کی جگہ کنونشن سینٹر میں چھوٹی سے محفل سجانے کا اعلان کیا تھا ۔ مگر دوسری طرف ظفر اللہ جمالی،چوہدری شجاعت حسین،شوکت عزیز ، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف جیسے جمہوریت پسند وزرائے اعظم نے بھی کوئی توجہ نہ دی۔ لگتا ہے یہ سب بھی دہشتگردوں سے خوف زدہ ہوگئے تھے۔چلیں جو بھی تھا یہ جانیں اور ان کا رب جانیں۔
آپ عمران خان سے ایک سو ایک اختلاف کریں،یہ آپ کا جمہوری اور آئینی حق ہے ۔مگر میں کپتان کی سیاست کا قائل ہوگیا ہوں۔جس تقریب کے نہ ہونے سے دل گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے تڑپتا تھا وہ اس کے 14اگست کو ڈی چوک پر جلسے کے اعلان کے بعد بحال ہوگئی۔ اگر اس کے جلسے میں 10لاکھ افراد نہ بھی آئیں تو بھی وہ کامیاب ہوگیا ،اس نے اہل وطن کو ان کی روایتی پریڈ لوٹا دینے میں کلیدی کردار ادا کردیا ۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں،اگر یوم آزادی پر جلسے کا اعلان نہ ہوتا تو حکومت کنونشن سینٹر میں ہی تقریب کا اہتمام کرتی۔
نواز شریف کے ساتھی یوم آزادی کو متنازعہ بنانے کا کتنا ہی واویلا کرتے رہیں ، لیکن قوم کو وہ حاصل ہوگیاجو اس کا ہر اچھے اور برے وقت میں استحقاق تھا ، نواز شریف کی پارٹی نے سیاسی طور پر ہی سہی اعلان تو کیا ، وہ بھی ایسے وقت میں جب آپریشن ضرب عضب کے باعث دہشتگرد تلملا اٹھے ہیں۔ انہیں بڑا جانی اور اسٹریٹجک نقصان ہوا ہے۔ایسے میں دہشتگردوں کی جانب سے بڑی کارروائی کے امکان کو کوئی ذی شعور نظر انداز نہیں کرسکتا ہے۔ایسے میں اگر حکومت نے صرف عمران خان کو پسپاکرنے کیلئے ہی سہی یہ پتا پھینکا ہے مگر اس کا کریڈٹ تو کپتان کو ہی جائے گا ۔
حکومت اِس وقت بڑی مشکلات میں پھنسی ہوئی ہے،آپریشن ضرب عضب ، متاثرین وزیرستان ،کراچی کی بگڑتی صورتحال، بجلی پر وفاقی وزیر کی معافی،معاشی ترقی بذریعہ اعداد و شمار کی قلعی کا کھل جانا، سانحہ ماڈل ٹاؤن،قادری صاحب ، چوہدری برادارن کا انقلاب پر اسرار، عمران کا سونامی اور اس میں پی پی کا اعلان معاونت نے سیاست کا رخ بدل کر رکھ دیا ہے۔اسے سمجھ نہیں آرہا ، اب کیا کیا جائے؟۔بہرحال جو کچھ بھی ہو، پاکستانیوں کو اپنے جذبہ حب الوطنی کو جلا بخشنے کا ایک موقع میسرہورہا ہے۔دوست اور دشمن پاکستانی افواج کی طاقت ،ہیبت اور جلال کا وہ منظر ضرور دیکھیں گے ،جس سے دشمن کے دل میں خوف اور دوست کے دل میں اعتماد اور امید کی کرن پیدا ہوتی ہے، حوصلہ بڑھتا اور کچھ کر گزرنے کی قوت ابھرتی ہے۔
اس ساری بات کے بعد میں نے تو طے کرلیا ، 14اگست پر ڈی چوک سے براہ راست نشر ہونے والی فوجی پریڈ دیکھوں گا ۔ اور اس دوران رب رحیم سے دل مسلم کو زندہ تمنا دینے کی دعا کروں گا تاکہ روح تڑ پ جائے ،جسم گرما جائے۔کیا آپ بھی خود میں یہ جذبہ پاتے ہیں؟۔ذرا سوچئے!

Monday 21 July 2014

میونسپل کمیٹی مینگورہ ہر لحاظ اور ہر سطح پر ناکام ہوچکی ہے

www.swatsmn.com

(سوات ایس ایم این ) شباب ملی پی کے 80کے پریس سیکریٹری خواجہ عرفان اللہ نے ایک اخباری بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ میونسپل کمیٹی مینگورہ ہر لحاظ اور ہر سطح پر ناکام ہوچکی ہے۔ نا اہل اہلکار اپنے ناکامی چھپانے کیلئے مینگورہ شہر کے گندگی بائی پاس کے مقام پر دریائے سوات میں دال دیتے ہیں ۔ جس سے دریاے سوات کا صاف رہنا اب نا ممکن ہوگیا ہےں ۔ ٹی ایم او نے اپنے ساری ذمہ داری ان نااہل اہلکاروں پر ڈال دی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر صفائی نہیں کر سکتے تو کم از کم دریائے سوات کو گندہ نہ کریں ۔ ہم ویز بلدیات جناب عنایت اللہ صاحب سے پرزور اپیل کر تے ہیں ۔ کہ وہ اس نازک مسلئے کو خود حل کریں ۔ کیونکہ مینگورہ کے عوام کوئی پرسان حال نہیں ۔ 

کابل بھیجا کیونکہ کچھ ہونے والا تھا‘

www.swatsmn.com
پاکستان کی سیاسی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے ان کو اس لیے افغانستان بھجوایا تھا کیونکہ انھیں اطلاعات ملی تھیں کہ ’ادھر سے کچھ ہونے والا تھا‘۔
بی بی سی پشتو کو لندن میں ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے میں اچکزئی نے کہا کہ پاکستان وزیر اعظم نے انھیں بتایا کہ ایسی مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ’ادھر سے کچھ ہونے والا ہے۔‘
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ دونوں ممالک کو پوری دنیا کے سامنے یہ کہنا ہوگا کہ ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام کیا جائے گا۔
’ایک بار یہ کہہ دیا گیا تو افغان طالبان افغانستان کی حکومت اور پاکستانی طالبان پاکستان کی حکومت سے بات چیت کریں گے۔‘
یاد رہے کہ جولائی کے شروع میں افغانستان کے آٹھ رکنی فوجی وفد نے جی ایچ کیو میں ڈی جی ملٹری آپریشن میجر جنرل عامر ریاض سے ملاقات کی تھی۔
افغان وفد کی قیادت ڈی جی ملٹری آپریشنز میجر جنرل افضان امان کر رہے تھے جبکہ وفد میں افغان نیشنل سکیورٹی کونسل، افغان ملٹری انٹیلی جنس اور افغان بارڈر پولیس کے نمائندے شامل تھے۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق اس ملاقات میں افغان صوبوں کنڑ اور نورستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور وہاں پاکستان کے سرحدی علاقوں میں حملوں کے معاملات بھی بات ہوئی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سرحد پار سے گولہ باری کے واقعات کے بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستانی حکام نے افغان وفد کو آگاہ کیا کہ پاکستانی علاقے سے افغانستان میں کبھی بھی بلااشتعال فائرنگ نہیں کی گئی اور پاکستان افغان علاقے سے دہشت گردوں کے حملے یا فائرنگ پر ہی اپنے دفاع میں جوابی کارروائی کرتا ہے۔
ملاقات میں سرحدی رابطوں کے نظام اور سرحد پر تعاون کے طریقۂ کار بھی تفصیلی بریفنگ دی گئی جبکہ دونوں ممالک کے حکام نے موثر سرحدی میکینزم بنانے پر بھی اتفاق کیا۔

دنیا کی خطرناک ترین جگہیں

www.swatsmn.com

دنیا کی خطرناک ترین جگہیں

20 جولائی 2014 (22:38)

دنیا کی خطرناک ترین جگہیں
لندن (نیوز ڈیسک) ورکویانسک (Verkhoyansk) ماسکو سے مشرق کی جانب قریباً 3 ہزار میل سائبیریا کے دل میں واقع ہے۔ اس کا شمار دنیا کے سرد ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں سردیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں اور یہاں بہنے والا یانا دریا سال کے 12 مہینوں میں سے 9 اہ جما رہتا ہے۔ سردیوں میں یہاں درجہ حرارت منفی 40 سے منفی 60 ڈگری تک گر جاتا ہے۔پرانے دور میں لوگوں کو جلا وطن کرکے سزا کے طور پر یہاں بھیجا جاتا تھا۔ اب یہاں قریباً 1500 لوگ رہتے ہیں۔

کیو (Kivu) جھیل کا شمار افریقہ کی عظیم جھیلوں میں کیا جاتا ہے۔ یہ کونگو اور روانڈا کی سرحد پر واقع ہے تاہم اس کی طرح کے نیچے 2.3 ٹن کیوبک فٹ سے زائد میتھین گیس اور 60 کیوبک میل سے زائد کاربن ڈائی آکسائڈ موجود ہے۔ اگر یہ گیس ریلیز ہوجائے تو میتھین کا دھماکہ ہوگا اور جھیل میں سونامی آجائے گا جس کے باعث علاقے میں رہنے والے 20 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوجائیں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ گیس اسی صورت ریلیز ہوگی اگر کوئی آتش فشاں اس تالاب کے نیچے حرکت میں آجائے۔

چین کی منچن (Minqin) کاﺅنٹی دو صحراﺅں کے درمیان واقع ہے۔ اس قحط زدہ علاقے کو سال میں قریباً 130 روز مٹی کے تیز جھکڑوں کا سامنا رہتا ہے۔ ماہرین کے مطابق آہستہ آہستہ صحرا اس زمین کو اپنا حصہ بناتے جارہے ہیں۔ چینی حکومت نے اس علاقے کے قریباً 20 لاکھ رہائشیوں کو متبادل جگہ پر منتقل کرنے کی تیاری شروع کردی ہے۔

دلول (Dallol) ایتھیوپیا میں واقع ہے اور اسے جہنم کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا کی گرم ترین جگہوں میں سے ہے جہاں انسان بستے ہیں۔ گرمیوں میں درجہ حرارت 65 ڈگری سیلسیس تک جا پہنچا ہے جبکہ اوسط درجہ حرارت 35-40 ڈگری رہتا ہے۔ یہاں بے شمار آتش فشاں موجود ہیں اور زلزے بھی باقاعدگی سے آگے ہیں۔ اس شہر کو لوگ ”بھوتوں کا شہر“ کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔
  •  
1990ءمیں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے صومالیہ دو جنگجو گروپوں میں بٹ گیا ہے۔ بیماریوں اور کمزور حکومت کے باعث دہشت گرد گروہوں نے بھی طاقت پکڑ لی ہے۔ 2010ءسے 2012ءکے درمیان قحط سالی نے 260,000 سے زائد جانیں لے لیں۔ بین الاقوامی جریدے فارن پالیسی کے مطابق صومالیہ دنیا کی ناکام ترین ریاست ہے۔

پاپوا نیوگنی کے دارالحکومت دنیا کے ان شہروں جو کہ رہنے کے قابل ہیں میں 140 میں سے 137 نمبر حاصل کیا ہے۔ ریپ، قتل اور HIV اس شہر کی پہچان ہیں۔ 2013ءمیں ”پورٹ مورسے“ میں حادثے کا شکار ہونے والی خاتون کو گھسیٹ کر گاڑی سے نکالا گیا اور ریپ کردیا گیا۔ پولیس بھی جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتی ہے، ماہرین کے مطابق غربت اس جزیرے کی بدحالی کی بڑی وجہ ہے۔

  •  
یمن کا شہر ثناءایک زمانے میں دنیا کے معروف اور بہترین شہروں میں سے تھا لیکن اب یہاں دہشت گردی کا راج ہے۔ 2013ءمیں پے در پے بم دھماکوں میں 50 سے زائد افرد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اب بھی القاعدہ اور حکومت میں جنگ جاری ہے۔ دوسری جانب یہاں بچوں کی کم عمری میں شادی کا رواج بھی ہے۔ ہیومن رائٹس واج کے مطابق یمن میں قریباً 50 فیصد بچیوں کی شادی 18 سال سے قبل کردی جاتی ہے جبکہ ان میں سے 14 فیصد کو 15 سال سے قبل اس بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے۔
مونروویا (Monrovia) لیبیا کا بدحال علاقہ ہے۔ یہاں منشیات اور بیماریوں کا راج ہے اور والدین کی جانب سے اپنی ہی بچیاں فروخت کردینا انوکھی بات نہیں، اس علاقے کی آبادی قریباً 75 ہزار ہے

مریم نواز شریف کاسگنل توڑنے پر چالان

www.swatsmn.com

مریم نواز شریف کاسگنل توڑنے پر چالان

20 جولائی 2014 (18:49)

مریم نواز شریف کاسگنل توڑنے پر چالان
اسلام آباد (ویب ڈیسک) اسلام آباد ٹریفک پولیس نے وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی اور یوتھ بزنس لون سکیم کی چیئرپرسن مریم نواز کی گاڑی کا چالان کردیا۔ نجی ٹی وی چینل کے مطابق ایوب چوک میں مریم نواز کی گاڑی کو روکا گیا اور ایس ایس پی ٹریفک نے ڈرائیور کی طرف سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر گاڑی کا چالان کیا۔ دریں اثناءایس ایس پی ٹریفک عصمت اللہ جونیجو نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ مریم نواز کا چالان چار ماہ قبل بھی کیا تھا، ان کے علاوہ اسلام آباد میں دیگر وی آئی پیز کے بھی چالان ہوئے تھے، قانون سب کیلئے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ مریم نواز کا چالان انہوں نے خود کیا، جب وہ رات دو بجے کے قریب اپنی دو لینڈ کروزر گاڑیوں کے سکواڈ میں جارہی تھیں اور انہوں نے سرخ اشارہ توڑدیا۔

Sunday 20 July 2014

ملائیشین طیارہ پرخطر راستے سے کیوں گزر

www.swatsmn.com

ملائیشین طیارہ پرخطر راستے سے کیوں گزرا، نئے انکشافات سامنے آگئے

20 جولائی 2014 (21:45)

ملائیشین طیارہ پرخطر راستے سے کیوں گزرا، نئے انکشافات سامنے آگئے
لندن (نیوز ڈیسک) یورپین کاکپٹ ایسوسی ایشن کے صدر اور انتہائی تجربہ کار پائلٹ ”نیکو ووباچ“ کا کہنا ہے کہ ممکن ہے تباہ ہونے والی پرواز ایم ایچ 17 کو خراب موسم کی بجائے اپنا روٹ تبدیل کرنا پڑا۔ انکشاف کیا گیا ہے کہ ایم ایچ 17 کی جانب سے اختیار کیا جانے والا روٹ ملائیشین ایئرلائنز کے طیاروں کی جانب سے پچھلے چند روز کے دوران استعمال کئے جانے والے روٹ سے مختلف تھا۔ اس موقع پر جہاز روٹین کے روٹ سے کئی میل شمال کی جانب سفر کررہا تھا۔ پائلٹ نیکو کا کہنا ہے کہ معمول کے راستے پر شدید بارش اور گہرے بادل تھے اور ایسے موقع پر ایئرٹریفک کنٹرول کو اطلاع دے کر راستہ تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق فلائٹ پلان کے مطابق جہاز نے یوکرائن سے 35 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کی درخواست کی تھی لیکن دیگر ٹریفک کے باعث 33 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کی ہدایت دی گئی۔ ملائیشین ایئرلائن کے مطابق پائلٹوں کے لئے مقامی حکام کی ہدایات پر عمل کرنا لازم ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل متعدد بین الاقوامی اخبارات نے الزام عائد کیا تھا کہ ملائیشین ایئرلائنز کے جہاز نے تیل کی بچت کے لئے مختصر راستہ اختیار کیا تھا۔

انسان کی نظر میں محبت ہے یا ہوس

www.swatsmn.com

انسان کی نظر میں محبت ہے یا ہوس، سائنس نے جاننے کا طریقہ بتا دیا



انسان کی نظر میں محبت ہے یا ہوس، سائنس نے جاننے کا طریقہ بتا دیا
شکاگو (نیوز ڈیسک) سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آپ دیکھنے والے کی نظروں سے بتاسکتے ہیں کہ اس کے دل میں کیا ہے، محبت یا جنسی خواہش؟ یونیورسٹی آف شکاگو کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ عورتوں اور مردوں کی ملاقات کے دوران اگر کسی کی آنکھیں براہ راست کسی کی آنکھوں میں دیکھ رہی ہوں تو یہ سچی محبت کی نشانی ہے جبکہ اگر نظر آنکھوں کی بجائے جسم کے دیگر حصوں کی طرف جارہی ہو تو یہ جنسی خواہش کی علامت ہے۔ جریدے ”سائیکولوجیکل سائنس“ میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں پہلی نظر کی محبت کے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اگر پہلی نظر میں ہی آنکھوں سے آنکھیں ملیں اور دھیان کسی اور طرف نہ جائے تو غالب امکان ہے کہ پیار ہوگیا ہے اور ہم قدرتی طور پر ہی اس بات کا اندازہ محض آدھے سیکنڈ میں لگالیتے ہیں کہ کچھ خاص بات ہوگئی ہے۔ تحقیق میں سائنسدانوں نے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو خوبصورت تصاویر تیزی کے ساتھ دکھائیں اور اس دوران ان کے دماغ کا سکین بھی کیا گیا۔ نتائج سے ثابت ہو اکہ جب محبت کے جذبات دل میں ابھرے تو دیکھنے والوں کی نظریں آنکھوں کی طرف متوجہ تھیں جبکہ جنسی پسندیدگی کی صورت میں نظریں جسم کے دیگر اعضاءکی طرف تھیں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ دماغ نے آنکھوں یا جسم کی طرف دیکھنے کا فیصلہ محض ایک لمحے میں کیا۔

تاکہ کل کو کوئی بیٹی صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے بھی سو بار سوچے



www.swatsmn.com
’انصاف‘‘ ایسے بھی ہوتا ہے جیسے حلیمہ رفیق کے ساتھ ہوا!
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا!
’’چچ، چچ۔۔۔ اوہو۔۔۔ بہت افسوس ہوا۔۔۔ بہت غلط ہوا‘‘ اور بس، اپنی زندگی میں کھو گئے
خاتون کرکٹر حلیمہ رفیق نے تیزاب پی کر زندگی وار دی۔کارن اس کا ہوا عدالتی سمن اور عدالتی سمن کی وجہ، اس مصیبت کی ماری کی آہ وزاری، جو اس نے سماج کے ان درندہ صفت بھیڑیوں کے خلاف کی۔ وڈیرانہ ذہنیت کو بجا طور پر کالے انگریزوں کی کسی صنف سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ 2 کروڑ روپے ہرجانے کا دعوا کیا گیا تھا اس بیمارذہنیت نے، تاکہ کل کو کوئی بیٹی صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے بھی سو بار سوچے کہ عدالت الٹا اسے اس ہرجانے کے لیے کٹہرے میں بلائے گی، کہ اس کی نسلوں کی کل پونجی بھی اتنی قیمت کی نہ ہو گی۔ کیا ہوگا پھر؟ ہرجانہ نہ بھی دینا پڑے تو وکیل کرنے کے چکروں میں کتنی جان نکل جائے گی!۔
کھوکھلے نہیں ہو گئے، ہماری طرح ہمارے رویے بھی۔ انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ کوئی سانحہ ہو اور گریہ کرنے بیٹھ جائیں۔ نوحہ کہیں ، لفظوں سے الم کہیں، مگر سمجھ نہیں آتا کہ یہ لفاظی آخر جاتی کہاں ہے؟۔
پتھروں پر بھی کچھ نہ کچھ اثر ہو ہی جاتا ہے، میں نے پچھلے بلاگ میں یہی لکھا تھا کہ ہم اپنی بیٹیوں کو عربوں کے زمانہ جاہلیت کی طرح زندہ نہیں دفناتے، لیکن اسے جیون بھر کی موت ضرور دیتے ہیں۔ افسوس، چند ہی دن بیتے کہ ایک اور مثال سامنے آگئی۔ فرق اس میں یہ تھا کہ واردات بہ ذریعہ عدالت ہوئی!۔
خدا جانے یہ انصاف کے کارخانے کیا ہوئے۔ فرض ان کا یہ تھا کہ ظالم کو بیچ چوراہے پر ٹانگ دیں، نشان عبرت بنا دیں! مظلوم کی داد رسی ہو، سماج میں چین کا راج ہو۔ کمزور کی طرف اٹھنے والی طاقت ور کی میلی آنکھ نکال پھینکی جائے! مگر خدا جانے کہ قانون اور عدل کے یہ لگے بندھے اصول کیسے ہیں کہ لوگوں کو دعا دی جاتی ہے کہ اللہ عدالت، تھانہ، کچہری کے چکروں سے بچائے۔
لوگوں کا حافظہ کمزور نہ ہو تو انہیں یاد ہوگا کہ 2007ء میں ’’آزاد عدلیہ‘‘ کا شور ایسا مچا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ عوام پاگل ہوئے جاتے تھے، کہ چلو زندگی آسان ہوگی، مگر کیا ہوا؟ کیا ہوئی وہ آزاد عدلیہ؟ سماج کی کمزور حلیمہ کل بھی مر رہی تھی اور آج بھی وہ اپنی عزت بچانے کے جرم میں فنا کے گھاٹ اترنے پر مجبور ہے!۔
’’ہمیں انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں!‘‘
حقیقت ہے سیانے اُس وقت بھی کہہ رہے تھے کہ صاحبو، یہ عدلیہ کی نہیں اپنی آزادی کی جنگ ہے۔ تم جوان لوگ ہو ، نہیں جانتے کہ اتنی آسانی سے تبدیلی کسی پکے ہوئے پھل کی طرح جھولی میں آکر نہیں گرا کرتی! اب سمجھ میں آتا ہے کہ سارے ازخود نوٹس، عدالت طلبی، فرد جرم اور سلگتے ہوئے ریمارکس کس کی خوشنودی کے لیے تھے، نہیں پتا۔
حلیمہ مرگئی، نوحہ ہوگیا، کھاتے پیتے گھرانوں کی آنٹیاں شاید آج شام پریس کلب پر دیے بھی جلا ئیں۔ کل کوئی حقوق نسواں کی تنظیم موم بتیوں کی روشنیوں میں منرل واٹر کے جلو میں اس کی مذمت بھی کرے اور اللہ اللہ خیر صلا!
دوسروں پر کیا موقوف، اس لکھنے والے کی بساط اور اوقات بھی بس اتنی کہ جب بھی کوئی حلیمہ جبر کا شکار ہوئی اور قلم لے کر ماتم کیا اور یہ لکھی ہوئی سینہ کوبی آگے بڑھا دی۔ شائع ہو گئی، قارئین نے دل تھام کر پڑھی۔
’’چچ، چچ۔۔۔ اوہو۔۔۔ بہت افسوس ہوا۔۔۔ بہت غلط ہوا‘‘ اور بس، اپنی زندگی میں کھو گئے۔ حقیقت میں بے حسی اور غفلت کی نیند سو گئے۔ کسی اگلی حلیمہ رفیق کی موت ہو جانے تک

Saturday 19 July 2014

ouGov ranked Khan as the most admired person in Pakistan

www.swatsmn.com

a Pakistani production house announced to produce a film based on Khan's life named as Kaptaan: The Making of a Legend (Urduکپتان افسانوی کردار کی تشکیل‎). The title is Urdu for 'Captain' indicating his captaincy of the Pakistan cricket team which led them to victory in the 1992 cricket world cup. It follows the events that have shaped up his life. From being ridiculed in Cricket to being labeled as a playboy. From the tragic death of his mother, to his efforts and endeavors in building the first cancer hospital in Pakistan. From being the first Chancellor of the University of Bradford, to the building of Namal University.
He was Pakistan's most successful cricket captain,[3] leading his country to victory at the 1992 Cricket World Cup, playing for the Pakistani cricket teamfrom 1971 to 1992, and serving as its captain intermittently throughout 1982–1992.[4] After retiring from cricket at the end of the 1987 World Cup in 1988, owing to popular demand he was requested to come back by the president of Pakistan Zia ul Haq to lead the team once again. At the age of 39, Khan led his team to Pakistan's first and only One Day World Cup victory in 1992. With 3807 runs and 362 wickets in Test cricket, he is one of eight world cricketers to have achieved an 'All-rounder's Triple' in Test matches.[5]On 14 July 2010, Khan was inducted into the ICC Cricket Hall of Fame.[6]
In April 1996, Pakistan Tehreek-e-Insaf ("Movement for Justice") political party was established[7] and Khan became its chairman. He representedMianwali as a member of the National Assembly from November 2002 to October 2007, he was again elected on 11 May 2013, while his party gained 35 seats in the National Assembly.[8][9][10] Global Post mentioned him third in a list of nine world leaders of 2012 and recognized Khan as the face of the anti-drone movement in Pakistan.[11] According to Asia Society, Khan was voted as Asia’s Person of the Year 2012.[12] As the Pew Research Center, in 2012 a majority of Pakistani respondents offered a favorable opinion of Khan, the survey also revealed Khan's unparalleled popularity among youth.[13] On January 2014, YouGov ranked Khan as the most admired person in Pakistan and 12th globally.[14] In June 2014, American journalReal Clear named Khan as the eighth most attractive politician in the world

Awards and honours[edit]

Khan in Germany
  • Khan is featured in the University of Oxford's Hall of Fame and has been an honorary fellow of Oxford's Keble College.[82]
  • In 1976 as well as 1980, Khan was awarded The Cricket Society Wetherall Award for being the leading all-rounder in English first-class cricket.
  • In 1983, he was also named Wisden Cricketer of the Year
  • In 1983, he received the president’s Pride of Performance Award
  • In 1985, Sussex Cricket Society Player of the Year
  • In 1990, Indian Cricket Cricketer of the Year[31]
  • In 1992, Khan was given Pakistan's civil award, the Hilal-i-Imtiaz
  • On 8 July 2004, Khan was awarded the Lifetime Achievement Award at the 2004 Asian Jewel Awards in London, for "acting as a figurehead for many international charities and working passionately and extensively in fund-raising activities."[145]
  • On 7 December 2005, Khan was appointed the fifth Chancellor of the University of Bradford, where he is also a patron of the Born in Bradford research project.
  • On 13 December 2007, Khan received the Humanitarian Award at the Asian Sports Awards in Kuala Lumpur for his efforts in setting up the first cancer hospital in Pakistan.[146]
  • On 5 July 2008, he was one of several veteran Asian cricketers presented special silver jubilee awards at the inaugural Asian Cricket Council (ACC) award ceremony in Karachi.[147]
  • In 2009, at the International Cricket Council's centennial year celebration, Khan was one of fifty-five cricketers inducted into the ICC Hall of Fame.[148]
  • In 2011 he was given the Jinnah Award.
  • On 28 July 2012, Imran Khan was awarded an honorary fellowship by the Royal College of Physicians of Edinburgh in recognition of his services for cancer treatment in Pakistan, through the Shaukat Khanum Memorial Cancer Hospital and Research Centre.[149]
  • In 2012 according to Pew Research Center, seven out of ten Pakistani respondents offered a favourable opinion about Khan. The survey also revealed that Khan enjoys incomparable popularity among youth.[13]
  • He was the Asia Society's Person of the Year 2012.
  • In December 2012, GlobalPost ranked him third in a list of the top nine world leaders who influenced the world the most in 2012, behind Christine Lagarde and Barack Obama while more influential than Hillary ClintonKim Jong Unand Aung San Suu Kyi.[11]

MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan EXTED.pk

Admission open  MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan   http://facebook.com/ exted.p k http://www.exted.pk/ Lowest Fee ,   No IELTS...