Monday 15 February 2016

دو سال قبل جب میں نے ایک کمپنی میں ملازمت

www.swatsmn.com

دو سال قبل جب میں نے ایک کمپنی میں ملازمت کی تو وہاں کم و بیش سب ہی
خوش مزاج لوگ تھے. مگر ایک انگریز نوجوان ایسا بھی تھا جو اکثر میری بات کا
جواب نہیں دیتا، میں اسے آواز دیتا تو بعض اوقات وہ میری طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کرتا اور کبھی میں مذاق کرتا تو مسکراتا تک نہیں. میرے دل میں یہ بات
آگئی کہ کیسا بدمزاج آدمی ہے ، شائد اپنی گوری چمڑی پر نازاں ہے ..... یہاں تک کہ ایک سال یوں ہی گزر گیا ، پھر ایک روز اس نے کسی بات کے دوران مجھے بتایا کہ وہ سماعت سے جزوی طور پر محروم ہے ، اسلئے اکثر لوگوں
کی باتیں سن نہیں پاتا. مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا کہ میں کیسے اس سے اتنا
عرصہ بدگمان رہا !
میرے گھر سے قریبی علاقے میں ایک شخص مجھے اکثر نظر آتا ، وہ ڈبل روٹی یا چپس کھاتا تو کافی سارا کونے میں پھینک دیتا. میں سوچنے لگا کہ کیسا ناشکرا ہے، رزق کی بے حرمتی کرتا ہے، اسے ضائع کر دیتا ہے ، اگر نہیں کھانا ہوتا تو تھوڑا لیا کرے. یہی سوچتے ایک روز اس سے آنکھیں چار ہوئی تو اس نے مسکرا کر چمکتی آنکھوں کے ساتھ کہا کہ 'بھائی یہ دیکھو ، یہ میں کیڑوں کو کھانا ڈالتا ہوں ، انہیں کیسے رزق دیتا ہے' .. میں ٹھٹھک کر رک گیا ، میں جسے ناشکرا سمجھتا تھا، وہ تو کی ناتواں مخلوق کو رزق دینے کا ذریعہ
بنا ہوا تھا. ندامت سے میرا سر جھک گیا.

یہاں انگلینڈ میں رواج ہے کہ ہمارے دیسی لوگ اپنا نام بدل کر انگریزو جیسا بنا لیتے ہیں. جیسے جمشید بدل کر 'جم' بن جاتا ہے یا تیمور بدل کر ' ٹم ' رہ جاتا ہے وغیرہ .. ایک روز اپنے دوستوں سے ملنے ایک دوسرے علاقے گیا تو وہاں دیکھ ا کہ
سب گورے میرے ایک دوست محمد کو 'مو' کہہ کر بلا رہے ہیں. مجھے شدید
تکلیف ہوئی کہ کائنات کے حسین ترین نام کو بدل کر کیسا کرڈالا ؟ صرف اسلئے کہ گوروں سے مناسبت ہو جائے؟ .. اسی خیال کو دل میں دبائے رکھا لیکن کہا نہیں. واپس گھر آگیا. کچھ عرصہ بعد پھر ملاقات ہوئی اسی دوست سے، اس بار نہیں رہا گیا. میں نے کہا محمد تمہارا نام تو سب سے بلند ہے اور تم نے اسے بدل
کر 'مو' کر دیا ، ایسا نہ کرو ! ... میری بات سن کر اس نے جواب دیا کہ 'عظیم بھائی ، میں نے ایسا جان کر کیا ہے، جب کام پر ہوتا ہوں تو یہ لوگ غصہ یا مذاق میں مجھے گالیاں دیتے ہیں، میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے نبی کے نام کے ساتھ کوئی نازیبا کلمہ یہ کہیں، لہٰذا میں نے اپنا نام 'مو' لکھوا دیا تاکہ یہ 'مو' کو گالی دیں ، 'محمد' کو نہیں ! ...... یہ سن کر میری حالت ایسی تھی کہ کاٹو تو لہو نہیں ، میں دہل گیا کہ اگر
آج میری ملاقات نہ ہوتی اور میں اس سے یہ نہ پوچھتا تو ساری زندگی میں اپنے اس بھائی کے بارے میں بدگمانی سینے میں دبائے رکھتا. وہ حرکت جسکا کرنا مجھے گستاخی لگتا تھا ، وہ تو حب رسول کا اعلی نمونہ تھی.
میں اب جان گیا ہوں، میں اب سمجھ گیا ہوں کہ میری یہ آنکھ مجھے جو بھی دکھائے ، میں کسی کے بارے میں بدگمانی نہیں رکھوں گا ! میرے رب نے اپنی کتاب میں سچ کہا ہے کہ
.
سورہ الحجرات ١٢
''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، گمانوں سے بہت اجتناب کیا کرو، کیونکہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں؛ اور ٹوہ میں نہ لگو، ..

Wednesday 10 February 2016

شوہر مجھ سے محبت کرنے لگے!

www.swatsmn.com

شوہر مجھ سے محبت کرنے لگے!
ایک عورت گاوں کے عالم کو وہ روایتی عامل سمجهتی تهی جو گنڈے، تعویذاور عملیات کا کام کرتا ہے.
اس لیے جاتے ہی اس نے فرمائش کر ڈالی کہ مجہے ایسا عمل کر دیجیے کہ میرا خاوند میرا مطیع بن کر رہے اور مجھے ایسی محبت دے جو دنیا میں کسی عورت نے نہ پائی ہو.بندہ عامل هوتا تو جهٹ سے تعویذ لکهتا اور اپنے پیسے کهرے کرتا.لیکن وہ عالم جانتا تها کہ وہ عورت اسے کچھ اور ہی سمجہ کر آئی بیهٹی ہے.یہی سوچ کر عالم دین نے کها : محترمہ تمهاری خواہش بہت بڑی ہے اس لیے اس کی قیمت بهی بہت بڑی ہو گی.عورت نے کہا:میں بخوشی ہر طرح کی قیمت دینے کو تیار ہوں عالم نے کها: ٹهیک ہے تم مجهے شیر کی گردن سے ایک بال خود اپنے ہاتھ سے اتار کر لا دو تاکہ میں عمل شروع کرسکوں .
شیر کی گردن کا بال وہ بهی اپنے ہاتھ سے توڑ کر لادوں؟جناب آپ اس عمل کی قیمت روپوں میں مانگیے تو میں آپ کو ہر قیمت دینے کو تیار ہوں.مگر یہ تو آپ عمل نہ کر کے دینے والی بات کر رہے ہیں.آپ جانتے ہیں کہ شیر ایک خونخوار اور وحشی جانور ہے.اس سے پہلے کہ میں اس کی گردن تک پہنچ کر اس کا بال حاصل کر پاوں وہ مجهے پہلے ہی پهاڑ کهائے گا .
عالم نے کها : بی بی میں بلکل ٹهیک کہہ رہا ہوں اس عمل کے لیے شیر کی گردن کا بال لانا ہوگا.اور وہ بهی تم اپنے ہاتھ سے توڑ کر لاو گی.اس عمل کو بس اسی طرح کیا جا سکتا ہے.
عورت ویسے تو مایوس ہو کر وہاں سے چلی گئی .مگر پهر بهی اس نے اپنی چند ایک راز دان سہیلیوں سے مشورہ کیا.تو اکثر کی زبان سے سننے کو ملا کہ کام اتنا ناممکن بهی نہیں ہے، کیونکہ شیر تو اس وقت ہی خونخوار ہوتا ہے جب وہ بهوکا ہوتا ہے.شیر کو کهلا پلا کر رکهو تو اس کے شر سے بچا جا سکتا ہے اس عورت نے یہ نصیحتیں اپنے پلے باندهیں اور جنگل میں جا کر اپنی مراد پانے کے لیے آخری حد تک جانے کی ٹهان لی.
عورت شیر کے لیے گوشت پهینک کر دور چلی جاتی اور شیر آکر وہ گوشت کها لیتا وقت کے ساتھ ساتھ شیر اور اس عورت میں محبت بڑهتی چلی گئی اور فاصلے آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو گئے آخر وہ دن آن پہنچا جب عورت کو اس شیر کی محبت میں کوئی شک وشبہ نہ رہا. عورت نے گوشت ڈال کر اپنا ہاته شیر کے سر پر پهیرا تو شیر نے طمانیت کے ساتھ آنکهیں موندلیں .
یہی وہ لمحہ تها جب عورت نے آہستگی کے ساته شیر کی گردن سے ایک بال توڑا اور وہاں سے بهاگتے ہوئے سیدهی عالم دین کے پاس پہنچی بال اس کے ہاتھ پر رکهتے ہی پورے جوش وخروش کے ساته بولی: یہ لیجئے شیر کی گردن کا بال.میں نے خود اپنے ہاتھ سے توڑا ہے.اب عمل کرنے میں دیر نہ لگائیے ، تاکہ میں اپنے خاوند کا دل ہمیشہ کے لیے جیت کر اس سے ایسی محبت پا سکوں جو دنیا کی کسی عورت کو نہ ملی ہو.عالم دین نے عورت سے پوچها: یہ بال حاصل کرنے کے لیے تم نے کیا کیا؟؟
عورت نے جوش وخروش کے ساتھ پوری داستان سنانا شروع کی کہ وہ کس طرح شیر کے قریب پہنچی اس نے جان لیا تها کہ بال حاصل کرنے کے لیے شیر کی رضا حاصل کرنا پڑے گی اور یہ رضا حاصل کرنے کے لیے شیر کا دل جیتنا پڑے گا جبکہ شیر کے دل کا راستہ اس کے معدے سے ہو کر جاتا ہے. پس شیر کا دل جیتنے کے لیے اس نے شیر کے معدے کو باقدگی کے ساتھ بهرنا شروع کر دیا .اس کام کے لیے ایک بہت صبر آزما انتظار کی ضرورت تهی اور آخر وہ دن آن پہنچا جب وہ شیر کا دل جیت چکی تهی اور اپنا مقصد پانا اس کے لیے آسان ہو چکا تها.
عالم دین نے عورت سے کها: اے اللہ کی بندی میں نہیں سمجهتا کہ تیرا خاوند اس شیر سے زیادہ وحشی،اجڈ اور خطرناک ہے.تو اپنے خاوند کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیوں نہیں کرتی جیسا سلوک تو نے اس شیر کے ساتھ کیا ہے؟
خاوند کے دل کو جیت،مگر صبر کے ساتھ ویسا صبر جیسا شیر جیسے جانور کو دوست بنانے کے لیے کیا تها .تمہیں کسی تعویذ،گنڈے اور جادو ٹونے کی قطعا ضرورت نہیں. تمهارا صجر،تحمل اور محبت بهرا رویہ ہی ایسی چیز ہے جو تمهارے شوہر کے دل میں تمهاری جگہ بنا سکتا ہے.

Wednesday 3 February 2016

جس میں تم نہیں شامل وہ نظام بدلو

www.swatsmn.comجس میں تم نہیں شامل وہ نظام بدلو!
تحریر: آصف لاشاری |
قوموں کی زندگیوں میں، ان کی سماجی، تہذیبی اور تاریخی ترقی میں تعلیم کی اہمیت کی بات ہمیں ہر جگہ سننے اور پڑھنے کو ملتی ہے۔ آج ہم اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ تعلیم کس طرح قوموں کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور تعلیم کیا ہے اور اسے کیسا ہونا چاہیے۔ ہم سب اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان کی 60 فیصد سے زیادہ آبادی جو یومیہ 2 ڈالر سے کم پر گزارہ کرتی ہے اپنے بچوں کو غیر معیاری تعلیم دلانے کے بھی قابل نہیں اور درمیانے طبقے کیلئے بھی اب بڑھتی ہوئی مہنگائی اور تعلیمی اخراجات میں اضافے جیسے دوسرے مسائل کی وجہ سے اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ 2015ء میں پاکستان میں شرح خواندگی (خواندگی کی نام نہاد تعریف کے باوجود) مزید 2 فیصد کم ہوگئی ہے۔ پنجاب اور سندھ میں نجکاری کی پالیسی کو اپنایا جا رہا ہے اور سرکاری تعلیمی اداروں کو این جی اوز کے حوالے کیا جارہا ہے۔ پنجاب حکومت پانچ ہزار پرائمری سکولو ں کو پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو بیچنے جارہی ہے جس کے بعد آبادی کی ایک بڑی تعداد اپنے بچوں کو پرائمری تک بھی نہیں پڑھا پائے گی جس سے شرح خواندگی مزید کم ہونے کی طرف جا ئے گی۔ ہائی سکولوں اور کالجوں کو بھی بتدریج پرائیویٹائز کر کے تعلیمی شعبے کی ’خدمت‘ جاری ہے۔ اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان کے حکمران اپنے لوگوں کو تعلیمی روشنی سے روشناس کرانے کیلئے کتنے بے چین ہیں۔ صرف تعلیم کا شعبہ ہی نہیں پاکستان کا کوئی بھی شعبہ اٹھا کے دیکھ لیں وہ دن بدن زبوں حالی کا شکار ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور ہر طرف کرپشن کا شور سنائی دیتا ہے۔ تعلیم کا کاروبار عروج پر ہے اور اس کاروبار میں اربوں کھربوں کمائے جارہے ہیں۔ 
دوسرے تمام ریاستی اداروں کی طرح تعلیمی اداروں کو بھی جان بوجھ کر ناکام کیا گیا اور اس طرح پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو لوٹ مار کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ اور اس وقت کوئی بھی سیاسی پارٹی کسی بھی بنیادی عوامی مسائل کی بات نہیں کر رہی اور نہ ہی یہ امکان موجود ہے کہ مستقبل میں یہ ان مسائل کی بات کریں گے اور پھر ان مسائل کا کوئی حل ان حکمرانوں کے پاس موجود موجود بھی نہیں اورنہ ہی وہ عوامی بنیادی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ 
ان تمام مسائل کے علاوہ جو تعلیم سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دی جاتی ہے ہم اس تعلیم کے کردار کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ تعلیم یا علم کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ علم کا مطلب ہوتا ہے جاننا اور جاننے کے عمل کو تعلیم کہا جاتاہے۔ اس سے ہمارے ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ کیا جاننا؟ کیا جو پہلے سے جانا جا چکا ہے اسی کو جاننا علم کہلاتا ہے یا معلوم (جانے گئے سے) سے غیر معلوم (نہ جانے گئے) کی طرف بڑھنا۔ علم کا مطلب جانے گئے کو یاد کرنا اور دہرانا نہیں ہوتا بلکہ پہلے سے موجود علم اور حقائق کو سیکھتے ہوئے اور انہیں کل کی صورت میں جوڑتے ہوئے نئے علم کی طرف بڑھنا ہوتا ہے۔ علم بذات خود ایک تخلیقی عمل کا نام ہے جس میں کیا سوچنا ہے نہیں بلکہ کیسے سوچنا ہے سیکھایا جاتا ہے۔ سوچنے کا عمل سوال کرنے، تجسس اور تنقید کی آزادی سے جڑا ہوا ہے۔ 
اگر ہم اس سوال پہ غور کریں کہ علم کا ماخذ کیا ہے؟ ہماری سوچ، شعور یا علم کہاں سے برآمد ہوتا ہے؟ کیا ہمارا دماغ ٹیلی فون ریسیور کی طرح کہیں اور سے پیغامات موصول کرتا ہے؟ یا ہماری سوچ ہمارے اردگرد کے مادی حالات سے جنم لیتی ہے؟ ہماری سوچ، شعور یا علم کا ماخذ ہمارے گرد پھیلی ہوئی یہ مادی کائنات ہے اور ہم اپنی حسیات کی مدد سے اپنی مادی دنیا کا ابتدائی ادراک حاصل کرتے ہیں۔ پانچ بنیادیں حسوں سے ہم اپنے گرد کی دنیا کا ادراک حاصل کرتے ہیں اور اپنے علم کے ذریعے اس ادراک کی درستگی کا پتہ چلاتے ہیں۔ انسانوں نے آج تک کی تمام ترقی اپنی عملی جدوجہد کے ذریعے اپنے ماحول کو بدلتے ہوئے اور اپنے شعور کو پروان چڑھاتے ہوئے حاصل کی ہے۔ مارکس کے بقول عمل کے بغیر علم محض ایک عالمانہ بحث ر ہ جاتی ہے۔ آج انسانوں نے اپنی حسوں کو اور زیادہ طاقتور بنانے کے لیے بہت سے آلات ایجاد کر لیے ہیں مثلا ٹیلی سکوپ یا مائکروسکوپ جو بصارت کی حس کو مزید تقویت فراہم کرتی ہے۔ اس طرح انسان نے آج جدید ٹیکنالوجی اور ایجادات سے اپنے مشاہدات کو اور زیادہ طاقتور بنا لیا ہے مگر علم کا ماخذ ہماری مادی دنیا ہی ہے۔ 
ہمارے تعلیمی اداروں میں طلبہ کے ذہنوں سے یاد کرنے اور دہرانے کا کام لیا جاتا ہے اور سوال کرنے کی حوصلہ شکنی کر کے سیکھنے یا سوچنے کا عمل ختم کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے نام نہاد دانشوروں، معلموں اور پروفیسروں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ انسانی دماغ کو ئی خالی برتن ہے اور ان کا کام اسے اپنے نام نہاد علم سے بھرنا ہے اور اس طرح سے وہ طلبہ کے ذہنوں میں اپنے سمجھ بوجھ سے عاری لیکچر ٹھونسے جاتے ہیں اور کسی بھی قسم کے سوال کو رد کرنے یا اس کو روکنے کیلئے دھونس، دھمکی یا اپنے دھونس کے اوزار (سی پی، سیشنل مارکس اور ڈنڈہ وغیرہ) استعمال کئے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ طلبہ کو کم تر ہونے یا نااہل ہونے کا مسلسل احساس دلاکر ان کی توہین کی جاتی ہے۔ اور اس طرح سوال کی حوصلہ شکنی کر کے طلبہ کو سیکھنے کے عمل سے لاتعلق اور بیگانہ کر دیا جاتا ہے۔ چونکہ اساتذہ خود اسی نظام کی پیداوار ہوتے ہیں اور اپنے سطحی اور غیرعملی علم کی وجہ سے طلبہ کے سوالوں کے تسلی بخش جواب دینے کی اہلیت نہیں رکھتے اس لیے بھی وہ سوال کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ چونکہ وہ خود بھی سوچنے کے عمل سے دور ہوتے ہیں اس لئے اپنے طلبہ کو بھی اس سے دور رکھتے ہیں اور اس طرح ’’جیسے پڑھے ہیں ویسے پڑھائیں گے‘‘ کے اصول پر کاربند رہتے ہیں۔ اس تمام عمل سے تعلیم سے عدم دلچسپی پیدا ہوتی ہے اور طلبہ کی اکثریت پاس ہونے کیلئے رٹے لگانے پر ہی اکتفاکرتی ہے۔ جس طرح کا تعلیمی نصاب پڑھایا جاتا ہے اس سے متعلقہ موضوع کے خلاف اکتاہٹ اور بیزاری ہی پیدا ہوتی ہے اور طلبہ کی اکثریت ان مضامین کو فضول سمجھتی ہے جن کا ان کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ 
اگرہم غور سے اس تمام عمل کو دیکھیں توتعلیم کے اس طرح کے غیر تخلیقی عمل سے طلبہ کو مقلد اور مطیع بنانے کا کام لیا جاتا ہے۔ جب طلبہ کو سوال کرنے کی آزادی نہیں ہوتی اور اس طرح وہ سیکھنے کے عمل میں خود بطور فاعل شریک نہیں ہوتے تو وہ بے جان مفعولوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں جن کا کام باصبر ہو کر فاعل استاد کو سننا ہوتا ہے جو ان کے دماغوں کو اپنے علم سے بھرنے کا کام کررہا ہوتاہے۔ اس طرح کے تعلیمی عمل سے وہ جو دوسروں کو پڑھانا چاہتے ہیں پڑھاتے ہیں اور اسی طرح کے دوسرے ذرائع کا استعمال کر کے لوگوں کے دماغوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ یوں تعلیمی اداروں میں لوگوں کو بے جان حکم ماننے والے روبوٹس میں تبدیل کیا جاتا ہے اور غلام بننے اوربنانے کی تربیت دی جاتی ہے تاکہ جب وہ ان تعلیمی اداروں سے فارغ ہو کر فیکٹریوں، کارخانوں، کمپنیوں یا اداروں میں جائیں تو وہاں اپنے مالکوں کے احکام کو بجا لاسکیں۔ انسانوں کے سماجی حالات، معروض ان کے شعور پر اثرا نداز ہوتے ہیں اور اس میں تنقیدی شعور اجاگر کرتے ہوئے ان کے حالات کا درست ادراک فراہم کرتے ہیں۔ جب کوئی طالب علم روز بروز بڑھتی ہوئی فیسوں کو ادا کرنے میں مشکلات کا شکار ہوتا ہے یا بھاری بھر کم فیسیں ادا نہیں کر پاتا تو اس کے ذہن میں خود بخود اس نظام کے بارے میں، فیسوں کے اضافے کی وجوہات کے بارے میں سوالات جنم لیتے ہیں اور اس میں تنقیدی شعور کو اجاگر کرتے ہوئے سوچنے کے عمل کو شروع کرتے ہیں۔ اس طر ح معروضی واقعات اس کے شعور پر اثر انداز ہو کر اسے حالات کا صحیح ادراک مہیا کرنے میں مدددیتے ہیں۔ آج طلبہ کی اکثریت کے ذہنوں میں اس نظام کے متعلق سوال موجود ہیں اور روز بروز طلبہ کا ان حکمرانوں سے اور ان کے نظام سے اعتبار اٹھتا چلا جا رہا ہے اور طلبہ اور استحصال زدہ عوام کی اکثریت اپنے سوالات کا تسلی بخش جواب ڈھونڈ رہی ہے اور یہ انقلابیوں کا فریضہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں تک متبادل نظریات پہنچائیں، ان کے سوالات کے جوابات دیں اور انہیں اس نظام کے اند رموجود تضادات اور استحصال کوان کے سامنے بے نقاب کریں۔ 
تعلیم کا مقصد لوگوں کو مطیع اور مقلد بنانا نہیں بلکہ انہیں سوچنا سیکھانا ہونا چاہئے۔ چونکہ حکمران اور طاقتور طبقات کا فائدہ اکثریت کو جاہل اور بے شعور رکھنا ہوتا ہے اس لیے وہ تعلیم کو دوسرے ذرائع کی طرح اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور لوگوں کو غلام رکھنے کا کام کرتے ہیں۔ غلام داری میں زنجیریں غلاموں کے گردنوں اور پیروں میں ڈالی جاتی تھیں مگر سرمایہ داری میں وہ زنجیریں بدل کر ذہنی زنجیروں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ یہ ہم انقلابیوں کا فریضہ ہے کہ ہم ان طلبہ کو، جو اپنے سوالات کے جواب تلاش کرتے پھر رہے ہیں، وہ سوچ اور نظریات فراہم کریں جس سے وہ اپنے حالات کا صحیح ادراک حاصل کر پائیں اور اپنی زنجیروں کو دیکھ سکیں۔ ایسا صرف مکالمہ بخش تعلیم کے ذریعے ممکن ہے جس میں مسائل کو سوالیہ انداز میں پیش کر کے لوگوں کو سوچنے کے عمل میں بطور فاعل شریک کیا جائے اور یہ ہی وہ طریقہ ہے جس سے لوگوں کو اس دنیا کو بدلنے کی جدوجہد میں حقیقی معنوں میں شریک کیا جاسکتا ہے۔ ایسی ہی جدوجہد کے ذریعے اس سماج میں نہ صرف کروڑوں نا خواندہ افراد کوتعلیم کا بنیادی حق دلایا جا سکتا ہے بلکہ تعلیم کا معیار بھی کہیں زیادہ بلند کیا جا سکتا ہے۔
بولنے پر پابندی سوچنے پہ تعزیریں
پاؤں میں غلامی کی آج بھی ہیں زنجیریں 
آج حرف آخر ہے بات چند لوگوں کی 
دن ہے چند لوگوں کا رات چند لوگوں کی 
اٹھ کے دردمندوں کے صبح وشام بدلو بھی 
جس میں تم نہیں شامل وہ نظام بدلو بھی

اوہ ۔ تمہاری ماں کی صرف ایک آنکھ ہے”

www.swatsmn.com
ایک کہانی

میری ماں کی ایک آنکھ تھی اور وہ میرے سکول کے کیفیٹیریا میں خانسامہ تھی جس کی وجہ سے میں شرمندگی محسوس کرتا تھا سو اُس سے نفرت کرتا تھا ۔ میں پانچویں جماعت میں تھا کہ وہ میری کلاس میں میری خیریت دریافت کرنے آئی ۔ میں بہت تلملایاکہ اُس کو مجھے اس طرح شرمندہ کرنے کی جُراءت کیسے ہوئی ۔ اُس واقعہ کے بعد میں اُس کی طرف لاپرواہی برتتا رہا اور اُسے حقارت کی نظروں سے دیکھتا رہا ۔
اگلے روز ایک ھم جماعت نے مجھ سے کہا “اوہ ۔ تمہاری ماں کی صرف ایک آنکھ ہے”۔ اُس وقت میرا جی چاہا کہ میں زمین کے نیچے دھنس جاؤں اور میں نے ماں سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا ۔ میں نے جا کر ماں سے کہا “میں تمہارھ وجہ سے سکول میں مذاق بنا ہوں ۔ تم میری جان کیوں نہیں چھوڑ دیتی ؟” لیکن اُس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کیا کہہ رہا تھا ۔ میں ماں کے ردِ عمل کا احساس کئے بغیر شہر چھوڑ کر چلا گیا ۔
میں محنت کے ساتھ پڑھتا رہا ۔ مجھے کسی غیر مُلک میں تعلیم حاصل وظیفہ کیلئے وظیفہ مل گیا ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے اسی ملک میں ملازمت اختیار کی اور شادی کر کے رہنے لگا ۔ ایک دن میری ماں ھمیں ملنے آ گئی ۔ اُسے میری شادی اور باپ بننے کا علم نہ تھا ۔ وہ دروازے کے باہر کھڑی رہی اور میرے بچے اس کا مذاق اُڑاتے رھے ۔
میں ماں پر چیخا ” تم نے یہاں آ کر میرے بچوں کو ڈرانے کی جُراءت کیسے کی ؟” بڑی آہستگی سے اُس نے کہا “معافی چاہتی ہوں ۔ میں غلط جگہ پر آ گئی ہوں”۔ اور وہ چلی گئی ۔
ایک دن مُجھے اپنے بچپن کے شہر سے ایک مجلس میں شمولیت کا دعوت نامہ ملا جو میرے سکول میں پڑھے بچوں کی پرانی یادوں کے سلسلہ میں تھا ۔ میں نے اپنی بیوی سے جھوٹ بولا کہ میں دفتر کے کام سے جا رہا ہوں ۔ سکول میں اس مجلس کے بعد میرا جی چاہا کہ میں اُس مکان کو دیکھوں جہاں میں پیدا ہوا اور اپنا بچپن گذارہ ۔ مجھے ہمارے پرانے ہمسایہ نے بتا یا کہ میری ماں مر چکی ہے جس کا مُجھے کوئی افسوس نہ ہوا ۔ ہمسائے نے مجھے ایک بند لفافے میں خط دیا کہ وہ ماں نے میرے لئے دیا تھا ۔ میں بادلِ نخواستہ لفافہ کھول کر خط پڑھنے لگا ۔ لکھا تھا.
“میرے پیارے بیٹے ۔ ساری زندگی تُو میرے خیالوں میں بسا رہا ۔ مُجھے افسوس ہے کہ جب تم مُلک سے باہر رہائش اختیار کر چکے تھے تو میں نے تمہارے بچوں کو ڈرا کر تمہیں بیزار کیا ۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ تم اپنے سکول کی مجلس مین شمولیت کیلئے آؤ گے تو میرا دل باغ باغ ہو گیا ۔ مُشکل صرف یہ تھی کہ میں اپنی چارپائی سے اُٹھ نہ سکتی تھی کہ تمہیں جا کر دیکھوں ۔ پھر جب میں سوچتی ہوں کہ میں نے ہمیشہ تمہیں بیزار کیا تو میرا دل ٹُوٹ جاتا ہے ۔
کیا تم جانتے ہو کہ جب تم ابھی بہت چھوٹے تھے تو ایک حادثہ میں تمہاری ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی ۔ دوسری ماؤں کی طرح میں بھی اپنے جگر کے ٹکڑے کو ایک آنکھ کے ساتھ پلتا بڑھتا اور ساتھی بچوں کے طعنے سُنتا نہ دیکھ سکتی تھی ۔ سو میں نے اپنی ایک آنکھ تمہیں دے دی ۔ جب جراحی کامیاب ہو گئی تو میرا سر فخر سے بلند ہو گیا تھا کہ میرا بیٹا دونوں آنکھوں والا بن گیا اور وہ دنیا کو میری آنکھ سے دیکھے گا

MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan EXTED.pk

Admission open  MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan   http://facebook.com/ exted.p k http://www.exted.pk/ Lowest Fee ,   No IELTS...