Tuesday 6 December 2016

تلور کے شکار کی اندرونی کہانی

www.swatsmn.com

تلور کے شکار کی اندرونی کہانی
"""""""""""""""""""""""""""
یہ تلور کا شکار اتنا خاص کیوں ہے؟اور یہ شکار صرف عرب شہزادے ہی کیوں کرتےہیں گورے بھی شکار کے بہت شوقین ہوتے ہیں لیکن کبھی سنا نہیں کہ شکار کے لئے وہ یہاں آۓ ہوں ویسے بھی ایک معمولی پرندے کیلئے عربوں کے اربوں کی ضرورت کیوں پڑتی ہے اور یہ شکار پاکستان انڈیا اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں میں ہی کیوں کیا جاتا ہے تلور تو ایک آزاد پرندہ ہے سال میں دو دفعہ اپنا سفر ٹھنڈے ممالک سے گرم ممالک اور پھر گرم سے ٹھنڈے ممالک کی طرف کرتے ہیں اس سفر کے دوران دنیا کے بیسوں ممالک سے گزرتے ہیں جن میں عرب ممالک بھی شامل ہیں پاکستان میں مقامی لوگ بھی اس کا شکار کرتے ہیں مجھے خود ایک دفعہ بہاولپور کے ایک دوست کے ساتھ شکار کا اتفاق ہوا تھا اور تلور کھانے موقعہ بھی ملا ذائقہ میں گوجرانوالہ سے ملنے والے چڑوں سے زیادہ کمال نہیں تھا اور مجھے ذاتی طور پر اس میں کوئی ایسی خاص بات نظر نہیں آئی کہ اس کے شکار کے لئے اتنی محنت یا سرمایا خرچ کیا جائے پھر بھی عرب شہزادے اس شکار کے اتنے شوقین کیوں ہوتے ہیں اور یہاں آکر ہی کیوں حالانکہ ان کو شکار زندہ ی مردہ ان کے ممالک میں بصد خوشی پہنچایا جا سکتا ہے لیکن اندر کی کہانی اس شکار سے بھی زیادہ ہولناک اور بربریت سے بھری ہے پچھلے دنوں میری ملاقات بہاولپور میں عرب شہزادوں کی سکیورٹی پر معمور ایک سکیورٹی آفسر سےہوئی جو ایک ریٹائر میجر تھے اور اسلام آباد میں کوئی نئی جاب تلاش کر رہے تھے جبکہ ان کا کہنا تھا کہ وہاں وہ دو لاکھ کی تنخواہ لیتے تھے میں سوال کیا جاب کیوں چھوڑی ؟ میجر صاحب نے جواب دیا فوجی ہوں ضمیر گوارہ نہیں کیا میرے لئے جواب حیرت انگیز تھا لیکن جو کچھ ان سے سنا پیش خدمت ہے ۔ سکیورٹی آفیسر کی ذمہ داری ہوتی ہے مہمان کو ائیرپورٹ سے لے اور ہر لمحہ اس کے ساتھ رہے اور اسے واپس ائیرپورٹ پر بحفاظت پہنچائے اور مہمان ہر وقت اس کی نظر میں رہے لہذا اس سے زیادہ کسی مہمان کی ذاتی مصروفیات کو کوئی نہیں جانتا ہم سب نے کبھی غور کیا ہے کہ عرب شہزادے جب بھی شکار پر آتے ہیں اکیلے کیوں آتے ہیں ان کے ساتھ ان کی فیملی یا بیویاں کیوں نہیں آتی کیا ان کو تلور اور ہرن کا گوشت پسند نہیں کہانی کچھ یوں ہے شہزادے جب شکار گاہ میں آتے ہیں تو محل سے دور خیمہ بستی قائم کی جاتی ہے جہاں یہ دوپہر کے بعد شکار شروع کرتے ہیں شکار میں شکرے گھوڑے کتے اور باز استعمال ہوتے ہیں شکار مغرب سے پہلے ختم ہو جاتا ہے پھر مغرب کی نماز کی با جماعت ادائیگی ہوتی ہے اور شکار پکایا جاتا ہے باربی کیو 'ہنڈی کڑھای 'سٹیم روسٹ کے ساتھ ساتھ ہزاروں طرح کے میٹھے اور ہریسہ اور پھر عشاء کی با جماعت نماز سے پہلے اسے کھا لیا جاتا ہے پھر شہزادے اپنے اپنے خیموں کا رخ کرتے ہیں جہاں حکومت پاکستان 'مقامی انتظامیہ اور لوگوں کے تعاون سے ان شہزادوں کی نفسانی حوس پوری کرنے کیلئے کم عمر مقامی لڑکیوں کو پیش کیا جاتا ہےاس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے لڑکیاں مقامی یعنی پاکستانی ہوں کسی کی عمر بارہ یا چودہ سال سے زیادہ نہ ہوں شہزادوں کو پیش کرنے سے پہلے ان پاکستانی بیٹیوں کو مشک و عنبرسے نہلادھلا کر خاص ٹریننگ دی جاتی ہے کہ شہزادوں کو کسی طرح کی مزاحمت یا پریشانی کا سامنا نہ ہو اندر کے حالات تو کوئی نہیں جانتا کہ ان بچیوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے لیکن وہی ہوتا ہوگا جو ایک باز ایک ننھی سی چڑیا کے ساتھ کرتاہے میجر صاحب نے کہا میں خیموں کے باہر وہ آوازیں سنی تھیں جو کسی عقوبت خانے سے آتی ہیں اس تجربے کو بتاتے ہوئے ایک فوجی کی آنکھوں میں آنسو تھے خود سوچ لیں جہاں ایک فوجی کی ہمت جواب دے گئی وہاں ظلم کس نہج پر ہوگا بربریت کیسے محو رقصاں ہو گئی شیخ زید ہسپتال کے ڈاکٹر بھی اس بات کے گواہ ہیں جب ایمرجنسی میں یہ کم سن پاکستانی بیٹیاں گہرے اندرونی زخموں کی وجہ سے کئی کئی دن ہسپتال میں گزارتی ہیں اور کئ تو اپنی جان سے جاتی ہیں ۔ میرا پوری قوم سے سوال ہے کیا ہم دلال ہیں یا یہ ملک ہیرا منڈی ہے چند سکوں اور ویزوں کی مرعات کے بدلے ہم اپنی بیٹیاں بیچ دیتے ہیں کس کام کا ہمارا ایٹم بم کس کام کی آزادی جو ہزاروں جانیں دے کر ملی تھی کہاں جاتی ہے غیرت قومی جب یہ شہزادے آپس میں بیٹھ کر پاکستانی قوم کی عزت اور توقیر کی دھجیاں اڑاتے ہوں گئے ہم جن ممالک کے شہزادوں کے سامنے کمر تک جھک کا کورنش بجا لاتے ہیں ان کا پورا ملک پاکستان کے ایک شہر سے بھی چھوٹا ہوگا اور کمزور اس قدر کے اگر ایک بریگیڈ فوج بھیج دی جائے تو جنگ لڑے بغیر ہیتھار ڈال دیں گئے لیکن میرے خیال میں قصور ان شہزادوں کا نہیں قصور ہمارا ہے کیونکہ جب آپ قومی عزت و غیرت کو تھال میں رکھ کر سر بازار کھڑے ہوں گئے تو خریدار تو کوئی بھی ہو سکتا ہے ویسے اتنی بےعزتی اور بے توقیری کے بعد ہمیں یہ اٹیم بم اپنے دالحکومت میں رکھ کر چلا لینا چائے شاید یہاں کوئی بھی قوم دوبارہ آباد ہو وہ ہماری طرح اس زمین پر بوجھ نہ ہو


تحریر انعام ملک

Monday 28 November 2016

بریکنگ نیوز کے عادی میڈیا

www.swatsmn.com

پاکستان کے دیسی میڈیا کا آخری وقت تک بس نہیں چلا کہ خود ہی نئے آرمی چیف کا تقرر کر دے اور اگر ایسا واقعی ممکن ہوتا تو آج چار جرنیل آرمی چیف ہوتے۔
وزیرِ اعظم نے اس بار بھی اتنی ہی احتیاط برتی جیسے جنرل قمر جاوید باجوہ کا نہیں ضیا الدین بٹ کا تقرر کر رہے ہوں۔ آخر وقت تک
سادے پانی سے دہی جمانے کی حکمتِ عملی جاری رہی۔
جانے کب ترکمانستان سے واپس آئے، کب ذاتی طور پر فائل لے کر صدر ممنون کے پاس گئے اور پھر کوئی رسمی پریس ریلیز جاری کرنے سے پہلے پہلے خبر لیک ہو گئی۔ تاکہ بریکنگ نیوز کے عادی میڈیا کی کچھ تو تشفی ہو جائے۔
میڈیا کے پاس ککھ ایکسکلوسیو نہ تھا۔ چنانچہ اس طرح کے تبصروں پے گزارا ہو رہا ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ پروفیشنل سولجر ہیں۔ گویا ان سے پہلے کے سپاہ سالار واپڈا سے ادھار میں مانگے گئے تھے؟
جنرل باجوہ کو کمان اور ایڈمنسٹریشن کا وسیع تجربہ ہے۔ گویا کوئی ایسا سپاہ سالار بھی تھا جسے فوج کی کمان اور ایڈمنسٹریشن کے بجائے اریگیشن کا تجربہ تھا؟



جنرل باجوہ کا تقرر میرٹ پر ہوا ہے۔ تو کیا جنرل راحیل شریف دیہی علاقوں کے کوٹے پر اور جنرل کیانی پرچی پر آئے تھے؟
نئے آرمی چیف غیر سیاسی سوچ رکھتے ہیں۔ اب تک جو 15 سپاہ سالار مقرر ہوئے ان میں سے کچھ تقرری سے پہلے کیا کسی سیاسی تنظیم کے کارڈ ہولڈر بھی رہ چکے تھے؟
جنرل باجوہ چیف کی دوڑ میں ڈارک ہارس تھے۔ اس بات کا اردو ترجمہ شاید یہ ہے کہ وہ میڈیا خواہشات کی فیورٹ امیدواری فہرست سے باہر تھے یا جس اینکر و تجزیہ کار کی پیش گویانہ امیدوں پر ان کی تقرری سے پانی پھر گیا اس کے لیے ڈارک ہارس ہو گئے۔
جب میڈیا کو اندازہ ہو گیا کہ جنرل راحیل شریف کے عہدے کی مدت میں توسیع نہیں ہو رہی، جب یہ افواہ بھی دم توڑ گئی کہ آرمی چیف کے عہدے کی مدت تین برس سے بڑھا کر چار برس کی جا رہی ہے تاکہ راحیل شریف ایک سال اور رہ سکیں، جب اس اندازے نے بھی کھڑکی سے کود کے خود کشی کر لی کہ جنرل صاحب کو ان کی بے پناہ قومی مقبولیت اور شاندار خدمات کے عوض فیلڈ مارشل بنایا جا رہا ہے اور جب یہ امید بھی نوزائیدگی میں مر گئی کہ سعودی عرب نے جنرل شریف کو 34 رکنی مسلمان فوجی اتحاد کا سربراہ بننے کی پیش کش کی ہے اور جب بعض اینکروں نے ٹی وی سکرین سے کود کر جنرل صاحب کے پیر پکڑ کے ’رک جا او جانے والے رک جا‘ گایا اور پھر بھی کوئی چمتکار نہ ہو سکا تو میڈیا پر افسردگی سی چھا گئی مگر ایک آدھ دن کے لیے۔
اور پھر یہ ادھیڑ بن شروع ہو گئی کہ چاروں امیدواروں میں سینیئر کون ہے۔ حالانکہ چاروں کو ایک ساتھ ہی فوج میں کمیشن ملا اور دو چار دن آگے پیچھے جوائننگ رپورٹ کے سبب سینیارٹی کا کوئی فرق اگر پیدا ہوا بھی تو بال کی کھال کے برابر تھا پھر بھی اس نکتے پر روزانہ شام سات سے بارہ بجائے جاتے رہے کیونکہ روزنامہ نکالنا یا 24 گھنٹے کا نیوز چینل چلانا مذاق نہیں ہے۔وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ یعنی کیا پچھلوں کے ایمان کمزور تھے؟
آپ کا کیا خیال ہے کہ اگلے تین برس کے لیے میڈیا کے تجزیے ختم ہو گئے؟
ارے نہیں صاحب! نئے آرمی چیف سے وزیرِ اعظم کی پہلی ملاقات کی تصویر سے ہی تشریحی دوڑ شروع ہو چکی ہے۔
دونوں کے درمیان حائل میز خالی کیوں تھی؟ کیا نئے سپاہ سالار کے آنے سے پہلے فائلیں دراز میں چھپا دی گئی تھیں؟ کم ازکم ایک خالی صفحہ ہی میز پر رکھ دیتے تاکہ یہ جتا سکتے کہ آج سے ہم دونوں ایک پیج پر ہیں۔
ملاقات کے دوران نواز شریف کا ایک ہاتھ اپنے گھٹنے پر کیوں تھا؟
جنرل باجوہ گود میں رکھی چھڑی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں بار بار گھما کر وزیرِ اعظم کو کیا ان کہا پیغام دینا چاہ رہے تھے؟ ملاقات میں کیا گفتگو ہوئی؟
تفصیلات میڈیا سے کیوں چھپائی جا رہی ہیں ؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
امید فاضلی کے ایک مشہور شعر میں تحریف کو جی چاہ رہا ہے۔
چیف بنا کر سو مت جانا
میڈیا آخر میڈیا ہے
with thanks وسعت اللہ خان

Thursday 24 November 2016

میاں صاحب جواب دو…! یہ سب کچھ پنجاب میں کیوں نہیں؟ صرف خیبرپختونخواه میں ہی کیوں؟

www.swatsmn.com
میاں نواز شریف اور انکے رفقاء اکثر جذبات میں آکر عمران خان کو الزام خان ہونے کا طعنہ دیتے ہیں اور اکثر کہا جاتا ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کو خیبر پختونخواہ میں حکومت ملی ہےتو وہاں کے حالات ٹھیک کریں اور الزامات سے پرہیز کریں۔ ان پٹواریوں کی خدمت میں عرض ہے کہ درج ذیل کارناموں کا جائزہ لیں اور غور کرکے بتائیں کہ کیا یہ کارنامے خیبر پختونخواہ کے علاوہ کسی صوبہ کی حکومت نے کر کے دکھائے ہیں ۔
1۔پنجاب میں مزدور کی کم از کم اجرت 12 ہزار روپے لیکن خیبرپختونخواه میں 15 ہزار روپے. مگرکیوں؟
2۔خیبرپختونخواه میں غریب آدمی کیلئے ایک من آٹا دوسرے صوبوں کی نسبت 400 روپے سستا، لیکن کیوں؟
3۔صرف خیبرپختونخواه میں ہی بزرگ شہریوں کو قطار سے بچانے کے لئے پنشن کارڈز کی فراہمی، کیوں؟
4۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار خیبرپختونخواه میں پولیس کی تنخواہ دوسرے صوبوں کی پولیس کے برابر کیوں؟ جب مولانا فضل الرحمن اور اے این پی نے
تنخواہ دوسرے صوبوں سے کم رکھی ہوئی تھی
5۔صرف خیبرپختونخواه میں ہی غریب آدمی کے لئے ایک کلو گھی دوسرے صوبوں کی نسبت 40 روپے سستا کیوں؟
6۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار صرف خیبرپختونخواه پولیس کو ہی ہیلی کاپٹر فراہم کیوں کیے گئے؟
7۔صرف خیبرپختونخواه میں ہی پولیس انٹیلی جنس سکولز کا قیام کیوں؟
8۔ جب فضل الرحمن اور اے این پی نے خیبرپختونخواه میں میٹرک تک تعلیم اور کتابیں مفت نہیں دیں، تو صرف تحریک انصاف کی حکومت میں یہ سب کیسے ممکن ہوا ؟
پاکستان کے تمام صوبوں میں ترقیاتی فنڈز MPAs 9۔ پاکستان کے تمام صوبوں میں ترقیاتی فنڈز ایم پی ایز کو ملتے ہیں مگر کے پی کے میں ترقیاتی فنڈز ایم پی ایز کو دینے کی بجائے گاؤں کی سطح پر کیوں پہنچائے جاتے ہیں ۔
10۔ اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملازمت نہ ملنے کی صورت میں ماہانہ بے روزگاری الاؤنس، صرف خیبرپختونخواه میں ہی کیوں؟
11۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ینگ ڈاکٹرز کو سروس سٹرکچر کی فراہمی، صرف خیبرپختونخواه میں ہی کیوں؟
12۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ٹیکس کولیکشن کے ہدف کا حصول، صرف خیبرپختونخواه میں ہی کیوں؟
13۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بجلی کے تمام منصوبوں کا آغاز غیر ملکی سرمایہ کاری کی مدد سے، لیکن صرف خیبرپختونخواه میں ہی بجلی کے منصوبے غیر
ملکی امداد کے بغیر کیوں؟
14۔ بچے کی پیدائش سے قبل تین بار سرکاری ہسپتال سے مفت چیک اپ کروانے پر ہرعورت کو 2700 روپے کا انعام، صرف خیبرپختونخواه میں ہی کیوں؟
15۔ پشاور یونیورسٹی کے خزانچی او نتھیاگلی ہاؤسنگ سکیم کے ڈی جی سمیت ڈیڑھ سال میں کرپشن کرنے پر 100 سے زائد بیوروکریٹس اور دیگر افسران کی گرفتاری،
صرف خیبرپختونخواه میں ہی کیوں؟
16۔ بچوں کو سکولز کی طرف کھینچنے کے لئے ماہانہ جیب خرچ کی فراہمی، صرف خیبرپختونخواه میں ہی کیوں؟
17۔ پنجاب میں ن لیگ کے ضلعی صدر بلو بٹ نے شاہ محمود قریشی کے گھر پر حملہ کیا لیکن پنجاب پولیس نے اسے کچھ نہیں کہا جبکہ خیبرپختونخواه میں تحریک
انصاف کے ضلعی صدر ظفر خان نے پولیس کے ساتھ تھوڑی سی بدتمیزی کی توخیبرپختونخواه پولیس نے اسے پکڑ کر اندر کردیا. کیوں؟
18۔ پنجاب میں ایف آئی آر کٹوانے کے لئے لاکھوں افراد جمع کرکے دھرنا دینا پڑتا ہے اور کروڑوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں، لیکن خیبرپختونخواه میں ہر شخص
آن لائن ایف آئی آر کٹوا سکتا ہے کیوں؟
19۔ پنجاب میں ایک ایم پی اے نے پولیس پر تشدد کیا اور ایک ایم این اے کے بیٹوں نے غریب لڑکی کے ساتھ زیادتی کی مگر پولیس دونوں کا کچھ نہ بگاڑ سکی لیکن
خیبرپختونخواه میں ڈپٹی سپیکر کے بھائی نے خاتون سے زیادتی کی تووه ابھی تک جیل سے باہر نہیں آ سکا. کیوں؟ اسکی ضمانت تک نہ ہوسکی. کیوں؟
20۔ پنجاب میں رانا مشہود نے کرپشن کی، لیکن اسے کسی نے کچھ نہیں کہا.
خیبرپختونخواه میں وزیروں نے کرپشن کی تو انہیں فارغ کر دیا گیا. کیوں؟
21۔ باقی صوبوں کے وزراء اعلی روزانہ ہیلی کاپٹر پر گھومتے ہیں، لیکن پرویزخٹک سرکاری ہیلی کاپٹر پر اپنے دوست کے بیٹے کی شادی پر چلا گیا تو اسے
معذرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا. کیوں؟
22۔ خیبرپختونخواه کے دور دراز دیہاتوں میں موبائل ہیلتھ یونٹس کی فراہمی. صرف خیبرپختونخواه میں ہی کیوں؟
23۔ تمام صوبوں نے ریلوے کی ہزاروں ایکڑ اراضی پر قبضہ کیا ہوا ہے، لیکن صرف
خیبرپختونخواه نے ہی ریلوے کی اراضی ریلوے کو واپس کردی. کیوں؟
24۔ سندھ، پنجاب اور وفاقی حکومت کی کارکردگی کے اشتہارات روزانہ ٹی وی اوراخبارات کی زینت بنتے ہیں، صرف خیبرپختونخواه کے اشتہارات نہیں چلتے. کیوں؟
25 ۔اسکے علاوه ایسے انقلابی کام جو پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوۓ، صرف خیبرپختونخواه میں ہی کیوں؟
میاں صاحب جواب دو…! یہ سب کچھ پنجاب میں کیوں نہیں؟ صرف خیبرپختونخواه میں ہی کیوں؟(شیر سلطان ملک)(بشکریہ شفق ڈاٹ کام)

Monday 26 September 2016

اگر ڈرائیور نہ چاھے تو گاڑی کبھی منزل پر نہیں پہنچا کرتی"



www.swatsmn.com

دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر اگست 1944 میں جرمن فوج کو فرانس خالی کرنے کا حکم ملا تو جرمن کمانڈنٹ نے افسروں کو جمع کر کے کہا " ھم نازی جنگ ھار چُکے ھیں ، فرانس ھمارے ھاتھ سے نکل رھا ھے۔ یہ سچ ھے اور یہ بھی سچ ھے کہ شاید اگلے 50 برسوں تک ھم کو دوبارا فرانس میں داخلے کی اجازت بھی نہ ملے اس لیئے میرا حکم ھے کہ پیرس کے عجائب گھروں ، نوادرات سے بھرے نمائش گھروں اور ثقافت سے مالا مال ھنر کدوں سے جو کچھ سمیٹ سکتے ھو سمیٹ لو۔ جب فرانسیسی اس شھر کا اقتدار سنبھالیں تو انہیں جلے ھوئے پیرس کے علاہ کچھ نہ ملے"
جنرل کا حکم تھا سب افسر عجائب گھروں پر ٹوٹ پڑے اور اربوں ڈالرز کے نوادرات اُٹھا لائے۔ اُن میں ڈوئچی کی مونا لیزا تھی ، وین گوہ کی تصویریں ، وینس ڈی ملو کا مرمریں مجسمہ غرض کہ کچھ نہ چھوڑا ۔ جب عجائب گھر خالی ھو گئے تو جنرل نے سب نوادرات ایک ٹرین پر رکھے اور ٹرین کو جرمنی لے جانے کا حکم دیا۔ ٹریں روانہ تو ھو گئی لیکن شھر سے باھر نکلتے ھی اس کا انجن خراب ھو گیا۔ انجئنیر آئے انجن ٹھیک کیا اور ٹرین پھر روانہ ھو گئی لیکن 10 کلومیٹر طے کرنے بعد اس کے پہیے جام ھو گئے۔ انجئنیر آئے مسئلہ ٹھیک کیا اور ٹرین پھر روانہ ھو گئی لیکن چند کلومیٹر بعد بوائلر پھٹ گیا۔ انجئنیر آئے بوائلر مرمت ھوا اور ٹرین پھر چل پڑی ، ابھی تھوڑی دور ھی گئی تھی کہ پریشیر بنانے والے پسٹن جواب دے گئے۔انجئنیر آئے پسٹن مرمت ھوئے اور ٹرین روانہ ھوئی ۔ٹرین خراب ھوتی رھی اور جرمن انجئنیر اسے ٹھیک کرتے رھے یہاں تک کہ فرانس کا اقتدار فرانسیسیوں نے سنبھال لیا اور ٹرین ابھی فرانس کی حد میں ھی رھی۔
ٹرین کے ڈرائیور کو پیغام ملا کہ " موسیو بہت شکریہ پر اب ٹرین جرمنی نہیں واپس پیرس آئے گی" ۔ ڈرائیور نے مکے ھوا میں لہرائے اور واپس پیرس روانہ ھو گیا ، جب وہ پیرس پہینچا تو فرانس کی ساری لیڈرشپ اس کے استقبال کے لیئے کھڑی تھی ، ڈرائیور پر گُل پاشی کی گئی پھر اس کے ھاتھ میں مائیک دے دیا گیا ، ڈرائیور بولا " جرمن گدھوں نے نوادرات تو ٹرین میں بھر دیئے لیکن یہ بھول گئے کہ ڈرائیور فرانسیسی ھے اور اگر ڈرائیور نہ چاھے تو گاڑی کبھی منزل پر نہیں پہنچا کرتی"
عرصے بعد ہالی وڈ نے اس ڈرائیور پر "دی ٹرین" فلم بنائی
اگر اپنے ملک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بھی "دی ٹرین" کی سٹوری سے کم نہیں ، کبھی انجن فیل ھو جاتا ھے کبھی پہیہ جام ، کبھی پسٹن پھٹ جاتا ھے تو کبھی بوائلر ۔ پہلے دن سے اب تک بحران ھی بحران ھے۔ اس ٹرین کا ڈرائیور اصل میں کوئی اور ھے جو اس کو منزل تک نہیں پہنچنے دے رھا -



Monday 19 September 2016

جب ملک الموت میرے پاس آیا تو میں نے اس سے جینے کے لیے چند لمحوں کی درخواست کی

میری عمر نو دس برس کی تھی جب ابا نے مجھے زمین پر گھسیٹتے ہوئے گهر سے بے گهرکر دیا تھا۔ میں چیخ چیخ کر تمہیں پکارتا رہا مگر تم بےحس وحرکت سہمی ہوئی مجھے تکتی رہیں۔ واحد روانی تمہارے آنسوؤں کی تھی جو ابا کے غیض و غضب کے آگے بھی تهمنے کو تیار نہ تھے۔ تمہارا ہر آنسو اس بات کا ثبوت تها کہ تم ابا کے اس فعل سے بہت نالاں تھی مگر ابا کی ہر بات پر سر تسلیم خم کرنے پر مجبور بهی۔

محلے والوں کے طعنے، رشتے داروں کے طنز اور لوگوں کی چبهتی ہوئی نگاہوں سے جب ابا بے قابو ہو جاتے تو پهر اپنی کالے چمڑے کی چپل سے میری چمڑی ادھیڑتے۔ اپنے جسم پر چپل سے بنائے گئے نقش لیے میں اس کال کوٹھڑی کی جانب بھاگتا جو پورے گهر میں میری واحد پناہ گاہ بن گئی تھی۔ پٹائی کا دن جب رات میں ڈھلتا تو تم ابا سے چھپ کر دبے پاؤں آتیں۔ مجھے سینے سے لگاتی، اپنے دوپٹے سے میرے زخموں کی ٹکور کرتی۔ میرا سر اپنی گود میں لیے گھنٹوں میرے پاس بیٹھی رہتی۔ مجھے چپ کراتے کراتے تمہاری اپنی سسکیاں بندھ جاتیں۔ آہوں اور سسکیوں کی گونج کے علاوہ اس کال کوٹھڑی میں کچھ سنائی نہ دیتا۔ ہم دونوں آنسوؤں کی زبان میں بات کرتے۔ میرے آنسوؤں میں ان گنت سوال ہوتے۔ کہ آخر کیوں ابا کی نفرت کی خاص عنایت مجھ پر ہی ہے؟ آخر کیوں گھر میں مہمانوں کے آتے ہی اسٹور کے تنگ وتاریک کمرے میں گهر کے ہر فالتو سامان کے ساتھ مجھے بند کردیا جاتا ہے اور جب تک اللہ کی رحمت ہمارے گھر سے چلی نہیں جاتی مجھے رہائی کا پروانہ کیوں نہیں دیا جاتا۔ یہ رحمت ہر بار میرے لیے زحمت کیوں بن جاتی ہے؟ مگر اماں میرے ہر سوال کے جواب میں تم خاموشی سے میرے اوپر محبت بهری نگاه ڈالتی اور کچھ نہ بولتیں۔ بس کبھی تم میرے ماتهے کا بوسہ لیتی اور کبھی میرے ہاتھوں کو چوم کر اس بات کی گواہی دیتی کہ میں تو اپنے راجہ بیٹے سے بہت پیار کرتی ہوں۔ ایک سوال کرتے کرتے میں تهک جاتا اور نیند کی آغوش میں چلا جاتا کہ آخر میرے سے ایسی کیا خطا ہوئی جو میں اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح ابا کے پیار کا حقدار نہیں۔
ہاں تمہاری گود میں سو جانے سے پہلے میں یہ دعا بھی کرتا کہ یہ رات کبھی ختم نہ ہو مگر صبح ہوتی اور تم پھر اس عورت کا لباده اوڑھ لیتی جو ابا اور معاشرے کے خوف سے مجھے پیار کرتے ڈرتی تھی۔
جس دن ابا نے مجهے گهر سے نکالا اس دن میرا قصور بس اتنا تھا کہ میں نے تمہاری سنگھار میز پر رکھی ہوئی لالی سے اپنے ہونٹ رنگ لیے تھے، تمہارا سرخ دوپٹہ سر پر رکھے، تمہارے ہاتھوں کے کنگن اپنی کلائی میں ڈالے تمہاری ٹک ٹک کرنے والی جوتی پہن کرخوش ہو رہا تھا، بس یہ دیکھنے کی دیر تھی کہ ابا نے مجھ پر پهر جوتوں کی برسات شروع کر دی۔ میں معافی کا طلب گار رہا مگر میری شنوائی نہ ہوئی اور پهرگالی گلوچ کرتے ہوئے زمین پر گھسیٹتے ہوئے زنخا زنخا کہتے ہوئے مجھے ہمیشہ کے لیے سب گهر والوں سے دور کر دیا۔
میرے لیے آبا کے آخری الفاظ یہ تھے کہ آج سے تو ہمارے لیے مر گیا۔ یہ جملہ سنتے ہی میری ہاتھوں کی گرفت جس نے ابا کے پیروں کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا کمزور پڑ گی۔ میری گڑگڑاتی ہوئی زبان خاموش ہوگی، میرے آنسو تهم گئے کیونکہ میں جانتا تھا کہ ابا اپنی کہی ہوئی بات سے کبھی نہیں پھرتے۔ اور تم ماں، ابا کے کسی بھی فیصلے کے خلاف جانے کی ہمت نہیں رکھتی
اس کے بعد ابا مجھے ہمیشہ کے لیے یہاں چهوڑ گے جہاں ایک گرو رہتا تھا۔ امجد کی جگہ میرا نام علیشاہ رکھ دیا گیا۔ مجھے ناچ گانےکی تربیت دی جاتی۔ مجھ پر نظر رکھی جاتی لیکن میں جب کبھی موقع ملتا تمہاری محبت میں گرفتار اپنے گهر کی طرف دیوانہ وار بھاگتا مگر ابا کا آخری جملہ مجھے دہلیز پار کرنے سے روک دیتا۔ دروازے کی اوٹ سے جب تمہیں گرما گرم روٹی اتارتے دیکھتا تو میری بھوک بھی چمک جاتی اور پهر تم اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کر میرے بہن بھائیوں کے منہ میں ڈالتی تو ہر نوالے پر میرا بھی منہ کھلتا مگر وہ نوالے کی حسرت میں کھلا ہی رہتا۔ اس حسرت کو پورا کرنے کے لیے میں اکثر گهر کے باہر رکھی ہوئی سوکهی روٹی کو اپنے آنسوؤں میں بهگو بهگو کر کھاتا۔
بعد کی عیدیں تو تنہا ہی تھیں پر جب گھر بدر نہ ہوا تھا تب بھی عید پر جب ابا ہر ایک کے ہاتھ پر عیدی رکهتے تو میرا ہاتھ پھیلا ہی ره جاتا۔ جب ہر بچے کی جھولی پیار اور محبت سے بهر دی جاتی تو میری جھولی خالی ہی ره جاتی۔ جب ابا اپنا دست شفقت سب کے سروں پر پھیرتے تو میرا سر جهکا ہی رہتا۔
صحن میں کھڑی ابا کی سائیکل جس کو اکثر میں محلے سے گزرتے دیکھتا تو ہر بار دل میں یہ خواہش ہوتی کہ کاش ابا سائیکل روک کر مجھے ایک بار، صرف ایک بار سینے سے لگا لیں مگر میری یہ خواہش، خواہش ہی ره گی۔ گھر چھوڑنے کے عذاب کے بعد میرے اوپر ایک اور عذاب نازل ہوا جس کے کرب نے میری روح تک کو زخمی کر دیا۔ چند ‘شرفا’ گرو کے پاس آئے اور مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ مجھے زبردستی بے لباس کیا اور اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا ڈالا۔ ماں، میں اتنا چھوٹا اور کمزور تھا کہ میں تکلیف کی وجہ سے اپنے ہوش ہی کهو بیٹھا تھا۔ پهر اس ہی بے ہوشی کے عالم میں مجھے گرو کے حوالے کر دیا گیا۔ پهر یہ سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ میں روز ہی اپنی ہی نظروں میں گرتا رہا مرتا رہا۔ کرتا بھی کیا کہ اب میرے پاس کوئی اور دوسری پناہ گاه نہ تهی۔
پهر اسی کام کو میرے گرو نے میرے پیشے کا نام دے دیا۔ میں گرو کے پاس سے کئی بار بھاگا، در در نوکری کی تلاش میں پهرتا رہا مگر مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ ہر بار گرو کے در پر ہی پناہ ملی۔
ہمارا وجود معاشرے میں گالی سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں تو کسی کو بددعا بھی دینی ہو تو ہم کہتے ہیں کہ جا تیرے گهر بھی مجھ جیسا پیدا ہو۔ حالانکہ ہماری رگوں میں بهی سرخ رنگ کا خون دوڑتا ہے۔ ہمیں بنانے والا بھی تو وہی ہے جس نے ان کو پیدا کیا۔ ان کے سینے میں بھی دل ہماری طرح ہی دھڑکتا ہے۔ تو پهر ہمیں کس بات کی سزا دی جاتی ہے ؟ہمارا جرم کیا ہوتا ہے؟ شاید ہمارا جرم یہ ہوتا ہے کہ ہمارا خون سرخ ہے اور معاشرے کا سفید۔
ماں میں ساری زندگی جینے کی چاه میں مرتا چلا گیا۔ سفید خون رکھنے والے لوگ کبھی مذہب کی آڑ لے کر تو کبھی جسم فروشی سے انکار پر ہمارے جسموں میں گولیاں اتار دیتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، مجھے بھی گولیاں ماری گئیں۔ جب مجھے ہوش آیا تو ڈاکٹر مجھے امید کی کرن دکهانے کی کوشش میں آہستہ آہستہ میرے کان میں سرگوشی کر رہا تھا کہ اگر تم ہمت کرو تو زندگی کی طرف لوٹ سکتے ہو۔ میں نے بہت مشکل سے اپنے ہونٹوں کو جنبش دی اور ڈاکٹر سے کہا کہ اگر میں ہمت کر کے لوٹ بھی آیا تو کیا مجھے جینے دیا جائے گا؟ جب ملک الموت میرے پاس آیا تو میں نے اس سے جینے کے لیے چند لمحوں کی درخواست کی۔ نجانے کیوں اس بار مجھے امید تھی کہ تم دوڑی چلی آؤ گی، میرا بچہ کہتے ہوئے مجھے اپنے سینے سے لگاو گی۔ میرے سر کو اپنی گود میں رکھ کر میرے زخموں کی ٹکور کر کے مجھے اس دنیا سےرخصت کرو گی۔ لیکن موت کے فرشتے نے چند لمحوں کی مہلت بھی نہ دی۔
سنا ہے قیامت کے روز بچوں کو ماں کےحوالے سے پکارا جائے گا۔ بس ماں تم سے اتنی سی التجا ہے کہ اس دن تم مجھ سے منہ نہ پهیرنا۔
تمہاری محبت کا طلبگار
تمہارا بیٹا

Wednesday 27 July 2016

’جب جنرل مشرف نے مجھے باحجاب دیکھا‘‘ تو کیا ۔۔۔۔۔۔۔ کہا ؟؟

www.swatsmn.com

’جب جنرل مشرف نے مجھے باحجاب دیکھا‘‘ 
تو کیا ۔۔۔۔۔۔۔ کہا ؟؟

’’میں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی، وہاں حجاب لباس کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ سو شروع ہی سے حجاب لیا. ہاں!شعوری طور پر حجاب کی سمجھ آج سے پندرہ سال پہلے آئی جب خود قرآن کو اپنی آنکھوں سے پڑھنا اورسمجھنا شروع کیا. ہم جس ماحول میں پروان چڑھے وہاں حیا اور حجاب ہماری گھٹیوں میں ڈالا گیا تھا۔ سو الحمدللہ! کبھی حجاب بوجھ نہیں لگا. حجاب کی وجہ سے کبھی کوئی پریشانی یا رکاوٹ نہیں آئی بلکہ میرا تجربہ قران کی اس آیت کے مترادف رہا 
’’تم پہچان لی جائو اور ستائی نہ جائو‘‘
الحمدللہ! حجاب نے میری راہ میں کبھی کوئی مشکل نہیں کھڑی کی بلکہ میں نے اس کی بدولت ہرجگہ عزت اور احترام پایا. اک واقعہ سنانا چاہوں گی، پرویز مشرف دور میں پاک فوج کی ’ایکسپو ایکسپو2001‘ منعقد ہوئی تھی، یہ ایک بڑی گیدرنگ تھی۔ اس کی تقریب میں واحد باحجاب میں ہی تھی، کچھ خواتین ( آفیسرز کی بیگمات ) نے اشاروں کنایوں میں احساس دلایا کہ ایسی جگہوں پر حجاب کی کیا ضرورت!! میں مسکرادی، کچھ دیر میں جنرل مشرف خواتین سے سلام کرنے لگے، خواتین جاتیں، ان سے ہاتھ ملاتیں، ان کے ساتھ لگ لگ کر تصاویر بناتیں.. میں کچھ اندر سےگھبرائی ہوئی تھی، اسی اثنامیں جنرل مشرف میری جانب مڑے، مجھے حجاب میں دیکھا تو اپنے دونوں ہاتھ کمر پر باندھ لیے اور جاپانیوں کے طریقہ سلام کی طرح تین بار سر جھکا کر سلام کیا۔ خواتین کا مجمع میری جانب حیرت سے تک رہا تھا... میری آنکھوں میں نمی اور فضاوں میں میرے رب کی گونج سنائی دے رہی تھی...
’’تاکہ تم پہچان لی جائو اور ستائی نہ جائو..‘

Thursday 21 July 2016

ترکی میں فوجی بغاوت ناکام کیوں ہوئی ۔۔۔ :

www.swatsmn.com

ترکی میں فوجی بغاوت ناکام کیوں ہوئی ۔۔۔ :
۔
ترکی میں صدر اردوغان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش ترک عوام نے ناکام بنا کر سب کو حیران کردیا۔ ناکام فوجی بغاوت کے حوالے سے سوشل اور مین اسٹریم میڈیا پر بحث شروع ہوگئی۔ اس حوالےسے جتنے منہ اتنی باتیں سامنے آتی رہی۔ اس بات پر بحث ہونے لگی کہ اگر پاکستان میں ایسی کوشش ہوتی ہے تو عوامی ردعمل کیا ہوگا۔حالانکہ پاکستان سے موازنہ کرنے سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آخر وہ کیاوجوہات تھیں جنھوں نے ترک عوام کو رات کے اندھیرے میں سڑکوں پر آکر فوجی بغاوت کو کچلنے پر آمادہ کیا۔ آئیے زرا چند نکات میں ان وجوہات پر غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔سینئر صحافی عارف الحق عارف صاحب نے فیس بک پر اپنے ایک اسٹیٹس میں ترکی میں فوجی بغاوت ناکام ہونے کی وجوہات کا زکر کیا۔ چند وجوہات پر غور کرلیا جائے تو اندازہ ہوجائے گا کہ ترک قوم اپنے لیڈر کے لئے دیوانہ وار باغیوں کے ٹینکوں سے سامنے دیوار کیوں بن گئے تھے۔
۔
۔ ترکی میں جب طیب اردوغان نے حکومت سنبھالی تو 2002سے 2012 کے درمیان ترکی کےجی ڈی پی میں 64فیصد اضافہ ہواانفرادی سطح پر اقتصادی ترقی کی شرح میں 43فیصد اضافہ ہوا۔ اس ترقی نے نہ صرف ترک عوام بلکہ عالمی سطح پر اردوغان کی پسندیدگی میں اضافہ کیا۔
۔
۔اردوغان کے 2002 میں اقتدار سنبھالتے وقت ترکی کو بھی آئی ایم ایف نے اپنے پنجوں میں جکڑا ہوا تھا اور ترکی 5۔23 بلین ڈالر کا مقروض تھا۔ اردوغان نے حکومت سنبھالنے کے بعد آئی ایم ایف کی سازشوں میں نہ آنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مزید قرضہ لینے سے انکار کرددیا اور پرانا قرضہ ادا کرنا شروع کردیا۔ 2012میں یہ قرضہ صرف 9۔0بلین ڈالر رہ گیا تھا۔ جس کی ادائیگی کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے ترکی کے قرضہ ادا کردینے کا اعلان کردیا گیا۔ اور اسی سال طیب اردوغان نے اعلان کیا کہ اگر آئی ایم ایف کو قرضہ درکار ہو تو وہ ترکی سے رجوع کرسکتا ہے۔ 
۔
۔2002 میں ترکش سینٹرل بینک کے پاس زرمبادلہ کے زخائر 5۔26ملین ڈالر تھے جو 2011میں بڑھ کر 2۔92بلین ڈالر ہوچکے تھے اور ان میں کامیاب اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے مسلسل اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
۔
۔اسی طرح ترکی میں طیب اردوغان کے حکومت سنبھالنے کے بعد صرف ایک سال میں ہی مہنگائی میں 23 فیصد کمی ہوئی جس سے ترک عوام کو براہ راست فائدہ ہوا۔
۔
۔اسی طرح 2002 میں ترکی میں ہوائی اڈوں کی تعداد میں 26 تھی جو اب بڑھ کر 50 ہوچکی ہے۔
۔
۔2002سے 2011کے درمیان ترکی میں 13500کلومیٹر طویل ایکسپریس وے تعمیر کی گئی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ایکسپریس وے کی تعمیر کے ٹھیکے اپنے رشتہ داروں یا پارٹی رہنمائوں کو دینے کے بجائے کے میرٹ پر بین الاقوامی سطح پر اچھی شہرت کے حامل اداروں کو دئے گئے۔
۔
۔ترکی کی تاریخ میں پہلی بار تیز ترین ریلوے ٹریک بچھایا گیا اور 2009 میں تیز ترین ٹرین ترکی میں متعارف کرائی گئی۔عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے ان 8 سالوں کے دوران تیز رفتار ٹرین کے لئے1076کلومیٹر ریلوے ٹریک بچھایا گیا جبکہ 5449کلومیٹر طویل ٹریک کی مرمت کرکے اسے تیز ترین ٹرین کے معیار کے مطابق بنایا گیا۔
۔
۔اردوغان نے عوام کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے شعبہ صحت میں بڑے پیمانے پر کام کیا۔ گرین کارڈ پروگرام متعارف کرایا گیا جس کے تحت غریب افراد کو صحت کی مفت سہولیات فراہمی کا سلسلہ شروع کردیا گیا ۔
۔
۔صحت کی طرح تعلیم کے شعبہ پر بھی خصوصی توجہ دی گئی اور تعلیم کا بجٹ2002میں 5۔7بلین لیرا سے بڑھا نا شروع کیا اور 2011میں تعلیمی بجٹ 34 بلین لیرا تک پہنچا دیا۔ قومی بجٹ کا بڑا حصہ وزارت تعلیم کو دیا گیا اور قومی جامعات کا بجٹ ڈبل کردیا گیا۔ اسی طرح 2002 میں ترکی میں جامعات کی تعداد 86 تھیں ۔اردوغان حکومت نے ملک میں جامعات کا جال بچھایا اور 2012 تک ترکی میں 186معیارت جامعات تدریس کا عمل جاری رکھے ہوئے تھیں۔ 
۔
۔ترکی معیشت کا اندازہ صرف اس نقطہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 1996میں ایک ڈالر ، 222لیرا تھا جبکہ اردوغان حکومت کی کامیاب اقتصادی پالیسیوں کے بعد آج ایک ڈالر 94۔2 لیرا کا ہے۔

بلوچ کا قتل ۔۔ مشرقی معاشرے پر ہرزہ سرائی کیوں؟؟؟****

www.swatsmn.com
بلوچ کا قتل ۔۔ مشرقی معاشرے پر ہرزہ سرائی کیوں؟؟؟**** 
جس دن سے متنازعہ ماڈل و اداکارہ قندیل بلوچ قتل ہوئی ہیں ۔ کچھ دانشو راپنی پوری آب و تاب کے ساتھ میدان میں کود پڑے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ یہ بہت بڑا ظلم ہوا ہے ۔ اس قتل سے بربریت کی داستان رقم کی گئی ہے اور ملتِ اسلامیہ اس عظیم نقصان سے دو چار ہوئی ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں اور اس قتل سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پُر نہیں ہو گا۔اس قتل کی آڑ میں معاشرے پر خوب لعن طعن کی جا رہی ہے۔ پاکستانی معاشرے کو اس طرح آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے کہ جیسے یہ خود ساختہ دانشور اس معاشرے کا حصہ نہیں ہیں بلکہ یہ کوئی آسمانی مخلوق ہیں۔اس قتل کے تانے بانے عورت کی آزادی سے ملائے جا رہے ہیں کہ آج کے اس جدید دور میں بھی عورت کو کسی قسم کی آزادی نہیں ہے بلکہ ان پر جبر کیا جاتا ہے۔ سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کے لیے کہا یہ جا رہا ہے کہ زندگی کے قول و فعل کا ہرانسان خود ذمہ دار ہے اورکسی کو بھی سزا و جزا کا حق نہیں ہے۔بالکل ٹھیک ۔ سزا و جزا کا اختیار کسی فردِ واحد کو نہیں ہے۔ آپ کی بات سے سو فی صد اتفاق ہے کہ سزا وجزا کا حق اور اختیار صرف رب کائنات کے پاس ہے یا حکومتِ وقت غلط عادات و اطوار یا غیر اخلاقی حرکات پر نوٹس لے سکتی ہے مگر حکمرانوں کو تو اپنے’’ اللوں تللوں ‘‘سے ہی فرصت نہیں ہے توپھر آپ سے سوال ہے کہ آپ بتائیں قندیل بلوچ نے سستی شہرت حاصل کرنے ک لیے جو راستہ اختیار کیا تھا اس کو دیکھنے کے بعد اس کے بھائی کیا کرتے ؟؟؟ آپ آزادیِ ا ظہار کے نام پر ہلکان ہو رہے ہیں مگر کیا آپ آزادی اظہار کی تعریف بتانا پسند کریں گے ؟؟؟ کیا آزادی اظہار کی آڑ میں کوئی جو چاہے کرتی پھرے؟؟؟باریک لباس میں فوٹو بنوائے یا مختصر لباس زیبِ تن کرکے نیم برہنہ تصاویر بنوا کر بڑے فخر سے نیٹ یا فیس بک پرUPLOAD کر کے بے حیائی کے فروغ کا باعث بنے ؟؟ بے شرمی و بے غیرتی کی حدیں عبور کرتی پھرے ؟؟؟ کھلونوں کی طرح جسم کی نمائش کرتی پھرے مگر اس کو کوئی پوچھنے والا نہ ہو ؟؟؟اگر آپ کے نزدیک اس کا نام آزادی ہے تو مہربانی فرمائیں اس کو اپنے تک محدود رکھیں کیونکہ اسلام یا مشرقی معاشرہ اس کی اجازت نہیں دیتا مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ غیرت کو بنیاد بنا کرقتلِ عام کا بازار گرم کر دیا جائے کیونکہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل تصور کیا جاتا ہے ۔اگر قندیل اپنے کیے کی خود ذمہ دار تھی تو اس کا بھائی بھی اپنے فعل کا خود ذمہ دار ہے وہ قانون کی حراست میں ہے اور قا نون بہتر فیصلہ کرے گا
راقم الحروف نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ مجھ کو حیرت ہو رہی ہے ان دانشوروں پر جو قندیل کی موت پہ ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔معلوم نہیں انہیں قندیل کی موت کا افسوس ہے یا اس بات پہ رنجیدہ ہیں کہ ان کی آنکھوں کو جو تسکین قندیل کی نیم برہنہ تصاویر دیکھ کر ملتی تھی وہ چھن گئی ہے۔ان کو قندیل کی موت یا د آ رہی ہے ، قندیل کی بے بسی پر رونا آ رہا ہے ، قندیل کا خونِ نا حق نظر آ رہا ہے ،اس کے بھائی کی سفاکی دکھائی دے رہی ہے مگر قندیل کی بے غیرتی ، بے حیائی اور بے شرمی والی سرگرمیاں اور کہانیاں یا دکیوں نہیں آرہی ہیں؟؟؟انسانیت کے ان ٹھیکے داروں کو اس کا غیر مہذبانہ اندازِ زندگی کیوں نظر نہیں آ رہا ہے ؟؟؟ اس کی وہ حرکات و سکنات کیوں نظر نہیں آرہی ہیں جسے دیکھ کر معصوم اذہان غلط راستے کی طرف راغب ہوتے تھے ۔قندیل کے بھائیوں کے دل پہ کیا گزرتی ہو گی؟؟؟ اس کا احساس نہیں ہو رہا ہے۔پاکستانی اورمشرقی معاشرے کو ’’کوڑھ زدہ ‘‘ معاشرہ قرار دینے والوں سے میں یہ پوچھنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ اگر آپ کی بہو ، بیٹی یا بہن قندیل بلوچ کے اختیار کردہ راستے کو اپنا لے تو کیا آپ اس کو اپنے ماتھے کا جھومر بنا لیں گے؟؟؟ کیا آپ اس کو اپنے گلے لگا کر خراجِ تحسین پیش کریں گے ؟؟؟بالکل نہیں۔ ہر گز نہیں۔ آپ سے تو میرے یہ الفاظ برداشت نہیں ہو رہے ہیں۔ آپ کا خون کھول رہا ہے اوردل میں نہ جانے کیا کیا ’’صلواتیں‘‘ سنا رہے ہیں تو پھر یاد رکھیں جہاں آپ کو یہ بات یاد ہے’’ سز وجزا کا مالک صرف اللہ ہے‘‘ یا یہ یاد ہے کہ’’ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے‘‘ تو وہاں نبی اکرم حضرت محمدﷺ کا یہ ارشادِ گرامی بھی ذہن میں رکھیں کہ’’ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند کرو جو تم کو اپنے لیے پسند ہے‘‘ اپنی اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت کے خواہش مندوں کے منہ میں اس وقت کیوں رال ٹپکنے لگتی ہے جب وہ قندیل بلوچ کی نیم عریاں لباس میں تصاویر دیکھتے ہیں۔ارشاد نبویﷺ ہے کہ ’’ مُردوں کو بُرا مت کہو ‘‘ اس لیے میں قندیل بلوچ کی سرگرمیوں کے متعلق کچھ نہیں کہنا چاہتا مگر آپ کی خدمت میں ضرور عرض کرنا چاہوں گا قندیل بلوچ کی موت کی آڑ میں مشرقی و پاکستانی معاشرے کے خلاف ہرزہ سرائی کی جو گردان آپ نے شروع کر رکھی ہے اس کو بند کریں اور ان دانشوروں کی عقل پر تو ویسے ہی ماتم کرنے کو دل کر رہا ہے جو یہ ارشاد فرمارہے ہیں کہ قندیل بلوچ نے یہ راستہ غربت دور کرنے کے لیے اختیار کیا تھا۔ کیا کہنے آپ کی سوچ کے ۔۔۔ کیا منطق لائے ہو ڈھونڈ کر ۔۔ کیا غربت دور کرنے کا یہ طریقہ ہے جو قندیل بلوچ نے اپنایا ؟؟؟؟ہمہ وقت دوسروں کا دل لبھانے کے لیے تیار رہنا۔۔ غربت دور کرنے کا طریقہ ہے ؟؟؟ آپ لوگ جتنی ہمدردی کا آج اظہار کر رہے ہیں اسکی زندگی میں اس کی مالی مدد کر کے اس کی چادر اور چار دیواری کا تحفظ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے۔۔۔ بند کریں ایسی من گھڑت تاویلیں۔قندیل بلوچ کے قتل کی مذمت ضرور کریں مگر الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر کریں کیونکہ یہ معاشرہ صرف آپ جیسے آزاد خیال لوگوں پر ہی مشتمل نہیں ہے۔ اللہ ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق دے ۔ آمین
Ba shukria R.A Naeem

Monday 23 May 2016

ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ 20ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﻨﺎ

www.swatsmn.com

ﮨﻢ ﻧﮯ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﻘﺪﻭﻧﯿﮧ ﮐﺎ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ 20ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﻨﺎ۔ 23 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﻘﺪﻭﻧﯿﮧ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﻮﺭﺍ ﯾﻮﻧﺎﻥ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺗﺮﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ، ﭘﮭﺮ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﺍﺭﺍ ﮐﻮ ﺷﮑﺴﺖ ﺩﯼ، ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺷﺎﻡ ﭘﮩﻨﭽﺎ، ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺑﻞ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﯿﺎ، ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﻣﺼﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ، ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﺍٓﯾﺎ، ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﺱ ﺳﮯ ﺟﻨﮓ ﻟﮍﯼ، ﺍﭘﻨﮯ ﻋﺰﯾﺰ ﺍﺯ ﺟﺎﻥ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺎﻟﯿﮧ ﺷﮩﺮ ﺍٓﺑﺎﺩ ﮐﯿﺎ، ﻣﮑﺮﺍﻥ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ، ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﭨﺎﺋﯿﻔﺎﺋﯿﮉ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ 323 ﻗﺒﻞ ﻣﺴﯿﺢ ﻣﯿﮟ 33 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺨﺖ ﻧﺼﺮ ﮐﮯ ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ، ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺍٓﺝ ﺗﮏ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ، ﻭﮦ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﻋﻈﯿﻢ ﺟﺮﻧﯿﻞ، ﻓﺎﺗﺢ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﺩﯼ ﮔﺮﯾﭧ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺍﻋﻈﻢ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﻨﺎﺩﯾﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﺝ ﺍﮐﯿﺴﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﻮ ﺳﮑﻨﺪﺭﺍﻋﻈﻢ ﮐﮩﻼﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﻖ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ؟ ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﮐﻮ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺍﻋﻈﻢ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻮﺍﺯﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﺍٓﭖ ﺑﮭﯽ ﺳﻮچیے
ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺗﮭﺎ، ﺍﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﮔﮭﮍﺳﻮﺍﺭﯼ ﺳﮑﮭﺎﺋﯽ، ﺍﺳﮯ ﺍﺭﺳﻄﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﺳﺘﺎﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺻﺤﺒﺖ ﻣﻠﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺑﯿﺲ
ﺳﺎﻝ ﮐﺎ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺗﺨﺖ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺝ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ 7 ﭘﺸﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﺰﺭﺍ ﺗﮭﺎ، ﺍٓﭖ ﺑﮭﯿﮍ ﺑﮑﺮﯾﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻧﭧ ﭼﺮﺍﺗﮯ ﭼﺮﺍﺗﮯ ﺑﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﺑﺎﺯﯼ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﺍﻧﺪﺍﺯﯼ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﺍﮐﯿﮉﻣﯽ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﯿﮑﮭﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺍﻋﻈﻢ ﻧﮯ ﺍٓﺭﮔﻨﺎﺋﺰﮈ ﺍٓﺭﻣﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ 10 ﺑﺮﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ 17 ﻻﮐﮫ ﻣﺮﺑﻊ ﻣﯿﻞ ﮐﺎ ﻋﻼﻗﮧ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ 10 ﺑﺮﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺭﮔﻨﺎﺋﺰﮈ ﺍٓﺭﻣﯽ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ 22 ﻻﮐﮫ ﻣﺮﺑﻊ ﻣﯿﻞ ﮐﺎ ﻋﻼﻗﮧ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻡ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺳﭙﺮ ﭘﺎﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﺍٓﺝ ﮐﮯ ﺳﯿﭩﻼﺋﭧ، ﻣﯿﺰﺍﺋﻞ ﺍﻭﺭ ﺍٓﺑﺪﻭﺯﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮍﯼ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﮔﮭﻮﮌﻭﮞ ﮐﯽ ﭘﯿﭩﮫ ﭘﺮ ﻓﺘﺢ ﮐﺮﺍﺋﯽ ﺗﮭﯽ، ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﻭ ﺍﻧﺼﺮﺍﻡ ﺑﮭﯽ ﭼﻼﯾﺎ ﺗﮭﺎ، ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﻧﮯ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺟﺮﻧﯿﻞ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﺍﺋﮯ، ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺟﺮﻧﯿﻠﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﮭﻮﮌﺍ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺑﻐﺎﻭﺗﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻓﻮﺝ ﻧﮯ ﺍٓﮔﮯ ﺑﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺩﯾﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﺳﺮﺗﺎﺑﯽ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ.
ﻭﮦ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﻤﺎﻧﮉﺭ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﻋﯿﻦ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺳﭙﮧ ﺳﺎﻻﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﻣﻌﺰﻭﻝ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺣﮑﻢ ﭨﺎﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻭﻗﺎﺹ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﮐﻮﻓﮯ ﮐﯽ ﮔﻮﺭﻧﺮﯼ ﺳﮯ ﮨﭩﺎ ﺩﯾﺎ۔ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺎﺭﺙ ﺑﻦ ﮐﻌﺐ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﮔﻮﺭﻧﺮﯼ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﮯ ﻟﯽ۔ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺍﻟﻌﺎﺹ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﺎ ﻣﺎﻝ ﺿﺒﻂ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻤﺺ ﮐﮯ ﮔﻮﺭﻧﺮﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﻼ ﮐﺮ ﺍﻭﻧﭧ ﭼﺮﺍﻧﮯ ﭘﺮ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﻋﺪﻭﻟﯽ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ۔
ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭﻧﮯ 17 ﻻﮐﮫ ﻣﺮﺑﻊ ﻣﯿﻞ ﮐﺎ ﻋﻼﻗﮧ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﻈﺎﻡ ، ﮐﻮﺋﯽ ﺳﺴﭩﻢ ﻧﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﺎ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﺴﭩﻢ ﺩﯾﮯ ﺟﻮ ﺍٓﺝ ﺗﮏ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺋﺞ ﮨﯿﮟ،
✅ ﺳﻦ ﮨﺠﺮﯼ ﮐﺎ ﺍﺟﺮﺍ ﮐﯿﺎ۔
✅ ﺟﯿﻞ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﺩﯾﺎ۔
✅ ﻣﻮٔﺫﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮨﯿﮟ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮟ
✅ ﻣﺴﺠﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﺎ ﺑﻨﺪ ﻭ ﺑﺴﺖ ﮐﺮﺍﯾﺎ.
✅ﭘﻮﻟﺲ ﮐﺎ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ۔
✅ ﺍﯾﮏ ﻣﮑﻤﻞ ﻋﺪﺍﻟﺘﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺭﮐﮭﯽ۔
✅ ﺍٓﺏ ﭘﺎﺷﯽ ﮐﺎ ﻧﻈﺎﻡ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮﺍﯾﺎ۔
✅ ﻓﻮﺟﯽ ﭼﮭﺎﻭٔﻧﯿﺎﮞ ﺑﻨﻮﺍﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﺝ ﮐﺎ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﺎ۔
✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯿﺘﮯ ﺑﭽﻮﮞ، ﻣﻌﺬﻭﺭﻭﮞ، ﺑﯿﻮﺍﻭٔﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺍٓﺳﺮﺍﻭٔﮞ ﮐﮯ ﻭﻇﺎﺋﻒ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮯ۔
✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ، ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﯾﺪﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﮯ ﮈﮐﻠﯿﺌﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎﺗﺼﻮﺭ ﺩﯾﺎ۔
✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺍﻧﺼﺎﻓﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﺠﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺰﺍ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻭﻉ
ﮐﯿﺎ
✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮐﻼﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﺎﻭٔﻧﭩﺒﻠﭩﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ۔
✅ ﺍٓﭖ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﺠﺎﺭﺗﯽ ﻗﺎﻓﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭﯼ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﻋﺪﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻭﮦ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﺳﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﺗﮭﺎ ’’ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﭽﺎ ﺧﺎﺩﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔‘‘
ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻣﮩﺮ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ
’’ﻋﻤﺮ ! ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻮﺕ ﮨﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ‘‘۔
 ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﺩﺳﺘﺮﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻭ ﺳﺎﻟﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﮯ ﮔﺌﮯ۔
 ﺍٓﭖ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺳﺮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﯾﻨﭧ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
 ﺍٓﭖ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺟﮩﺎﮞ ﻧﯿﻨﺪ ﺍٓﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍٓﭖ ﮐﺴﯽ ﺩﺭﺧﺖ ﭘﺮ ﭼﺎﺩﺭ ﺗﺎﻥ ﮐﺮ ﺳﺎﯾﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ
ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﻨﮕﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺩﺭﺍﺯ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
 ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﭘﺮ 14ﭘﯿﻮﻧﺪ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﯿﻮﻧﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﺥ ﭼﻤﮍﮮ ﮐﺎ ﭘﯿﻮﻧﺪ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﺍٓﭖ ﻣﻮﭨﺎ ﮐﮭﺮﺩﺭﺍ ﮐﭙﮍﺍ ﭘﮩﻨﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﻧﺮﻡ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﺗﮭﯽ۔
 ﺍٓﭖ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﮮ ﭘﺮ ﻓﺎﺋﺰ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﺨﻤﯿﻨﮧ ﻟﮕﻮﺍ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﮮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﺎﻭٔﻧﭩﺒﻠﭩﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
 ﺍٓﭖ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺮﮐﯽ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺮ ﻧﮧ ﺑﯿﭩﮭﻨﺎ، ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﻨﺎ، ﭼﮭﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﭨﺎ ﻧﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ، ﺩﺭﺑﺎﻥ ﻧﮧ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﭘﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ۔
 ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻇﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﺩﯾﻨﺎ ﻣﻈﻠﻮﻣﻮﮞ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﮨﮯ.
 ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻓﻘﺮﮦ ﺍٓﺝ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺣﻘﻮﻕ ﮐﮯ ﭼﺎﺭﭨﺮ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔ "ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺍٓﺯﺍﺩ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﺐ ﺳﮯ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎﻟﯿﺎ۔"
 ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔ "ﻋﻤﺮ ﺑﺪﻝ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﯿﺎ۔‘‘
 ﺍٓﭖ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺗﮭﮯ، ﺟﻨﮩﯿﮟ ’’ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ‘‘ ﮐﺎ ﺧﻄﺎﺏ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺬﺍﮨﺐ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﮨﮯ ، *ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﻋﺪﻝ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻭﮦ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﺍ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻋﺪﻝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻋﺪﻝِ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔
ﺍٓﭖ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﻘﺮﻭﺽ ﺗﮭﮯ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻭﺻﯿﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﻣﮑﺎﻥ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻗﺮﺽ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻭﺍﺣﺪ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﻓﺮﺍﺕ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﺳﮯ ﻣﺮﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﻋﻤﺮ( ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ) ﮐﻮ ﺑﮭﮕﺘﻨﺎ ﮨﻮﮔﯽ۔
ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺣﺎﻟﺖ ﺗﮭﯽ۔ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﮭﺎﮔﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ ’’ ﻟﻮﮔﻮ! ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔‘‘
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ’’ﺗﻢ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺳﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﻞ ﺩﻭﺭ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﺎﻧﺤﮯ ﮐﯽ ﺍﻃﻼﻉ
ﮐﺲ ﻧﮯ ﺩﯼ۔‘‘
ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﻮﻻ ’’ﺟﺐ ﺗﮏ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺯﻧﺪﮦ ﺗﮭﮯ، ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﯿﮍﯾﮟ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﻧﺪﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍٓﻧﮑﮫ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮞﺪﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﺝ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﯿﮍ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﯿﮍﯾﮯ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺍٓﺝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔‘‘
ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﮐﻮ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﻭﮦ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ
ﻓﺎﺭﻭﻕ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﭘﮩﺎﮌ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﻨﮑﺮ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﮮ ﮔﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﯽ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ 5ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮔﺌﯽ*، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﺟﺲ ﺧﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﮭﻨﮉﺍ ﺑﮭﺠﻮﺍﯾﺎ، ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﮐﯽ ﺻﺪﺍﺋﯿﮟ ﺍٓﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﻭﮨﺎﮞ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮒ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺻﺮﻑ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﭧ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﻧﻈﺎﻡ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ 245 ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ۔
ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮈﺍﮎ ﺧﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻂ ﻧﮑﻠﺘﺎ ﮨﮯ، ﭘﻮﻟﺲ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻭﺭﺩﯼ ﭘﮩﻨﺘﺎ ﮨﮯ، ﮐﻮﺋﯽ ﻓﻮﺟﯽ ﺟﻮﺍﻥ 6 ﻣﺎﮦ ﺑﻌﺪ ﭼﮭﭩﯽ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺴﯽ ﺑﭽﮯ، ﻣﻌﺬﻭﺭ، ﺑﯿﻮﮦ ﯾﺎ ﺑﮯ ﺍٓﺳﺮﺍ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ، ﻭﮦ ﺳﻮﺳﺎﺋﭩﯽ، ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ، ﻣﺎﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﻥ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮ ﺍٓﺝ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮐﻤﺘﺮﯼ ﮐﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻠﻤﮧ ﺗﮏ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
*ﻻﮨﻮﺭ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﻮ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ’’ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﮮ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﯾﺎﺩ ﺍٓﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔‘‘
ﺍﺱ ﭘﺮ ﺟﻮﺍﮨﺮ ﻻﻝ ﻧﮩﺮﻭ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ’’ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺍٓﺝ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﺌﮯ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ( ﺣﻀﺮﺕ ) ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ( ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ) ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔‘‘
جن کے بارے میں مستشرقین اعتراف کرتے ہیں کہ "اسلام میں اگر ایک عمر اور ہوتا تو آج دنیا میں صرف اسلام ہی دین ہوتا."
ﮨﻢ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﻟﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ، ﺟﻦ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ،
’’ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺒﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻋﻤﺮ ﮨﻮتا-`
منقول

Friday 20 May 2016

بدرمنیری معاشرہ :

www.swatsmn.com
بدرمنیری معاشرہ :
ھم ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک فوجی سنیما میں پشتو کا قلم دیکھ رھے تھے قومی ترانے کے بعد جو فلم شروع ھوئی اس میں بدرمنیر فجر کے وقت ایک گھر میں ڈاکہ ڈال رہا ھوتا ھے کہ فجر کی آذان ھوجاتی ھے تو وہ گھر کے مالک کے کمرے میں قبلہ رو کھڑے ھوکر دوسرے ڈاکو سے کہتا ھے کہ تورخانہ اقامت پڑھو۔ اور ڈاکو بدر منیر کی امامت میں نماز میں کھڑے ھوجاتے ھیں سارا سنیما ھال تالیوں اور سیٹیوں سے گونج اٹھا۔ پھر نماز کے دوران گھر کے مالک نے جب بدرمنیر کی بندوق کی طرف ھاتھ بڑھایا تو ایک روشنی کی تلوار نے اس کا ھاتھ روک لیا ایک بار پھر پورا سنیما ھال تالیوں اور سیٹیوں سے گونج اٹھا ۔ اور سبحان اللہ کی صدائیں بلند ھوئی۔ یہ اس وقت ھمارے معاشرے کی سنیما اور لاھور میں بننے والے فلم تھے۔ جس میں بدرمنیر بے شک ڈاکو لٹیرا ھو لیکن نماز قضا نہ کرے۔ اور روشنی کی تلوار بھی ڈاکے سے ناراض نہیں ھوتی لیکن شرط یہ ھے کہ ڈاکو نماز پڑھے۔ پھر جب کسی بیوہ کے ساتھ ‍ظلم ھوتا تو جونہی بدر منیر سکرین پر نظر آجاتا ھر طرف سیٹیاں اور تالیاں بجتی۔ کسی لڑکی کے ساتھ ظلم ھوتا تو بدر منیر کے راہ تکتنے والے سنیما بین اس کے آنے کے لئے بے تاب ھوتے۔ گاوں کا خان یا غونڈہ بدمعاش جب کسی بے سہارے پر ظلم کرتا تو فلم بین بدر منیر کی راہ تکتے ، ھوتے ھوتے ھماری پوری قوم بدرمنیری قوم اور پورا معاشرہ بدر منیری معاشرہ بن گیا۔ اب جب بچیوں کا سکول بم سے اڑایا جاتا ھے تو ھم کسی بدر منیر کے انتظار کی وجہ سے اس کا ایف آئی آر بھی نہیں درج کراتے۔ کسی بچی کو جب سڑک پر سرعام کوڑے مارے جاتے ھیں تو کسی بدر منیر کی راہ تکتے ھیں۔ سوات کی مائیں بہنیں بزرگ بے سرو سامانی میں اپنے گھروں سے بے گھر ھوجاتے ھیں لیکن ھم کسی بدر منیر کا انتظار کرتے ھیں لیکن جب کوئی فوٹو فوبیک ھمارے عیرت مند پشتون ماوں بہنوں میں گھی کے ڈبے تقسیم کرتا ھے تو ھم تالی بجاتے ھیں۔ خیبر کے لوگ در بدر ھوجاتے ھیں ھم عیرت مند اپریدی بے گھروں کے کیمپ کا دورہ کرنے والے کرنل کی امد پر تالیاں بجاتے ھیں۔ خیبر کے سینکڑوں لوگ بے گناہ مارے جاتے ھیں ھم کسی بدر منیر کی راہ تکتے ھیں۔ پشاور لہو لہان ھوتا ھے ھم بدر منیر کا انتظار کرتے ھیں۔ وزیرمحسود کی سرزمین پر موت کا کھیل کھیلا جاتا ھے ھم بدر منیر کی راہ تکتے ھیں۔ بونیر میں ظلم ھوتا ھے ھم بے خبر ۔ کراچی میں پشتونوں کا قتل عام ھوتا ھے ھم پسماندگان میں قاتلوں کے ھاتھوں امدادی چیک تقسیم کرنے پر تالیاں بجاتے ھیں۔ ھم ابھی تک سنیمائی دور میں رہ رھے ھیں۔ حالانکہ ھر گاوں اور ھر قصبے میں بدر منیر کے باپ رھتے ھیں۔ لیکن سب لوگوں کا تالیاں اور سیٹیاں بجانے کی عادت ھوگئی ایک کوا کہے گا میں شاھین ھوں اور ھم تالیاں بجاتے ھیں، ایک زناکار بدکردار تقریر کرے گا ھمیں معلوم ھوتا ھے کہ یہ بدکردار ھے پھر بھی تالیاں بجاتے ھیں۔ ایک چور لٹیرا کہے گا میں قوم کا بڑا خدمتگار ھوں اور میں نے ساری زندگی قوم کی خدمت کے علاوہ کچھ نہیں کیا ھے اور ھم تالیاں بجاتے ھیں۔ حالانکہ ھمیں معلوم ھوتا ھے کہ اس نے قوم کے پیسوں پر بنگلے بنائیں ھیں۔ پتہ نہیں ھم کب اس بدرمنیری روایت سے باھر آئینگے یا ساری زندگی ملٹری پولیس کے ڈیرہ اسماعیل خان والے سنیما میں بیٹھے رھیں گے ؟؟؟ میرے ھاتھ شل ھوجائیں اگر میں کسی چور، بدکردار ، لٹیرے کی بات پر تالی بجاوں۔
محمد شعیب قادری

ہم عورتوں کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟

www.swatsmn.com



Image copyrightBBC WORLD SERVICE
Image caption’گھر کی صاف صفائی بغیر اجرت کے کام میں شمار کیا جانا چاہئے‘
سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ خواتین کے حوالے سے دنیا بھر میں لوگ بہت کم جانتے ہیں کیونکہ عموماً سرکاری اعدادوشمار میں ان کا ذکر نہیں ہوتا ور ان کی زندگی کو پوری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے لیکن کیا کیا جائے؟
غربت کے خلاف کام کرنے والے گروپ کے ڈائریکٹر ڈیوڈ میک نائر کا کہنا ہے کہ یہ صنفی امتیاز کا شکار اعدادوشمار کا بحران ہے۔
ان کے مطابق ’اسے صنفی امتیاز پر مبنی اس لیے قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ ڈیٹا جمع کرنے کے عمل میں خواتین کو غیر متناسب انداز میں نظرانداز کیا جاتا ہے۔ انھیں شمار ہی نہیں کیا جاتا اور نتیجہ یہ کہ ان کی پروا کسی کو نہیں ہوتی۔‘
امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہلری کلنٹن بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ واشنگٹن میں اعدادوشمار سے متعلق کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ بہت سے ممالک میں عورتوں اور ان کی بنیادی زندگی تک کے بارے میں معتبر اعدادوشمار ہیں ہی نہیں۔
Image captionگھر کا کھانا بنانا بھی سرکاری اعادوشمار کا حصہ ہوگا
’ایسے حقائق کہ عورتوں کے یہاں عموماً پہلا بچہ کب پیدا ہوتا ہے، وہ کتنے گھنٹے کام کرتی ہیں، انھیں کتنی اجرت ملتی ہے اور کتنا وہ بغیر اجرت کے کام کرتی ہیں۔ کیا وہ کسی زمین اور جائیداد کی مالک ہیں یا نہیں؟ دنیا کی آبادی کا آدھا حصہ عورتوں پر مشتمل ہے اور یہ ایسا ہے کہ جیسے ہم اس آدھی آبادی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔‘
مرکز برائےعالمی ترقی سے وابستہ مائرہ بیوونچی کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ممالک لیبر فورس سروے سے اعدادوشمار حاصل کرتے ہیں اور یہ سروے ان رسمی شعبہ جات پر مبنی ہوتے ہیں جہاں زیادہ تر مرد ہی کام کرتے ہیں۔
مائرہ کا کہنا ہے کہ اس میں وہ عورتیں شامل نہیں ہوتی جو بنیادی طور پر گھر سنبھالتی ہیں لیکن درحقیقت وہ اس کے ساتھ ساتھ کھیتوں میں کام کرتی ہیں ، جز وقتی ملازمتیں کرتی ہیں اور بہت سی عورتیں اپنا خود کا کاروبار بھی کرتی ہیں۔
Image captionعورتوں کی زندگی کے مختلف پہلووں کو بھی سروے میں شامل کیا جانا چاہئے
ان کا کہنا ہے کہ سروے میں صحیح سوال بھی نہیں کیے جاتے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب سروے میں عورتوں کے وہ کام بھی شامل ہونے چاہییں جس کی انہیں اجرت نہیں ملتی مثلاً صفائی کرنا اور کھانا پکانا اور اسے اقتصادی اعدادوشمار میں بھی شامل کیا جانا چاہیے۔
مائرہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ تمام ممالک عورتوں کی زندگی کے دیگر پہلوؤں پر بھی اعدادوشمار جمع نہیں کرتے جیسے کہ بچوں کی پیدائش کے وقت اموات، گھریلو تشدد وغیرہ اور اگر کرتے بھی ہیں تو اس طرح کہ اس سے عالمی مہم میں دشواری پیش آتی ہے۔
عورتوں اور مروں کے بارے میں اعدادوشمار علیحدہ علیحدہ جمع نہیں کیتے جاتے جس سے یہ پتہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ عورتوں کے ساتھ مساوی سلوک کیا جا رہا ہے یا نہیں۔
Image copyrightREUTERS
Image captionعورتیں گھر سنبھالنے کے ساتھ ساتھ کھیتوں میں بھی کام کرتی ہیں
ماہرین کا کہنا ہے کہ درست اعدادوشمار سے حکومت کو مسائل سمجھنے اور انھیں حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر اعدادوشمار درست ہوں تو ذمہ داروں کو جواب دہ ہونا پڑتا ہے اور ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے مفاد کے لیے اطلاعات عام کرنے کے حق میں نہیں ہوتے۔
مثال کے طور پر اگر روزگار سے متعلق اعدادوشمار سیاسی رہنماؤں کی شبیہ خراب کر سکتے ہیں تو وہ نہیں چاہیں گے کہ انہیں جمع کیا جائے۔
حال ہی میں اقوامِ متحدہ کے ادارے ’انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن‘ کی ایک کانفرنس میں اس بار پر اتفاق ہوا ہے کہ گھر کے کام کاج اور بغیر اجرت والے کاموں سے متعلق اعدادوشمار بھی حاصل کیے جانے چاہییں مثال کے طور پر آپ کو اپنے گھر کی صفائی میں کتنا وقت لگتا ہے۔
دس ممالک نے اس میں شامل ہونے پر رضامندی ظاہر کی ہے سو اب مستقبل میں ہمیں عورتوں کے کاموں کا بھی اندازہ ہو سکے گا۔

MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan EXTED.pk

Admission open  MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan   http://facebook.com/ exted.p k http://www.exted.pk/ Lowest Fee ,   No IELTS...