Thursday 29 January 2015

وہ دروازہ جسے ’گیٹ آف ڈیتھ‘ کہتے تھے

www.swatsmn.com

وہ دروازہ جسے ’گیٹ آف ڈیتھ‘ کہتے تھے

بہت سی ہالی وڈ فلموں میں اس کیمپ کی تصویر کشی کی گئی ہے
دوسری عالمی جنگ کے دوران پولینڈ میں نازيوں کے قائم کردہ تشدد کیمپوں میں تقریباً دس لاکھ لوگوں نے اپنی جان گنوائی جن میں بیشتر یہودی تھے۔
ان کیمپوں سے لوگوں کی رہائی کے 70 سال مکمل ہونے پر کئی پروگرام منعقد کیے جا رہے ہیں۔
چند سال قبل میں جب پولینڈ گئی تھی تو ان کیمپوں میں جانے کا اتفاق ہوا تھا۔
25 دسمبر کو وہاں ایک جشن بھرے ماحول میں کرسمس منایا۔ کرسمس کے بعد خیال آیا کیوں نہ پولینڈ کو قریب سے دیکھوں اور سمجھوں۔ لیکن پولینڈ کی تاریخ کو وہاں قائم کیے جانے والے یہودی تشدد کیمپوں کے بغیر سمجھنا ناممكن ہے۔
وہاں کے ایک چھوٹے سے شہر سے کار کے ذریعے میں اپنی میزبان کے ساتھ صبح آؤشوتز پہنچی۔
جب آؤشوتز کیمپ میں لوہے کے دروازے سے آپ کیمپ میں داخل ہوتے ہیں تو ایک بورڈ نظر آتا ہے جس پر ’آپ کا کام آپ کو آزادی دلواتا ہے‘ لکھا ہے۔
اندر آنے پر نظر ایک خاص دروازے پر ٹھہر گئی۔
کہا جاتا ہے کہ اس میں لاکھوں لوگوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا جن میں بیشتر یہودی تھے
نازی دور پر ہالی وڈ کی کئی فلمیں بنی ہیں۔ ان میں سے بیشتر فلموں میں ایک منظر ہوتا ہے جس میں یہودی لوگوں سے بھری ریل گاڑیوں کو ایک دروازے سے کیمپ میں داخل ہوتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔
اس دروازے کو ’گیٹ آف ڈیتھ‘ کہا جاتا ہے۔
صفر سے بھی کئی ڈگری نیچے درجہ حرارت میں برف سے ڈھکے اس دروازے کے پاس جب میں کھڑی تھی تو میرے جسم میں ایک عجیب سی سرسراہٹ دوڑ گئی۔
یہاں کے ویرانہ پن اور سناٹے کے درمیان کھڑے ہو کر آپ اس منظر کا کا محض تصور ہی کر سکتے ہیں۔
اس کیمپ کا دورہ کروانے والی گائیڈ ہمیں ایک خاص جگہ لے گئیں اور بتایا کہ لاکھوں لوگوں کو ان گیس چیمبروں میں ڈال کر مار دیا گیا تھا۔
یوں تو آج تک ملک اور بیرون ملک کے کئی ميوزیموں میں جانا ہوا لیکن آؤشوتز کے میوزیم میں جانا بے حد مختلف اور دلدوز تجربہ رہا۔
میوزیم کے اندر تقریباً دو ٹن بال رکھے ہوئے تھے۔
اس واقعے کے 70 سال بعد لوگ اس کی یاد میں کئی تقریبات منعقد کر رہے ہیں
گائیڈ نے بتایا کہ مرنے سے پہلے نازی لوگوں کے بال کاٹ لیتے تھے تاکہ ان سے کپڑے وغیرہ بنائے جا سکیں۔
لکڑی کے کچھ بستر بھی وہاں رکھے ہیں جہاں قیدی سوتے تھے۔ یہاں کی ہر چیز ایک کہانی کہتی ہے۔ کیمپ میں گھومتے ہوئے میں وہاں کے بیت الخلا تک پہنچی۔
گائیڈ نے بتایا کہ قیدی ان بیت الخلاؤں کو صاف کرنے کی ڈیوٹی کرنے کو بہتر کام سمجھتے تھے کیونکہ ٹوائلٹ صاف کرنے والوں کو کم تکلیفیں دی جاتی تھیں۔
لیکن ان کیمپوں میں ایک انوکھی چیز بھی نظر آئی۔ تشدد کے درمیان چھپ چھپا کر کچھ قیدی فن کو زندہ رکھے ہوئے تھے۔
ایک قیدی کے آرٹ ورک دیکھ کر دل میں خیال آیا کہ اس قیدی کے ذہن میں اس وقت کس قسم کے خیالات آ رہے ہوں گے۔
آؤشوتز کیمپ کے احاطے میں ایک دیوار ہے جسے ’وال آف ڈیتھ‘ کہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہاں اکثر لوگوں کو برف کے درمیان کھڑا کر کے گولی مار دی جاتی تھی۔
یہاں ہلاک شدگان کے جوتے وغیرہ یادگار کے طور پر رکھے گئے ہیں
آؤشوتز کیمپ کے اس دورے میں ایک بات مجھے بہت كھٹكي۔ میری میزبان دوسرے شہر سے گاڑی چلا کر مجھے یہاں لائیں لیکن وہ اندر نہیں گئیں۔
انھوں نے گھنٹوں باہر کھڑے ہو کر میرا انتظار کیا۔ دریافت کرنے پر انھوں نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ شام کو وہ مجھے اپنی دادی کے گھر لے گئیں جن کی عمر 80 سال سے زیادہ تھی، اور ان کی آنکھوں میں روشنی نہ کے برابر تھی۔
انھوں نے بتایا کہ کس طرح وہ نازی تشدد کیمپ سے بچ نکلنے میں کامیاب رہیں لیکن ان کے خاندان کے دوسرے لوگ مارے گئے۔
اس کے بعد میں نے اپنی میزبان سے کچھ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا اور نہ ہی ان سے دوبارہ آؤشوتز کے بارے میں بات کی۔
بشکریہ بی بی سی 

Wednesday 28 January 2015

سور روپے کی چوری

www.swatsmn.com

بوسٹن (نیوز ڈیسک) بینک ڈکیتی کرنے والے عام طور پر بے حس اور سفاک مجرم ہوتے ہیں جو مال و زر کی ہوس میں کروڑوں کی لوٹ مار کرتے ہیں مگر امریکہ میں ہونے والی ایک بینک ڈکیتی میں صرف ایک ڈالر کا مطالبہ کیا گیا اور ڈکیت کا کہنا ہے کہ اس نے مال و دولت کیلئے نہیں بلکہ طبی بنیادوں پر ڈکیتی کی ہے۔
اخبار ”گیسٹن گزٹ“ کے مطابق ایک 54 سالہ شخص گیسٹونیا بینک میں داخل ہوا اور کیشیئر کو ایک پرچی تھمائی جس پر لکھا تھا کہ فوری طور پر ایک ڈالر اس کے حوالے کر دیا جائے ورنہ اس کے پاس پستول بھی ہے۔ کیشیئر اس عجیب و غریب مطالبے سے گھبرا گئی اور فوراً 911 پر ایمرجنسی کال کر دی۔ پولیس آئی تو ڈاکو آرام سے ٹوفے پر بیٹھا تھا جسے فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا۔ ڈاکو کی کہانی اخبار کو پہلے ہی ایک خط کی صورت میں موصول ہو چکی تھی۔ اس نے لکھا تھا کہ وہ بیروزگار تھا اور اپنی کمر کے درد، پیر پر زخم اور چھاتی پر بننے والے ابھار کا علاج کروانے کیلئے نہ اس کے پاس رقم تھی اور نہ اس کی ہیلتھ انشورنس ہوئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ ڈکیتی کے جرم میں اسے جیل پہنچایا جائے گا اور دوران قید حکومت اس کا علاج بھی کروا دے گی۔ بیمار ڈاکو کا کہنا ہے کہ صرف ایک ڈالر کی ڈکیتی کرنے کا مقصد تھا کہ دنیا کو معلوم ہو کہ وہ دولت کی ہوس نہیں رکھتا تھا بلکہ اپنے علاج کیلئے جرم کرنے پر مجبور ہوا تھا۔ مجرم پولیس کی حراست میں ہے اور تاحال یہ واضح نہیں کہ اسے جو قید ہو گی اس مدت میں علاج ہو پائے گا یا نہیں۔ بشکریہ( پاکستان )

Tuesday 27 January 2015

مجھے شرم اتی ہے خود کو ہندوستانی کہتے ہوئے

www.swatsmn.com
فوٹو؛ اے ایف پی
پھر مجھے خیال آیا کہ اس ٹوئٹر ٹرینڈ اور موضوع کے بارے انٹرنیٹ پر مزید پڑھوں تاکہ حقائق سے آگاہی حاصل ہوسکے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ گوگل نے مجھے ایک ایسے فیس بک پیج پر پہنچا دیا جہاں ہندو نام رکھنے والے کچھ خواتین و حضرات نے سال 2013 میں ریپ پبلک ڈے کی اصطلاح استعمال کی تھی اور لوگوں کو یوم جمہوریہ کے بائیکاٹ کرنے کی صلاح دی تھی۔ یہ فیس بک پیج دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ نہ تو یہ اصطلاح نئی ہے اور نہ ہی یوم جمہوریہ منانے کی مخالفت۔ پیج بنانے کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ جس آئین کی شان بڑھانے اور قصیدے گانے کے لئے یوم جمہوریہ منایا جاتا ہے وہ آئین ملک میں خواتین کو ان کا مقام دلانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ اس لئے طمطراق سے یومِ جمہوریہ منانے کا مقصد فوت ہوچکاہے۔ اس پیج کو جوائن کرنے والے افراد کی تعداد بہت کم تھی، لیکن اس کے بنانے والوں نے ایک الگ زاویہ دکھا کر ری پبلک ڈے منانے اور ترقی کے حوالے سے  ڈینگیاں مارنے والوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور ضرور کردیا۔
اس حوالے سے مزید پڑھنے کے لئے دوبارہ انٹرنیٹ کا رخ کیا اور پڑھتے پڑھتے ایک اور لنک پر پہنچا، جہاں بھارتی وزارتِ داخلہ کے ذیلی ادارے (نیشنل کرائم ریکارڈ ز بیورو) نے اعداد وشمار کے حوالے سے کہا ہے کہ صرف سال 2013 میں 33,707 خواتین ریپ کا شکار ہوئیں۔  تجزیہ کاروں نے تخمینہ لگایا ہے کہ اس حساب سے بھارت میں ہر 22 منٹ میں ایک عورت جنسی درندگی کا شکار ہوتی ہے۔ جنسی درندگی کے شکار زیادہ افراد کی عمر 16 سے 18 سال ہے جبکہ 18 سے 30 سال تک کی خواتین بھی بڑی تعداد میں جنسی درندوں کا شکار بن جاتی ہیں ۔
انڈیا ٹوڈے نامی اخبار نے جولائی 2014 کے ایک رپورٹ نے این سی آرڈی  کے مہیا کردہ اعداد وشمار کی بنیاد پر کہا ہے کہ  بھارت میں ہر روز 93 خواتین ریپ کا شکار ہوجاتی ہیں اور یہ کہ سال 2012 کی نسبت 2013 میں ریپ کا شکار ہونے والی خواتین کی تعداد 24,923 سے بڑھ کر 33,707  ہوگئی ہے۔ اسی ادارے نے تخمینہ لگایا ہے کہ سال 2010 سے اب تک ریپ واقعات کی شرح میں سات اعشاریہ ایک فیصداضافہ ہوا ہے۔
فوٹو؛ آئی بی این
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود بھارتی حکومت اس گھناونے فعل کی بیخ کنی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ قوانین، بلکہ بہت سخت قوانین بنے ہیں اور بہت ساروں کو سزائیں بھی مل رہی ہیں، لیکن ان سب کے باوجود جرائم میں اضافہ انتہائی تشویشناک ہے۔ لیکن اس گھمبیر صورتحال میں امید کی ایک کرن یہ ہے کہ بھارت کے مختلف شہروں میں ریپ کے واقعات کے خلاف بہت بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے اور وہاں کی سول سوسائٹی  نے حکومت اور ریاست کو اس حوالے سے موثر کردار ادا کرنے پر مجبورکرنے کی کوشش کی۔
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہندوستان اپنی ایک ارب سے زیادہ آبادی کے باوجود ریپ کے ہولناک جرائم کے حوالے سے دنیا میں پہلے نمبر پر نہیں ہے۔ نسبتاً کم آبادی رکھنے والے ممالک، مثلاً امریکہ، سویڈن، ساؤتھ افریقہ اور دیگر میں انڈیا کی نسبت زیادہ خواتین ہر سال جنسی درندگی کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار اور حقائق انتہائی تکلیف دہ ہیں، کیونکہ ان کے پیچھے ہمارے جیسے ہزاروں انسانوں کی ان گنت کربناک کہانیاں چھپی ہیں۔ اسی لئے دانشمندی اور انسانیت کا تقاضا یہی ہے کہ اس تکلیف دہ سماجی برائی کے حوالے سے کوئی بھی بیان جاری کرنے یا رائے کا اظہار کرنے سے پہلے ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم صرف اعداد و شمار کا ذکر نہیں کررہے بلکہ جیتے جاگتے انسانوں کے بارے میں بات کررہے ہیں جو جنسی درندوں کے ہاتھوں اذیت اُٹھاتے ہیں اور بعض اوقات تشدد کی وجہ سے موت کا شکار بھی ہو جاتی ہیں۔
یہ افسوسناک امر ہے کہ ہمارا رویہ مجموعی طور پر ایسا ہے کہ ہم لوگوں پر طنز تو کرتے ہیں لیکن نہ خود اپنی حرکتوں سے باز آتے ہیں اور نہ عملی طور پر ریپ کے شکار فرد کی کسی طور مدد کرتے ہیں۔ میری رائے میں ہمارے لئے بہتر یہی ہوگا کہ زیادہ آبادی والے ملک بھارت میں ریپ کے واقعات کی نشاندہی کرنے اور ان پر طنز کرنے کے بجائے ہم سب کو اپنے گریبان میں جھانکنے اور اپنے ممالک اور معاشروں میں اصلاح احوال کی سعی کرنی چاہیئے

Monday 19 January 2015

10 concrete reasons why Pakistan can go all the way

www.swatsmn.com
Despite of their inconsistency over the last 2 decades, Pakistan have been one of the giants of World Cricket. No matter how unpredictable they are as a team, you would surely regard them as dark horses, if not favorites when it comes to next month’s ICC Cricket World Cup 2015.
The fact that the men in green have loads of talent in their 15 man squad cannot be denied. Lets take a look at 10 concrete reasons why Pakistan can go all the way in Australia and New Zealand:
1 Form in World Cups: Pakistan may go into every World Cup not as the favorites, but their form in most ICC’s major competitions over the last two decades hasnt been disappointing at all. Pakistan won the 1992 World Cup when everybody least expected them to. They reached the semi finals of the 1996 and 2011 World Cups, and made it to the final of the 1999 World Cup. Although, next month’s World Cup is the ODI world cup, Pakistan’s form in the World T20 shows how well the seem to show up in all major competitions, having reached the semi final two times, the final once, and winning it once too.
21992 world cup was in australia and new zealand: The venue for next month’s elite tournament is the same as the one in the 1992 World Cup. Heading into the World Cup 2015, team Pakistan would surely have incredible moral backing and motivation of the side that triumphed famously back in 1992.
3Shahid Afridi’s last world cup: It is indeed going to be the end of an era, the era of Shahid Khan Afridi. Lala has been a massive asset to the Pakistan cricket team over the last 1 and a half decade, with both, bat and ball. His last World Cup would surely spark some emotions and promises to bring the best out of the legend, who can single handedly win matches for his team.
4Misbah and Younis’ solid duo: The retirements of Inzamam ul Haq and Muhammad Yousuf left a huge void in the Pakistan middle order. Pakistan have been lacking solid finishers who can see out games with a calm and composed attitude. The return of Younis Khan to the ODI fold and his partnership with Misbah can provide Pakistan with some much needed solidity right in the middle.
5 Spin bowling: Despite losing the services of both Ajmal and Hafeez in the spin attack, Pakistan’s leg spinners should do the trick in Australia and New Zealand. What many good teams in the world lack is a lethal spin bowling attack. Pakistan certainly have that, and with 3 of the favorites in England, Australia toand South Africa known to struggle against spin bowling, the men in green seem to carry a deadly weapon with them.
6Irfan , a more lethal version of Wasim Akram: No disrespect to the legend Wasim Akram, who is undoubtely one of the greatest bowlers to ever bowl a cricket ball, Pakistan have a deadlier left armer in the  footer Irfan. Besides just his good line and length, along with the ability to swing the ball both ways with pace, Irfan’s incredible height promises to give him a massive edge over any batsman in the World Cup.
7 First match against India: Its a fixture that might haunt every Pakistani when they think about it. Pakistan have never succeeded in picking up a win against their deadly rivals in World Cup tournaments. Many Pakistani legends have tipped the men in green to make history this time and topple the Indians over. A win in the opening game against India would be an enormous confidence booster for team Pakistan, who might take the momentum all the way.
8 Versatility in the squad: Unlike in recent years, the Pakistan squad for this World Cup possesses variety in all departments. If they get going, the men in green can do wonders with the bat. Two specialist openers in Hafeez and Shehzad would give Pakistan the perfect platform to take off right from the. The middle order contains the perfect blend of defence and with the likes of Younis Khan, Misbah, Sohaib Maqsood and Umar Akmal. Much like the batting, their bowling also looks a perfect mixture of pace and spin, with two left arm fast bowlers in Irfan and Junaid, and two specialist leg spinners in Afridi and Yasir Shah.
- See more at: http://www.pakistantv.tv/2015/01/18/why-pakistan-can-win-world-cup-2015-eight-8-reasons/#sthash.EC9iDvIM.dpuf

Saturday 17 January 2015

فراہم کردہ شواہد کو ناقابل اعتبار قرار دیتے ہوئے

www.swatsmn.com
جعلی شیخ بن کر کھلاڑیوں کو پھنسانے والے صحافی کے ثبوت بھی فرضی نکلے۔
پاکستانی فکسنگ اسکینڈل منظر عام پر لانے والے مظہر محمود کو لندن کی عدالت نے جھوٹا قرار دے دیا، انھیں اخبار سے پہلے ہی معطل کیا جا چکا، ان کی رپورٹ پر انگلینڈ میں گرفتار کیے جانے والے 13 فٹبالرز کو باعزت بری کردیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق مظہر محمود انگلینڈ کے معروف اخبار ’دی سن‘ کے لیے کام کرتے ہیں، وہ اسی کے ایک جریدے ’ورلڈ آف نیوز‘ کی جانب سے اسٹنگ آپریشن کے دوران 2010 میں پاکستانی کرکٹ کا سب سے بڑا فکسنگ اسکینڈل منظر عام پر لائے تھے، اس میں 3 کرکٹرز سلمان بٹ، آصف، عامر اور ان کے ایجنٹ مظہر مجید کو سزائیں ہوئیں۔
مذکورہ صحافی کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ جعلی شیخ بن کر مختلف کھلاڑیوں اور دیگر معروف شخصیات سے مل کرانھیں کرپشن پر اکساتے۔ پھر اپنی اسٹوری کے ساتھ وہ شواہد پولیس کو دے دیتا تھا۔ ورلڈ آف دی نیوز جاسوسی کے الزامات پر جب بند ہوا تو مظہر محمود دی سن کے’ آن سنڈے‘ جریدے میں کام کرنے لگے۔ ان کی رپورٹ پر انگلینڈ میں دسمبر 2013 میں پہلے 6 فٹبالرز کو گرفتار کیا گیا اور پھر اپریل میں مزید7کو پکڑا گیا۔ اب کراؤن پراسیکیوشن سروس نے جعلی شیخ مظہر محمود کے ایک پاپ اسٹار تولیسا کونٹوسٹیولس کے بارے میں دیے گئے شواہد مسترد ہونے کے بعد فٹبالرز کو تمام الزامات سے بری کردیا۔
صحافی نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ تلیسا گذشتہ سال جولائی میں کوکین کی ایک ڈیل میں مدد دینے کو تیار ہوگئی تھیں،ان کے ریپر دوست مائیکل کوبس کو بھی اس کیس میں گرفتار کیا گیا لیکن کورٹ میں ٹرائلز کے دوران مظہر کے شواہد ناصرف ناکافی قرار پائے،اس وجہ سے عدالت نے انھیں جھوٹا بھی قرار دے دیا جس کے بعد ’’سن اخبار‘‘ نے انھیں معطل کردیا ہے۔ اسی وجہ سے پراسیکیوشن نے مظہر کے فراہم کردہ شواہد کو ناقابل اعتبار قرار دیتے ہوئے تمام 13 فٹبالرز پر سے الزامات بھی واپس لے لیے ہیں۔

Thursday 15 January 2015

حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی

www.swatsmn.com
ترک وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے پیغمبر اسلام کی شان میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کی شدید مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی اور اس کے خلاف ہر سطح پر لڑا جائے گا۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ترک وزیراعظم نے یورپی یونین کے رہنماؤں سے ملاقات کے لئے برسلز روانگی سے قبل انقرہ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ترکی پیرس میں ہونے والے حملوں کی شدید مذمت کرتا ہے لیکن ان حملوں کی آڑ میں پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی اور اس کے خلاف ہر سطح پر لڑا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو اظہار رائے کی آزادی سے نہیں جوڑا جاسکتا، چارلی ہیبڈو کے اس عمل سے عالم اسلام میں شدید غم و وغصہ پایا جاتا ہے اور اپنے ملک میں پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کو ہر صورت روکیں گے۔
ترک وزیراعظم نے واضح کیا کہ جس طرح پیرس حملے سے متعلق ترکی کا موقف واضح ہے اسی طرح مسلمان ہونے کے ناطے پیغمبراسلام کی ناموس کے تحفظ کے لئے پرعزم ہیں اورکسی کو اپنے نبی کی شان میں گستاخی کی اجازت نہیں دے سکتے۔
واضح رہے کہ فرانسیسی ہفت روزہ میگزین چارلی ہیبڈو نے گزشتہ روز گستاخانہ خاکے شائع کئے تھے جبکہ ترکی کے بعض اخبارات اور ویب سائٹس نے بھی چارلی ہیبڈو کے شمارہ سے چند مضامین شائع کئے ہیں۔

چھوٹے بچوں کے سیکھنے اور یادداشت کی کلید لمبی نیند ہے۔

www.swatsmn.com
ائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چھوٹے بچوں کے سیکھنے اور یادداشت کی کلید لمبی نیند ہے۔
12 ماہ سے کم عمر بچوں پر کیے جانے والے تجربات سے معلوم ہوا کہ اگر بچے نئے کام کرنے کے بعد لمبی نیند نہ سوئیں تو وہ ان کاموں کو یاد نہیں رکھ پاتے۔
یونیورسٹی آف شیفیلڈ کے سائنس دانوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ کوئی نئی چیز سیکھنے کا بہترین وقت سونے سے تھوڑی دیر پہلے ہوتا ہے اور انھوں نے رات کے وقت پڑھنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند عمر کے ابتدائی برسوں میں زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔
بچے بڑوں کے مقابلے پر زیادہ سوتے ہیں۔ تاہم سائنس دانوں نے کہا ہے کہ بچوں کی زندگی کے پہلے سال میں نیند کے کردار کے بارے میں معلومات ’انتہائی کم‘ ہیں۔
سائنس دانوں نے چھ سے 12 ماہ کے بچوں کو ہاتھوں پر پہننے والے پتلوں کی مدد سے کچھ کھیل سکھائے۔ یہ سیکھنے کے بعد آدھے بچے چار گھنٹوں کے اندر اندر سوئے جب کہ دوسرے نصف یا تو سوئے ہی نہیں یا پھر آدھے گھنٹے سے کم وقت کے لیے سوئے۔
اگلے دن بچوں سے کہا گیا کہ وہ پچھلے دن سیکھا گیا کھیل دہرائیں۔ اس تحقیق کے نتائج پروسیڈنگز آف دا نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہوئے، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گہری نیند سونا سیکھنے کے لیے بہت اہم ہے۔
جو بچے جو خاصی دیر سوئے تھے، وہ ڈیڑھ کھیل دہرانے کے اہل تھے۔ اس کے مقابلے پر جو بچے سیکھنے کے بعد نہیں سوئے، یا کم دیر کے لیے سوئے، وہ سب کچھ بھول گئے تھے۔
یونیورسٹی آف شیفیلڈ کی ڈاکٹر جین ہربرٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جو بچے سیکھنے کے بعد سو گئے تھے، انھوں نے کھیل اچھی طرح سیکھ لیا، لیکن جو نہیں سوئے، وہ بالکل نہیں سیکھ سکے۔‘
انھوں نے کہا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ سیکھنے کے پوری طرح جاگا ہوا ہونا ضروری ہے، لیکن اس کی بجائے ’سونے سے قبل کے حالات سب سے زیادہ اہم ہیں۔‘
اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچوں کے ساتھ سونے سے پہلے کتابیں پڑھنا اور انھیں پڑھ کر سنانا کس قدر اہم ہے۔
گذشتہ برس ایک تحقیق میں نیند کے دوران یادداشت کے مکینزم پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ نیند کے دوران دماغی خلیوں کے درمیان نئی کڑیاں تشکیل پاتی ہیں۔
یونیورسٹی آف سرے کے نیند کے ماہر پروفیسر ڈیرک جان جک نے چھوٹے بچوں کو زیادہ سونا چاہیے، تاہم ’اس کا مطلب یہ نہیں کہ تربیت کے دوران ہی اونگھا جائے۔‘

Umeed

www.swatsmn.com






Wednesday 7 January 2015

Sunday 4 January 2015

عالمی ”پشتو امن مشاعرہ“ سوات

www.swatsmn.com
عالمی ”پشتو امن مشاعرہ“ سوات
روشنی
فضل محمود رو خان
اکیس نومبر 2014ءکو ودودیہ ہال سیدو شریف میں پختو کا ایک عالمی مشاعرہ منعقد ہوا۔ اس مشاعرہ پر فیاض ظفر ، گوہر علی گوہر اور شہزاد عالم نے اپنے نقطئہ نظر سے قارئین کو آگاہ کرنے کے لئے مختلف تاریخوں سے اخبارات میں لکھے ہیں۔ آزادئی رائے اور آزادئی اظہار کی رو سے یہ ان کا حق تھااور آئین پاکستان ہر کسی کو اس کا حق دیتا ہے۔ اس سے کسی خوشی یاخفگی کوئی معنی نہیں رکھتے۔ میں بھی مذکورہ مشاعرہ پر اپنی رائے کا اظہار کرنے جا رہا ہوں۔ جو سچ ہے اور جو حقیقت ہے وہی رقم کرنے جا رہا ہوں۔ اب خواں کسے ”بڑے“ کے طبع نازک پر گراں ہی کیوں نہ گزرے۔
فیاض ظفر صاحب نے اس مشاعرے پر اپنا رونا رویا ہے۔ یہ رونا اس کے مزاج کے خلاف ہے۔ میں اس کے تحاریر کا ایک عرصہ سے قاری چلا آرہا ہوں۔وہ تحریر کا باغی ہے۔ وہ جب قلم اُٹھا تا ہے تو کسی کو خاطر میں ہیں لاتا۔ اس کا یہی انداز مجھے بھاتا بھی ہے۔لیکن اس کالم میں جو کچھ اس نے رقم کیا ہے، ایک طرح سے تاریخ لوگوں کے سامنے رکھی ہے۔ مشاعرہ فیاض ظفر کے دم قدم سے یقینی ہوا۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ سیج سجی ہے اور دولہا میاں غائب۔ البتہ دولہن کی ڈولی کو ڈپٹی کمشنر سوات محمود وزیر ، پارسا کے سردار زیب، عطاءاللہ جان اور عثمان اولس یار نے اپنے کاندھوں ]ر اُ ٹھا رکھا تھا۔ باراتیوں سے ودودیہ ہال کچا کچ بھرا تھا۔ کافی شعراءآئے ہوئے تھے۔ اس موقع پر اگر دولہا( فیاض ظفر) بھی ہوتا تو محفل کی رونق دوبالا ہو جاتی۔فیاض ظفر سے عرض ہے کہ اگر آپ اس مشاعرہ کے لئے ”سوات ادبی سانگہ“ کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ، تو جا کچھ آپ کے ساتھ اس مشاعرہ میں ہوا،وہ کبھی نہ ہوتا۔ آپ کو کانٹا سمجھ کر یوں نہ پھینکا جاتا۔ کیو ں کہ ” سوات ادبی سانگہ“ ننگ، پت اور غیرت کا نام ہے۔ سوات ” ادبی سانگہ“ ایک ایسی تنظیم ہے جو سوات کے ادیبوں ، شاعروں اور دانش وروں کے حقوق کے لئے ہمیشہ سے لڑتی چلی آرہی ہے اور مستقبل میں بھی لڑے گی۔ اسے سوات کے باہر ادیب اور شاعر کی عزت کا خیا ل ہے۔ خواہ کوئی اس کا رکن ہو یا نہ ہو۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
بیس نومبر کو سوات کے ادباء و شعراء کے حق میں مذکورہ مشاعرے کے بارے میں جو بیان آیا تھا ، وہ کسی شخص مخصوص نے نہیں بلکہ ”سوات ادبی سانگہ“ہی نے جاری کیا تھا۔ ”سوات ادبی سانگہ“ نہیں چاہتی کہ سوات کا ادیب اور شاعر کسی کی نظروں میں گر جائے۔ گوہر علی گوہر صاحب (بٹ خیلہ) نے جو کالم شائع کیا ہے، وہ بھی مبنی بر حقیقت ہے۔ ”عالمی مشاعرہ“ بالکل ایسا نہیںہوتا۔ وہ ” عالمی معیار“ کا ہوتا ہے۔ میں نے کئی عالمی مشاعروں میں شرکت کی ہے۔ کوئٹہ کاعالمی مشاعرہ میں نے دیکھا ہے اور اسلام آباد کے عالمی مشاعروں اور پروگراموں میں مجھے بھی مدعو کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں تو چراغ تلے اندھیرا تھا۔ سوات کے ادیبوںاور شاعروں کو کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ اس مشاعرہ کے ”بڑوں“ نے سوات کے ادیبوں اور شاعروں کو سرے سے اعتماد میں لیا ہی نہیں تھا۔ پندرہ لاکھ کی خطیر رقم میں اس کے لئے ایسی تیاریاں ہو سکتی تھی کہ دنیا یاد رکھتی۔
ڈپٹی کمشنر محمد اسلم وزیر صاحب کو ”سوات ادبی سانگہ“ ہی نے ڈاکٹر فیاض ظفر صاحب کی کتاب کی تقریب رونمائی (پانچ ستمبر 2104ئ) کے موقع پر مدعو کیا تھا۔ مذکورہ تقریب سوات پریس کلب میں ان کی صدارت میں تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ خان محمد افضل خان لالا مہمان خصوصی تھے۔مجھے یاد کہ مذکورہ تقریب ہی میں ڈپٹی کمشنر نے عالمی مشاعرہ کی نوید سنائی تھی۔ آخر میں جب ڈپٹی کمشنر صاحب واپس جا رہے تھے، تو غلام فاروق خان جو سوات پریس کلب کے اہم عہدہ پر فائض ہیں، نے ان سے سکندر حیات کسکر کا تعارف کرایا تھا ۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے اس وقت کسکر سے کہا تھا کہ مجوزہ عالمی پشتو مشاعرے میں آپ کو مہمان خصوصی کے ساتھ جگہ دی جائی گی، لیکن عالمی مشاعرہ کے روز کسکر صاحب کو کسی نے گھاس تک نہیں ڈالی۔ اس طرح حمید اقبال گل رنگزئی جو کئی معیاری کتب کا مصنف ہے اورجس کی شاعری کو پسند بھی کیا جاتا ہے، وہ اس مشاعرے کے حوالے سے چیختا رہا، چلاتا رہا لیکن اسے بھی کسی نے نہیں سنا۔ میں مانتا ہوںکہ عالمی مشاعروں میں سارے مقامی شاعروں کو اسٹیج پر سنانے کے لئے نہیں بلایا جاتا، لیکن ادباءاور شعراءکو نظر انداز بھی تو نہیں کیا جاتا۔ جس طرح سوات کے بہت بڑے محقق، ادیب اوردانش ور محمد پرویش شاہین صاحب کو ایک سر نظر انداز کیا گیا۔ حالانکہ ان کی حیثیت ” نمر پہ گوتہ نہ پٹیگی“ کے مصادق ہے۔ شہزادہ برہان الدین حسرت صاحب جو بر سوات میں سوات کے ادب کی آبیاری اپنے خون سے کر رہے ہیں، اُن کو بھی کسی نے پوچھنے کی زحمت تک گوارا نہ کی۔ موضع پارڑئی سوات کے سجاد خان ، جو ایک ادبی تنظیم کی روح رواں ہیں، کبل کے نقیب احمد فطرت صاحب، عبدالطیف شاہین صاحب اور سب سے بڑھ کر بریکوٹ کی ادبی تنظیم ”ایلم ادبی ٹولنہ “ کو سرے سے نظر انداز کیا گیا ہے۔ عین موقع پر فیاض ظفر کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا گیا ہے، سوات کے ادبا ءوشعراءکے ساتھ اس سے بھی بڑی نا انصافی کی گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس مشاعرہ کو ہر لحاظ سے کامیاب بنانے کے لئے اس کے منتظمین کو سوات کے ادبا ءو شعراءکو اعتماد میں لینا چاہئے تھا اور اس کے لئے ایک میٹنگ کا انتظام کرنا چاہئے تھا۔ سوات کے صحافی براداری کو اس کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کرنا چاہئے تھا اور انھیں اعتماد میں لیا جان چاہئے تھا، تب کہیں جاکر ایک مشترکہ ٹیم بنتی اوراس کے لئے کام کرتی۔ تب شاید یہ مشاعرہ مثالی بنتا۔
لیکن اس کے باوجود میں پھر بھی ڈپٹی کمشنرسوات، یورپی یونین کے مقا می آفیسر، پارسا کے سردار زیب ، عطاءاللہ جان اور عثمان اولس یار کو اُن کی کاوشوں پر مبارکباد دیتا ہوں ۔ انسان تو ویسے بھی غلطیوں کا پتلا ہے۔ اگر اب کی بار ہونے والی غلطیوں کو آئندہ نہ دہرا جائے تو از چہ بہتر؟

خالی رسید

www.swatsmn.com

کرپشن ، دھوکا ، فریب کی جڑ ایک خالی رسید سے ہی شروع ہوتی ہے۔ آپ میں سے کافی احباب یہ جانتے ہونگے ۔ جو کسی دفتر ، سکول ،این جی او ۔ دکان ،مطلب کسی بھی شعبہ زندگی میں مصروف ہو۔ آپ کا واسطہ ایسے لوگوں سے ضرور پڑھتا ہوگا ۔ جو آپ سے چیزے خرید کر یا کوئی کام کروا کر آپ سے رسید وصول کر ینگے ۔ اور ساتھ میں فرمائینگے بھائی جا ن ایک خالی رسید بھی دئیے دیں ۔ اب لازمی بات ہے کسٹمر کو تو ناراض کرنا مشکل ہے۔ آپ اُن کو روزانہ نہیں تو دوسرے تیسرے دن ایسے ہی خالی رسید دیتے رہتے ہیں ۔ کیا آپ جانتے ہے ۔ خالی رسید وصول کر نے والوں میں 98%افراد خالی رسید کا کہاں پر اور کیسے استعمال کر تے ہیں ۔
لازمی بات ہے جب آپ اُن کو 100روپے میں جو چیز دیتے ہوں یا رسید بنا کر دیتے ہو۔ وہ اپنے لیے تو بھی کمائے گا ۔ اور وہ100کو 300نہیں تو 200کا ٹوٹل تو بنا ئے گا ؟ اب آپ خود اندازہ کریں اس معمولی سے بات سے اگے کتنا کرپشن ہوتا ہوگا ۔ میرے تجربے کے مطابق جہاں تک مجھے معلوم ہے ۔ 99%افراداور ایسے ادارے بھی ہیں ۔ جہاں پر دکان یا کسی سٹور سے رسید وصول کرنے کے ضرورت بھی نہیں پڑھتی ۔ان اداروں میں نا معلوم دکانداروںیا سٹور وں کے رسید بک بھی پڑے ہوتے ہیں ۔ جب دل نے چاہا رسید کاٹ کر آفسر بالا کو پیش کیا جا تاہے ۔ آپ نے غور کیا ہے کہ جب کسی ادارے کا ایک معمولی سے (پوسٹ ہولڈر ) ، یا نوکر فوٹو سٹیٹ کیلئے فوٹوکاپیر کے پاس 5روپے کے فوٹو کاپی کرانے جاتے ہیں ۔ تو یہ صاحبان وہا ں پر 5کو 50کرنے کا کسر نہیں چھوڑتے ۔ اکثر دوستوں اور سٹوڈنٹس کے طرف سے مختلف قسم کے ایمانداری کے حوالے سے پوسٹ لنک کئے جاتے ہیں ۔ اس میں مندر جہ ذیل قسم کے موضوعات کو ٹارگٹ کیا جاتا ہیں۔
ہمارے معاشرے میں پانی کے گلاس کو کولر کے ساتھ باندھ کے کیوں رکھا جاتا ہے ۔ گلی کے لائٹ کو لاک کیوں لگائے جاتے ہیں ۔ آفس ، دکان ، میں پین یا کالکولیٹر کو تار کے ساتھ کیوں باندھا جاتا ہے ۔حتکہ بنکوں میں بھی کانٹر پر موجود کیشر کے ٹیبل پر موجود پین کو کیوں وائر کے ساتھ باندھا جاتا ہے۔ کیوں کہ ہمارے معاشرے میں ایماندار ی ، اصول پسندی ، دیانتداری ، سچائی عام نہیں ہیں ۔
انڈین فلموں کے طرح اداکاری تو کر چکے اور لوگوں کو متاثر بھی کر لیا ۔ مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں اور نہ میں جانتا ہوں کہ اسٹبلشمنٹ یا بیرو کریٹ کون ہے ؟؟؟؟؟؟ ان کا کردار کیا ہے ؟؟؟؟ مجھے غرض ہے آمن سے مجھے میرے شہر میں کولر کے ساتھ باندھا ہوا گلاس نہیں چاہئے ۔ اور ایسا نظا م(تبدیلی ،انقلاب) لائے جائے ۔ جہاں پر کوئی خالی رسید نہ مانگے ۔ اور جن جن شہزادوں نے خالی رسید کے بل بوتے پر لاکھوں نکلوائے ہیں ۔ اُن کے بارے میں معلوم کیا جائے ۔
ہم تو ایسے بے ضمیر معاشرے کا حصہ بنے ہوئے ہے۔ جہاں اپنے بیوی اور بچوں کے نام سے جعلی میڈیکل کے کاغذات بنا کر آفسر بالا سے پیسے نکلواتے ہیں ۔ تعلقات کا غلط فائدا اٹھا کر تنخوا ہ کسی اور جگہ سے؟؟ اور کام کسی اور جگہ ؟؟
کو ن بند کرے گا اورکون پکڑے گا ان خالی رسید والوں کو ۔

MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan EXTED.pk

Admission open  MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan   http://facebook.com/ exted.p k http://www.exted.pk/ Lowest Fee ,   No IELTS...