Saturday 23 April 2016

خالی پیٹ لہسن کھانا۔۔ نا قابل یقین فوائد

www.swatsmn.com

اکثر سننے میں آیا ہے کہ لہسن کا استعمال بلڈ پریشر کے مریضوں کے لئے بیحد مفید ہے۔ یہ بات یقینا درست ہے مگر اس کے علاوہ یہ بہت سے دوسرے مسائل کا بھی مفید حل ہے۔ خاص کر خالی پیٹ لہسن کا استعمال ایک خاص قسم کی افادیت رکھتا ہے۔ لہسن ایک خاص قسم کا قدرتی انٹی بائیوٹک ہے جو کئی بیماریوں سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
لہسن کو خالی پیٹ کھانے کے بہت سے فائدے ہیں۔
خالی پیٹ لہسن کھائیں گے تو پیٹ میں موجود بیکٹیریا ختم ہو جائیں گے،جس سے آپ صحت مند اور کئی بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں گے۔
لہسن کا  استعمال سےجسم کا مدافعتی نظام میں بہتری آتی ہے۔
 لہسن خون کو پتلا کرتا ہے جس سے آپ کے خون کا نظام تیز رہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ بلڈ پریشر کنٹرول کرنے میں بھی  مددگار ثابت ہوتا ہے۔
اگر آپ کو جلدی بیماری کا مسئلہ درپیش ہو تو کھانے میں لہسن کی مقدار بڑھادیں۔ اس سے آپ کے جسم میں زہریلے مادے کم ہوں گے اور جلد تر وتازہ رہے گی۔
اگر خون کی شریانیں بند ہونے لگیں تو روزانہ خالی پیٹ لہسن کا استعمال کریں بہت جلد آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کی طبیعت بحال ہو رہی ہے۔
لہسن ایک قدرتی انٹی بائیوٹک ہے اور سردیوں میں اس کے استعمال سے انسان کھانسی، نزلہ اور زکام سے محفوظ رہتا ہے۔
اگر اعصابی کمزوری کا مسئلہ ہو تب بھی لہسن انتہائی مفید ثابت ہوتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون محض معلومات عامہ کے لئے ہے۔
thanx , Aaj

Sunday 3 April 2016

ملاکنڈ ڈویژن یا پاٹا میں کسٹم ایکٹ کا نفاذ- ایک نظر۔

www.swatsmn.com

کل پرسوں سے پرنٹ اور سوشل میڈیا پر ملاکنڈ ڈویژن یا پاٹا میں کسٹم ایکٹ کے نفاذ پر لوگوں کا رد عمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بعض دوست اس کو حکومتی چالبازی اور چوری چھپے کا عمل قرار دے رہے ہیں تو کچھ دوست اس فعل کو اچھا قدم قرار دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے میں کچھ گذارشات اپنے نکتہ نظر کے طور پر بتانا چاہ رہا ہوں۔
سب سے پہلے اس امر ضرورت ہے کہ یہ قانون اتنی دیری سے کیوں نافذ کیا جا رہا ہے؟ ملاکنڈ ڈویژن و ضلع کوہستان کی ایک خصوصی آِئینی حثیت ہے۔ جس کو پاکستان کے آِیئن کے دفعہ 246 کے تحت بیان کیا جاتا ہے۔ یہ قبایئلی علاقے ہیں جنکو مختلف درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یعنی فاٹا، پاٹا، ایف آرز۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں سابقہ نوابی ریاستوں دیر، چترال، سوات، امب، اور کوہستان اور مانسہرہ کے قبایئلی علاقوں اور ملاکنڈ پروٹیکٹڈ ایئریا کو صوبائ قبایئلی علاقوں یعنی پاٹا کے طور پر دستور پاکستان میں درج ہیں۔
اس طرح پاکستان کے آیئن کی دفعہ 247 کے تحت ان علاقوں میں قانون کی عملداری کے طریقے بیان کرتی ہے۔ جس کے رو سے صوبے کی ایکزیکٹیو اتھارٹی کا اختیار ہے کی قوانین بنا ئے، ان علاقوں میں مختلف قوانین کی عملداری / نفاذ کا اختیار صدر مملکت کے پاس ہے اور وہ صوبے کے گورنر کے ذریعے ان قوانین کا نفاذ کرے گا۔ پارلیمنٹ [قومی اسمبلی و سینٹ] و صوبائ اسمبلی کی طرف سے منظور شدہ کوئ قانون صدر مملکت کے خصوصی حکم نامے کے بغیر ان قبائیلی علاقوں میں نافذ نہیں ہو سکتے۔ خواہ وہ قانون ان علاقوں کے حوالے سے کیوں نہ ہو۔ یا وہ ان علاقوں میں کسی یونیورسٹی کے قیام کے لئے اسمبلی سے پاس شدہ ایکٹ کیوں نہ ہو۔ صدر مملکت کے پاس یہ اختیار ہے کہ کسی ایک قبایئلی علاقے یا تمام علاقوں کی قبایئلی حثیت کو ختم کرے۔ ان علاقوں کے قبائیلی حثیت کے حوالے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے پاس کوئ اختیار نہیں اور اس کو ختم نہیں کرسکتی۔
میرے خیال میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماری یعنی ملاکنڈ ڈویژن کی خصوصی آیئنی حثیت کو ختم کیا جائے جس کی تعریف آیئن پاکستان کے دفعہ 246 کے تحت کی گئی ہے اور طرز حکمرانی 247 کے تحت فرد واحد کے تابع ہے۔ اس وجہ سے ہم اس ریاست میں دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ بہت سارے عوامی مفاد کے قوانین یہاں نافذ نہیں ہیں۔ پی ٹی آئ کو بر سر اقتدار آئے ہوئے تین سال گذر گئے۔ اس دوران صرف دو قوانین پاٹا میں نافذ ہو سکیں ہیں جو لوکل گورنمنٹ اور رایئٹ ٹو پبلک سروسز ایکٹ ہیں ۔ عوام کے لئے ایک کار آمد قانون اطلاعات تک فراہمی کا قانون ہے جو ابھی تک پاٹا میں نافذ نہیں ہو سکا ہے ۔ یونیورسٹیوں کا ماڈل ایکٹ پاٹا کے یونیورسٹیوں پر نافذ نہیں ہے۔ ہم پچھلے دو دہائیوں میں دیکھ چکے ہیں کہ اسی پاٹا میں قوانین کے نفاذ کی آڑ لے کر یہاں کے امن کو کئی بار تباہ کیا گیا۔ اور حکومت کھبی نظام عدل تو کھبی شرعی نظام عدل، کھبی قاضی عدالتیں تو کھبی معاون قاضی عدالتیں اور کھبی دار القضا وغیرہ جیسے قوانین کا نفاذ کرتی آرہی ہے۔ جب پاٹا میں لا قانونیت عروج پر پہنچی تھی تو اس میں ایف ایم ریڈیو کا بڑا کردار تھا۔ حکومت ان غیر لایئسنس یافتہ ایف ایم چینلز کے خلاف کاروائ سے گریزاں تھی کیونکے یہاں پیمرا قوانین نافذ نہیں تھیں۔ اکیسویں صدی میں ہم پاٹا کے شہری جمہوری حق سے محروم ہیں کہ ہم اپنے لئے خود اسمبلیوں میں قانون سازی کر سکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے عوامی نمائندے خواہ وہ صوبائ اسمبلی میں ہوں یا پارلیمنٹ میں وہ ہمارے لئے قانون سازی کا حق استعمال کرے۔ اور وہ فوری نافذ ہوں وہ ربڑ سٹیمپ کا کردار ادا نہ کرے۔ اور پاٹا کے عوام و عوامی نمائندگان فرد واحد یعنی صدر مملکت کے مرضی و منشا کے محتاج نہ ہوں۔ حکومت فوری طور پر پاٹا کی خصوصی آیئنی حثیت ختم کرے اور اس مکمل سیٹلڈ علاقوں میں تبدیل کرے۔
اور باقی رہی ٹیکسوں کی بات تو ٹیکس کے دو اقسام ہوتے ہیں ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ۔ ان ڈائریکٹ پہلے سے نافذ ہیں جو ہر کوئ یہاں ادا کررہا ہے۔ یعنی ہم لوگ تمام اشیائے ضروریہ از قسم تیل، گھی، چینی، ادویات، کپڑا وغیرہ پر سیلز ٹیکس و دیگر ڈیویٹیز ادا کرتے ہیں۔ کیونکے یہ تمام ٹیکس ان اشیاء کے قیمت میں شامل ہیں اور غریب یا صاحب حثیت سب اس کو ادا کرتے ہیں۔ ڈائریکٹ ٹیکس صاحب حثیت لوگوں پر لاگو ہوتے ہیں مثلاً کسٹم، انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس وغیرہ۔ غریبوں کے پاس چونکہ قابل ٹیکس امدن نہیں ہوتی لہذا غریبوں کو اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ شکریہ ابراش پاشا

MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan EXTED.pk

Admission open  MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan   http://facebook.com/ exted.p k http://www.exted.pk/ Lowest Fee ,   No IELTS...