Wednesday 27 July 2016

’جب جنرل مشرف نے مجھے باحجاب دیکھا‘‘ تو کیا ۔۔۔۔۔۔۔ کہا ؟؟

www.swatsmn.com

’جب جنرل مشرف نے مجھے باحجاب دیکھا‘‘ 
تو کیا ۔۔۔۔۔۔۔ کہا ؟؟

’’میں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی، وہاں حجاب لباس کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ سو شروع ہی سے حجاب لیا. ہاں!شعوری طور پر حجاب کی سمجھ آج سے پندرہ سال پہلے آئی جب خود قرآن کو اپنی آنکھوں سے پڑھنا اورسمجھنا شروع کیا. ہم جس ماحول میں پروان چڑھے وہاں حیا اور حجاب ہماری گھٹیوں میں ڈالا گیا تھا۔ سو الحمدللہ! کبھی حجاب بوجھ نہیں لگا. حجاب کی وجہ سے کبھی کوئی پریشانی یا رکاوٹ نہیں آئی بلکہ میرا تجربہ قران کی اس آیت کے مترادف رہا 
’’تم پہچان لی جائو اور ستائی نہ جائو‘‘
الحمدللہ! حجاب نے میری راہ میں کبھی کوئی مشکل نہیں کھڑی کی بلکہ میں نے اس کی بدولت ہرجگہ عزت اور احترام پایا. اک واقعہ سنانا چاہوں گی، پرویز مشرف دور میں پاک فوج کی ’ایکسپو ایکسپو2001‘ منعقد ہوئی تھی، یہ ایک بڑی گیدرنگ تھی۔ اس کی تقریب میں واحد باحجاب میں ہی تھی، کچھ خواتین ( آفیسرز کی بیگمات ) نے اشاروں کنایوں میں احساس دلایا کہ ایسی جگہوں پر حجاب کی کیا ضرورت!! میں مسکرادی، کچھ دیر میں جنرل مشرف خواتین سے سلام کرنے لگے، خواتین جاتیں، ان سے ہاتھ ملاتیں، ان کے ساتھ لگ لگ کر تصاویر بناتیں.. میں کچھ اندر سےگھبرائی ہوئی تھی، اسی اثنامیں جنرل مشرف میری جانب مڑے، مجھے حجاب میں دیکھا تو اپنے دونوں ہاتھ کمر پر باندھ لیے اور جاپانیوں کے طریقہ سلام کی طرح تین بار سر جھکا کر سلام کیا۔ خواتین کا مجمع میری جانب حیرت سے تک رہا تھا... میری آنکھوں میں نمی اور فضاوں میں میرے رب کی گونج سنائی دے رہی تھی...
’’تاکہ تم پہچان لی جائو اور ستائی نہ جائو..‘

Thursday 21 July 2016

ترکی میں فوجی بغاوت ناکام کیوں ہوئی ۔۔۔ :

www.swatsmn.com

ترکی میں فوجی بغاوت ناکام کیوں ہوئی ۔۔۔ :
۔
ترکی میں صدر اردوغان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش ترک عوام نے ناکام بنا کر سب کو حیران کردیا۔ ناکام فوجی بغاوت کے حوالے سے سوشل اور مین اسٹریم میڈیا پر بحث شروع ہوگئی۔ اس حوالےسے جتنے منہ اتنی باتیں سامنے آتی رہی۔ اس بات پر بحث ہونے لگی کہ اگر پاکستان میں ایسی کوشش ہوتی ہے تو عوامی ردعمل کیا ہوگا۔حالانکہ پاکستان سے موازنہ کرنے سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آخر وہ کیاوجوہات تھیں جنھوں نے ترک عوام کو رات کے اندھیرے میں سڑکوں پر آکر فوجی بغاوت کو کچلنے پر آمادہ کیا۔ آئیے زرا چند نکات میں ان وجوہات پر غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔سینئر صحافی عارف الحق عارف صاحب نے فیس بک پر اپنے ایک اسٹیٹس میں ترکی میں فوجی بغاوت ناکام ہونے کی وجوہات کا زکر کیا۔ چند وجوہات پر غور کرلیا جائے تو اندازہ ہوجائے گا کہ ترک قوم اپنے لیڈر کے لئے دیوانہ وار باغیوں کے ٹینکوں سے سامنے دیوار کیوں بن گئے تھے۔
۔
۔ ترکی میں جب طیب اردوغان نے حکومت سنبھالی تو 2002سے 2012 کے درمیان ترکی کےجی ڈی پی میں 64فیصد اضافہ ہواانفرادی سطح پر اقتصادی ترقی کی شرح میں 43فیصد اضافہ ہوا۔ اس ترقی نے نہ صرف ترک عوام بلکہ عالمی سطح پر اردوغان کی پسندیدگی میں اضافہ کیا۔
۔
۔اردوغان کے 2002 میں اقتدار سنبھالتے وقت ترکی کو بھی آئی ایم ایف نے اپنے پنجوں میں جکڑا ہوا تھا اور ترکی 5۔23 بلین ڈالر کا مقروض تھا۔ اردوغان نے حکومت سنبھالنے کے بعد آئی ایم ایف کی سازشوں میں نہ آنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مزید قرضہ لینے سے انکار کرددیا اور پرانا قرضہ ادا کرنا شروع کردیا۔ 2012میں یہ قرضہ صرف 9۔0بلین ڈالر رہ گیا تھا۔ جس کی ادائیگی کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے ترکی کے قرضہ ادا کردینے کا اعلان کردیا گیا۔ اور اسی سال طیب اردوغان نے اعلان کیا کہ اگر آئی ایم ایف کو قرضہ درکار ہو تو وہ ترکی سے رجوع کرسکتا ہے۔ 
۔
۔2002 میں ترکش سینٹرل بینک کے پاس زرمبادلہ کے زخائر 5۔26ملین ڈالر تھے جو 2011میں بڑھ کر 2۔92بلین ڈالر ہوچکے تھے اور ان میں کامیاب اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے مسلسل اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
۔
۔اسی طرح ترکی میں طیب اردوغان کے حکومت سنبھالنے کے بعد صرف ایک سال میں ہی مہنگائی میں 23 فیصد کمی ہوئی جس سے ترک عوام کو براہ راست فائدہ ہوا۔
۔
۔اسی طرح 2002 میں ترکی میں ہوائی اڈوں کی تعداد میں 26 تھی جو اب بڑھ کر 50 ہوچکی ہے۔
۔
۔2002سے 2011کے درمیان ترکی میں 13500کلومیٹر طویل ایکسپریس وے تعمیر کی گئی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ایکسپریس وے کی تعمیر کے ٹھیکے اپنے رشتہ داروں یا پارٹی رہنمائوں کو دینے کے بجائے کے میرٹ پر بین الاقوامی سطح پر اچھی شہرت کے حامل اداروں کو دئے گئے۔
۔
۔ترکی کی تاریخ میں پہلی بار تیز ترین ریلوے ٹریک بچھایا گیا اور 2009 میں تیز ترین ٹرین ترکی میں متعارف کرائی گئی۔عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے ان 8 سالوں کے دوران تیز رفتار ٹرین کے لئے1076کلومیٹر ریلوے ٹریک بچھایا گیا جبکہ 5449کلومیٹر طویل ٹریک کی مرمت کرکے اسے تیز ترین ٹرین کے معیار کے مطابق بنایا گیا۔
۔
۔اردوغان نے عوام کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے شعبہ صحت میں بڑے پیمانے پر کام کیا۔ گرین کارڈ پروگرام متعارف کرایا گیا جس کے تحت غریب افراد کو صحت کی مفت سہولیات فراہمی کا سلسلہ شروع کردیا گیا ۔
۔
۔صحت کی طرح تعلیم کے شعبہ پر بھی خصوصی توجہ دی گئی اور تعلیم کا بجٹ2002میں 5۔7بلین لیرا سے بڑھا نا شروع کیا اور 2011میں تعلیمی بجٹ 34 بلین لیرا تک پہنچا دیا۔ قومی بجٹ کا بڑا حصہ وزارت تعلیم کو دیا گیا اور قومی جامعات کا بجٹ ڈبل کردیا گیا۔ اسی طرح 2002 میں ترکی میں جامعات کی تعداد 86 تھیں ۔اردوغان حکومت نے ملک میں جامعات کا جال بچھایا اور 2012 تک ترکی میں 186معیارت جامعات تدریس کا عمل جاری رکھے ہوئے تھیں۔ 
۔
۔ترکی معیشت کا اندازہ صرف اس نقطہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 1996میں ایک ڈالر ، 222لیرا تھا جبکہ اردوغان حکومت کی کامیاب اقتصادی پالیسیوں کے بعد آج ایک ڈالر 94۔2 لیرا کا ہے۔

بلوچ کا قتل ۔۔ مشرقی معاشرے پر ہرزہ سرائی کیوں؟؟؟****

www.swatsmn.com
بلوچ کا قتل ۔۔ مشرقی معاشرے پر ہرزہ سرائی کیوں؟؟؟**** 
جس دن سے متنازعہ ماڈل و اداکارہ قندیل بلوچ قتل ہوئی ہیں ۔ کچھ دانشو راپنی پوری آب و تاب کے ساتھ میدان میں کود پڑے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ یہ بہت بڑا ظلم ہوا ہے ۔ اس قتل سے بربریت کی داستان رقم کی گئی ہے اور ملتِ اسلامیہ اس عظیم نقصان سے دو چار ہوئی ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں اور اس قتل سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پُر نہیں ہو گا۔اس قتل کی آڑ میں معاشرے پر خوب لعن طعن کی جا رہی ہے۔ پاکستانی معاشرے کو اس طرح آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے کہ جیسے یہ خود ساختہ دانشور اس معاشرے کا حصہ نہیں ہیں بلکہ یہ کوئی آسمانی مخلوق ہیں۔اس قتل کے تانے بانے عورت کی آزادی سے ملائے جا رہے ہیں کہ آج کے اس جدید دور میں بھی عورت کو کسی قسم کی آزادی نہیں ہے بلکہ ان پر جبر کیا جاتا ہے۔ سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کے لیے کہا یہ جا رہا ہے کہ زندگی کے قول و فعل کا ہرانسان خود ذمہ دار ہے اورکسی کو بھی سزا و جزا کا حق نہیں ہے۔بالکل ٹھیک ۔ سزا و جزا کا اختیار کسی فردِ واحد کو نہیں ہے۔ آپ کی بات سے سو فی صد اتفاق ہے کہ سزا وجزا کا حق اور اختیار صرف رب کائنات کے پاس ہے یا حکومتِ وقت غلط عادات و اطوار یا غیر اخلاقی حرکات پر نوٹس لے سکتی ہے مگر حکمرانوں کو تو اپنے’’ اللوں تللوں ‘‘سے ہی فرصت نہیں ہے توپھر آپ سے سوال ہے کہ آپ بتائیں قندیل بلوچ نے سستی شہرت حاصل کرنے ک لیے جو راستہ اختیار کیا تھا اس کو دیکھنے کے بعد اس کے بھائی کیا کرتے ؟؟؟ آپ آزادیِ ا ظہار کے نام پر ہلکان ہو رہے ہیں مگر کیا آپ آزادی اظہار کی تعریف بتانا پسند کریں گے ؟؟؟ کیا آزادی اظہار کی آڑ میں کوئی جو چاہے کرتی پھرے؟؟؟باریک لباس میں فوٹو بنوائے یا مختصر لباس زیبِ تن کرکے نیم برہنہ تصاویر بنوا کر بڑے فخر سے نیٹ یا فیس بک پرUPLOAD کر کے بے حیائی کے فروغ کا باعث بنے ؟؟ بے شرمی و بے غیرتی کی حدیں عبور کرتی پھرے ؟؟؟ کھلونوں کی طرح جسم کی نمائش کرتی پھرے مگر اس کو کوئی پوچھنے والا نہ ہو ؟؟؟اگر آپ کے نزدیک اس کا نام آزادی ہے تو مہربانی فرمائیں اس کو اپنے تک محدود رکھیں کیونکہ اسلام یا مشرقی معاشرہ اس کی اجازت نہیں دیتا مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ غیرت کو بنیاد بنا کرقتلِ عام کا بازار گرم کر دیا جائے کیونکہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل تصور کیا جاتا ہے ۔اگر قندیل اپنے کیے کی خود ذمہ دار تھی تو اس کا بھائی بھی اپنے فعل کا خود ذمہ دار ہے وہ قانون کی حراست میں ہے اور قا نون بہتر فیصلہ کرے گا
راقم الحروف نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ مجھ کو حیرت ہو رہی ہے ان دانشوروں پر جو قندیل کی موت پہ ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔معلوم نہیں انہیں قندیل کی موت کا افسوس ہے یا اس بات پہ رنجیدہ ہیں کہ ان کی آنکھوں کو جو تسکین قندیل کی نیم برہنہ تصاویر دیکھ کر ملتی تھی وہ چھن گئی ہے۔ان کو قندیل کی موت یا د آ رہی ہے ، قندیل کی بے بسی پر رونا آ رہا ہے ، قندیل کا خونِ نا حق نظر آ رہا ہے ،اس کے بھائی کی سفاکی دکھائی دے رہی ہے مگر قندیل کی بے غیرتی ، بے حیائی اور بے شرمی والی سرگرمیاں اور کہانیاں یا دکیوں نہیں آرہی ہیں؟؟؟انسانیت کے ان ٹھیکے داروں کو اس کا غیر مہذبانہ اندازِ زندگی کیوں نظر نہیں آ رہا ہے ؟؟؟ اس کی وہ حرکات و سکنات کیوں نظر نہیں آرہی ہیں جسے دیکھ کر معصوم اذہان غلط راستے کی طرف راغب ہوتے تھے ۔قندیل کے بھائیوں کے دل پہ کیا گزرتی ہو گی؟؟؟ اس کا احساس نہیں ہو رہا ہے۔پاکستانی اورمشرقی معاشرے کو ’’کوڑھ زدہ ‘‘ معاشرہ قرار دینے والوں سے میں یہ پوچھنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ اگر آپ کی بہو ، بیٹی یا بہن قندیل بلوچ کے اختیار کردہ راستے کو اپنا لے تو کیا آپ اس کو اپنے ماتھے کا جھومر بنا لیں گے؟؟؟ کیا آپ اس کو اپنے گلے لگا کر خراجِ تحسین پیش کریں گے ؟؟؟بالکل نہیں۔ ہر گز نہیں۔ آپ سے تو میرے یہ الفاظ برداشت نہیں ہو رہے ہیں۔ آپ کا خون کھول رہا ہے اوردل میں نہ جانے کیا کیا ’’صلواتیں‘‘ سنا رہے ہیں تو پھر یاد رکھیں جہاں آپ کو یہ بات یاد ہے’’ سز وجزا کا مالک صرف اللہ ہے‘‘ یا یہ یاد ہے کہ’’ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے‘‘ تو وہاں نبی اکرم حضرت محمدﷺ کا یہ ارشادِ گرامی بھی ذہن میں رکھیں کہ’’ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند کرو جو تم کو اپنے لیے پسند ہے‘‘ اپنی اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت کے خواہش مندوں کے منہ میں اس وقت کیوں رال ٹپکنے لگتی ہے جب وہ قندیل بلوچ کی نیم عریاں لباس میں تصاویر دیکھتے ہیں۔ارشاد نبویﷺ ہے کہ ’’ مُردوں کو بُرا مت کہو ‘‘ اس لیے میں قندیل بلوچ کی سرگرمیوں کے متعلق کچھ نہیں کہنا چاہتا مگر آپ کی خدمت میں ضرور عرض کرنا چاہوں گا قندیل بلوچ کی موت کی آڑ میں مشرقی و پاکستانی معاشرے کے خلاف ہرزہ سرائی کی جو گردان آپ نے شروع کر رکھی ہے اس کو بند کریں اور ان دانشوروں کی عقل پر تو ویسے ہی ماتم کرنے کو دل کر رہا ہے جو یہ ارشاد فرمارہے ہیں کہ قندیل بلوچ نے یہ راستہ غربت دور کرنے کے لیے اختیار کیا تھا۔ کیا کہنے آپ کی سوچ کے ۔۔۔ کیا منطق لائے ہو ڈھونڈ کر ۔۔ کیا غربت دور کرنے کا یہ طریقہ ہے جو قندیل بلوچ نے اپنایا ؟؟؟؟ہمہ وقت دوسروں کا دل لبھانے کے لیے تیار رہنا۔۔ غربت دور کرنے کا طریقہ ہے ؟؟؟ آپ لوگ جتنی ہمدردی کا آج اظہار کر رہے ہیں اسکی زندگی میں اس کی مالی مدد کر کے اس کی چادر اور چار دیواری کا تحفظ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے۔۔۔ بند کریں ایسی من گھڑت تاویلیں۔قندیل بلوچ کے قتل کی مذمت ضرور کریں مگر الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر کریں کیونکہ یہ معاشرہ صرف آپ جیسے آزاد خیال لوگوں پر ہی مشتمل نہیں ہے۔ اللہ ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق دے ۔ آمین
Ba shukria R.A Naeem

MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan EXTED.pk

Admission open  MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan   http://facebook.com/ exted.p k http://www.exted.pk/ Lowest Fee ,   No IELTS...