www.swatsmn.com
یونس آج بھی وہی کرکٹ کھیلتا ہے جو وہ سولہ سال پہلے کھیلتا تھا۔ اس کا فٹ ورک آج بھی وہی ہے جسے سولہ سال پہلے بھی کوئی پسند نہیں کرتا تھا۔ اس کی تکنیک آج بھی وہی ہے جو ڈیڑھ عشرہ پہلے تھی۔
ان سولہ سال میں یونس خان نے پاکستان کرکٹ کا مشکل ترین وقت دیکھا ہے۔ اس نے اپنے آئیڈیلز کو ریٹائر ہوتے دیکھا، ڈریسنگ روم کو نئے نئے چہروں اور بھانت بھانت کے تجربوں سے گزرتے دیکھا، پی سی بی کو سیاسی تبدیلیوں سے گزرتے دیکھا، سپاٹ فکسنگ کے سکینڈل سے ٹوٹتی ٹیم کو دیکھا، بے وطن ٹیم کو امارات کے گرم صحراوں میں گھر کھوجتے دیکھا، اور اس سب کے بیچ وہ صرف اپنی محنت اور کارکردگی کے بل پہ پاکستانی ڈریسنگ روم کا حصہ رہا۔
وہ پاکستان کی تاریخ کا کامیاب ترین بیٹسمین صرف اپنے ریکارڈز اور رنز کی بدولت نہیں ہے بلکہ اس کی عظمت کی دلیل یہ ہے کہ اس نے پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا مشکل ترین وقت بہترین انداز سے نبھایا ہے۔ اس نے سالہا سال اس بے گھر اور بے نام ٹیم کو اعتماد فراہم کیا ہے۔ قوم نے بھلے اس پہ بھروسہ نہ کیا ہو مگر وہ ہر طرح کے حالات میں ڈٹا رہا ہے۔
یونس خان پاکستان کی تاریخ کا عظیم ترین بیٹسمین ہے مگر اس نے اس عظمت کی قیمت اوروں سے کہیں زیادہ چکائی ہے۔ یہ تو آنے والا کل ہی بتا سکتا ہے کہ اس عظیم بیٹسمین میں ابھی کتنی کرکٹ باقی ہے مگر پاکستان کرکٹ کے یہ سولہ سال اس بات کے گواہ ہیں کہ یونس خان صرف پاکستان کا ہی نہیں، اس عہد کا بھی عظیم ترین بیٹسمین ہے۔
گذستہ چھ سال پاکستان آفریدی اور مصباح کے دو قومی نظریہ میں الجھا ہوا تھا، تب یونس خان اپنے غیر مقبول سٹائل اور نان گلیمرس اپروچ کے ساتھ رنز بنانے اور ریکارڈ توڑنے میں لگا رہا۔ آج یونس تاریخ کا پہلا بیٹسمین بن چکا ہے جس نے تمام ٹیسٹ پلئینگ نیشنز سمیت گیارہ ممالک میں سینچریاں کی ہیں۔
یونس خان پاکستان کرکٹ کا عجیب ترین کردار ہے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کا عظیم ترین بیٹسمین ہے مگر اس کے اکثر ہم وطن یہ ماننے کو تیار نہیں۔ وہ ریکارڈز اور اعداد و شمار میں اس وقت برائن لارا اور گواسکر جیسوں کے مقابل کھڑا ہے مگر پاکستان میں اسے کبھی انضی یا یوسف، حتی کہ عامر سہیل جیسی پذیرائی بھی نصیب نہیں ہوئی۔
پاکستان وہ ملک ہے جہاں کرکٹ ہیرو ازم کو کارکردگی کی بجائے سٹائل اور گلیمر کے پیمانے میں تولا جاتا ہے۔ ہاں کارکردگی بھی اچھی ہو تو ہیرو کا قد اور بڑھ جاتا ہے لیکن کارکردگی بری بھی ہو تو صاحبان گلیمر و سٹائل کا قد گھٹتا نہیں ہے۔ اور جو ہیرو پہلی انٹری پہ ہی کھڑکی توڑ پرفارمنس دے ڈالے، وہ پھر سالہا سال پرفارم کرے یا نہ کرے، تا ابد اس قوم کا ہیرو ہی رہتا ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو یونس خان ماڈرن کرکٹ میں مزاحمت اور تسلسل کی بہترین مثال ہے۔ یہ وہ بیٹسمین ہے جس نے اولڈ سکول کرکٹ کو ماڈرن کرکٹ میں ڈھلتے دیکھا ہے، وسیم، وقار کا عہد ختم ہوتے دیکھا ہے، انضی اور یوسف کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو بھگتا ہے۔ آئے دن ٹیم بدلتی دیکھی، کپتان بدلتے دیکھے لیکن ان سب بدلتی رتوں میں بھی یونس خود کو بدلے بغیر مسلسل آگے ہی بڑھتا رہا ہے۔
پلئیرز پہ ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ جب ان کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ان کے بغیر ٹیم نہیں بنتی۔ یونس نے بھی یہ دونوں وقت دیکھے تو ہیں مگر اسے یہ دیکھنے کے لیے بھی ایک صبر آزما انتظار سے گزرنا پڑا۔
یونس خان ریکارڈز اور ٹائٹلز کے پیچھے بھاگنے والوں میں سے نہیں ہے۔ وہ دوسروں کی نصیحت کے بجائے اپنی محنت پہ یقین رکھتا ہے۔وہ ہوا کے تیور دیکھ کر رنگ بدلنے والا نہیں ہے۔ سارے جہاں کی کرکٹ بدل جائے مگر یونس بدلنے والا نہیں ہے۔ اس کی تکنیک پہ سوشل میڈیا ہنسے یا ماہرین بھنویں اچکائیں، وہ اسی تکنیک سے رنز کے انبار لگاتا چلا جاتا ہے۔