Friday 6 January 2017

یونس خان ماڈرن کرکٹ میں مزاحمت اور تسلسل کی بہترین مثال

www.swatsmn.com

یونس آج بھی وہی کرکٹ کھیلتا ہے جو وہ سولہ سال پہلے کھیلتا تھا۔ اس کا فٹ ورک آج بھی وہی ہے جسے سولہ سال پہلے بھی کوئی پسند نہیں کرتا تھا۔ اس کی تکنیک آج بھی وہی ہے جو ڈیڑھ عشرہ پہلے تھی۔
ان سولہ سال میں یونس خان نے پاکستان کرکٹ کا مشکل ترین وقت دیکھا ہے۔ اس نے اپنے آئیڈیلز کو ریٹائر ہوتے دیکھا، ڈریسنگ روم کو نئے نئے چہروں اور بھانت بھانت کے تجربوں سے گزرتے دیکھا، پی سی بی کو سیاسی تبدیلیوں سے گزرتے دیکھا، سپاٹ فکسنگ کے سکینڈل سے ٹوٹتی ٹیم کو دیکھا، بے وطن ٹیم کو امارات کے گرم صحراوں میں گھر کھوجتے دیکھا، اور اس سب کے بیچ وہ صرف اپنی محنت اور کارکردگی کے بل پہ پاکستانی ڈریسنگ روم کا حصہ رہا۔
وہ پاکستان کی تاریخ کا کامیاب ترین بیٹسمین صرف اپنے ریکارڈز اور رنز کی بدولت نہیں ہے بلکہ اس کی عظمت کی دلیل یہ ہے کہ اس نے پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا مشکل ترین وقت بہترین انداز سے نبھایا ہے۔ اس نے سالہا سال اس بے گھر اور بے نام ٹیم کو اعتماد فراہم کیا ہے۔ قوم نے بھلے اس پہ بھروسہ نہ کیا ہو مگر وہ ہر طرح کے حالات میں ڈٹا رہا ہے۔
یونس خان پاکستان کی تاریخ کا عظیم ترین بیٹسمین ہے مگر اس نے اس عظمت کی قیمت اوروں سے کہیں زیادہ چکائی ہے۔ یہ تو آنے والا کل ہی بتا سکتا ہے کہ اس عظیم بیٹسمین میں ابھی کتنی کرکٹ باقی ہے مگر پاکستان کرکٹ کے یہ سولہ سال اس بات کے گواہ ہیں کہ یونس خان صرف پاکستان کا ہی نہیں، اس عہد کا بھی عظیم ترین بیٹسمین ہے۔
 گذستہ چھ سال پاکستان آفریدی اور مصباح کے دو قومی نظریہ میں الجھا ہوا تھا، تب یونس خان اپنے غیر مقبول سٹائل اور نان گلیمرس اپروچ کے ساتھ رنز بنانے اور ریکارڈ توڑنے میں لگا رہا۔ آج یونس تاریخ کا پہلا بیٹسمین بن چکا ہے جس نے تمام ٹیسٹ پلئینگ نیشنز سمیت گیارہ ممالک میں سینچریاں کی ہیں۔

یونس خان پاکستان کرکٹ کا عجیب ترین کردار ہے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کا عظیم ترین بیٹسمین ہے مگر اس کے اکثر ہم وطن یہ ماننے کو تیار نہیں۔ وہ ریکارڈز اور اعداد و شمار میں اس وقت برائن لارا اور گواسکر جیسوں کے مقابل کھڑا ہے مگر پاکستان میں اسے کبھی انضی یا یوسف، حتی کہ عامر سہیل جیسی پذیرائی بھی نصیب نہیں ہوئی۔
پاکستان وہ ملک ہے جہاں کرکٹ ہیرو ازم کو کارکردگی کی بجائے سٹائل اور گلیمر کے پیمانے میں تولا جاتا ہے۔ ہاں کارکردگی بھی اچھی ہو تو ہیرو کا قد اور بڑھ جاتا ہے لیکن کارکردگی بری بھی ہو تو صاحبان گلیمر و سٹائل کا قد گھٹتا نہیں ہے۔ اور جو ہیرو پہلی انٹری پہ ہی کھڑکی توڑ پرفارمنس دے ڈالے، وہ پھر سالہا سال پرفارم کرے یا نہ کرے، تا ابد اس قوم کا ہیرو ہی رہتا ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو یونس خان ماڈرن کرکٹ میں مزاحمت اور تسلسل کی بہترین مثال ہے۔ یہ وہ بیٹسمین ہے جس نے اولڈ سکول کرکٹ کو ماڈرن کرکٹ میں ڈھلتے دیکھا ہے، وسیم، وقار کا عہد ختم ہوتے دیکھا ہے، انضی اور یوسف کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو بھگتا ہے۔ آئے دن ٹیم بدلتی دیکھی، کپتان بدلتے دیکھے لیکن ان سب بدلتی رتوں میں بھی یونس خود کو بدلے بغیر مسلسل آگے ہی بڑھتا رہا ہے۔
پلئیرز پہ ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ جب ان کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ان کے بغیر ٹیم نہیں بنتی۔ یونس نے بھی یہ دونوں وقت دیکھے تو ہیں مگر اسے یہ دیکھنے کے لیے بھی ایک صبر آزما انتظار سے گزرنا پڑا۔
یونس خان ریکارڈز اور ٹائٹلز کے پیچھے بھاگنے والوں میں سے نہیں ہے۔ وہ دوسروں کی نصیحت کے بجائے اپنی محنت پہ یقین رکھتا ہے۔وہ ہوا کے تیور دیکھ کر رنگ بدلنے والا نہیں ہے۔ سارے جہاں کی کرکٹ بدل جائے مگر یونس بدلنے والا نہیں ہے۔ اس کی تکنیک پہ سوشل میڈیا ہنسے یا ماہرین بھنویں اچکائیں، وہ اسی تکنیک سے رنز کے انبار لگاتا چلا جاتا ہے۔

Thursday 5 January 2017

صحافی کیا ہے؟

www.swatsmn.com

صحافی کیا ہے؟
اپنے سلیبس میں آپ صحافی کی اور صحافت کی بہت سے لوگوں کی بہت زیادہ تعریفیں پڑھیں گے۔ لیکن عملی دنیا میں قدم رکھتے ہوئے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ صحافی ہے کیا؟
مختلف انداز میں اس کی تشریح کرتاہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آپ اس کو سمجھ پائیں گے۔
 ہر محلے میں کوئی نا کوئی خاتون ایسی ہوتی ہیں۔ جو ایک جگہ سے بات سن کر دوسری جگہ بات کو پھیلاتی چلی جاتی ہیں۔ ایسی خواتین کو اردو زبان میں پھاپے کٹنی کہتے ہیں۔کچھ لوگ صرف کٹنی کہتے ہیں اور پنجابی زبان میں اسے پھپے کٹنی کہا جاتا ہے۔
 ان کٹنیوں میں چند ایک معیار میں بلند درجہ رکھتی ہیں اور وہ یہ کہ وہ سنی ہوئی کو سناتی ہی نہیں بلکہ ان پر ہر کسی کی رائے کو بھی لیتی چلی جاتی ہیں اور سنی ہوئی بات کو اپنے مختلف پیرایوں میں بیان کر کے ان سے مختلف لوگوں کی آرالیتی چلی جاتی ہیں اور اس طرح ایک مخصوص فرد کے حق میں یا اس کے خلاف مخصوص مواد حاصل کر لیتی ہیں۔
 ایسی خواتین ضروری نہیں کہ محلوں میں ہی پائی جاتی ہوں یہ سکول کالج ہوسٹل میں بھی ہوتی ہیں۔ در حقیقت یہ ایک سوچ ہے اندازِ زندگی ہے۔ طرزِ تفکر ہے۔ ان ایک بات مشترک ہوتی ہے۔ اور وہ یہ کہ یہ سنی ہوئی بات روک نہیں سکتیں اور ایک جگہ رک نہیں سکتیں۔ اپنی مطلوبہ بات وصول کرتے ہی اس جگہ سے آگے نکلتے چلی جاتی ہیں۔
 بس یہی انداز پیشہ وارانہ انداز میں صحافی کی زندگی کا ہوتا ہے۔ معلومات کا حصول ان پر مختلف پیرائے میں مختلف متعلقہ لوگوں سے ان پر اپنے انداز میں ان سے ان کے خیالات کہلوا کر آگے بڑھتے چلے جانا۔ اور کسی بھی نئی بات کو روک نہ پانا بلکہ اس کو متعلقہ میڈیا (مقام) پر پہنچانا۔ ہی صحافی کا کام ہے۔
صحافی کی دوسری تعریف:
 الفاظ کے ننگے پن کا جان جانے والا اور موقع و محل کی مناسبت سےان کے درست استعمال کرلینے والا صحافی کہلاتا ہے۔ ننگے پن سے مراز الفاظ کا ادب ختم کر دینا ہے۔ کہ یہ لفظ تو اس طرح استعمال کیا جاتا یا کس طرح استعمال کیا جاتا ہے سب بھول جائین فقط اس کے بنیادی مطلب کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ اور ایک ماہر کی طرح اس کا استعمال مختلف انداز میں کرنا ہی الفاظ کو ننگا کر دینے اور اس کو استعمال کر دینے میں مہارت صحافی کا کام ہے۔
ادب اور صحافت میں فرق:
 ادب نام ہی عیوب کو چھپانے کا ،عیاں کو نہاں کرنے کا یا مختلف انداز میں ایسے بیان کرنے کا کہ عیب پر پردہ پڑا رہے یا عیب ہلکے سے ہلکا محسوس ہو لیکن صحافت نام ہے ۔ نہاں کو عیاں کرنے کا، چھپے ہوئے کو سامنے لانے کا۔اور ایسے انداز میں سامنے لانے کا کہ سب پر اس کا خاطر خواہ اثر ہو اور اس عیب کا ختمہ ہو سکے۔ فقط نہاں کو عیاں کر دینے سے ہی کام نہیں چلتا بلکہ اس کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا پڑتا ہے لیکن اس کا بھی ایک پیشہ وارانہ طریقہ ہے
 مثلاً آج راولپنڈی میں کسی خاتون کا دھوکے سے گردہ نکال لیا گیا۔ لیکن اس کو رپورٹ ایسے کیا گیا کہ راولپنڈی میں گردے نکالنے والے گروہ کا انکشاف۔ اسی لفظ گروہ کی وجہ سے یہ خبر تمام ٹیلیویژن چینلز کی بریکنگ بن گیا۔ اس طرح اس پر سب اداروں کی توجہ ہو گئی
عقلی معیار کو ناپنا ہو تو عموماً اس کی مندرجہ ذیل درجہ بندی کی جا سکتی ہے
کند ذہن،عام فہم،ذہین اور فطین
 ایک صحافی فطین سے بھی بہت آگے کی چیز ہوتی ہے۔ اسے فطین پلس کہا جائے تو زیادتی نہ ہو گی۔ عام آدمی کسی بھی غیر معمولی بات کو سطحی نظر سے دیکھتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے۔ لیکن ذہین آدمی کسی بھی چیز کو دیکھنے کے بعد اس کے فوری اثرات، مستقبل قریب کے اثرات کیساتھ ساتھ مستقبل بعید کے اثرات کو چند لمحوں میں جانچ جاتا ہے۔اور اس کے بعد اس کو اپنے پیمانہ پر تولتا ہے کہ یہ میرے لیے، میرے ادارہ کے لئے، میری قوم کے لئے، انسانیت کے لئے کن اثرات کا موجب بن سکتی ہے۔ جب وہ ہر پہلو کو جانچ چکتا ہے تو اس کی اسی انداز میں خبر بناتا ہے تا کہ وہ زیادہ سے زیادہ اثر انگیز ہو۔ مثلاً
 میں کسی پر بھی کسی بھی قسم کا کوئی بھی اعتراض کئے بغیر ایک واقع بیان کر رہا ہوں۔ جس دن معروف صحافی اور موجودہ اینکر پرسن حامد میر نے اسامہ بن لادن کا افغانستان میں روزنامہ اوصاف کےلئےانٹر ویو لیا اور وہ شائع بھی ہو گیا تو میں زیرو پوئنٹ اسلام آباد میں پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے سامنے موجود ہوٹل پر چائے پینے بیٹھا تھا ساتھ چند صحافی دوست بھی موجود تھے۔ وہیں خبر کی اطلاع ملی۔ سب کے منہ سے بیک وقت ایک ہی بات نکلی۔ اوہ یہ تواس نے امریکی افواج کو افغانستان میں اتروا دیا ہے ۔اس واقع کے بہت بعد میں نائن الیون کا واقع پیش آیا اور اس کے بعد امریکن افواج افغانستان میں آئیں۔ لیکن معلوم سب ہی کو تھا کہ کیا شائع ہو چکا ہے اور اس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔
 مجھے حامد میر پر یا اس کی رپوڑٹنگ پر کوئی اعتراض نہیں۔ نہ میں اس پہلو پر آ رہا ہوں۔ فقط یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ خبر کیا اثرات رکھتی ہے۔ اورخبر بنانے والے پر کیا کیا ذمہ داریاں ہو سکتی ہیں اور ایک پیشہ ور اخبار نویس کیا ہوتا ہے۔ اس کا ویژن کیا ہوتا ہے۔ اور یہ اس کے لئے معمول کی بات ہوتی ہے۔ ہر چیز کو دیکھنا پرکھنا اور غیر محسوسانا انداز میں کسی کے نوٹس میں آئے بغیر آگے بڑھتے چلے جانا اس کا معمول ہوتا ہے۔
 یہ صلاحیتیںانسان میں کیسے آتی ہیں یہ بتدریج ماحول سے ملتی ہیں۔ رپورٹنگ ڈیسک ایک ایسی جگہ ہے جہاں چٹخارہ ہی چٹخارہ ہوتا ہے۔ ہر ایک رپورٹر اپنی اپنی بیٹ سے واپس آ کر سلپس( وہ کاغذ جس پر خبریں لکھے جاتی ہیں،عموماً یہ نیوس پرنٹ والا کاغز ہی ہوتا ہے جسے بسا اوقات ٹشو پیپر کے طور پر استعمال میں لایا جاتا ہے)کی تباہی کر رہا ہوتا ہے کیونکہ خبر بناتے پوئی ذرا غلطی ہوئی اور سلپ کو مروڑ کر ایک سائیڈ پر پھینک کر دوسری پر خبر بنانا شروع کر دی جاتی ہے۔ بسا اوقات ایک ہی خبر پر کئی کئی سلپ ضائع ہو جاتی ہیں اور آخر میں ایک سلپ پر خبر تیار ہو جاتی ہے۔
 ایک رپورٹر دوسرے کو بتا رہا ہوتا ہے کہ آج فلاں ڈی آئی جی ٹھوک رہا ہوں۔ دوسرا کسی وزیر کی خبر لے رہا ہوتا ہے تیسرا کسی اور ادارے کو بجا رہا ہوتا ہے۔
 اور یہ سب کچھ حوصلہ ہمت اور بے خوفی ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہوتی لیکن صحافی کا روزمرہ کا معمول ہوتا ہے۔
 بنیادی تربیت کے لئے شام کا اخبار ہو تو تربیت میں جو نکھار آتا ہے وہ اور کہیں دستیاب نہیں ہوتا۔شام کا اخبار اپنی نوعیت میں خود بھی چٹخارہ ہوتا ہے تو یہ چٹخارہ تیار کرنے والے اپنی نوعیت کےالگ ہی لوگ ہیں۔ خواتین کو تو عموماً ان کی مناسبت سے ہی بیٹ(وہ علاقہ یا فیلڈ جس کی ذمہ داری اس رپورٹر کے ذمہ ہوتی ہے)دی جاتی ہے۔اور انہیں دن دن میں ہی بر وقت فارغ بھی کر دیا جاتا ہے۔ لیکن مرد حضرات کے لئے یہ پیشہ ایک فل ٹائم ایکسائٹمنٹ ہوتی ہے۔ چونکہ اخبارات رات کو ہی تیار ہوتے اور چھپتے ہیں اس لئے کاپی پریس جانے کے بعد ہی سب فارغ ہوتے ہیں
FB / Tnxs

MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan EXTED.pk

Admission open  MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan   http://facebook.com/ exted.p k http://www.exted.pk/ Lowest Fee ,   No IELTS...