Monday 12 June 2017

نڈس ڈولفن کا شمار پاکستان میں پائی جانے والی نایاب مچھلیوں میں ہوتا ہے۔

www.swatsmn.com

دنیا میں ڈالفن کی چار اقسام پائی جاتی ہیں۔ جن میں ایک نابینا ڈالفن ہے جو کہ صرف دریائے سندھ میں پائی جاتی ہے ۔ مقامی طور پر اس مچھلی کو بلھن کہا جاتا ہے۔ جینیاتی طور پر یہ مچہلی نابینا نہیں ہوتی بلکہ سالوں سے دریائے سندھ کا مٹی والا پانی اور بڑھتی ہوئی آلودگی اس کے نابینا ہونے کی وجہ بتائی جاتی ہے۔
انڈس ڈالفن کوئی معذور مچھلی نہیں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نابینا بلھن کی آنکھ دن اور رات میں فرق کرسکتی ہے اور تیرنے اور راستے کی معلومات کیے لیے یہ مچھلی آواز نکالتی ہے جس کی بازگشت پلٹ کر اس تک پہنچتی ہے جسے وہ قدرتی طور پر اپنے ماتھے پر وصول کرتی ہے۔ اس سے یہ نابینا ڈالفن چیزوں کی پہچان اور راستوں کا پتہ چلاتی ہے۔
یک طرف تو اس نابینا ڈولفن کے وجود کو مسلسل کرچی کرچی کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف کچے کے علاقے میں زراعت کیلئے کھاد اور کیڑے مار ادویات کے استعمال کے وجہ سے زہریلے کیمیکل دریائے سندھ میں شامل ہوکر پانی کو زہریلا کردیتے ہیں، جو ان نابینا ڈولفن کی اموات کا سبب بنتا ہے۔
انڈس ڈولفن کا شمار پاکستان میں پائی جانے والی نایاب مچھلیوں میں ہوتا ہے۔ آئے روز انڈس ڈولفن دریائے سندھ سے نکلنے والے نہروں میں بہہ جاتی ہے جہاں راستہ تنگ ہونے کے باعث اکثر وہ پھنس جاتی ہے۔ واضح رہے کہ گذشتہ کئی برسوں سے دریائے سندھ میں یہ نایاب مچھلی اکثر و بیشتر نہروں میں مردہ پائی جاتی رہی ہے۔
دریائے سندھ میں پائی جانے والی اس نایاب نسل کی مچھلی کی اصل تعداد کے بارے میں اندازہ لگانا فی الحال مشکل ہے تاہم جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے قائم صوبائی ادارے کے محتاط اندازوں کے ان کی تعداد تقریباً 700 سے 800 ہے جو گڈو اور سکھر بیراج کے درمیان گھومتی رہتی ہیں۔
انڈس ڈولفن کا شمار ان جانداروں میں ہوتا ہے جن کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انڈس ڈولفن ماحول کی بقا کیلئے کام کرنیوالے عالمی اداروں کی ریڈ لسٹ میں بھی شامل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے تو یہ مچھلی مکمل طور پر ناپید ہو جائے گی۔
ایک مقامی تحقیق کے مطابق دریائے سندھ میں پائی جانے والی نابینا ڈالفن کی نسل مختلف طریقوں سے شکار کے باعث تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ ہمیں چاہے کہ انڈس ڈالفن کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے خلاف آواز اٹھائیں اور ان کی نسلی اور جنسی زیادتی کے حوالے سے ایک آگاہی مہم کا آغاز کریں اور عالمی ادارے بھی ان محصوم ڈالفن کو جنسی زیادتی سے بچانے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں تاکہ فوری طور پر ان نابینا ڈولفن کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی کو روکا جائے

with Thanks .. hum .. onlinnews

Friday 9 June 2017

جس نے ہماری عزت خاک میں ملا دی ھے

www.swatsmn.com
Wrong number #گھر کے موبائل نمبر پر رانگ #نمبر سے کال آئی۔۔ گھر میں ایک عورت نے  موبائل کو رسیو کیا تو آگے سے غیر انجانی آواز سن کر عورت نے کہا سوری رانگ نمبر ھے- اور فون بند کردیا- لڑکے نے جب ہیلو کی آواز سن لی تو وہ سمجھ گیا کہ یہ کسی لڑکی کا نمبر ھے-
اب اس رانگ نمبر کو ملانے والا لڑکا مسلسل اسی نمبر پر کال کرتا رہتا، لیکن وہ عورت فون نہ اٹھاتی- پھر وہ میسج کرتا کہ جانو بات کرو ناں۔ موبائل کیوں نہیں رسیو کرتی؟ عورت کی ساس بڑی مکار اور لڑائی جھگڑے والی خاتون تھی
اس واقے کے ایک دن بعد موبائل پر رنگ ٹون بجی تو ساس نے موبائل رسیو کیا آگے سے لڑکے کی آواز سن کر ساس خاموش ہو گئی ' لڑکا بار بار کہتا رہا کہ جانی مجھ سے بات کیوں نہیں کرتی میری بات تو سنو پلیز، تمہاری آواز نے مجھے پاگل کر دیا ھے. بلاہ بلاہ بلاہ
ساس نے خاموشی سے سن کر موبائل بند کر دیا۔۔
اب جب رات کو عورت کا شوہر گھر آیا تو ساس نے علیحدہ بلا کر اپنے بہو پر بد چلنی اور نامعلوم لڑکے سے یارانے کا الزام لگایا۔۔
شوہر نے اسی وقت جاہلیت کا کردار ادا کرکے بیوی کی ایک بھی نہیں سنی اور بیوی کو رسی سے باندھ کر بے انتہا تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ جب وہ تشدد سے فارغ ہوا تو ساس نے موبائل ہاتھ میں تھما دی اور کہا کہ یہ نمبر ھے تمہاری بیوی کے یار کا۔۔
شوہر نے موبائل کالز چیک کیں اور اس کے بعد میسج چیک کئیے تو لڑکے کے تمام میسجز موجود تھے جس میں کہا گیا تھا کہ جانی کیسی ہو جانی بات کرو ناں جانی تمہاری آواز نے مجھے پاگل کر دیا ھے.
جاہل شوہر تمام میسج پڑھ کر اور بھی سیخ پا ہوا اور ادھر ساس نے بہو کے بھائی کو فون کرکے بتایا کہ تمہاری بہن کو ہم نے اپنے یار کے ساتھ موبائل پر بات کرتے ہوئے اور میسج کرتے ہو پکڑ لیا ہیں۔۔
جس نے ہماری عزت خاک میں ملا دی ھے.
اسی وقت اس لڑکی کی بھائی اور ماں فورأ اپنی بیٹی کی گھر آئے ادھر لڑکی کی ساس اور شوہر نے اس کے بھائی اور ماں کو طعنے دے کر کہ تمہاری بہن بد چلن ھے زانی ھے اور یہ اپنے یار کے ساتھ موبائل پر گپ شپ لگاتی اور ہماری عزت خاک میں ملاتی ھے.
اس لڑکی کی بھائی نے بھی زمانہ جاہلیت کو مات دی اور اپنے بہن کو بالوں سے پکڑ کر خوب زدو کوب کیا۔۔
لڑکی قسمیں کھا کر اپنے صفائی پیش کرتی رہی لیکن جاہل اور شیطان ساس اور شوہر کے آگے بے بس رہی۔۔
لڑکی کی ماں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ نہا دو کر قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر اپنی صفائی پیش کرو لڑکی نے نہا دھو کر قران پاک پر بھی سب کے سامنے ہاتھ رکھ لیا لیکن شیطان ساس نے اس کو بھی ٹھکرا دیا اور کہا کہ جو لڑکی اپنے شوہر سے غداری کر سکتی ھے تو اس کے لئے قرآن پاک پر ہاتھ رکھنا بھی کوئی مشکل کام نہی ھے.
اور اس کے ساتھ لڑکی کے جاہل شوہر نے وہ سارے میسجز لڑکی کے بھائی کو دکھا دئیے جو لڑکے نے لڑکی کو ایمپریس کرنے کے لئے کئیے تھے۔۔
لڑکی کی ساس نے جلتی پر تیل چھڑکا کر کہا کہ تمہاری بہن چالاک اور مکار ھے.
جس پر لڑکی کے بھائی کو غیرت آئ اور اس نے طیش میں آکر اپنی بہن کی ایک بھی نہ سنی اور پستول نکال کر اپنے بہن کے سر میں چار گولیاں پیوست کر دیں.
اور یوں ایک رانگ نمبر کی وجہ سے ایک خاندان اجڑ گیا 6 بچے یتیم ہو گئے۔۔
جب لڑکی کے دوسرے بھائی کو خبر ہوئی تو اس نے اپنے بھائی اور بھابی اور بہن کی شوہر اور ساس پر اور نامعلوم نمبر پر ایف آئ آر کٹوا دی.
جب پولیس نے اس موبائل کے ڈیٹا کو چیک کیا- تو معلوم ہوا کہ لڑکی نے صرف ایک دفعہ رانگ نمبر کو رسیو کیا تھا۔۔ اور پھر وہ رانگ نمبر مسلسل میسجز اور کالز کے ذریعئے سے اس لڑکی کو پھنسانے کے چکر میں لگا رہا۔۔
موبائل فون کی ڈیٹا رپورٹ منظر عام پر آنے سے لڑکی کے جس بھائی نے بہن کو گولی ماری تھی اس نے اسی وقت جیل میں خودکشی کی اور رانگ نمبر ملانے والے لڑکے کو پولیس نے گرفتار کرکے جیل میں ڈالا۔۔
یوں ایک رانگ نمبر نے 3 دنوں کے اندر ایک پاک دامن عورت کو اس کے 6 بچوں سے پوری زندگی کے لئے جدا کردیا.
اور 10 دنوں کے بعد لڑکی کے بھائی نے خودکشی کر کے ایک اور عورت کو بیوہ اور اس کے 4 بچوں کو یتیم کردیا۔۔
یوں 13 دنوں کے اندر 10 بچے یتیم اور 2 خاندان تباہ و برباد ہو گئے.
ذرا سوچیئے اور بتائیں قصوروار کون۔۔؟
1: بےغیرت رانگ کال والا
2: مکار ساس
3: شکی و جاھل خاوند
4: نام نہاد غیرت مند بھائ
-----یا-----
ہمارا معاشرہ ؟؟.

Wednesday 7 June 2017

مجھے ایسے لگا، جیسے بابا جی نے میری توہین کی ہے،

www.swatsmn.com
بابا جی! کل میرے گھر میں افطاری ہے، قریباً سو احباب ہونگے، مجھے سموسے اور پکوڑے چاہئیں، کتنے پیسے دے جاوں؟ میں نے پوچھا،
بابا جی نے میری طرف دیکھا اور سوالیہ نظروں سے مسکرائے ۔
 "کتنے پیسے دے سکتے ہو"
مجھے ایسے لگا، جیسے بابا جی نے میری توہین کی ہے،
 مجھے ایک عرصے سے جانتے ہوئے بھی یہ سوال بے محل اور تضحیک تھی،
میں نے اصل قیمت سے زیادہ پیسے نکالے اور بابا جی کے سامنے رکھ دئیے،
بابا جی نے پیسے اٹھائے اور مجھے دیتے ہوئے بولے،
وہ سامنے سڑک کے اس پار اس بوڑھی عورت کو دے دو، کل آ کر اپنے سموسے پکوڑے لے جانا،
میری پریشانی تم نے حل کر دی، افطاری کا وقت قریب تھا اور میرے پاس اتنے پیسے جمع نہیں ہو رہے تھے، اب بیچاری چند دن سحری اور افطاری کی فکر سے آزاد ہو جائے گی۔
میرے جسم میں ٹھنڈی سی لہر دوڑ گئی۔
وہ کون ہے آپکی ؟؟
میرے منہ سے بے اختیار سوال نکلا ۔ بابا جی تپ گئے،
 وہ میری ماں ہے ، بیٹی ہے اور بہن ہے ۔ تم پیسے والے کیا جانو، رشتے کیا ہوتے ہیں، جنہیں انسانیت کی پہچان نہیں رہی انہیں رشتوں کا بھرم کیسے ہو گا، پچھلے تین گھنٹے سے کھڑی ہے، نہ مانگ رہی ہے اور نہ کوئی دے رہا ہے۔
تم لوگ بھوکا رہنے کو روزہ سمجھتے ہو اور پیٹ بھرے رشتوں کو افطار کرا کے سمجھتے ہو ثواب کما لیا۔
"اگر روزہ رکھ کے بھی احساس نہیں جاگا تو یہ روزہ نہیں، صرف بھوک ہے بھوک"
میں بوجھل قدموں سے اس بڑھیا کی طرف جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا، اپنے ایمان کا وزن کر رہا تھا، یہ میرے ہاتھ میں پیسے میرے نہیں تھے بابا جی کے تھے، میرے پیسے تو رشتوں کو استوار کر رہے تھے۔
بابا جی کے پیسے اللہ کی رضا کو حاصل کرنے جا رہے تھے۔
میں سوچ رہا تھا کہ اس بڑھیا میں ماں، بہن اور بیٹی مجھے کیوں دکھائی نہیں دی؟
اے کاش میں بھی بابا جی کی آنکھ سے دیکھتا، اے کاش تمام صاحبان حیثیت بھی اسی آنکھ کے مالک ہوتے،
 اے کاش، کے ساتھ بیشمار تمنائیں میرا پیچھا کر رہی تھیں۔
تحریر :: #عوام_کی_آواز

Thursday 25 May 2017

"فاطمہ! میرے اہلِ خانہ میں سب سے پہلے تم مجھ سے آ ملو گی۔۔۔"

www.swatsmn.com
وفات سے 33 روز قبل جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، ارشاد فرمایا کہ
"میری بیویوں کو جمع کرو۔"
تمام ازواج مطہرات جمع ہو گئیں۔
تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:
"کیا تم سب مجھے اجازت دیتی ہو کہ بیماری کے دن میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے ہاں گزار لوں؟"
سب نے کہا اے اللہ کے رسول آپ کو اجازت ہے۔
 پھر اٹھنا چاہا لیکن اٹھہ نہ پائے تو حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما آگے بڑھے اور نبی علیہ الصلوة والسلام کو سہارے سے اٹھا کر سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔
 اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس (بیماری اور کمزوری کے) حال میں پہلی بار دیکھا تو گھبرا کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟
چنانچہ صحابہ مسجد میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور مسجد شریف میں ایک رش لگ ہوگیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا پسینہ شدت سے بہہ رہا تھا۔
 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کا اتنا پسینہ بہتے نہیں دیکھا۔
اور فرماتی ہیں:
 "میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک کو پکڑتی اور اسی کو چہرہ اقدس پر پھیرتی کیونکہ نبی علیہ الصلوة والسلام کا ہاتھ میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ محترم اور پاکیزہ تھا۔"
مزید فرماتی ہیں کہ حبیب خدا علیہ الصلوات والتسلیم
سے بس یہی ورد سنائی دے رہا تھا کہ
"لا إله إلا الله، بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں۔"
 اسی اثناء میں مسجد کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں خوف کی وجہ سے لوگوں کا شور بڑھنے لگا۔
نبی علیہ السلام نے دریافت فرمایا:
"یہ کیسی آوازیں ہیں؟
عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ لوگ آپ کی حالت سے خوف زدہ ہیں۔
ارشاد فرمایا کہ مجھے ان پاس لے چلو۔
پھر اٹھنے کا ارادہ فرمایا لیکن اٹھہ نہ سکے تو آپ علیہ الصلوة و السلام پر 77 مشکیزے پانی کے بہائے گئے، تب کہیں جا کر کچھ افاقہ ہوا تو سہارے سے اٹھا کر ممبر پر لایا گیا۔
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا آخری خطبہ تھا اور آپ علیہ السلام کے آخری کلمات تھے۔
فرمایا:
" اے لوگو۔۔۔! شاید تمہیں میری موت کا خوف ہے؟"
سب نے کہا:
"جی ہاں اے اللہ کے رسول"
ارشاد فرمایا:
"اے لوگو۔۔!
 تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیا نہیں، تم سے میری ملاقات کی جگہ حوض (کوثر) ہے، خدا کی قسم گویا کہ میں یہیں سے اسے (حوض کوثر کو) دیکھ رہا ہوں،
اے لوگو۔۔۔!
 مجھے تم پر تنگدستی کا خوف نہیں بلکہ مجھے تم پر دنیا (کی فراوانی) کا خوف ہے، کہ تم اس (کے معاملے) میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤ جیسا کہ تم سے پہلے (پچھلی امتوں) والے لگ گئے، اور یہ (دنیا) تمہیں بھی ہلاک کر دے جیسا کہ انہیں ہلاک کر دیا۔"
پھر مزید ارشاد فرمایا:
 "اے لوگو۔۔! نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سےڈرو۔ نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو۔"
(یعنی عہد کرو کہ نماز کی پابندی کرو گے، اور یہی بات بار بار دہراتے رہے۔)
پھر فرمایا:
 "اے لوگو۔۔۔! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میں تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔"
مزید فرمایا:
 "اے لوگو۔۔۔! ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ دنیا کو چن لے یا اسے چن لے جو اللہ کے پاس ہے، تو اس نے اسے پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے"
اس جملے سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد کوئی نہ سمجھا حالانکہ انکی اپنی ذات مراد تھی۔
 جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ تنہا شخص تھے جو اس جملے کو سمجھے اور زارو قطار رونے لگے اور بلند آواز سے گریہ کرتے ہوئے اٹھہ کھڑے ہوئے اور نبی علیہ السلام کی بات قطع کر کے پکارنے لگے۔۔۔۔
 "ہمارے باپ دادا آپ پر قربان، ہماری مائیں آپ پر قربان، ہمارے بچے آپ پر قربان، ہمارے مال و دولت آپ پر قربان....."
روتے جاتے ہیں اور یہی الفاظ کہتے جاتے ہیں۔
 صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم (ناگواری سے) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگے کہ انہوں نے نبی علیہ السلام کی بات کیسے قطع کردی؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دفاع ان الفاظ میں فرمایا:
 "اے لوگو۔۔۔! ابوبکر کو چھوڑ دو کہ تم میں سے ایسا کوئی نہیں کہ جس نے ہمارے ساتھ کوئی بھلائی کی ہو اور ہم نے اس کا بدلہ نہ دے دیا ہو، سوائے ابوبکر کے کہ اس کا بدلہ میں نہیں دے سکا۔ اس کا بدلہ میں نے اللہ جل شانہ پر چھوڑ دیا۔ مسجد (نبوی) میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر دیے جائیں، سوائے ابوبکر کے دروازے کے کہ جو کبھی بند نہ ہوگا۔"
آخر میں اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کے لیے آخری دعا کے طور پر ارشاد فرمایا:
"اللہ تمہیں ٹھکانہ دے، تمہاری حفاظت کرے، تمہاری مدد کرے، تمہاری تائید کرے۔
اور آخری بات جو ممبر سے اترنے سے پہلے امت کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی وہ یہ کہ:
"اے لوگو۔۔۔! قیامت تک آنے والے میرے ہر ایک امتی کو میرا سلام پہنچا دینا۔"
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ سہارے سے اٹھا کر گھر لے جایا گیا۔
 اسی اثناء میں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ میں مسواک تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کو دیکھنے لگے لیکن شدت مرض کی وجہ سے طلب نہ کر پائے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے سے سمجھ گئیں اور انہوں نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مسواک لے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دہن مبارک میں رکھ دی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم اسے استعمال نہ کر پائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسواک لے کر اپنے منہ سے نرم کی اور پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو لوٹا دی تاکہ دہن مبارک اس سے تر رہے۔
فرماتی ہیں:
 " آخری چیز جو نبی کریم علیہ الصلوة والسلام کے پیٹ میں گئی وہ میرا لعاب تھا، اور یہ اللہ تبارک و تعالٰی کا مجھ پر فضل ہی تھا کہ اس نے وصال سے قبل میرا اور نبی کریم علیہ السلام کا لعاب دہن یکجا کر دیا۔"
أم المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مزید ارشاد فرماتی ہیں:
 "پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی فاطمہ تشریف لائیں اور آتے ہی رو پڑیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھہ نہ سکے، کیونکہ نبی کریم علیہ السلام کا معمول تھا کہ جب بھی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تشریف لاتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم انکے ماتھے پر بوسہ دیتےتھے۔
حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے فاطمہ! "قریب آجاؤ۔۔۔"
 پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے کان میں کوئی بات کہی تو حضرت فاطمہ اور زیادہ رونے لگیں، انہیں اس طرح روتا دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے فاطمہ! "قریب آؤ۔۔۔"
دوبارہ انکے کان میں کوئی بات ارشاد فرمائی تو وہ خوش ہونے لگیں۔
 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا سے پوچھا تھا کہ وہ کیا بات تھی جس پر روئیں اور پھر خوشی اظہار کیا تھا؟
سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کہنے لگیں کہ
پہلی بار (جب میں قریب ہوئی) تو فرمایا:
"فاطمہ! میں آج رات (اس دنیاسے) کوچ کرنے والا ہوں۔
جس پر میں رو دی۔۔۔۔"
جب انہوں نے مجھے بےتحاشا روتے دیکھا تو فرمانے لگے:
"فاطمہ! میرے اہلِ خانہ میں سب سے پہلے تم مجھ سے آ ملو گی۔۔۔"
جس پر میں خوش ہوگئی۔۔۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں:
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو گھر سے باھر جانے کا حکم دیکر مجھے فرمایا:
"عائشہ! میرے قریب آجاؤ۔۔۔"
 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجۂ مطہرہ کے سینے پر ٹیک لگائی اور ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے فرمانے لگے:
 مجھے وہ اعلیٰ و عمدہ رفاقت پسند ہے۔ (میں الله کی، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت کو اختیار کرتا ہوں۔)
صدیقہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:
"میں سمجھ گئی کہ انہوں نے آخرت کو چن لیا ہے۔"
جبرئیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضر ہو کر گویا ہوئے:
 "یارسول الله! ملَکُ الموت دروازے پر کھڑے شرف باریابی چاہتے ہیں۔ آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی۔"
آپ علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا:
"جبریل! اسے آنے دو۔۔۔"
ملَکُ الموت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے، اور کہا:
 "السلام علیک یارسول الله! مجھے اللہ نے آپ کی چاہت جاننے کیلئےبھیجا ہے کہ آپ دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں یا الله سبحانہ وتعالی کے پاس جانا پسند کرتے ہیں؟"
فرمایا:
"مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے، مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے۔"
ملَکُ الموت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے سرہانے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے:
"اے پاکیزہ روح۔۔۔!
اے محمد بن عبدالله کی روح۔۔۔!
الله کی رضا و خوشنودی کی طرف روانہ ہو۔۔۔!
راضی ہوجانے والے پروردگار کی طرف جو غضبناک نہیں۔۔۔!"
سیدہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا فرماتی ہیں:
 پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہاتھ نیچے آن رہا، اور سر مبارک میرے سینے پر بھاری ہونے لگا، میں سمجھ گئی کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔۔۔ مجھے اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا سو میں اپنے حجرے سے نکلی اور مسجد کی طرف کا دروازہ کھول کر کہا۔۔
"رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔! رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔!"
مسجد آہوں اور نالوں سے گونجنے لگی۔
ادھر علی کرم الله وجہہ جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے پھر ہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔
ادھر عثمان بن عفان رضی الله تعالی عنہ معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے۔
اور سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ تلوار بلند کرکے کہنے لگے:
 "خبردار! جو کسی نے کہا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں، میں ایسے شخص کی گردن اڑا دوں گا۔۔۔! میرے آقا تو الله تعالی سے ملاقات کرنے گئے ہیں جیسے موسی علیہ السلام اپنے رب سے ملاقات کوگئے تھے، وہ لوٹ آئیں گے، بہت جلد لوٹ آئیں گے۔۔۔۔! اب جو وفات کی خبر اڑائے گا، میں اسے قتل کرڈالوں گا۔۔۔"
 اس موقع پر سب زیادہ ضبط، برداشت اور صبر کرنے والی شخصیت سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله تعالی عنہ کی تھی۔۔۔ آپ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے، رحمت دوعالَم صلی الله علیہ وسلم کے سینۂ مبارک پر سر رکھہ کر رو دیئے۔۔۔
کہہ رہے تھے:
وآآآ خليلاه، وآآآ صفياه، وآآآ حبيباه، وآآآ نبياه
(ہائے میرا پیارا دوست۔۔۔! ہائے میرا مخلص ساتھی۔۔۔!ہائے میرا محبوب۔۔۔! ہائے میرا نبی۔۔۔!)
پھر آنحضرت صلی علیہ وسلم کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا:
"یا رسول الله! آپ پاکیزہ جئے اور پاکیزہ ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔"
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر آئے اور خطبہ دیا:
 "جو شخص محمد صلی الله علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے سن رکھے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور جو الله کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ الله تعالی شانہ کی ذات ھمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔"
سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔۔۔
عمر رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں:
پھر میں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں اکیلا بیٹھ کر روؤں۔۔۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تدفین کر دی گئی۔۔۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"تم نے کیسے گوارا کر لیا کہ نبی علیہ السلام کے چہرہ انور پر مٹی ڈالو۔۔۔؟"
پھر کہنے لگیں:
"يا أبتاه، أجاب ربا دعاه، يا أبتاه، جنة الفردوس مأواه، يا أبتاه، الى جبريل ننعاه."
 (ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ اپنے رب کے بلاوے پر چل دیے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گئے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ ہم جبریل کو ان کے آنے کی خبر دیتے ہیں۔)
 اللھم صل علی محمد کما تحب وترضی
Junaid Jafri
www.swatsmn.com
اردو کے ستارے اس وقت سے گردش میں آنے شروع ہؤے جب ۱۹ ویں صدی میں بر صغیر میں ایک طرف برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے انگریزی رأیج کرنے کے جتن شروع ؤے اور دوسری طرف اردو ’فرقہ وارانہ معرکہ آرأی کی لپیٹ میں ئی اور اسی کے ساتھ سیاسی اشرافیہ نے اپنے مقاصد کے أے زبان کو آلہ کار بنانا شروع کیا۔ 

ایسٹ انڈیا کمپنی نے بر صغیر میں انگریزی کے تسلط کی راہ ہموار کرنے کے أے بے حد چال باز راہ اپنأی تھی۔ سب سے پہلے تو سرکاری زبان کی حیثیت سے فارسی کو ختم کرنے کا اقدام کیا ’ کیونکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو خطرہ تھا کہ اگر فارسی کی جگہ فی الفور انگریزی تھوپی ئی ’ تو عوام کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا دوسرے یہ کہ اس زمانہ میں انگریزی کی تعلیم اتنی عام نہیں تھی کہ اسے سرکاری محکموں اور عدالت میں رأیج کیا جا سکے۔ چنانچہ ان ہی دشواریوں کے پیش نظر مصلحت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہؤے 1۸۳۷ میں سب سے پہلے فارسی کی جگہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔ اس زمانہ میں’ اردو پورے ملک میں عوام کے رابط کی زبان تھی اور دوسرے فارسی رسم الخط کی وجہ سے اسے باسانی سرکار ی زبان کی حیثیت سے رأیج کیا جا سکا اور اردو سے اپنایت کے احساس کی بدولت عوام کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ یوں سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔

اردو کی آڑ میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بر صغیر کے تعلیمی نظام میں انگریزی رأیج کرنے کی کوشش کی اور انگریزی کو اسکولوں اور کالجوں کے درسی نصاب میں شامل کر کے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا۔ ۱۸۵۷ تک کلکتہ بمۂی اور مدراس کی یونی ورسٹیاں انگریزی تعلیم کے فروغ کی ستون بن چکی تھیں۔

بابو شیوا پرشاد نے ہندی کے مطالبہ کے ۂے جو یاد داشت انگریزی حکومت کو پیش کی تھی اس میں یہ شکایت کی ئی تھی کہ ہندووں کو نیم مسلمان بنانے اور ہندو قومیت کو نیست و نابود کرنے کےؤے اردو مسلط کی جارہی ہے ان کا کہنا تھا کہ ’’ نو وارد مسلم حکمرانوں نے اس بات کی قطعی زحمت گورارا نہ کی کہ وہ ہندوستانی زبانیں سیکھتے بلکہ انہوں نے ہندووں کو فارسی سیکھنے پر مجبور کیا نیز ہندی کہی جانے والی بولیوں میں فارسی کے الفاظ داخل کرکے زبانوں کی ایک ئی مخلوط شکل قایم کی جو اردو یا نیم فارسی کہلأی۔

پنڈت مدن موہن مالویہ ہندووں کی انتہا پسند تنظیم ہندو سماج کے بانی تھے بعد میں وہ کانگریس کے ممتاز رہنما بن أے ۔ اسی دوران انہوں نے ناگری پرچارنی سبھا کے جھنڈے تلے اردو کی جگہ ہندی اور ناگری رسم الخط کے حق میں زبردست مہم چلأی جس کے دوران یہ نعرہ لگا ’’ ہندی ہندو ہندستان،،۔
ہندو انتہا پسندوں کا یہ مطالبہ خالصتا فرقہ وارانہ جذبات پر مبنی تھا اور اس حقیقت کو ٹھکرانے کے مترادف تھا کہ اردو زبان اور اردو ادب کے فروغ میں بڑی تعداد میں خود ہندو ادیب پیش پیش رہے ہیں جن میں فسانہ آزاد’ سیر کہسار اور جام سرشار کے مصنف پنڈت رتن ناتھ سر شا ر جو اردو کے قدیم ترین اردو اخبار اودھ اخبار کے ایڈیٹر تھے ’ منشی جوالاپرشاد برق جنہوں نے بنگالی اور انگریزی ناولوں کے تراجم معشوق فرنگ اور مار آستین کے نام سے شایع ئے ’ ممتاز افسانہ نگار پریم چند’ اودھ پنچ کے پنڈت تربھون ناتھ عاجز ’ منشی نوبت رأے نذر اور منشی دیا نارأین نگم نمایاں ہیں۔ ۱۸۸۷ میں منشی دیبی پرشاد بشاش نے سات سو ہندو شاعروں کے اردو کلام کا مجموعہ شایع کیا تھا جس کاعنوان تھا۔ آثار شاعر ہندو۔

اردو کی جگہ دیو ناگری رسم الخط میں ہندی کو عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں رأیج کرنے کے ئے ایجی ٹیشن کا تمام تر زور بہار میں تھا ۔ اس سلسلہ میں پٹنہ کے شہریوں نے جو درخواست پیش کی تھی اسے حکومت ہندوستان نے یہ کہ کر مسترد کردیا کہ ہندی اور اردو کو دو مختلف زبانیں قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حکومت کی رأے تھی کہ سنسکرت کا ملمع چڑھی ہؤی ایک مصنوعی زبان کو ہندی کے نام پر پروان نہیں چڑھایا جا سکتا۔ اودھ میں ہندی کو عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں رایج کرنے کے مطالبہ پر جب اودھ کے چیف کمشنر کی رأے طلب کی ئی تو چیف کمشنر نے یہ معاملہ ماہرین کو سونپ دیا ۔ ان ماہرین نے اس معاملہ پر پوری طرح سے غور کرنے کے بعد رأے دی کہ اردو اور ہندی میں سوأے رسم الخط کے کؤی فرق نہیں۔ ان ماہرین کا کہنا تھا کہ ہندی اور اردو کو دو زبانیں قرار دینا ایک فاسق غلطی کو دوام بخشنا ہے۔ یہ دونوں دراصل ایک ہی زبان کی شہری اورزنگ آلود ۂیت ہیں ۔ ماہرین کی یہ بھی رأے تھی کہ اردو کے مقابلہ میں ہندی کی حمایت کرنا حکومت کے ؤے نہایت خطرناک بات ہو گی کیونکہ اس کے ۔۔۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ہندووں میں خاص طور پر کایستھ جنہیں عدالتی زبان پر اجارہ داری حاصل ہے اردو کی جگہ ہندی کو اختیار کرنے کے سخت مخالف ہیں۔ 

بہار اور اودھ میں اردو کی جگہ ہندی کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ مذہب کے ساتھ سیاست سے بھی وابستہ ہوگیا۔انتہا پسند ہندوں نے اردو کو مسلمانوں کی زبان اور اس کے فارسی اور عربی رسم الخط کی بنیاد پر اسے غیر ملکی زبان قرار دینا شروع کردیا۔ اس پر مسلمانوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا اور اسے مشترکہ ثقافت سے ہندوں کی بغاوت سے تعبیر کیا ۔ اس کے نتیجہ میں زبان کا مسلہ مذہب کے ساتھ ساتھ سیاسی مسلہ بھی بن گیا۔بہت سے لوگ اس کا ایک حد تک ذمہ وار سر سید احمد خان کو گردانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے برطانوی راج کی طرف سے مقرر کردہ ایجوکیشن کمیشن میں اردو کے حق میں کہا کہ اردومہذب اشرافیہ کی زبان ہے اور اس کے مقابلہ میں ہندی گنواری زبان ہے تو ہندی کے حامیوں میں آگ بھڑک اٹھی ۔ ہندی کے حامیوں کے سربراہ بابو ہریش چندر نے جواب میں کہا کہ اردو رقاصاوں اور طوایفوں کی زبان ہے ۔ اسی زمانہ میں ہندی ماہنامہ جریدہ سرسوتی میں دو ہندوستانی عورتوں کی تصاویر شایع ہؤیں۔ ایک تصویر ایک مسلم طوایف کی تھی جو گہنوں سے لدی پھندی زرق برق لباس میں ملبوس تھی اور دوسری ایک ہندو عورت کی تھی جو ایک سادا سی ساڑھی پہنے ہؤے تھی۔مسلمان طوایف کی تصویر کے نیچے لکھا تھا کہ یہ اردو ہے اور سادا ہندو عورت کی تصویر کے نیچے تحریر تھا یہ ہندی ہے ۔

اردو ہندی تنازعہ کی وجہ سے ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد اور ہم آہنگی کی وہ فضا مکدر ہو ؤی جو ۱۸۷۵ میں انگریزوں کے خلاف پہلی جنگ آزادی کے دوران پیدا ہؤی تھی۔ہندووں کی کٹر تنظیمیں’ جن میں آریہ سماج’ پنجاب برہما سماج اور ست سبھا پیش پیش تھیں ہندی کی حمایت اور اردو کی مخالفت کے میدان میں کود پڑیں۔اس صورت حال کے پیش نظر برطانوی راج نے مسلمانوں کے احتجاج کے باوجود ۱۸۸۰ میں بہار میں دیو ناگری رسم الخط میں ہند ی رایج کرنے کا اعلان کردیا اور اپریل ۱۹۰۰ میں اودھ کے چیف کمشنر میک ڈونل نے اودھ میں بھی عدالتوں سے فارسی رسم الخط ختم کر کے دیو ناگری رسم الخط رایج کرنے کا حکم دیا۔ علی گڑھ تحریک کے رہنما محسن الملک کی قیادت میں مسلمانوں نے اس فیصلہ کے خلاف تحریک چلانے کے أے اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن قایم کی ۔ دیو بند تحریک نے بھی جو علی گڑھ تحریک کی سخت مخالف تھی اردو کے تحفظ کے ؤے تحریک میں شمولیت اختیار کی اور یہ نعرہ لگایا کہ اردو کو خطرہ دراصل اسلام کو لاحق خطرہ ہے۔ اسی دوران ۱۹۰۳ میں مولوی عبدالحق نے اردو کے تحفظ اور ترقی کے ئے انجمن ترأی اردو کی داغ بیل ڈالی۔ 

جسم فروشی کے دھندے میں آنے والی لڑکیوں میں اضافہ بھی غربت کا ہی شاخشانہ ہے۔

www.swatsmn.com
صوبۂ پنجاب کی تحصیل چنیوٹ کے ایک گاؤں کی رہائشی کنیز فاطمہ ایک غریب کسان کے گھر پیدا ہوئی۔ اس کے باپ نے کھیتوں میں مزدوری کر کے اپنے سات بچوں کو پالا۔ کنیز کو میٹرک تک تعلیم دلوائی اور اس کی شادی کر دی۔ یہاں تک سب ٹھیک تھا۔ لیکن زندگی اس کے بعد کنیز کے لیے تنگ ہوتی گئی۔ کنیز کہتی ہے کہ اس کا شوہر کچھ نہیں کماتا تھا، اس کے دو بچے بھی ہوگئے۔اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے اس نے محنت مزدوری کرنے کی ٹھانی لیکن جس گھر میں وہ گھریلو ملازمہ بن کر گئی وہ ایک ’ڈیرہ‘ تھا۔
کنیز کے مطابق اس کے دھندے میں ڈیرہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں بہت سی لڑکیاں جسم فروشی کے لیے موجود ہوتی ہیں۔ کبھی یہ لڑکیاں بن سنور کر باہر جاتی ہیں اور کبھی گھر میں ہی اپنے گاہکوں سے ملتی ہیں۔ اس ڈیرے کا انتظام کوئی مرد یا کوئی عورت چلاتی ہے اور ایسی عورتوں کو میڈم یا آنٹی 
کہا جاتا ہے۔
اس ڈیرے میں عورتوں سے دھندہ کروانے والے شخص نے کنیز کو ’آسان‘ طریقے سے دولت کمانے کا گر بتایا۔ اس نے اسے منڈی بہاؤ الدین  میں ایک ڈیرے پر بھیجا اور چونکہ کنیز پڑھی لکھی تھی اور حساب کتاب کر سکتی تھی  اس لیے وہ ڈیرے کی انچارج بن گئی۔
اسی دوران اس کے شوہر کو اس کی حرکتوں کی خبر ہوئی۔ اس نے اسے گاؤں بلا کر گولی ماری جو اس کی ٹانگ پر لگی۔ کنیز نے شوہر سے طلاق لے لی اور ٹانگ کا علاج کروا کر ’مڈل وومن‘ بن گئی۔
اب کنیز لاہور میں رہتی ہے اور لاہور اور دوسرے کئی شہروں کے ڈیروں پر لڑکیاں پہنچاتی ہے اور ان سے کمیشن لیتی ہے۔ اسے ایک لڑکی فراہم کرنے کے پانچ سے دس ہزار روپے مل جاتے ہیں۔ کمیشن کے کم یا زیادہ ہونے کا تعلق لڑکی کی خوبصورتی سے ہے۔ کنیز کہتی ہے کہ وہ ڈیرے والوں کو ضمانت بھی دیتی ہے کہ لڑکی بھاگے گی نہیں۔ اس کے مطابق غربت سے تنگ آئے ہوئے لڑکیوں کے ماں باپ، بھائی اور شوہر تک لڑکیوں کو اس کے پاس لاتے ہیں کہ انہیں کسی ڈیرے پر جسم فروشی کی نوکری دلا دے اور لڑکیوں کے یہ ورثاء ان کی کمائی ایڈوانس میں لے جاتے ہیں اور پھر ہر مہینے ڈیرے والوں سے پیسہ وصول کرتے ہیں۔
کئی لڑکیاں خود بھی کنیز کے پاس آتیں ہیں کہ ہمیں یہ کام دلا دو۔ یہ لڑکیاں اس جنسی مشقت کی قیمت بھی خود ہی وصول کرتی ہیں۔ کنیز کے مطابق ڈیرے سےاگر کوئی صرف چند گھنٹے کے لیے لڑکی کو لیتا ہے تو وہ ایک ہزار سے پندرہ سو تک دیتا ہے جس میں لڑکی کو دو تین سو ملتے ہیں باقی ڈیرے والی آنٹی رکھتی ہے اور تمام رات گزارنے پر لڑکی کو پندرہ سو سے دو ہزار تک مل جاتے ہیں لیکن اسے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ڈیرے کی انچارج نے خود کتنے وصول کیے۔
کنیز کے مطابق ’لڑکی کی رات کی قیمت کا دارومدار اس کے حسن پر بھی ہوتا ہے جتنی حسین ہو گی اتنے دام زیادہ ملیں گے‘۔
کنیز کہتی ہے کہ یوں تو وہ کئی شہروں کے ڈیروں میں لڑکیاں دینےجاتی ہے لیکن راولپنڈی، اسلام آباد اور بہاول پور کے ڈیروں سے اس کا زیادہ رابطہ ہے اور اس کے بقول وہاں کے ڈیروں پر دو دو سو لڑکیاں ہوتی ہیں۔ اس کے بقول اس میں کوئی شک نہیں کہ غربت کے سبب کئی لڑکیوں کے ورثاء ان سے یہ پیشہ کرواتے ہیں لیکن کئی لڑکیاں اپنی مرضی سے کام کرنے آتی ہیں۔ کئی ایک کے گھر والے یہ نہیں جانتے کہ وہ کیا کام کرتی ہیں۔
اس دھندے میں ہر طرح کی لڑکیاں ہیں لیکن کنیز کے بقول اس کے پاس وہی زیادہ آتی ہیں یا لائی جاتیں ہیں جن کا مسئلہ غربت ہوتا ہے۔
کنیز کے گھر میں لاہور ہی کی ایک لڑکی ندا رہائش پذیر ہے۔ بیس سال کی عمر، رنگ گورا اور معصوم سا دل لبھانے والا چہرا۔ ندا کا کہنا ہے کہ وہ ماں کی مرضی سے اس پیشے میں آئی ہے۔’جب پہلی مرتبہ اس کام کے لیے گئی تو ماں کا لیا ہوا دس ہزار روپے کا قرض چکانا تھا۔‘ اس وقت ندا کی عمر چودہ سال تھی اور بقول اس کے وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ اسے کرنا کیا ہے۔
ندا کی کہانی بھی ان ہزاروں لاکھوں غریب لڑکیوں کی کہانی ہے جنہیں غربت وہ کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہے جسے معاشرہ اچھا نہیں سمجھتا۔ ایک سال کی تھی کہ باپ چل بسا، بڑا بھائی ہے جو ہیروئن کا نشہ کرتا ہے اور اسے باقی چھوٹے بہن بھائیوں کا پیٹ پالنا ہے۔ ندا کہتی ہے کہ اس کے گھر میں کسی کو معلوم نہیں کہ وہ اس دھندے سے وابستہ ہے۔ اس کی سہلیاں تک یہ نہیں جانتیں اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ راز کبھی کھلنے نہ پائے کیونکہ بقول اسکے اپنے پیٹ سے کوئی خود کپڑا اٹھاتا ہے۔
ندا کی پیشہ ورانہ زندگی کی کئی تلخ یادیں ہیں جو ندا کو بہت افسردہ کر دیتی ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ گاہک نے ڈیمانڈ پوری نہ کرنے پر اس سے بہت بد سلوکی کی۔ایک بار گاہک نے اسے برہنہ کمرے سے باہر نکال دیا۔ ندا کو تمام دوسری لڑکیوں کی طرح شادی کرنے کا شوق ہے۔اس کا دل چاہتا ہے کہ اس کا کمانے والا شوہر ہو جو زندگی کی تمام ضروریات پوری کرے، سسرالی رشتے دار ہوں اور اس کے بچے ہوں۔ لیکن اسے ڈر لگتا ہے کہ جس پیشے سے وہ وابستہ ہے ایسا لگتا ہے کہ کبھی بھی کوئی اس سے شادی نہیں کرے گا۔
ندا کو اپنا پیشہ برا لگتا ہے وہ کہتی ہے کہ اگر حکومت یا کوئی اور ادارہ اس کے خاندان کے اخراجات اٹھا لے جس میں زیادہ کچھ نہیں بس مکان کا کرایہ، یوٹیلٹی بلز، مہینے کا راشن اور کچھ پیسے بہن بھائیوں کے کپڑے جوتوں کے لیے مل جائیں تو وہ اس دھندے کو چھوڑ دے گی۔
ندا کے برعکس ماریہ اس پیشے میں اپنی مرضی سے آئی۔ اس کے بقول اس کا شوہر نکھٹو تھا، اس کے دو بیٹے ہیں اور وہ چاہتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھائے اور انہیں زندگی کی ہر سہولت دے۔ ماریہ کی ایک سہیلی نے اسے پیسہ کمانے کا یہ طریقہ بتایا اور اس طرح وہ اس دھندے میں آ گئی۔
ماریہ اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکی ہے۔ کئی شہروں کے ڈیروں پر جسم فروشی کرتی رہی لیکن زیادہ وقت گزرا جڑواں شہروں راولپنڈی اسلام آباد میں۔ ماریہ بتاتی ہے کہ وہ وہاں ہوٹلوں میں بھی اور بڑے بڑے گھروں میں بھی اپنے گاہکوں کے پاس جاتی تھی۔
ماریہ کے بقول اس کے گاہکوں میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں یہاں تک کہ گورے یعنی غیر ملکی بھی اس کے گاہک ہیں اور وہ اسے ٹپ بھی دیتے ہیں۔ ماریہ کا کہنا ہے کہ دوسرے شہروں کی نسبت اسلام آباد کے لوگوں کا رویہ اس کے ساتھ کافی بہتر رہا۔ ’وہ ڈیسنٹ تھے۔ ان کا اٹھنے بیٹھنے کا، بات کرنے کا، کھانے پینے کا طریقہ کافی اچھا تھا۔‘ ماریہ نے کہا کہ ’کوئی ہمیں اپنا تعارف تو نہیں کراتا لیکن انسان کے رویے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کوئی بڑا افسر یا بڑا آدمی ہے۔‘
اس پیشے میں کافی تجربہ کار ہونے کے باوجود ماریہ اپنی آمدنی کے لیے ڈیرے والوں کی محتاج ہے کیونکہ ڈیرے والے تمام لڑکیوں کی کمائی خود وصول کرتے ہیں اور پھر اپنا حصہ رکھ کر لڑکی کو دیتے ہیں۔ ماریہ کہ بقول انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ ڈیرے والے نے گاہک سے کتنا وصول کیا البتہ ٹپ ہماری ہوتی ہے۔ ماریہ کہتی ہے کہ اسلام آباد میں وہ پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک ماہانہ کما لیتی تھی لیکن اخراجات زیادہ ہیں اور بچت نہیں ہوتی۔ اخراجات میں وہ طبی ٹیسٹ بھی شامل ہیں جو ماریہ کو ہر دو ماہ بعد کروانے پڑتے ہیں جن میں ایڈز تک کا ٹیسٹ شامل ہے اور ان ٹیسٹوں کے لیے اسے کافی رقم خرچنا پڑتی ہے۔
اسلام آباد میں اچھی آمدنی کے باوجود ماریہ لاہور آ گئی کیونکہ اسے اسلام آباد میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور وہاں بڑے بڑے ہوٹلوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کے بعد ڈر لگنے لگا تھا۔ ماریہ کے بچے اسکی ایک منہ بولی بہن کے پاس ہیں اور انگریزی میڈیم سکول میں پڑھتے ہیں۔ اب اس کے اخراجات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ اگر اب وہ چاہے بھی تو اس دھندے کو چھوڑ نہیں سکتی۔ لیکن ماریہ کو احساس ہے کہ آخر کب تک کوئی عورت جسم فروشی کر سکتی ہے آخر عمر تو بڑھتی جاتی ہے اس لیے وہ چاہتی ہے کہ کوئی اور انتظام ہو جائے۔
ماریہ کا کہنا ہے کہ اسے ایک امیر آدمی نے داشتہ بنانے کی پیشکش کی ہے ’جو مجھے مکان بھی لے کر دے گا اور میرے بچوں کی پڑھائی سمیت میرے تمام اخراجات اٹھائے گا۔ اس آدمی کی بیوی کو بھی اعتراض نہیں کیونکہ اس کی بیوی بہت فربہ ہے اور وہ اپنے شوہر کو خوش دیکھنا چاہتی ہے اور میں سوچتی ہوں کہ ہر روز نئے آدمی کے پاس جانے کی بجائے ایک سے ہی اتنے پیسے مل جائیں تو اچھا ہے۔‘
کنیز کے پاس اس پیشے سے منسلک چند خوفناک کہانیاں بھی ہیں اور ان لڑکیوں سے مل کر لگتا ہے کہ شاید سب ہی کے ذہنوں پر اس طرح کی کہانیوں کا خوف ہے۔ ایک بار کنیز نے ایک لڑکی کومنڈی بہاؤ الدین میں گاہکوں کے پاس بھیجا، وہ جرائم پیشہ تھے اور انہوں نے اس لڑکی کے سامنے اپنے ہی ایک ساتھی کو مار کر نہر میں پھینک دیا۔ لڑکی اتنی خوفزدہ ہوئی کہ کئی ماہ بستر پر پڑی رہی۔
ملکوال کے علاقے میں ایک ڈیرے والی کو اس کے عاشق نے بے وفائی پر گولی مار دی لیکن کوئی کیس رجسٹر نہ ہوا۔ کنیز بتاتی ہے کہ کئی گاہک ان لڑکیوں کو بھی شراب پلانا چاہتے ہیں جو شراب نہیں پیتیں۔ کئی طرح کی ڈیمانڈز کرتے ہیں اور اگر لڑکی کوئی ڈیمانڈ پوری نہ کرتی تو اسے گولی مار کر لاش غائب کر دیتے ہیں اور ڈیرے والی آنٹی یا اس کے وارثوں کو کہہ دیتے ہیں کہ آپ کی لڑکی بھاگ گئی ہے۔
اس پیشے میں آنے والی کئی لڑکیاں نشہ کرنے لگتی ہیں۔ پیشے کا خوف اور تھکن ان لڑکیوں کو مجبور کر دیتا ہے کہ زنگی کی تلخیوں کو بھلانے کے لیے نشے کا سہارا لیں۔
ڈیروں پر گردش کرنے والی ان عبرت ناک کہانیوں کے باوجود پاکستان میں جسم فروشی کے دھندے میں آنے والی عورتوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور کنیز فاطمہ کے بقول ہر گلی محلے میں ایسے ڈیرے ہیں جہاں لڑکیاں جسم فروشی کرتی ہیں۔ کنیز کے مطابق جب سے وہ اس پیشے میں آئی ہے اس میں لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہی دیکھا ہے اور اتنی کم سن لڑکیوں کو خود ان کے ورثاء لے کر آتے ہیں کہ ’میرا بھی دل دہل جاتا ہے۔‘
پاکستان میں کہ جہاں بڑھتی ہوئی غربت دہشت گردی اور خود کش حملوں کا ایک سبب کہی جاتی ہے وہاں جسم فروشی کے دھندے میں آنے والی لڑکیوں میں اضافہ بھی غربت کا ہی شاخشانہ ہے۔

Wednesday 24 May 2017

ایدھی ایسے نہیں بنتے ایسے بنتے ہیں ۔

گجرات کے گاؤں بانٹوا کا نوجوان عبدالستار گھریلو حالات خراب ہونے پر کراچی جا کر کپڑے کا کاروبار شروع کرتا ہے کپڑا خریدنے مارکیٹ گیا وہاں کس نے کسی شخص کو چاقو مار دیا زخمی زمین پر گر کر تڑپنے لگا لوگ زخمی کے گرد گھیرا ڈال کر تماشہ دیکھتے رہے وہ شخص تڑپ تڑپ کر مر گیا.. نوجوان عبدالستار کے دل پر داغ پڑ گیا , سوچا معاشرے میں تین قسم کے لوگ ہیں دوسروں کو مارنے والے مرنے والوں کا تماشہ دیکھنے والے اور زخمیوں کی مدد کرنے والے .. نوجوان عبدالستار نے فیصلہ کیا وہ مدد کرنے والوں میں شامل ہو گا اور پھر کپڑے کا کاروبار چهوڑا ایک ایمبولینس خریدی اس پر اپنا نام لکها نیچے ٹیلی فون نمبر لکھا اور کراچی شہر میں زخمیوں اور بیماروں کی مدد شروع کر دی وہ اپنے ادارے کے ڈرائیور بهی تهے آفس بوائے بهی ٹیلی فون آپریٹر بهی سویپر بهی اور مالک بهی وہ ٹیلی فون سرہانے رکھ کر سوتے فون کی گھنٹی بجتی یہ ایڈریس لکهتے اور ایمبولینس لے کر چل پڑتے زخمیوں اور مریضوں کو ہسپتال پہنچاتے سلام کرتے اور واپس آ جاتے .. عبدالستار نے سینٹر کے سامنے لوہے کا غلہ رکھ دیا لوگ گزرتے وقت اپنی فالتو ریزگاری اس میں ڈال دیتے تھے یہ سینکڑوں سکے اور چند نوٹ اس ادارے کا کل اثاثہ تهے .. یہ فجر کی نماز پڑھنے مسجد گئے وہاں مسجد کی دہلیز پر کوئی نوزائیدہ بچہ چهوڑ گیا مولوی صاحب نے بچے کو ناجائز قرار دے کر قتل کرنے کا اعلان کیا لوگ بچے کو مارنے کے لیے لے جا رہے تھے یہ پتهر اٹها کر ان کے سامنے کهڑے ہو گئے ان سے بچہ لیا بچے کی پرورش کی اج وہ بچہ بنک میں بڑا افسر ہے .. یہ نعشیں اٹهانے بهی جاتے تھے پتا چلا گندے نالے میں نعش پڑی ہے یہ وہاں پہنچے دیکھا لواحقین بهی نالے میں اتر کر نعش نکالنے کے لیے تیار نہیں عبدالستار ایدھی نالے میں اتر گیا, نعش نکالی گهر لائے غسل دیا کفن پہنایا جنازہ پڑهایا اور اپنے ہاتھوں سے قبر کهود کر نعش دفن کر دی .. بازاروں میں نکلے تو بے بس بوڑھے دیکهے پاگلوں کو کاغذ چنتے دیکھا آوارہ بچوں کو فٹ پاتهوں پر کتوں کے ساتھ سوتے دیکها تو اولڈ پیپل ہوم بنا دیا پاگل خانے بنا لیے چلڈرن ہوم بنا دیا دستر خوان بنا دیئے عورتوں کو مشکل میں دیکھا تو میٹرنٹی ہوم بنا دیا .. لوگ ان کے جنون کو دیکھتے رہے ان کی مدد کرتے رہے یہ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ایدهی فاؤنڈیشن ملک میں ویلفیئر کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا یہ ادارہ 2000 میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی آ گیا .. ایدھی صاحب نے دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس بنا دی .. عبدالستار ایدھی ملک میں بلا خوف پهرتے تهے یہ وہاں بهی جاتے جہاں پولیس مقابلہ ہوتا تھا یا فسادات ہو رہے ہوتے تھے پولیس ڈاکو اور متحارب گروپ انہیں دیکھ کر فائرنگ بند کر دیا کرتے تھے ملک کا بچہ بچہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے بعد عبدالستار ایدھی کو جانتا ہے .. ایدھی صاحب نے 2003 تک گندے نالوں سے 8 ہزار نعشیں نکالی 16 ہزار نوزائیدہ بچے پالے.. انہوں نے ہزاروں بچیوں کی شادیاں کرائی یہ اس وقت تک ویلفیئر کے درجنوں ادارے چلا رہے تھے لوگ ان کے ہاتھ چومتے تهے عورتیں زیورات اتار کر ان کی جهولی میں ڈال دیتی تهیی نوجوان اپنی موٹر سائیکلیں سڑکوں پر انہیں دے کر خود وین میں بیٹھ جاتے تهے .. عبدالستار ایدھی آج اس دنیا میں نہیں ھیں مگر ان کے بنائے ھوئے فلاحی ادارے دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ھیں..
اللہ پاک ایدھی مرحوم کو غریق رحمت کرے.. آمین..
www.swatsmn.com

Friday 6 January 2017

یونس خان ماڈرن کرکٹ میں مزاحمت اور تسلسل کی بہترین مثال

www.swatsmn.com

یونس آج بھی وہی کرکٹ کھیلتا ہے جو وہ سولہ سال پہلے کھیلتا تھا۔ اس کا فٹ ورک آج بھی وہی ہے جسے سولہ سال پہلے بھی کوئی پسند نہیں کرتا تھا۔ اس کی تکنیک آج بھی وہی ہے جو ڈیڑھ عشرہ پہلے تھی۔
ان سولہ سال میں یونس خان نے پاکستان کرکٹ کا مشکل ترین وقت دیکھا ہے۔ اس نے اپنے آئیڈیلز کو ریٹائر ہوتے دیکھا، ڈریسنگ روم کو نئے نئے چہروں اور بھانت بھانت کے تجربوں سے گزرتے دیکھا، پی سی بی کو سیاسی تبدیلیوں سے گزرتے دیکھا، سپاٹ فکسنگ کے سکینڈل سے ٹوٹتی ٹیم کو دیکھا، بے وطن ٹیم کو امارات کے گرم صحراوں میں گھر کھوجتے دیکھا، اور اس سب کے بیچ وہ صرف اپنی محنت اور کارکردگی کے بل پہ پاکستانی ڈریسنگ روم کا حصہ رہا۔
وہ پاکستان کی تاریخ کا کامیاب ترین بیٹسمین صرف اپنے ریکارڈز اور رنز کی بدولت نہیں ہے بلکہ اس کی عظمت کی دلیل یہ ہے کہ اس نے پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا مشکل ترین وقت بہترین انداز سے نبھایا ہے۔ اس نے سالہا سال اس بے گھر اور بے نام ٹیم کو اعتماد فراہم کیا ہے۔ قوم نے بھلے اس پہ بھروسہ نہ کیا ہو مگر وہ ہر طرح کے حالات میں ڈٹا رہا ہے۔
یونس خان پاکستان کی تاریخ کا عظیم ترین بیٹسمین ہے مگر اس نے اس عظمت کی قیمت اوروں سے کہیں زیادہ چکائی ہے۔ یہ تو آنے والا کل ہی بتا سکتا ہے کہ اس عظیم بیٹسمین میں ابھی کتنی کرکٹ باقی ہے مگر پاکستان کرکٹ کے یہ سولہ سال اس بات کے گواہ ہیں کہ یونس خان صرف پاکستان کا ہی نہیں، اس عہد کا بھی عظیم ترین بیٹسمین ہے۔
 گذستہ چھ سال پاکستان آفریدی اور مصباح کے دو قومی نظریہ میں الجھا ہوا تھا، تب یونس خان اپنے غیر مقبول سٹائل اور نان گلیمرس اپروچ کے ساتھ رنز بنانے اور ریکارڈ توڑنے میں لگا رہا۔ آج یونس تاریخ کا پہلا بیٹسمین بن چکا ہے جس نے تمام ٹیسٹ پلئینگ نیشنز سمیت گیارہ ممالک میں سینچریاں کی ہیں۔

یونس خان پاکستان کرکٹ کا عجیب ترین کردار ہے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کا عظیم ترین بیٹسمین ہے مگر اس کے اکثر ہم وطن یہ ماننے کو تیار نہیں۔ وہ ریکارڈز اور اعداد و شمار میں اس وقت برائن لارا اور گواسکر جیسوں کے مقابل کھڑا ہے مگر پاکستان میں اسے کبھی انضی یا یوسف، حتی کہ عامر سہیل جیسی پذیرائی بھی نصیب نہیں ہوئی۔
پاکستان وہ ملک ہے جہاں کرکٹ ہیرو ازم کو کارکردگی کی بجائے سٹائل اور گلیمر کے پیمانے میں تولا جاتا ہے۔ ہاں کارکردگی بھی اچھی ہو تو ہیرو کا قد اور بڑھ جاتا ہے لیکن کارکردگی بری بھی ہو تو صاحبان گلیمر و سٹائل کا قد گھٹتا نہیں ہے۔ اور جو ہیرو پہلی انٹری پہ ہی کھڑکی توڑ پرفارمنس دے ڈالے، وہ پھر سالہا سال پرفارم کرے یا نہ کرے، تا ابد اس قوم کا ہیرو ہی رہتا ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو یونس خان ماڈرن کرکٹ میں مزاحمت اور تسلسل کی بہترین مثال ہے۔ یہ وہ بیٹسمین ہے جس نے اولڈ سکول کرکٹ کو ماڈرن کرکٹ میں ڈھلتے دیکھا ہے، وسیم، وقار کا عہد ختم ہوتے دیکھا ہے، انضی اور یوسف کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو بھگتا ہے۔ آئے دن ٹیم بدلتی دیکھی، کپتان بدلتے دیکھے لیکن ان سب بدلتی رتوں میں بھی یونس خود کو بدلے بغیر مسلسل آگے ہی بڑھتا رہا ہے۔
پلئیرز پہ ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ جب ان کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ان کے بغیر ٹیم نہیں بنتی۔ یونس نے بھی یہ دونوں وقت دیکھے تو ہیں مگر اسے یہ دیکھنے کے لیے بھی ایک صبر آزما انتظار سے گزرنا پڑا۔
یونس خان ریکارڈز اور ٹائٹلز کے پیچھے بھاگنے والوں میں سے نہیں ہے۔ وہ دوسروں کی نصیحت کے بجائے اپنی محنت پہ یقین رکھتا ہے۔وہ ہوا کے تیور دیکھ کر رنگ بدلنے والا نہیں ہے۔ سارے جہاں کی کرکٹ بدل جائے مگر یونس بدلنے والا نہیں ہے۔ اس کی تکنیک پہ سوشل میڈیا ہنسے یا ماہرین بھنویں اچکائیں، وہ اسی تکنیک سے رنز کے انبار لگاتا چلا جاتا ہے۔

Thursday 5 January 2017

صحافی کیا ہے؟

www.swatsmn.com

صحافی کیا ہے؟
اپنے سلیبس میں آپ صحافی کی اور صحافت کی بہت سے لوگوں کی بہت زیادہ تعریفیں پڑھیں گے۔ لیکن عملی دنیا میں قدم رکھتے ہوئے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ صحافی ہے کیا؟
مختلف انداز میں اس کی تشریح کرتاہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آپ اس کو سمجھ پائیں گے۔
 ہر محلے میں کوئی نا کوئی خاتون ایسی ہوتی ہیں۔ جو ایک جگہ سے بات سن کر دوسری جگہ بات کو پھیلاتی چلی جاتی ہیں۔ ایسی خواتین کو اردو زبان میں پھاپے کٹنی کہتے ہیں۔کچھ لوگ صرف کٹنی کہتے ہیں اور پنجابی زبان میں اسے پھپے کٹنی کہا جاتا ہے۔
 ان کٹنیوں میں چند ایک معیار میں بلند درجہ رکھتی ہیں اور وہ یہ کہ وہ سنی ہوئی کو سناتی ہی نہیں بلکہ ان پر ہر کسی کی رائے کو بھی لیتی چلی جاتی ہیں اور سنی ہوئی بات کو اپنے مختلف پیرایوں میں بیان کر کے ان سے مختلف لوگوں کی آرالیتی چلی جاتی ہیں اور اس طرح ایک مخصوص فرد کے حق میں یا اس کے خلاف مخصوص مواد حاصل کر لیتی ہیں۔
 ایسی خواتین ضروری نہیں کہ محلوں میں ہی پائی جاتی ہوں یہ سکول کالج ہوسٹل میں بھی ہوتی ہیں۔ در حقیقت یہ ایک سوچ ہے اندازِ زندگی ہے۔ طرزِ تفکر ہے۔ ان ایک بات مشترک ہوتی ہے۔ اور وہ یہ کہ یہ سنی ہوئی بات روک نہیں سکتیں اور ایک جگہ رک نہیں سکتیں۔ اپنی مطلوبہ بات وصول کرتے ہی اس جگہ سے آگے نکلتے چلی جاتی ہیں۔
 بس یہی انداز پیشہ وارانہ انداز میں صحافی کی زندگی کا ہوتا ہے۔ معلومات کا حصول ان پر مختلف پیرائے میں مختلف متعلقہ لوگوں سے ان پر اپنے انداز میں ان سے ان کے خیالات کہلوا کر آگے بڑھتے چلے جانا۔ اور کسی بھی نئی بات کو روک نہ پانا بلکہ اس کو متعلقہ میڈیا (مقام) پر پہنچانا۔ ہی صحافی کا کام ہے۔
صحافی کی دوسری تعریف:
 الفاظ کے ننگے پن کا جان جانے والا اور موقع و محل کی مناسبت سےان کے درست استعمال کرلینے والا صحافی کہلاتا ہے۔ ننگے پن سے مراز الفاظ کا ادب ختم کر دینا ہے۔ کہ یہ لفظ تو اس طرح استعمال کیا جاتا یا کس طرح استعمال کیا جاتا ہے سب بھول جائین فقط اس کے بنیادی مطلب کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ اور ایک ماہر کی طرح اس کا استعمال مختلف انداز میں کرنا ہی الفاظ کو ننگا کر دینے اور اس کو استعمال کر دینے میں مہارت صحافی کا کام ہے۔
ادب اور صحافت میں فرق:
 ادب نام ہی عیوب کو چھپانے کا ،عیاں کو نہاں کرنے کا یا مختلف انداز میں ایسے بیان کرنے کا کہ عیب پر پردہ پڑا رہے یا عیب ہلکے سے ہلکا محسوس ہو لیکن صحافت نام ہے ۔ نہاں کو عیاں کرنے کا، چھپے ہوئے کو سامنے لانے کا۔اور ایسے انداز میں سامنے لانے کا کہ سب پر اس کا خاطر خواہ اثر ہو اور اس عیب کا ختمہ ہو سکے۔ فقط نہاں کو عیاں کر دینے سے ہی کام نہیں چلتا بلکہ اس کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا پڑتا ہے لیکن اس کا بھی ایک پیشہ وارانہ طریقہ ہے
 مثلاً آج راولپنڈی میں کسی خاتون کا دھوکے سے گردہ نکال لیا گیا۔ لیکن اس کو رپورٹ ایسے کیا گیا کہ راولپنڈی میں گردے نکالنے والے گروہ کا انکشاف۔ اسی لفظ گروہ کی وجہ سے یہ خبر تمام ٹیلیویژن چینلز کی بریکنگ بن گیا۔ اس طرح اس پر سب اداروں کی توجہ ہو گئی
عقلی معیار کو ناپنا ہو تو عموماً اس کی مندرجہ ذیل درجہ بندی کی جا سکتی ہے
کند ذہن،عام فہم،ذہین اور فطین
 ایک صحافی فطین سے بھی بہت آگے کی چیز ہوتی ہے۔ اسے فطین پلس کہا جائے تو زیادتی نہ ہو گی۔ عام آدمی کسی بھی غیر معمولی بات کو سطحی نظر سے دیکھتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے۔ لیکن ذہین آدمی کسی بھی چیز کو دیکھنے کے بعد اس کے فوری اثرات، مستقبل قریب کے اثرات کیساتھ ساتھ مستقبل بعید کے اثرات کو چند لمحوں میں جانچ جاتا ہے۔اور اس کے بعد اس کو اپنے پیمانہ پر تولتا ہے کہ یہ میرے لیے، میرے ادارہ کے لئے، میری قوم کے لئے، انسانیت کے لئے کن اثرات کا موجب بن سکتی ہے۔ جب وہ ہر پہلو کو جانچ چکتا ہے تو اس کی اسی انداز میں خبر بناتا ہے تا کہ وہ زیادہ سے زیادہ اثر انگیز ہو۔ مثلاً
 میں کسی پر بھی کسی بھی قسم کا کوئی بھی اعتراض کئے بغیر ایک واقع بیان کر رہا ہوں۔ جس دن معروف صحافی اور موجودہ اینکر پرسن حامد میر نے اسامہ بن لادن کا افغانستان میں روزنامہ اوصاف کےلئےانٹر ویو لیا اور وہ شائع بھی ہو گیا تو میں زیرو پوئنٹ اسلام آباد میں پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے سامنے موجود ہوٹل پر چائے پینے بیٹھا تھا ساتھ چند صحافی دوست بھی موجود تھے۔ وہیں خبر کی اطلاع ملی۔ سب کے منہ سے بیک وقت ایک ہی بات نکلی۔ اوہ یہ تواس نے امریکی افواج کو افغانستان میں اتروا دیا ہے ۔اس واقع کے بہت بعد میں نائن الیون کا واقع پیش آیا اور اس کے بعد امریکن افواج افغانستان میں آئیں۔ لیکن معلوم سب ہی کو تھا کہ کیا شائع ہو چکا ہے اور اس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔
 مجھے حامد میر پر یا اس کی رپوڑٹنگ پر کوئی اعتراض نہیں۔ نہ میں اس پہلو پر آ رہا ہوں۔ فقط یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ خبر کیا اثرات رکھتی ہے۔ اورخبر بنانے والے پر کیا کیا ذمہ داریاں ہو سکتی ہیں اور ایک پیشہ ور اخبار نویس کیا ہوتا ہے۔ اس کا ویژن کیا ہوتا ہے۔ اور یہ اس کے لئے معمول کی بات ہوتی ہے۔ ہر چیز کو دیکھنا پرکھنا اور غیر محسوسانا انداز میں کسی کے نوٹس میں آئے بغیر آگے بڑھتے چلے جانا اس کا معمول ہوتا ہے۔
 یہ صلاحیتیںانسان میں کیسے آتی ہیں یہ بتدریج ماحول سے ملتی ہیں۔ رپورٹنگ ڈیسک ایک ایسی جگہ ہے جہاں چٹخارہ ہی چٹخارہ ہوتا ہے۔ ہر ایک رپورٹر اپنی اپنی بیٹ سے واپس آ کر سلپس( وہ کاغذ جس پر خبریں لکھے جاتی ہیں،عموماً یہ نیوس پرنٹ والا کاغز ہی ہوتا ہے جسے بسا اوقات ٹشو پیپر کے طور پر استعمال میں لایا جاتا ہے)کی تباہی کر رہا ہوتا ہے کیونکہ خبر بناتے پوئی ذرا غلطی ہوئی اور سلپ کو مروڑ کر ایک سائیڈ پر پھینک کر دوسری پر خبر بنانا شروع کر دی جاتی ہے۔ بسا اوقات ایک ہی خبر پر کئی کئی سلپ ضائع ہو جاتی ہیں اور آخر میں ایک سلپ پر خبر تیار ہو جاتی ہے۔
 ایک رپورٹر دوسرے کو بتا رہا ہوتا ہے کہ آج فلاں ڈی آئی جی ٹھوک رہا ہوں۔ دوسرا کسی وزیر کی خبر لے رہا ہوتا ہے تیسرا کسی اور ادارے کو بجا رہا ہوتا ہے۔
 اور یہ سب کچھ حوصلہ ہمت اور بے خوفی ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہوتی لیکن صحافی کا روزمرہ کا معمول ہوتا ہے۔
 بنیادی تربیت کے لئے شام کا اخبار ہو تو تربیت میں جو نکھار آتا ہے وہ اور کہیں دستیاب نہیں ہوتا۔شام کا اخبار اپنی نوعیت میں خود بھی چٹخارہ ہوتا ہے تو یہ چٹخارہ تیار کرنے والے اپنی نوعیت کےالگ ہی لوگ ہیں۔ خواتین کو تو عموماً ان کی مناسبت سے ہی بیٹ(وہ علاقہ یا فیلڈ جس کی ذمہ داری اس رپورٹر کے ذمہ ہوتی ہے)دی جاتی ہے۔اور انہیں دن دن میں ہی بر وقت فارغ بھی کر دیا جاتا ہے۔ لیکن مرد حضرات کے لئے یہ پیشہ ایک فل ٹائم ایکسائٹمنٹ ہوتی ہے۔ چونکہ اخبارات رات کو ہی تیار ہوتے اور چھپتے ہیں اس لئے کاپی پریس جانے کے بعد ہی سب فارغ ہوتے ہیں
FB / Tnxs

MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan EXTED.pk

Admission open  MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan   http://facebook.com/ exted.p k http://www.exted.pk/ Lowest Fee ,   No IELTS...