Tuesday 17 March 2015

گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف دوڑتا ہے

www.swatsmn.com
گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف دوڑتا ہے۔ ہماری جو شامت آئی تو ایک دن اپنے پڑوسی لالہ کرپا شنکرجی برہمچاری سے برسبیل تذکرہ کہہ بیٹھے کہ “لالہ جی امتحان کے دن قریب آتے جاتے ہیں، آپ سحرخیز ہیں، ذرا ہمیں بھی صبح جگادیا کیجیئے۔”
وہ حضرت بھی معلوم ہوتا ہے نفلوں کے بھوکے بیٹھے تھے۔ دوسرے دن اٹھتے ہی انہوں نے ایشور کا نام لے کر ہمارے دروازے پر مکابازی شروع کردی کچھ دیر تک تو ہم سمجھے کہ عالم خواب ہے۔ ابھی سے کیا فکر، جاگیں تو لاحول پڑھ لیں گے۔ لیکن یہ گولہ باری لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی گئی۔ اور صاحب جب کمرے کی چوبی دیواریں لرزنے لگیں، صراحی پر رکھا گلاس جلترنگ کی طرح بجنے لگا اور دیوار پر لٹکا ہوا کیلنڈر پنڈولم کی طرح ہلنے لگا تو بیداری کا قائل ہونا ہی پڑا۔
Sawairay Jo Kal Ankh Mari Khuli
Sawairay Jo Kal Ankh Mari Khuli
مگر اب دروازہ ہے کہ لگاتار کھٹکھٹایا جا رہا ہے۔ میں کیا میرے آبااجداد کی روحیں اور میری قسمت خوابیدہ تک جاگ اٹھی ہوگی۔ بہتر آوازیں دیتا ہوں۔۔۔ “اچھا!۔۔۔ اچھا!۔۔۔ تھینک یو!۔۔۔ جاگ گیا ہوں!۔۔۔ بہت اچھا! نوازش ہے!” آنجناب ہیں کہ سنتے ہی نہیں۔ خدایا کس آفت کا سامنا ہے؟ یہ سوتے کو جگا رہے ہیں یا مردے کو جلا رہے ہیں؟ اور حضرت عیسی بھی تو بس واجبی طور پر ہلکی سی آواز میں “قم” کہہ دیا کرتے ہوں گے، زندہ ہوگیا تو ہوگیا، نہیں تو چھوڑ دیا۔ کوئی مردے کے پیچھے لٹھ لے کے پڑجایا کرتے تھے؟ توپیں تھوڑی داغا کرتے تھے؟ یہ تو بھلا ہم سے کیسے ہوسکتا تھا کہ اٹھ کر دروازے کی چٹخنی کھول دیتے، پیشتر اس کے کہ بستر سے باہر نکلیں، دل کو جس قدر سمجھانا بجھانا پڑتا ہے۔ اس کا اندازہ کچھ اہل ذوق ہی لگا سکتے ہیں۔ آخرکار جب لیمپ جلایا اور ان کو باہر سے روشنی نظر آئی، تو طوفان تھما۔
اب جو ہم کھڑکی میں سے آسمان کو دیکھتے ہیں تو جناب ستارے ہیں، کہ جگمگا رہے ہیں! سوچا کہ آج پتہ چلائیں گے، یہ سورج آخر کس طرح سے نکلتا ہے۔ لیکن جب گھوم گھوم کر کھڑکی میں سے اور روشندان میں سے چاروں طرف دیکھا اور بزرگوں سے صبح کاذب کی جتنی نشانیاں سنی تھیں۔ ان میں سے ایک بھی کہیں نظر نہ آئی، تو فکر سی لگ گئی کہ آج کہیں سورج گرہن نہ ہو؟ کچھ سمجھ میں نہ آیا، تو پڑوسی کو آواز دی۔ “لالہ جی!۔۔۔ لالہ جی؟”
جواب آیا۔ “ہوں۔”
میں نے کہا “آج یہ کیا بات ہے۔ کچھ اندھیرا اندھیرا سا ہے؟”
کہنے لگے “تو اور کیا تین بجے ہی سورج نکل آئے؟”

Sawairay Jo Kal Ankh Mari Khuli
Sawairay Jo Kal Ankh Mari Khuli
تین بجے کا نام سن کر ہوش گم ہوگئے، چونک کر پوچھا۔ “کیا کہا تم نے؟ تین بجے ہیں۔”
کہنے لگے۔ “تین۔۔۔ تو۔۔۔ نہیں۔۔۔ کچھ سات۔۔۔ ساڑھے سات۔۔۔ منٹ اوپر تین ہیں۔”
میں نے کہا۔ “ارے کم بخت، خدائی فوجدار، بدتمیز کہیں کے، میں نے تجھ سے یہ کہا تھا کہ صبح جگا دینا، یا یہ کہا تھا کہ سرے سے سونے ہی نہ دینا؟ تین بجے جاگنا بھی کوئی شرافت ہے؟ ہمیں تو نے کوئی ریلوے گارڈ سمجھ رکھا ہے؟ تین بجے ہم اٹھ سکا کرتے تو اس وقت دادا جان کے منظور نظر نہ ہوتے؟ ابے احمق کہیں کے تین بجے اٹھ کے ہم زندہ رہ سکتے ہیں؟ امیرزادے ہیں، کوئی مذاق ہے، لاحول ولاقو”۔

دل تو چاہتا تھا کہ عدم تشدد وتشدد کو خیرباد کہہ دوں لیکن پھر خیال آیا کہ بنی نوع انسان کی اصلاح کا ٹھیکہ کوئی ہمیں نے لے رکھا ہے؟ ہمیں اپنے کام سے غرض۔ لیمپ بجھایا اور بڑبڑاتے ہوئے پھر سوگئے۔
اور پھر حسب معمول نہایت اطمینان کے ساتھ بھلے آدمیوں کی طرح اپنے دس بجے اٹھے، بارہ بجے تک منھ ہاتھ دھویا اور چار بجے چائے پی کر ٹھنڈی سڑک کی سیر کو نکل گئے۔
شام کو واپس ہاِسٹل میں وارد ہوئے۔ جوش شباب تو ہے ہی اس پر شام کا ارمان انگیز وقت۔ ہوا بھی نہایت لطیف تھی۔ طبعیت بھی ذرا مچلی ہوئی تھی۔ ہم ذرا ترنگ میں گاتے ہوئے کمریمیں داخل ہوئے کہ
بلائیں زلف جاناں کی اگر لیتے تو ہم لیتے
کہ اتنے میں پڑوسی کی آواز آئی۔ “مسٹر”۔
ہم اس وقت ذرا چٹکی بجانے لگے تھے۔ بس انگلیاں وہیں پر رک گئیں۔ اور کان آواز کی طرف لگ گئے۔ ارشاد ہوا “یہ آپ گا رہے ہیں؟” (زور “آپ” پر)
میں نے کہا۔ “اجی میں کس لائق ہوں۔ لیکن خیر فرمائیے؟” بولے “ذرا۔۔۔ وہ میں۔۔۔ میں ڈسٹرب ہوتا ہوں ۔ بس صاحب۔ ہم میں جو موسیقیت کی روح پیدا ہوئی تھی فورا مر گئی۔ دل نے کہا۔ “اونابکار انسان دیکھ پڑھنے والے یوں پڑھتے ہیں “صاحب، خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگی کہ “خدایا ہم بھی اب باقاعدہ مطالعہ شروع کرنے والے ہیں۔ہماری مدد کر اور ہمیں ہمت دے۔”

آنسو پونچھ کر اور دل کو مضبوط کرکے میز کے سامنے آبیٹھے، دانت بھینچ لئے، نکٹائی کھول دی، آستینیں چڑھا لیں، لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کریں کیا؟ سامنے سرخ سبز، زرد سب ہی قسم کی کتابوں کا انبار لگا تھا۔ اب ان میں سے کوئی سی پڑھیں؟ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلے کتابوں کو ترتیب سے میز پر لگادیں کہ باقاعدہ مطالعہ کی پہلی منزل یہی ہے۔
بڑی تقطیع کی کتابوں کو علیحدہ رکھ دیا۔ چھوٹی تقطیع کی کتابوں کو سائز کے مطابق الگ قطار میں کھڑا کردیا۔ ایک نوٹ پیپر پر ہر ایک کتاب کے صفحوں کی تعداد لکھ کر سب کو جمع کیا پھر ۔اپریل تک کے دن گنے۔ صفحوں کی تعداد کو دنوں کی تعداد پر تقسیم کیا۔ ساڑھے پانچ سو جواب آیا، لیکن اضطراب کی کیا مجال جو چہرے پر ظاہر ہونے پائے۔ دل میں کچھ تھوڑا سا پچھتائے کہ صبح تین بجے ہی کیوں نہ اٹھ بیٹھے لیکن کم خوابی کے طبی پہلو پر غور کیا۔ تو فورا اپنے آپ کو ملامت کی۔ آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ تین بجے اٹھنا تو لغویات ہیالبتہ پانچ، چھ، سات بجے کے قریب اٹھنا معقول ہوگا۔ صحت بھی قائم رہے گی، اور امتحان کی تیاری بھی باقاعدہ ہوگی۔ ہم خرماد ہم ثواب۔
یہ تو ہم جانتے ہیں کہ سویرے اٹھنا ہو تو جلدی ہی سو جانا چاہیئے۔ کھانا باہر سے ہی کھا آئے تھے۔ بستر میں داخل ہوگئے۔
چلتے چلتے خیال آیا، کہ لالہ جی سے جگانے کے لیے کہہ ہی نہ دیں؟ یوں ہماری اپنی قوت ارادی کافی زبردست ہے جب چاہیں اٹھ سکتے ہیں، لیکن پھر بھی کیا ہرج ہے؟
ڈرتے ڈرتے آواز دی۔ “لالہ جی!”
انہوں پتھر کھینچ مارا “یس!”
ہم اور بھی سہم گئے کہ لالہ جی کچھ ناراض معلوم ہوتے ہیں، تتلا کے درخواست کی کہ لالہ جی، صبح آپ کو بڑی تکلیف ہوئی، میں آپ کا بہت ممنون ہوں۔ کل اگر ذرا مجھے چھ بجے یعنی جس وقت چھ بجیں۔۔۔”
جواب ندارد۔
میں نے پھر کہا “جب چھ بج چکیں تو۔۔۔ سنا آپ نے؟”
چپ۔
“لالہ جی!”
کڑکتی ہوئی آواز نے جواب دیا۔ “سن لیا سن لیا چھ بجے جگا دوں گا۔ تھری گاما پلس فور ایلفا پلس۔۔۔”
“ہم نے کہا ب۔۔۔ ب۔۔۔ ب۔۔۔ بہت اچھا۔ یہ بات ہے۔”
توبہ! خدا کسی کا محتاج نہ کرے۔

Sawairay Jo Kal Ankh Mari Khuli
Sawairay Jo Kal Ankh Mari Khuli
لالہ جی آدمی بہت شریف ہیں۔ اپنے وعدے کے مطابق دوسرے دن صبح چھ بجے انہوں نے دروازو ں پر گھونسوں کی بارش شروع کردی۔ ان کا جگانا تو محض ایک سہارا تھا ہم خود ہی انتظار میں تھے کہ یہ خواب ختم ہولے تو بس جاگتے ہیں۔ وہ نہ جگاتے تو میں خود ایک دو منٹ کے بعد آنکھیں کھول دیتا۔ بہر صورت جیسا کہ میرا فرض تھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اس شکل میں قبول کیا کہ گولہ باری بند کردی۔
اس کے بعد کے واقعات ذرا بحث طلب سے ہیں اور ان کے متعلق روایات میں کسی قدر اختلافات ہے بہرحال اس بات کا تو مجھے یقین ہے۔ اور میں قسم بھی کھا سکتا ہوں کہ آنکھیں میں نے کھول دی تھیں۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ ایک نیک اور سچے مسلمان کی طرح کلمہ شہادت بھی پڑھا۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ اٹھنے سے پیشتر دیباچے کے طور پر ایک آدھ کروٹ بھی لی۔ پھر کا نہیں پتہ۔ شاید لحاف اوپر سے اتار دیا۔ شاید سر اس میں لپیٹ دیا۔ یا شاید کھانسایا خراٹا لیا۔ خیر یہ تو یقین امر ہے کہ دس بجے ہم بالکل جاگ رہے تھے۔ لیکن لالہ جی کے جگانے کے بعد اور دس بجے سے پیشتر خدا جانے ہم پڑھ رہے تھے یا شاید سو رہے تھے۔ نہیں ہمارا خیال ہے پڑھ رہے تھے یا شاید سو رہے تھے۔ بہرصورت یہ نفسیات کا مسئلہ ہے جس میں نہ آپ ماہر ہیں نہ میں۔ کیا پتہ، لالہ جی نے جگایا ہی دس بجے ہو۔ یا اس دن چھ دیر میں بجے ہوں۔ خدا کے کاموں میں ہم آپ کیا دخل دے سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے دل میں دن بھر یہ شبہ رہا کہ قصور کچھ اپنا ہی معلوم ہوتا ہے۔ جناب شرافت ملاحظہ ہو، کہ محض اس شبہ کی بنا پر صبح سے شام تک ضمیر کی ملامت سنتا رہا۔ اور اپنے آپ کو کوستا رہا۔ مگر لالہ جی سے ہنس ہنس کر باتیں کیں ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور اس خیال سے کہ ان کی دل شکنی ہو، حد درجے کی طمانیت ظاہر کی کہ آپ کی نوازش سے میں نے صبح کا سہانا اور روح افزا وقت بہت اچھی طرح صرف کیا ورنہ اور دنوں کی طرح آج بھی دس بجے اٹھتا۔ “لالہ جی صبح کے وقت دماغ کیا صاف ہوتا ہے، جو پڑھو خدا کی قسم فورا یاد ہوجاتا ہے۔ بھئی خدا نے صبح بھی کیا عجیب چیز پیدا کی ہے یعنی اگر صبح کے بجائے صبح صبح شام ہوا کرتی تو دن کیا بری طرح کٹا کرتا۔”
لالہ جی نے ہماری اس جادوبیانی کی داد یوں دی کہ آپ پوچھنے لگے۔ “تو میں آپ کو چھ بجے جگا دیا کروں نا؟”
میں نے کہا۔ “ہاں ہاں، واہ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ بیشک۔”
شام کے وقت آنے والی صبح کے مطالعہ کے لیے دو کتابیں چھانٹ کر میزپر علیحدہ جوڑ دیں۔ کرسی کو چارپائی کے قریب سرکالیا۔ اوورکوٹ اور گلوبند کو کرسی کی پشت پر آویزاں کر لیا۔ کنٹوپ اور دستانے پاس ہی رکھ لیے۔ دیاسلائی کو تکیئے کے نیچے ٹٹولا۔ تین دفعہ آیت الکرسی پڑھی، اور دل میں نہایت ہی نیک منصوبے باندھ کر سوگیا۔
صبح لالہ جی کی پہلی دستک کے ساتھ ہی جھٹ آنکھ کھل گئی، نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ لحاف کی ایک کھڑکی میں سے ان کو “گڈمارننگ” کیا، اور نہیات بیدارانہ لہجے میں کھانسا، لالہ جی مطمئن ہو کر واپس چلے گئے۔

ہم نے اپنی ہمت اور اولوالعزمی کو بہت سراہا کہ آج ہم فورا ہی جاگ اٹھے۔ دل سے کہا کہ “دل بھیا، صبح اٹھنا تو محض ذرا سی بات ہے ہم یوں ہی اس سے ڈرا کرتے تھے”۔ دل نے کہا “اور کیا؟ تمہارے تو یوں ہی اوسان خطا ہوجایا کرتے ہیں”۔ ہم نے کہا “سچ کہتے ہو یار، یعنی اگر ہم سستی اور کسالت کو خود اپنے قریب نہ آنے دیں تو ان کی کیا مجال ہے کہ ہماری باقاعدگی میں خلل انداز ہوں۔ اس وقت لاہور شہر میں ہزاروں ایسے کاہل لوگ ہوں گے جو دنیا ومافیہا سے بیخبر نیند کے مزے اڑاتے ہوں گے۔ اور ایک ہم ہیں کہ ادائے فرض کی خاطر نہایت شگفتگہ طبعی اور غنچہ دہنی سے جاگ رہے ہیں۔ “بھئی کیا برخوردار سعادت آثار واقع ہوئے ہیں۔” ناک کو سردی سی محسوس ہونے لگی تو اسے ذرا یو ں ہی سا لحاف اوٹ میں کر لیا اور پھر سوچنے لگے۔۔۔ “خوب۔ تو ہم آج کیا وقت پر جاگے ہیں بس ذرا اس کی عاد ت ہوجائے تو باقاعدہ قرآن مجید کی تلاوت اور فجر کی نماز بھی شروع کردیں گے۔ آخر مذہب سب سے مقدم ہے ہم بھی کیا روزبروز الحاد کی طرف مائل ہوتے جاتے ہیں نہ خدا کا ڈر اور نہ رسول کا خوف۔ سمجھتے ہیں کہ بس اپنی محنت سے امتحان پاس کرلیں گے۔ اکبر بیچارا یہی کہتا کہتا مرگیا لیکن ہمارے کان پر جوں تک نہ چلی۔۔۔ (لحاف کانوں پر سرک آیا)۔۔۔ تو گویا آج ہم اور لوگوں سے پہلے جاگے ہیں۔۔۔ بہت ہی پہلے۔۔۔ یعنی کالج شروع ہونے سے بھی چار گھنٹے پہلے۔ کیا بات ہے! خداوندان کالج بھی کس قدر سست ہیں ایک مستعد انسان کو چھ بجے تک قطعی جاگ اٹھنا چاہئے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کالج سات بجے کیوں نہ شروع ہوا کرے۔۔۔ (لحاف سر پر)۔۔۔ بات یہ ہے کہ تہذیب جدید ہماری تمام اعلی قوتوں کی بیخ کنی کر رہی ہے۔ عیش پسندی روزبروز بڑھتی جاتی ہے۔۔۔ (آنکھیں بند)۔۔۔ تو اب چھ بجے ہیں تو گویا تین گھنٹے تو متواتر مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ پہلے کون سی کتابیں پڑھیں۔ شیکسپیئر
Sawairay Jo Kal Ankh Mari Khuli
Sawairay Jo Kal Ankh Mari Khuli
یا ورڈزورتھ؟ میں جانوں شیکسپیئر بہتر ہوگا۔ اس کی عظیم الشان تصانیف میں خدا کی عظمت کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ اور صبح کے وقت اللہ میاں کی یاد سے بہتر چیز کیا ہوسکتی ہے؟ پھر خیال آیا کہ دن کو جذبات کے محشرستان سے شروع کرنا ٹھیک فلسفہ نہیں۔ ورڈزورتھ پڑھیں۔ اس کے اوراق میں فطرت کو سکون واطمینان میسر ہوگا اور دل اور دماغ نیچر کی خاموش دلآویزیوں سے ہلکے ہلکے لطف اندوز ہوں گے۔۔۔ لیکن ٹھیک ہی رہے گا شیکسپیئر۔۔۔ نہیں ورڈزورتھ۔۔۔ لیڈی میکبتھ۔۔۔ دیوانگی۔۔۔ سبزہ زار۔۔۔ سنجر سنجر۔۔۔ بادبہاری۔۔۔ صید ہوس۔۔۔ کشمیر۔۔۔ میں آفت کا پرکالہ ہوں۔۔۔
یہ معمہ اب مابعد الطبعیات ہی سے تعلق رکھتا ہے کہ پھر جو ہم نے لحاف سے سر باہر نکالا اور ورڈزورتھ پڑھنے کا ارادہ کیا تو وہی دس بج رہے تھے۔ اس میں نہ معلوم کیا بھید ہے!
کالج ہال میں لالہ جی ملے۔ “مسٹر! صبح میں نے آپ کو پھر آواز دی تھی، آپ نے جواب نہ دیا؟”
میں نے زور کا قہقہہ لگا کر کہا۔ “اوہو۔ لالہ جی یاد نہیں۔ میں نے آپ کو گڈمارننگ کہا تھا؟ میں تو پہلے ہی سے جاگ رہا تھا”۔
بولے “وہ تو ٹھیک ہے لیکن بعد میں۔۔۔ اس کے بعد!۔۔۔ کوئی سات بجے کے قریب میں نے آپ سے تاریخ پوچھی تھی، آپ بولے ہی نہیں۔”
ہم نے نہایت تعجب کی نظروں سے ان کو دیکھا۔ گویا وہ پاگل ہوگئے ہیں۔ اور پھر ذرا متین چہرہ بنا کر ماتھے پر تیوریاں چڑھائیغوروفکر میں مصروف ہوگئے۔ ایک آدھ منٹ تک ہم اس تعمق میں رہے۔ پھر یکایک ایک محجومانہ اور معشوقانہ انداز سے مسکراکے کہا۔ “ہاں ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، میں اس وقت۔۔۔ اے۔۔۔ اے، نماز پڑھ رہا تھا۔”
لالہ جی مرعوب سے ہو کر چل دیئے۔ اور ہم اپنے زہد واتقا کی مسکینی میں سر نیچا کئے کمرے کی طرف چلے آئے۔ اب یہی ہمارا روزمرہ کا معمول ہوگیا ہے۔ جاگنا نمبر ایک چھ بجے۔ جگانا نمبر دو دس بجے۔ اس دوران لالہ جی آواز دیں تو نماز۔
جب دل مرحوم ایک جہان آرزو تھا تو یوں جاگنے کی تمنا کیا کرتے تھے کہ “ہمارا فرق ناز محو بالش کمخواب” ہو اور سورج کی پہلی کرنیں ہمارے سیاہ پرپیچ بالوں پر پڑ رہی ہیں۔ کمرے میں پھولوں کی بوئے سحری روح افزائیاں کر رہی ہو۔ نازک اور حسین ہاتھ اپنی انگلیوں سے بربط کے تاروں کو ہلکے ہلکے چھیڑ رہے ہوں۔ اور عشق میں ڈوبی ہوئی سریلی اور نازک آواز مسکراتی ہوئی گا رہی ہو!
تم جاگو موہن پیارے
خواب کی سنہری دھند آہستہ آہستہ موسیقی کی لہروں میں تحلیل ہوجائے اور بیداری ایک خوشگوار طلسم کی طرح تاریکی کے باریک نقاب کو خاموشی سے پارہ پارہ کردے چہرے کسی کی نگاہ اشتیاق کی گرمی محسوس کر رہا ہو۔ آنکھیں مسحور ہو کر کھلیں اور چار ہوجائیں۔ دلآویز تبسم صبح کو اور بھی درخشندہ کردے۔ اور گیت “سانوری صورت توری من کو بھائی” کے ساتھ ہی شرم وحجاب میں ڈوب جائے۔

نصیب یہ ہے کہ پہلے “مسٹر! مسٹر!” کی آواز اور دروازے کے دنادن سامعہ نوازی کرتی ہے، اور پھر چار گھنٹے بعد کالج کا گھڑیال دماغ کے ریشے ریشے میں دس بجانا شروع کردیتا ہے۔ اور اس چار گھنٹے کے عرصہ میں گڑویوں کے گر گرنے۔ دیگچیوں کے الٹ جانے، دروازوں کے بند ہونے، کتابوں کے جھاڑنے، کرسیوں کے گھسیٹنے، کلیاں اور غرغرے کرنے، کھنکھارنے اور کھانسنے کی آوازیں تو گویا فی البدیہہ ٹھمریاں ہیں۔ اندازہ کرلیجیئے کہ ان سازوں میں سرتال کی کس قدر گنجائش ہے!
موت مجھ کو دکھائی دیتی ہے
جب طبعیت کو دیکھتا ہوں میں

عطائی ڈاکٹر اور جعلی ادویات کا دھندہ؟

www.swatsmn.com
تحریر : شہزاد حسین بھٹی
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں دیگر شعبے زوال پذید ہیںوہیں صحت کا شعبہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ محکمہ صحت جس کا کام انسانی جانوں کا حفاظت اور بیماریوں کی روک تھام کے لیئے اقدامات کرنا ہے وہ خود اپنی روائتی کام چوری، رشوت خوری اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پرعمل پیرا ہو کر جعلی ادویات کی روک تھام کے بجائے انکی ترسیل کی شرح میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔

شہروں میں جابجا جعلی کلینک قائم ہیںجہاں ہومیوپیتھی کی آڑ میں ایلوپیتھک کی پریکٹس کی جارہی ہے اور محکمہ صحت نے انہیں موت بانٹنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے اور یہ نام نہاد عطائی ڈاکٹراسٹیرائیڈز دیکر لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں ۔کچھ میڈیکل سٹورز والے بھی بین ادویات دھڈلے سے فروخت کر رہے ہیں یہ جعلی سیکس میڈیسن ویاگرہ اور وائیمیکس جو زیادہ تر انڈیا سے افغانستان کے راستے اسمگل ہوکرپشاور آتی ہیں اور یہاں سے پورے پاکستان میںسپلائی ہوتی ہیںجبکہ یہی سیکس میڈیسن خیبر پختون خواہ کی کچھ لیبارٹریاں بھی بنا رہی ہیں۔بیس روپے میں ملنے والی ایک گولی میڈیکل سٹورز والے ایک سو پچاس روپے تک نہ صرف عام لوگوں بلکہ کالجوں کے نوجوانوں کو بھی فروخت کررہے ہیں جو وقتی لذت کے حصول سے نہ صرف بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیںبلکہ لاعلمی میںان ادویات کے سائیڈافکٹس کی وجہ سے دل اور گردوں کے امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹروں کے مطابق سیکس میڈیسن کے استعمال سے گردے براہ راست متاثر ہوتے ہیںاور دس فیصدلوگوں کے گردے ان جعلی سیکس میڈیسن کی وجہ سے فیل ہوجاتے ہیں۔ لیکن ان ادویات کو منگوانے والوں اوربیچنے والوں دونوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ اس ملک میں محکمہ صحت کے افسران اور ڈرگزانسپکٹر منتھلی لیتے ہیںلہذا اسے روکے گا کون؟کیا آپ لوگوں نے آج کل کبھی سنا یا خبر پڑھی کے فلاں میڈیکل سٹور یا فارمیسی سیکس میڈیسن ویاگرہ اور وائیمیکس پکڑے جانے کی وجہ سے سیل کی گئی ہو؟بد قسمتی سے نہ تو میڈیسن کی اسمگلنگ کو روکا جا سکا ہے اور نہ ان لیبارٹریوں کی چھان بین یا باز پرس کی جاتی ہے۔ڈرگز انسپکٹر ،لیبر انسپکٹر اور کوالٹی افسران ان فیکٹریوں سے اپنا حصہ لے کر چلتے بنتے ہیں ۔غیر معیاری ادویات کی وجہ سے روزانہ سینکڑوں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے کبھی کھانسی کے سیرپ ہزاروں لوگوں کی جان لے لیتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے اکثر خاندان اپنے بجٹ کا 77 فیصد ادویات پر خرچ کر دیتے ہیں۔ان میں سے پچاس فیصد سے زائد ایسے خاندان شامل ہیں جو غربت کا شکار ہیں اور اس بات سے لا علم ہیں کہ اپنے خون پسینے کی کمائی سے جعلی ادویات خرید رہے ہیں۔
Homeopathy
Homeopathy
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جعلی ادویات پورے پاکستان میں ہر جگہ دستیاب ہیں دوسرا اہم ایشو (ایکسپائر ی میڈیسن )ہیں ۔ہمارے ہاں مناسب چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے اور لوگوں کی اکثریت ان پڑھ ہونے کی وجہ سے زائد المعیاد ادویات بھی بڑے آرام سے فروخت کر دی جاتی ہیں اور نتیجتاً کسی نہ کسی غریب مریض کی جان چلی جاتی ہے اور فروخت کرنے والے کو افسوس تک نہیں ہوتا ۔اسی طرح خسرہ ،پولیو اور ہیپاٹیٹیس سی کی جعلی ویکسین بھی تیارکر کے فروخت کی جا رہی ہیں۔یہ بات یہاں قابل ذکر ہے کہ پولیو کی ویکسین مناسب طریقے سے ٹرانسپورٹ نہ ہونے اور جعلی ہونے کی وجہ سے اکثر وہ بچے بھی پولیو کا شکار ہوئے جنھیں پولیو ویکسین پلائی گئی تھی ابھی گذشتہ دنوں لاہور کے قریب ایک جعلی لیبارٹری پکڑی گئی جو ہیپاٹیٹس کے جعلی انجکشن تیار کرتے تھے ۔جعلی ادویات کی تیاری کے بڑے مراکزخیبر پختون خواہ ،کراچی اور لاہور ہیں ۔ایسی جعلی ادویات کی کھیپ چھوٹے شہروں پسماندہ قصبوں اور دیہاتوں میں بھیجی جا تی ہیں۔اور ان دواؤں پر اچھا مارجن ملنے کی وجہ سے عطائی ڈاکٹر اور حکیم لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت اور یورپی یونین میڈیسن رپورٹ کے مطابق دس فیصد سے زائد ادویات پاکستان میں فروخت کی جاتی ہیں ۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ زیادہ تر جعلی ادویات پاکستان ،انڈیا اور چین میں تیار کی جاتی ہیں اور جعلی ادویات کا کاروبار یورپی دنیا میں بھی پھیل چکا ہے 2014ء میں ان جعلی ادویات کی وجہ سے پاکستان میں ایک سو پچاس سے زائد لوگ موت کے منہ میں جا چکے ہیں جبکہ اسے سے پہلے چالیس ہزار سے زائد جعلی ادویات دل کے مریضوں کو دی گئیں تھیں ۔رپورٹ کے مطابق ملیریا کی ایک تہائی ادویات جعلی پائی گئیں جنکے استعمال کی مدت ختم ہونے کے بعد تازہ لیبل لگاکر ری کنڈیشن انداز میں فروخت کر دیا گیا تھا ۔بچوں کی ویکسین کی مدت بڑھانے کے لیئے اس میں مرکری کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح ہسپتالوں میں استعمال شدہ سرنجیںاور دیگر ویسٹ میٹریل ری سائیکل کر کے دوبارہ یہی اشیاء اور بچوں کے دودھ کے فیڈرز کے نیپل بناکر فروخت کر دیئے جاتے ہیں ۔ڈرگزلیبارٹریاں کراچی ،لاہور اور اسلام آباد میں ہونے کے باوجود میڈیسن کو چیک نہیں کیا جا تا ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ خود حکومتی ادارے بھی ان کی رپورٹوں پر اعتماد نہیں کرتے ۔دنیا میں پاکستان شاید وہ واحد ملک ہے جہاں ہم سب ڈاکٹر بنے ہوتے ہیں اور اگر کسی کو پیٹ میں درد ہے تو بجائے اسکے کے اسے ڈاکٹر کے پاس بھیجا جائے ہم خود ہی اسے سر درد کی گولی دے کر کہتے ہیں کہ اس کے کھانے سے تمھارے پیٹ کا درد دور ہو جائے گا یا پھر رہی سہی کسر میڈیکل سٹورکا وہ ان پڑھ لڑکا نکال دے گا جو اپنی ذات میں خود ایک ڈاکٹر ہوتا ہے۔
ڈرگز انسپکٹر اور ہیلتھ آفیسر اپنے ضلعے میں حفظان صحت کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں مگر یہی لوگوں کی جانوں کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں ۔جعلی ادویات اور جعلی ڈاکٹروں کے سدباب کے لیئے حکومتی ادارے تو موجود ہیں مگر ان کی کارکردگی بھی ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے ۔وزارت صحت کو نہ تو دواؤں کی کوالٹی کی فکر ہے اور نہ ہی انکے پاس کوئی ریکارڈ ہوتا ہے کہ زائد المعیاد ادویات کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جعلی ادویات کے گھناؤنے کاروبار میں ملوث افراد کی نشاندہی کی جائے بلکہ چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو موثر بنایا جائے ۔متعلقہ حکام ،ذرائع ابلاغ اور سماجی تنظیمیں بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں ۔انسانی جانوں کے ساتھ کھیلنے والوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لاتے ہوئے شہروں میں قائم جعلی لائسنس یافتہ میڈیکل سٹوروں کے خلاف بھی کاروائی کرکے سخت سے سخت سزائیں دی جائیں اورڈرگ انسپکٹر ز میڈیکل سٹوروں کے خلاف کاروائی کے دوران کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لائیں تاکہ نوجوانوں کی جانوں سے کھیلنے اور سیکس میڈیسن بیچنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جا سکے۔
Shahzad Hussain Bhatti
Shahzad Hussain Bhatti
تحریر : شہزاد حسین بھٹی

سویرے جو کل آنکھ میری کھلی

www.swatsmn.com
تحریر: قرة العین ملک
لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں دو گرجا گھروں کے باہر خودکش دھماکوں کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 15 افراد کی جان کی بازی ہار گئے 77 افراد زخمی ہو گئے جبکہ جائے وقوعہ پر 2 مشکوک افراد کو مشتعل مظاہرین نے تشدد کا نشانہ بنا کر اور آگ لگا کر ہلاک کر ڈالا، مشتعل افراد کی طرف سے زبردست توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔ یوحنا آباد میں دو گرجا گھروں سینیٹ جونز اور کرائسٹ چرچ کو اس وقت دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جب وہاں دعائیہ تقریب جاری تھی۔

پہلے گولیاں برسائی گئیں پھر یکے بعد دیگرے دو خودکش دھماکے ہوئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں نے 15 سے 20 کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا، دونوں عمارتوں میں 400 افراد تھے، پولیس اہلکار اور سیکورٹی گارڈ حملہ آوروں کو نہ روکتے تو زیادہ نقصان ہوتا۔ اس دوران مشتعل افراد نے پولیس کی گاڑی پر پتھراؤ کیا اور امدادی کارروائی سے روکے رکھا اور سیکورٹی فورسز نے دو مشکوک افراد کو پکڑ ا تو وہاں موجود مشتعل افرا د نے نے فیروزپور روڈ پر پولیس کی موجودگی میں 2 افراد کو زندہ جلا دیا۔ مظاہرین کے غم و غصہ کی وجہ سے پولیس خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہی۔ پولیس کی موجودگی میں عوام نے دونوں جوانوں کو شدید زد و کوب کیا اور ان پر لکڑیاں ڈالیں پھر ان پر پٹرول ڈال کر ان کو زندہ جلا دیا۔ مرنیوالے دونوں اشخاص چیخ و پکار کرتے رہے اور کہتے رہے کہ ہم بے گناہ ہیں ہم پر ظلم نہ کرو لیکن پولیس کی موجودگی میں یہ دونوں افراد آگ لگنے کے باعث جھلس کر زندگی کی بازی ہار گئے۔مظاہرین نے میٹرو بس سروس روڈ پر پتھرائو اور توڑ پھوڑ کرکے بس سروس معطل کردی اور بس سروس کے کئی جنگلے توڑ دیئے۔
سانحہ یوحناآباد لاہور کیخلاف ملک بھر میں مسیحی برادری سراپا احتجاج ہے ،واقعہ کیخلاف احتجاجی مظاہرے کئے گئے ہیں۔آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کہتے ہیں کہ واہگہ بارڈر، پولیس لائنز اور یوحنا آباد خود کش دھماکوں کی ذمہ داری ایک ہی تنظیم نے قبول کی ہے۔ گرجا گھر دھماکوں میں پولیس اہلکاروں کی غفلت کا تاثر درست نہیں ہے۔ پولیس اہلکاروں نے حملہ آوروں کو چرچ کے اندر جانے سے روکا۔ اگر حملہ آور چرچ کے اندر جاتے تو زیادہ نقصان ہوتا۔ آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ واہگہ بارڈر، پولیس لائنز اور یوحنا آباد خود کش دھماکوں میں مماثلت ہے۔ تینوں حملوں کی ذمہ داری ایک ہی تنظیم نے قبول کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی خلاف جنگ سب کی مشترکہ ہے ۔یو حنا آبا د میں خو د کش دھماکو ں کی خبر نشر ہو تے ہی پورا شہر غم میں ڈ و ب گیا۔
Protest
Protest
اتوار کی تعطیل یوم سو گ میں بدل گئی آئر لینڈ کیخلا ف پا کستان کی فتح بھی چہروں پر کر ب دور نہ کر سکی یہ سانحہ ہر پا کستانی کو رلا گیا یو حنا آبا د کی آبا دی ایک لا کھ سے زائد ہے اور یہ ملک میں مسیحی بر ادری کی سب سے بڑی بستی ہے یہا ں کے لو گ امن اور محبت کے سوا کو ئی زبان نہیں جانتے پوری مسیحی بر ادری کی وطن سے لازوال محبت کے مظا ہر ے کئی بار دیکھے گئے سانحہ پشاور پر مسیحی بھائیو ں نے اپنی کر سمس بھلا دی اور پوری قو م کے سا تھ ہم آواز ہو گئے گزشتہ روز کے حملو ں سے ان پر غم کا پہا ڑ ٹو ٹ پڑا تا ہم دکھ کی اس گھڑی میں بعض عنا صر نے احتجاج کی آڑ میں ایسا کھیل کھیلا جو دہشتگر دی کا شکار ہو نیوالے خاندانو ں کے ساتھ کسی ظلم سے کم نہیں دو افر اد کو مشکو ک قر ار دیکر تشدد کا نشانہ بنا یا گیا اور پھر جلا دیا گیاان کی شنا خت ہو نا ابھی با قی ہے ،بالفر ض اگر یہ دہشتگردو ں کے ساتھی تھے تو انھیں ہلاک کر کے اس گروہ تک پہنچنے کے سارے راستے بند کر دئیے گئے تا ہم اگر وہ عام شہر ی تھے تو انھیں اس طر ح مو ت کے گھا ٹ اتارنا بھی دہشتگر دی ہے ہجوم کو ہدایا ت کون دے رہا تھا اس کا پتہ چلا نا بھی ضرور ی ہے کیو نکہ لو ٹ مار اور تو ڑ پھو ڑ کی فو ٹیج میں کئی چہرے ایسے خو ش دکھا ئی دے رہے تھے جیسے کو ئی کارنامہ انجام دے رہے ہو ں۔
یہ دہشتگر دی کا ایسا واقعہ ہے جس کی دو نو ں پہلو ؤں سے تحقیقات ہو نی چا ہیے اول۔خو د کش حملہ آور کیسے ہدف تک پہنچ گئے انھیں روکا کیو ں نہیں جا سکا ،دوم۔حملے کے بعد امدادی کارروائیو ں کے بجا ئے مار دھا ڑ اور لو ٹ مار میں کو ن ملو ث تھا انھیں روکا کیو ں نہیں گیا۔لاہور میں پچھلے آٹھ سال کے دوران دہشت گرد 20 سے زیادہ حملے کر چکے ہیں جن میں سیکڑوں افراد جاں بحق ہوئے۔ حساس اداروں کے دفاتر کے علاوہ ماتمی جلوسوں اور عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ لاہور کو مارچ 2008ء میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جب ملک دشمنوں نے جی پی او چوک میں خود کش حملہ کرکے 24 افراد کو شہید کر ڈالا۔ 4 مارچ 2008ء کو نیول وار کالج پر حملے میں 8 افراد جاں بحق ہوئے اور اسی سال ایف آئی اے کی بلڈنگ اور حساس ادارے کی عمارت پر حملے خود کش حملوں میں 24 افراد ہلاک ہوئے۔ 2009ء میں بھی شہر لاہور دہشت گردوں کی زد میں رہا اور 3 مارچ 2009ء کو لبرٹی چوک میں سری لنکن کرکٹ ٹیم کو نشانہ بنایا گیا۔ 5 مارچ کو مناواں پولیس ٹریننگ سنٹر پر حملے کے بعد 16 افراد شہید ہوئے۔ 27 مارچ کو ملک دشمنوں نے ریسکیو 15 کی عمارت کو نشانہ بنایا۔ 12 جون کو گڑھی شاہو میں جامعہ نعمیہ پر خود کش حملہ ہوا جس میں ڈاکٹر سرفراز نعمیی سمیت 8 افراد لقمہ اجل بنے۔ 15 اکتوبر کو مناواں پولیس سکول، ایلیٹ ٹریننگ سنٹر بیدیاں اور ایف آئی اے کی عمارتوں کو بیک وقت دہشت گردوں نے نشانہ بنایا جس میں 18 افراد شہید ہوئے۔ 2009ء میں ہی مون مارکیٹ اقبال ٹاون میں 50 زندگیوں کے چراغ گل ہو گئے۔ 2010ء میں بھی لاہور میں دہشت گردی کے متعدد واقعات ہوئے۔ 8 مارچ کو ماڈل ٹائون میں حساس اداروں کو نشانہ بنایا گیا جس میں 17 ہلاکتیں ہوئیں۔ 12 مارچ کو آر آے بازار میں قیامت صغریٰ بپا ہوئی جس میں 64 افراد موت کے آغوش میں چلے گئے۔ یکم جولائی کو داتا دربار میں 55 افراد مارے گئے۔ یکم ستمبر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی یوم شہادت پر خود کش حملہ میں 35 افراد شہید ہوئے۔ 2011ء کی 25 جنوری کو چہلم امام حسین کے ماتمی جلوس کو نشانہ بنایا گیا جس میں متعدد افراد جان کی بازی ہار گئے۔ 2012ء میں لاہور ریلوے سٹیشن کے باہر دھماکا میں 5 افراد ہلاک جبکہ 2013ء میں پرانی انار کلی فوڈ سٹریٹ میں 5 شہری شہید ہوئے۔ 2 نومبر 2014ء کو واہگہ بارڈر پر حملہ میں 73 افراد جاں بحق جبکہ 17 فروری کو پولیس لائنز قلعہ گوجر سنگھ میں 7 افراد شہید ہوئے۔ یوحنا آباد کے نزدیک چرچ پر خودکش حملہ صرف مسیحی کمیونٹی نہیں بلکہ پورے پاکستان پر حملہ ہے جس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہےـ
Pakistan Terrorism
Pakistan Terrorism
قومی ایکشن پلان پر عمل در آمد سے وطن عزیز میں جاری دہشتگردی کی لہر میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے اور انشاء اللہ وہ دن اب زیادہ دور نہیں جب پیارا وطن پاکستان مکمل طور پر امن و سلامتی کا گہوارہ بن کر ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ دہشتگردی ،شدت پسندی کے مکمل خاتمے اور امن و سلامتی کے قیام کیلئے قوم حکومت اورپاک فوج کے شانہ بشانہ ہے اور وہ اپنی بہادرو غیور فوج کو سلام پیش کرتی ہے جو بیرونی دشمنوں کیساتھ ساتھ اندورونی ملک دشمن دہشتگردوں سے بھی نبردآزما ہیں۔ حکومت نے ایسے نازک حالات میں دہشتگردی کے خاتمے کیلئے جو اہم اقدامات اٹھائے ہیں اس پر پاکستانی قوم کی تمام ترہمدردیاں حکومت کے ساتھ ہیں اور حکمران کسی بھی خوف و خطر کو بالاطاق رکھتے ہوئے دہشتگردی کایکسر قلع قمع کریں یہی پوری قوم کی آواز اور مطالبہ ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میںفتح پاکستان کی ہو گی’ دہشت گرد انسانیت اور امن کے دشمن ہیں وہ معصوم لوگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر قوم کے حوصلے پست نہیں کر سکتے۔
تحریر: قرة العین ملک

Saturday 14 March 2015

جھوٹا علاج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوات ایس ایم این

www.swatsmn.com
کسی جنگل میں ایک بندریا رہا کرتی تھی۔ اس بندریا کا ایک بچہ بھی تھا۔ جس سے وہ بڑی محبت کیا کرتی تھی۔ یہ بچہ سارا سارا دن اپنی ماں کے کندھے پر چڑھا رہتا۔ کسی وقت وہ نیچے اترتا اور کچے پکے پیڑ اور برگدیاں کھا کر دو تین قلابازیاں لگاتا اور ادھر ادھر دوڑتا۔ کہیں کسی پھول کو مروڑتا۔ کسی پودے کو مسلتا اور پھر اپنی ماں سے چمٹ جانا۔
اس کی ماں بھی اپنے بچے کو اپنے سے الگ نہ کرتی تھی۔ اس لیے کہ وہ ابھی کمسن تھا اور جنگل کے راستوں سے بے خبر تھا۔ ایک دن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ بندریا اپنے بچے کو ساتھ لے ایک چشمے کے کنارے بے خبر سو رہی تھی کہ اچانک کسی نے انکے اوپر موٹا سا کمبل ڈال دیا۔
ماں اور بچہ گھبرائے۔ بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے مگر وہ دونوں اس کمبل میں اسطرح جکڑ دیے گئے تھے کہ ذرا بھی نہ ہل سکتے تھے۔ بندریا اور اسکے بچے کو پکڑنے والا آدمی دراصل کسی امیر آدمی کا ڈرائیور تھا۔ جس نے جب بندریا اور اسکے بچے کو سوتے ہوئے دیکھا تو ان پر کمبل ڈال کر ان کو پکڑ لیا۔
ڈرائیور نے انہیں ایک بوری میں ڈال کر اوپر سے منہ کو ذرا ڈھیلا کر کے باندھا اور موٹر میں پھینک کر گھر کی راہ لی۔ کئی میل کا سفر طے کرنے کیبعد موٹر ایک خوبصورت مکان میںداخل ہوئی۔ ڈرائیور نے کار کا دروازہ کھولا ایک موٹا سا آدمی باہر نکلا۔ ڈرائیور نے بندریا اور اسکے بچے کو باہر نکال کر انکے پاؤں باندھ دیے۔ اب مکان کے برآمدے میں گھر کی مالکن اور نوکرانی بھی کھڑی بندریا کے بچے کو خوشی سے دیکھ رہی تھیں۔
” اچھا کیا آپ انہیں لے آئے، اب ہمارا لال بالکل اچھا ہو جائیگا۔ ”
بات دراصل یہ تھی کہ اس امیر آدمی کا اکلوتا بچہ بیمار تھا اور بے حد دبلا پتلا ہو رہا تھا۔ کسی نیم حکیم نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ اگر وہ گھر میں کسی بندریا کے بچے کو لاکر رکھ لیں تو انکا بچہ بڑی جلدی اچھا ہو جائیگا کیونکہ جہاں بندریا کا بچہ ہو گا وہاں کی ہوا بچے کیلئے بڑی فائدہ مند ہو گی۔

moneky
moneky
اب جناب بندریا اور اسکے بچے کو برآمدے میں ستون کیساتھ باندھ دیا گیا اور پاس ہی ذرا فاصلے پر بیمار بچے کا پنگھوڑا لٹکا دیا گیا۔ بندریا کا بچہ چونکہ بے زبان تھا۔ اس لیے چپکا اپنی امی کے پاس بیٹھا رہتا لیکن بندریا نے گھر والوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا کیونکہ اسکا دل بڑا گھبراتا تھا اور پھر وہ جنگل میں بچے کو لے جانا چاہتی تھی۔
جب گھر والوں نے یہ حالت دیکھی تو انہوں نے بندریا کو موٹر میں ڈالا اور جنگل میں جا کر چھوڑ آئے۔ اب بچہ اپنی ماں کے بغیر اداس رہنے لگا۔ پہلے تو وہ خوشی خوشی اپنے ماں کیساتھ ملکر کھانا کھایا کرتا تھا لیکن اب اس نے کھانا پینا بھی بند کر دیا اور بھوک ہڑتال کر دی مگر اسے یہ بھوک ہڑتال مہنگی پڑی۔ دوسرے ہی دن اسکا دل گھٹنے لگا۔ بے چارے نے فوراً ہی چنے کی تھالی اپنی طرف کھینچ لی اور چنے کھانے لگا۔
اب بندریا کا حال سیئے وہ بیچاری اپنے بچے کے بغیر اداس ہوئی تو واپس اپنے گھر کو چل پڑی جہاں اس کا بچہ قید تھا۔ راستہ تو اسے معلوم ہی تھا۔ ایک دو روز میں پہنچ گئی۔ بھاگ کر بچے کو گلے لگایا۔ بچہ بھی اپنے ماں کو پاس دیکھ کر بہت خوش ہوا اور فوراً اسکے کندھے پر چڑھ کر کودنے لگا۔ اسوقت وہاں کوئی موجود نہ تھا۔
بندریا نے موقع غنیمت جانا اور بچے کو لیکر باہر چل پڑی۔ ابھی چند ہی قدم چلی ہو گی کہ بچہ کندھے سے نیچے گر پڑا۔ پھر سے اٹھایا اور پھر چل پڑی۔ بچہ پھر گر پڑا۔ بیچاری کو اب معلوم ہوا کہ بچہ تو ستون کیساتھ زنجیر سے باندھا ہوا ہے۔ بے بسی کے عالم میں وہیں بیٹھ گئی اور بچے کو سینے سے لگا کر پیار کرنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد جب گھر کے لوگوں کو بندریا کا علم ہوا تو سب بڑے حیران ہوئے مگر انہوں نے اسے کچھ نہ کہا۔ لیکن بندریا نے پھر اب گھر میں پھر چیزوں کی توڑ پھوڑ شروع کر دی۔
جب اسے رسی سے باندھا جانے لگا تو رسی تڑوا کر بھاگ کھڑی ہوئی۔ اس نے سامنے سڑک پار والے باغ کے ایک درخت کو اپنا گھر بنا لیا۔ اب وہ ہر روز دن میں دو یا تین بار اپنے بچے کے پاس آتی اور اسے پیار کرتی اور گھر سے ایک آدھ چیز توڑ پھوڑ کر واپس درخت کیطرف بھاگ جاتی۔
monky at tree
monky at tree
اسی طرح دو مہینے گزر گئے اور سردیوں کا موسم آ گیا۔ بندریا کو سردی لگنے لگی۔ جنگل میں ہوتی تو کسی غار یا کھوہ میں چھپ جاتی۔ شہر میں کہاں جائے۔ اسکے بچے کو اب برآمدے میں سے کھول کر اندر ایک کمرے میں باندھ دیا گیا تھا وہ تو سردی سے بچ گیا تھا۔
مگر ماں کی محبت بچے کو دور رکھنا نہ چاہتی تھی۔ آخر ایک دن اس سے نہ رہا گیا۔ دھوپ نکلی ہوئی تھی اور اسکا بچہ باہر باغ میں باندھا ہوا تھا۔ امیر آدمی کا بیمار بچہ پاس ہی پنگوڑے میں لیٹا ہوا تھا۔ نوکرانی آرام سے کرسی پر بیٹھی اونگھ رہی تھی۔
بندریا آہستہ آہستہ پہلے اپنے بچے کے پاس گئی، اسے پیار کیا۔ اسکی زنجیر کو دیکھا اور لپک کر بیمار بچے کے پنگھوڑے میں کودی اور ایک ہاتھ سے بچے کو جو کمزور ہو گیا تھا گلے سے لگایا اور ایک درخت پر چڑھ گئی۔ نوکرانی ایک دم چونک کر اٹھی اور اس نے شور مچا دیا۔ سارا گھر ایک دم جمع ہو گیا۔
کسی نے کہا۔” بندریا کو گولی مار کر گرا دو۔”
پھر سوچا کہیں انکا بچہ زخمی نہ ہو جائے۔ بچے کی ماں رو رہی تھی۔ باپ الگ پریشان تھا۔ بہن بھائی فکر مند تھے۔ بندریا کو بہتیرا بہلایا پھسلایا پر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی اور بیمار بچے کو لیکر درخت پر بیٹھی رہی۔ آخر بچے کے والد کو ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے فوراً بندریا کے بچے کی زنجیر کھول دی۔ بچہ آزاد ہو کر درخت کے نیچے آ گیا۔

ادھر سے بندریا نے اپنے بچے کو اور بچہ نے بندریا کو دیکھا، بندریا نے درخت سے اترنا شروع کر دیا۔ گھر کے سارے لوگ پرے پرے ہٹ گئے۔ نیچے آ کر بندریا نے انسانی بچے کو گھاس پر لٹا دیا۔
اپنے بچے کو پیار سے گلے لگا کر چوما، اسے کندھے پر بٹھایا اور سڑک پار والے باغ کے درخت کیطرف بھاگ گئی۔ گھر والوں کی جان میں جان آئی۔ ماں اور باپ بھاگ کر بچے کو گلے لگا کر پیار کیا اور خدا کا لاکھ شکر ادا کیا کہ بچے کی جان بچی اورہ وہ انہیں پھر مل گیا۔ اسکیبعد وہ بچہ آہستہ آہستہ صحتمند ہونا شروع ہو گیا۔
شاید وہ بندریا کے بچے کیوجہ سے اچھا نہ ہوا تھا بلکہ انکی دعاؤں کیوجہ سے اچھا ہوا تھا جو بندریا کے دل سے نکلی تھی ” کیونکہ اسکا بچہ اسکو مل گیا تھا اور ماں کی مامتا کا کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا تھا۔
تحریر: اے حمید

مفاد اپنا اپنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوات ایس ایم این

www.swatsmn.com
علامہ مشرقی ایک نابغہ شخصیت تھے۔ فرماتے ہیں ” ہم مسلمان مدت تک یہ سمجھتے رہے کہ مولوی ہمیں ٹھیک بتاتا ہے، فرق ہے تو ہم میں ہے ہمارے عمل کرنے میں کسر رہ گئی ہے” اس غفلت میں کئی قرن گزر گئے لیکن حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ مولوی اور مرشد ہمارا اندھا اعتماد تھا جس نے ہمیں تباہ و برباد کیا۔ ہم کہیں کے بھی نہ رہے۔
بات ایسی نہیں ہے معاملہ مفاد کا ہے، مفادات کا ٹکراؤ جہاں کہیں ہو گا، وہاں ایسا ہی ہو گا جو ہمارے ساتھ ہوا اور ہو رہا ہے۔ یہ انسانی کمزوریاں ہیں جو سب انسانوں میں یکساں ہوتی ہیں۔ مولوی کسی دوسرے سیارے کی مخلوق نہیں ہمارا ہی بھائی ہے جو کمزوریاں ہمارے ساتھ لگی ہوئی ہیں وہ اسکے ساتھ بھی لگی ہوئی ہیں بلکہ زیادہ لگی ہیں۔ جو خوبیاں ہم میں ہیں وہ اس میں بھی پائی جاتی ہیں۔ بہتر ہو گا اگر یہی بات میں تمثیل میں پیش کروں۔
donkey in jungle
donkey in jungle
کہتے ہیں کہ ایک تاریک رات میں ایک گھنے جنگل میں برگد کے درخت کے نیچے ایک گدھا ہچکیاں لے کر رو رہا تھا، ساتھ ساتھ کہہ رہا تھا رات ہو گئی، اب میں کسطرح گھر پہنچوں گا؟ ہائے میں نے کیوں دھیان نہیں دیا اب کیا ہو گا؟
الو جسے اندھیرے میں اللہ نے دیکھنے کی طاقت سے نوازا ہے البتہ روشنی میں بینائی کام نہیں کرتی، وہ اوپر درخت پر بیٹھا تھا اس سے گدھے کا رونا دیکھا نہ گیا۔
وہ اترا اور گدھے سے کہا گدھے بھائی روؤ نہیں میں دل کا بڑا کمزور ہوں اور تمہاری آواز میں بڑا درد ہے۔ میں رات کو بھی دیکھنے کی طاقت رکھتا ہوں تم مجھے اپنا پتہ بتاؤ میں تمہیں تمہارے ٹھکانے پر پہنچا دونگا۔ گدھا بڑا خوش ہوا۔
کہا” الو بھائی! بڑی مہربانی ہو گی، میں نیلم پہاڑ کے قریب وادی انجیر میں رہتا ہوں وہیں میرے بھائی بند ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الو نے کہا میں تمہاری پیٹھ پر بیٹھ کر تمہاری رہنمائی کرونگا جسطرح پاکستانی لیڈر عوام کی پیٹھ پر بیٹھ کر رہنمائی کرتے ہیں۔
دراصل رہنمائی کیلئے اس سے بہتر مقام اور کوئی نہیں ہے، بس جس طرف میں کہوں مڑ جاؤ، مڑ جایا کرو بہت جلد میں تمہیں تمہاری منزل تک پہنچا دونگا۔ گدھے نے کہا ٹھیک ہے مجھے پاکستانی عوام سمجھ کر میری پیٹھ پر بیٹھ جاؤ میں ادھر ہی مڑ جاؤنگا جدھر آپ کہیں گے۔
وادی انجیر کی سفر شروع ہو گیا مگر راستہ طویل تھا بہرحال الو بتاتا رہا کہ دائیں کو چلو اب ذرا بائیں کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ٹھیک ہے چلتے رہو مگر یہاں ایک پرابلم درپیش ہوئی۔
الو نے دیکھا کہ صبح صادق نمودار ہوئی، الو نے محسوس کیا کہ اگر میں اسی طرح چلتا رہا تو کچھ دیر میں چمکدار سورج نمودار ہو گا اور میں کہیں کا نہ رہوں گا پھر میری رہنمائی کون کریگا؟ کہیں یہ ثواب میرے لیے عذاب نہ بن جائے؟
بہتر ہو گا کہ اس ثواب سے جان چھڑائی جائے، گدھے کو عدم آباد کی سیر کرائی جائے یعنی جان چھڑا لی جائے، ابھی وقت ہے کہ میں اڑتے ہوئے اپنے ٹھکانے ( برگد کے درخت ) واپس پہنچ جاؤں۔
owl and donkey
owl and donkey
الو نے دیکھا کہ دائیں طرف ایک گہرا غار تھا۔ اس نے گدھے سے کہا کہ ” گدھے بھائی! ذرا ایک قدم دائیں کو لے لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں اسی طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاباش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اس طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب گدھا ہوا میں معلق ہوا ٹانگیں ہلاتا زمین کیطرف جانے لگا تو رہنما یعنی الو اسکی پیٹھ سے اڑتا ہوا اپنے مسکن کیطرف پرواز کرنے لگا۔ یعنی الو نے گدھے کیساتھ وہی کام کیا جو ہمارے رہنما کرتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نیک دل الو نے گدھے کی رہنمائی غار کی طرف کیوں کی اسے منزل مقصود تک کیوں نہیں پہنچایا؟ جواب یہ ہے کہ اپنے مفادات کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔
مولوی بھی اسوقت تک آپکے کام آتا ہے جبتک اسکے مفادات کو خطرہ نہ ہو۔ تو جنگ ہے مفادات کی اصولوں کی نہیں۔
تحریر: حسین امیر فرہاد

حصول علم اور دھوکہ بازی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوات ایس ایم این

www.swatsmn.com

علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ ” علم لازوال دولت ہے” مگر علم حاصل کرنے کیلئے دولت کہاں سے لائیں۔ ابن انشاء کو اللہ بخشے ” کیا باغ و بہار آدمی تھے” جن دنوں لاہور میں غیرت پر فلمیں بن رہی تھیں۔ غیرت میرے ویر دی، غیرت پنچ دریاواں دی، غیرت ہی غیرت، غیر شان جواناں دی، غیرتاں دا راکھا وغیرہ وغیرہ، تو انشاء جی نے کہا تھا ایک تو یہ فلم والے اس چیز کا ذکر بہت کرتے ہیں جو انکے پاس ہوتی ہی نہیں۔ یہی حال وطن عزیز کا ہے یہاں ریڈیو آن کریں یا ٹیلی ویژن ، تعلیم کا چرچا بہت ہوتا ہے جو یہاں سرے سے ہے ہی نہیں۔
مکر و فریب، دھوکہ، جل، دغا بازی، چالبازی، دورنگی، عیاری یہ کچھ ہماری پہچان بن گئی ہے۔ چاروں صوبوں کے درمیان اگر وحدت کی کوئی نشانی ہے تو وہ یہی دھوکہ بازی ہے بلکہ مقابلہ ہے ایکدوسرے سے آگے نکلنے کا۔
خاص کر تعلیم کے محاذ پر وہ لوٹ مار، غارتگری، چھینا جھپٹی، غصب و نہب ہو رہی ہے کہ رہے نام اللہ کا۔
تعلیمی معیار کی بہتری کیلئے جو لوگ کچھ کر سکتے ہیں وہ اسطرف توجہ نہیں دیتے انکے بنک اکاؤنٹ اور جائیدادیں بھی وطن سے باہر ہیں۔ انکی اولاد بھی باہر تعلیم حاصل کرتی ہے۔
وہ یہاں صرف اسلیے موجود ہیں کہ سفینہ پاکستان کے پیندے میں سوراخ کرتے رہے اور اللہ نہ کرے جب اسکے ڈوبنے کا یقین ہو جائے تو خود بھی اپنے بچوں کے پاس یعنی ملک سے باہر پہنچ جائیں۔ جن کی اولاد وہاں پڑھ لکھ کر معاشرہ میں اعلیٰ مقام حاصل کر لیتی ہے انہیں تعلیم سے کیا لینا ہے۔ جس کنوئیں کا پانی استعمال نہیں کرنا ہے اسکی صفائی پر کیوں توجہ دی جائے۔
یہی کچھ جب ملکی سیاست میں ہوتا ہے، اسمبلیاں اضحوکہ بن جاتی ہیں تو ملٹری آ جاتی ہے اور بے قابو حالات پر قابو پا لیتی ہے۔ دراصل ہمارے ہاں ملٹری کی مثال ریفری یا ایمپائر جیسی ہوتی ہے جو فریقین کے درمیان بگڑی کو بناتا ہے لیکن ریفری یہ نہیں کرتا کہ بال کو کسی گول میں دھکیل کر خود بھی فریق بن جائے۔
ہمارے ہاں ایسا ہی ہوا، بجائے اسکے کہ ملٹری تعلیم کے بگڑے نظام کو درست کرتی، تعلیم کے نام پر جو لوٹ کھسوٹ ہو رہی ہے اسکا علاج کرتی۔ ملٹری خود فریق بن گئی یعنی انہوں نے بھی لاتعداد اسکول کھول لیے۔
کراچی میں مسیحیوں نے اپنے ولیوں کے نام پر اسکول کھولے تھے۔ سینٹ پیٹرک، سینٹ جوزف، سینٹ پال، سینٹ فرانسیس، اور سینٹ لوئس وغیرہ۔ چونکہ انکا رابطہ مغربی ممالک سے تھے اور مغربی ممالک ان اسکولوں کی اسناد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔
کیونکہ اولیاء مشترک ہیں اسلیے اب مسلمانوں نے بھی یہ نام استعمال کرنے شروع کر دیے ہیں۔ آکسفورڈ اور کیمبرج کو چھوڑ کر اب انگلستان کے دیہاتوں کے نام پر بھی یہاں اسکول کھل گئے۔
ایسا کرنے والے اہل وطن کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ انگریزوں کی زندگی قابل رشک اور قابل تقلید ہے تمام دنیا ہر شعبہ میں انکی محتاج ہے۔ ہم آپکے بچوں کو بھی ان جیسا بنا دینگے۔ اپنے بچے ہمارے داخل کرائیے۔
دوسرا گروہ یہ ترغیب دینے میں لگا ہوا ہے کہ یہ لادینی اسکول ہیں ان میں پڑھنے والوں کی صرف یہ دنیا خوبصورت ہو گی، ہمارے ہاں بچوں کو داخل کرائیے تو انکی آخرت بھی خوبصورت ہو گی۔
ان اسکولوں کے نام کچھ اسطرح ہیں، اقراء روضہ الاطفال، اقرا خزینہ الاطفال، اقراء سفینہ الاطفال، اقراء پسینہ الاطفال، مکہ مدینہ ایجوکیشنل اکیڈمی، فاطمہ بتول اکیڈمی، یثرب اکیڈمی، ام القری اسکول، اقراء روح الاطفال، اور اقراء میلینیم مانٹیسوری اکیڈمی وغیرہ وغیرہ۔
iqra school
iqra school
اقراء کے نام کے سینکڑوں اسکول کراچی میں ہیں۔ دیکھا جائے تو اقراء بالکل نامناسب نام ہے۔ اقراء فعل امر ہے حکم ہے یعنی ” پڑھ” اسطرح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اقراء روضہ الاطفال کے معنی ہوئے ” پڑھ بچوں کی نرسری” یعنی Read Children Nursery بھلا یہ کوئی بات ہوئی۔
اگر ہوتا پڑھ بچوں کی نرسری میں تو بات بنتی۔ میں نے ایک اقراء والے سے کہا ” یہ نام بدل لیجیے اگر عربی سے ناطہ جوڑنا ہی ہے تو یوں لکھیے۔ ” روضہ الاطفال للقراء والکتابہ ” بچوں کی نرسری برائے پڑھائی اور لکھائی”
پرنسپل صاحب نے تعجب سے میری طرف دیکھ کر کہا یہ نام تو مدظلہ العالی فلاں جنت مکانی صاحب نے تجویز کیا ہے، یہ کیسے غلط ہو سکتا ہے؟
یہی بات ایجوکیشن ڈائریکٹر صوبہ سرحد نے بھی مجھے کہی تھی۔ میں انکے پاس میٹرک کی عربی کتاب لے کر گیا تھا۔ میں نے کہا مجھے عربی استاد رکھ لیجیے کیونکہ میں دیکھ کر آیا ہوں آپ کے اساتذہ یہ کتاب پڑھانے کی اہلیت نہیں رکھتے اور اس کتاب میں بھی غلطیاں ہیں۔
کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ یہ کتاب پاکستان اور سعودی عریبیہ کے بہترین دماغوں کی ترتیب دی ہوئی ہے۔ میں نے کہا غلطی وہ جسے آپ تسلیم کریں نہ کہ جو میں کہوں۔
یہ دیکھیے لکھا ہے۔ ” ( عاصمات) ” عاصمة الباکستان اسلام آباد”ترجمہ لکھا ہے پاکستان کا دارالخلافہ اسلام آباد ہے۔ یہ غلط ہے چونکہ پاکستان میں نہ خلافت، نہ خلیفہ ہے، نہ خلیفہ کا دار ( گھر ) ہے۔

کہا آپکا مطلب ہے دارالسلطنت ہونا چاہیے؟ میں نے کہا ” نہیں دارالسلطنت تب ہوتا اگر پاکستان میں سلطان ہوتا۔ ” اسلام آباد کو دارالحکومت، مرکزی مقام صدر مقام وغیرہ کہہ سکتے ہیں مگر دارالخلافہ یا دارلسلطنت یا پایہ تخت وغیرہ نہیں کہہ سکتے۔
اقراء سکول کی دیکھا دیکھی اقراء لانڈری اور اقراء شوز( حیدری نارتھ ناظم آباد میں ) اور جانے کیا کیا بازار میں آ گیا ہے۔ لوگوں نے نعوذ باللہ اللہ تک کو نہیں چھوڑا، اقراء کیا چیز ہے؟
ماشاء اللہ ٹیلر، اللہ ہو آٹو ایکسچینچ، القیوم آٹو، سبحان اللہ چکن بھی دیکھے ہیں۔ اللہ کا پان سے کیا تعلق ہے۔ کاسمیٹکس سے کیا واسطہ ہے؟ اور لانڈری سے کیا لگاؤ ہے؟ اللہ کو ان چیزوں سے ملانا اللہ کی توہین نہیں ہے؟
ان مسلمانوں سے وہ سکھ زیادہ ہوشیار اور دانا تھا جو گندگی میں روپیہ تلاش کر رہا تھا اور کہتا جا رہا تھا اللہ روپیہ دے دے، یا اللہ روپیہ دیدے۔ ایدوسرے سکھ نے جب اسے دیکھا تو کہا ” مورکھ مسلمانوں کے خدا کا نام کیوں لے رہا ہے گرو کا نام کیوں نہیں لیتا؟
تو کہا ” یار بلونت، اچھا نہیں لگتا اس گندگی میں اپنے گرو کو گھسیٹوں، تھکنے دے مسلمانوں کے خدا کو تیرا کیا جاتا ہے اور میرا کیا جاتا ہے۔

ایک یہ لوگ ہیں جو اللہ کو پان، کاسمیٹکس اور لانڈری تک میں لا رہے ہیں۔ اسکے علاوہ ان حضرات کا اور کیا مقصد ہو سکتا ہے کہ اللہ کے بندوں کو اس بالا و برتر نام سے دھوکہ دیا جائے۔ کانٹے میں وہ چارہ لگایا جائے جس سے مچھلی پھنس جائے۔
اس بلے کیطرح جس نے زمین پر پانی کے قریب دام ہم رنگ بچھایا تھا۔ کچھ دانے بکھیرے تھے ایک پرندے نے اڑتے ہوئے پوچھا کیا کر رہے ہو یہاں آبادی سے دور؟ کہا” تپسیا کر رہا ہوں اللہ کی مخلوقات کی خدمت کر رہا ہوں، آؤ کچھ دانے چگ لو۔ پانی پی لو، پھر چلے جانا، مجھے ثواب ملیگا۔
پرندے نے دانے تو دیکھے تھے مگر جال نہیں دیکھا تھا آیا اور جال میں پھنس گیا۔ بلے سے کہا ” ظالم اللہ کے نام سے دھوکہ دیا۔”
جو لوگ اللہ اور مکہ مدینہ اقراء اور ام القریٰ وغیرہ نام رکھتے ہیں۔ وہ غالبا قرآن کے مطابق
” یہ اپنے تئیں اللہ کو اور مومنوں کو دھوکہ دیتے ہیں مگر حقیقت میں اپنے آپکو دھوکہ دیتے ہیں، مگر شعور نہیں رکھتے۔”( البقرہ آیت نمبر 9)

مادام مونٹیسوری کے نام کی جو مٹی پاکستان میں پلید ہوئی ہے ایسی کہیں بھی نہ ہوئی ہو گی کچھ ایسے اسکول بھی ہیں جو یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہم بچوں کی آخرت کیساتھ ساتھ انکی یہ دنیا بھی سدھارنے کی ضمانت دیتے ہیں۔
فالکن اسکول، قلندریہ مانٹیسوری، اقراء مدینہ اسلام وغیرہ۔ قلندریہ نام رکھنے والوں نے قلندر کیساتھ مادام مانٹیسوری کو بھی ہم آغوش کر دیا ہے۔ یعنی ” رند کے رند ہاتھ سے جنت نہ گئی ”۔
جس اسکول میں بچے داخل کرانا چاہو ایک خطیر رقم داخلہ فیس کے نام سے لے لیں گے۔ اگر یہی رسم یوٹیلٹی اسٹورز، مختلف اداروں، ڈاکخانوں وغیرہ میں چل پڑی کہ پہلے داخلہ فیس بھرو پھر خریدی ہوئی اشیاء کی قیمت ادا کرو تو عوام چلا اٹھیں گے کہ یہ حرام کفر ہے دھاندلی ہے، ظلم ہے، اندھیر ہے وغیرہ وغیرہ۔
حقیقتا یہ ناجائز ہے۔ پیسہ لینے کے بدلے کچھ دیا جاتا ہے، ماہانہ پڑھائی کا تو معاوضہ لیا جاتا ہے، داخلہ فیس کے عوض کیا ملتا ہے؟ اگر یہ سب، دین سے ناواقف حضرات کرتے تو بات سمجھ میں آنیوالی تھی مگر تعجب یہ کہ دین کی دعویدار جماعتیں اس معاملے میں سب سے دو قدم آگے ہیں۔
doctor
doctor
جو ڈاکٹر اپنے مریض کو یہ لکھ کر تاکید کرتا ہے کہ دوا صرف فلاں کیمسٹ سے لینا، ایکسرے اور ٹیسٹ فلاں لیبارٹری سے کروانا اسکی بے ایمانی میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہوتی۔
اور کسی اسکول یا درسگاہ کی ایمانداری اور دیانتداری پرکھنے کی بڑی آسان ترکیب یہ ہے کہ جن کی کتابیں، کاپیاں، یونیفارم وغیرہ باہر سے سستی لینے کی اجازت نہ ہو، کاپی تو کاپی ہوتی ہے مگر یہ بچوں کے پاس ایسی کوئی کاپی نہیں رہنے دیتے جس پر انکے اسکول کا مونو گرام نہ ہو۔
اور یہ تمام اشیاء بازار سے مہنگے داموں صرف انہیں کے ہاں سے ملے تو سمجھ لیجیے کہ یہ اسکول نہیں بلکہ چند مفاد پرستوں نے عوام کو لوٹنے کیلئے دام فریب پھیلایا ہے اور یہ دام فریب آجکل ہر پانچویں گھر میں پھیلایا گیا ہے۔
جس گھر میں ایک میاں بیوی ہو، دو بہویں اور ایک دو بیٹیاں ہوں اسکول کھل جاتا ہے۔ شہر ناپرسان ہے کون پوچھتا ہے؟ اور اگر کوئی پوچھنے آیا بھی تو کیا اسکی قیمیض میں جیب نہیں ہو گی چیکنگ والے غلط یا غیر قانونی والے کاروبار کی بو سونگھ کر آ جاتے ہیں مگر اس لیے نہیں کہ اس کاروبار کو بند کر دیں، نہیں وہ اس لیے آ جاتے ہیں کہ تم جو لوٹ کھسوٹ کر رہے ہو اس میں ہمارا حصہ کہاں ہے؟
سنا یہی ہے کہ اس میں تمام اوپر والے بھی شریک ہوتے ہیں ماسوائے اللہ کے، یہ اسکول نہیں بلکہ یہاں سیاست میں حصہ لینا اور اسکول کھولنا ایک کاروبار ہے۔ کمائی کا ذریعہ ہے انہیں کیا پتہ کہ اسکول کیا ہوتے ہیں؟ تعلیم کسے کہتے ہیں؟
ترقی یافتہ قوموں کی صفوں میں کھڑا ہونے کیلئے ہمیں سائنسی تعلیم کی اشد ضرورت ہے لیکن جب کیفیت ایسی ہو تو کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔ یوں لگتا ہے شاہراہ ریشم کے راستے ہمارے بچوں کو تعلیم کے حصول کیلئے چین جانا پڑیگا۔
کالج کا معاملہ یوں ہے کہ دو پارٹیوں کا قبضہ ہے۔ نیا لڑکا جاتا ہے تو اسے کسی ایک پارٹی میں شمولیت اختیار کرنی پڑتی ہے۔ گویا غنڈہ گردی میں نام لکھوانا پڑتا ہے۔ ہفتے میں دو دن ایک بچے کو کالج جانا پڑتا ہے۔ گھوم پر کر بچے واپس آ جاتے ہیں کیونکہ انہیں ٹیوشن پڑھنے جانا ہوتا ہے۔
پڑھائی باہر ہوتی ہے کالج میں داخلہ سند کیلئے لیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی میں سیٹ کیلئے دو سے چار لاکھ روپے تک طلب کیے جاتے ہیں۔ نام رکھا جاتا ہے ڈونیشن حالانکہ ڈونیشن برضا و رغبت جس کی طاقت ہو دیتے ہیں مگر یہاں زبردستی طلب کی جاتی ہے ورنہ داخلہ ناممکن ہوتا ہے۔
دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں کے بچے خالی ہاتھ اسکول بس میں سوار ہوتے ہیں اور خالی ہاتھ واپس آتے ہیں۔ کتابیں ہر بچے کے ڈیسک میں ہوتی ہیں وہاں کے بچے ہی ڈاکٹر اور انجینئر بنتے ہیں۔ میرا بچہ عربی میں دقت محسوس کرتا تھا۔ میں نے کہا بیٹا کتابیں واپس لیا کرو تاکہ میں تمہاری مددکیا کروں۔
کہنے لگا ابا کتابیں دیتے ہیں۔ میں نے کہا فکر نہ کرو کل میں تمہارے اسکول آؤں گا، کیسے نہیں دیتے؟ کمال یہ ہے کہ درسی کتاب بازار میں نہیں ملتیں صرف اسکول میں ہر بچے کو مفت ملتی ہیں۔
دوسرے دن میں باوردی پستول وغیرہ لٹکا کر اسکول گیا۔ یہ اچھا تھا کہ چائے کا وقفہ تھا۔ تمام اساتذہ ایکساتھ بیٹھے تھے۔ ان میں کچھ میرے واقف بھی تھے۔ کہا فرمائیے کیسے آنا ہوا؟ میں نے مدعا بیان کیا کہ
” آپ لوگ میرے بچے کو کتابیں دیا کریں” کہا ‘ لماذا ‘ کس لیے؟ میں نے کہا تاکہ میں عربی میں مدد کیا کروں۔ وہ ہنسنے لگے۔ میں نے کہا ‘ ھل حکیت نکت؟ کیا میں نے کوئی لطیفہ بیان کیاہے۔ جو آپ لوگ ہنس رہے ہیں؟ کہا لطیفہ سے کم بھی نہیں کبھی ہم بھی آپکے پاس آئے کہ کہ مجرم پکڑنے میں ہماری خدمات لیا کریں؟

” وانت کیف تدخل فی شوؤننا؟ آپ کیسے واجبات میں گھس رہے ہیں؟ ہم چاہتے ہیں کہ مستقبل میں تلمیذ لائق بنے تو اسکا سہرا ہمارے سر ہو۔ اگر نالائق بنے تو اسکے لیے بھی ذمہ دار ہم ہی ہوں۔ ہم انہیں چھٹی دیکر گھر بھیجتے ہیں اسلیے کہ یہ کھائیں پئیں لکھیں آرام کریں دوسرے دن تازہ دم ہو کر پڑھنے آئیں نہ کہ گھر جا کر بھی وہی کچھ کریں جو کچھ اسکول کی چار دیواری میں کرتے ہیں۔
اگر ایک محاسب Accountant گھر جا کر بھی حساب کتاب میں جا کر لگا رہے، یا ایک نجار( بڑھئی ) گھر جا کر بھی آرے رندہ چلاتا رہے تو اس کی کیا حالت ہو گی، وہ کتنے دن جائیگا؟ وہ تو ( کوسا) کدو بن جائیگا۔
میں نے سوچا واقعی یہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ ہم جو ترقی نہیں کر پا رہے ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہر دفتر اور ادارے میں کدو ہی کدو بیٹھے ہیں۔ ہمارے ہاں تعلیم کا سلسلہ ٹیوشن پر چل رہا ہے اور بڑے بھونڈے انداز میں چل رہا ہے۔ دو محاذ ایسے ہیں یعنی تعلیم اور صھت جس میں پاکستانی قوم کیساتھ ابتدا سے لیکر آج تک دھوکہ ہو رہا ہے۔ وہاں گاؤں کا بچہ شہر پڑھنے نہیں جاتا کیونکہ شہر اور دیہاتی اسکول کا معیار یکساں ہوتا ہے البتہ کالج اور یونیورسٹی کیلئے شہر جانا پڑتا ہے وہاں ابتدائی تعلیم کیلئے بہترین اساتذہ کا انتظام ہوتا ہے کیونکہ بچے کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
یہاں ابتدائی کلاسوں کیلئے وہ استاد ہوتے ہیں جو ملٹری اور پولیس میں بھرتی کے قابل نہیں ہوتے اور بھی کوئی ڈھنگ کی نوکری نہیں ملتی تو محکمہ تعلیم میں آ جاتے ہیں۔ لہٰذا نہ ہماری چکی درست ہے نہ ہمارے دانے صحیح ہیں۔
خیر یہ بھاری بھرکم بستے لانے لیجانے کا ایک افادی پہلو بھی ہے وہ یہ کہ تعلیم کے ذریعے معاشرے میں جائز مقام یا کوئی روزگار تو ملنے سے رہا، البتہ اسٹیشن پر قلی کا کام آسانی سے مل جاتا ہے۔ بوجھ اٹھانے کی پریکٹس تو بچپنے سے ہی ہوئی ہوتی ہے۔
medical store
medical store
میں نے کیمسٹ کی ایک ایسی دکان دیکھی جس پر ہمیشہ چھٹی ساتویں کلاس کا ایک لڑکا بیٹھا رہتا ہے۔ میں نے پوچھا کیا یہاں کوئی چیکنگ کیلئے نہیں آتا؟ کیونکہ تمہارے پاس تو لائسنس نہیں ہوگا کیونکہ تم ابھی بچے ہو، کہا لائسنس تو ابا جان کے پاس بھی نہیں، وہ دوسری دکان پر بیٹھتے ہیں۔ مگر یہاں ایک آفیسر آتا ہے، موٹر سائیکل روک کر وہ مجھے بلاتا ہے میں اسے لفافہ دیدیتا ہوں۔ وہ چلا جاتا ہے۔
کام چل رہا ہے۔ اسکے ساتھ بیٹھے ہوئے بزرگ نے انگلی کا اشارہ آسمان کی طرف کیا، کہا:
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات ابتک بنی ہوئی ہے

مجھ سے کہا آپ شاید کراچی میں نئے وارد ہوئے ہیں اسلیے آپکو تعجب ہو رہا ہے۔ دراصل قانون نام کی کوئی چیز یہاں ہے ہی نہیں اگر ہے بھی تو شرفاء کو سیدھا کرنے کیلیے ہے۔ محض دکھاوا ہے جسطرح رکشہ ٹیکسی کا میٹر جو ہونے کو ہے مگر اس پر کوئی رکشہ یا ٹیکسی نہیں چلتی۔
جبکہ یہاں پولیس کا محکمہ بھی ہے اور ٹیفک ڈیپارٹمنٹ بھی میرا خیال ہے اہل وطن نے آزادی کا یہی مطلب لیا ہے کہ ہر چور رشوت خور، دغا باز، اسمگلر، ذخیرہ اندوز ملاوٹیے، گراں فرش اور لٹیروں کو ہر طرح کی مکمل آزادی حاصل ہو۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہر بدعنوانی میں اوپر والے بھی شریک ہوتے ہیں۔ اوپر والا تو رب ہے، یا اللہ یہ آپکو بدنام کر رہے ہیں۔ انکا کام تمام کر دے، پاکستان کو انکے وجود سے پاک کر دے، صحیح معنوں میں پاک، مظفر آباد، بالا کوٹ کیطرح پاک، آمین۔
تحریر: حسین امیر فرہاد

MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan EXTED.pk

Admission open  MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan   http://facebook.com/ exted.p k http://www.exted.pk/ Lowest Fee ,   No IELTS...