Sunday 30 August 2015

.......بس تهوڑا سا احساس.........

www.swatsmn.com
.......بس تهوڑا سا احساس.........

پچھلے دونوں اسلام آباد کے پوش علاقے میں ایک دوست کے ساتھ ایک کیفے جانے کا اتفاق هوا..کچھ کهانے کا موڈ نہیں تها تو بس دو فریش لائم منگوا لیے......اس کیفے میں جوسز کے لیے ایک بار ٹیبل بنا هوا تها....دوست سے گفتگو کرتے هوئے میری نظر بار ٹیبل پر پڑی تو وهاں کهڑے لڑکے نے سیون اپ کے دو کین کهولے اور گلاسوں انڈیل دیئے..پهر ایک لیموں کو چار ٹکڑوں میں کاٹا....اس کا ایک ایک ٹکڑا گلاس میں نچوڑا اور ایک ایک ٹکٹرے میں هلکا سا چیرا ڈال گلاس کے کونے میں پرو دیا...دو سٹرا نکال کر گلاسوں میں رکهے اور دستانے پہنے ایک سوٹڈ ویٹر کے ہاتھ میں ٹرے تهمائی...جس نے بہت ہی ادب سے همیں سرو کیا...
ایک سیون اپ کین کی قیمت 50 روپے ہے..ایک لیموں کی قمیت اگر مہنگا بهی هو تو 5 روپے هے..سٹرا شاید 2 روپے میں پڑتا هو گا...ٹوٹل ملا کر 109 روپے بنتے ہیں...بل آیا تو مجھ سے پہلے میرے دوست نے بل دیکهے بغیر ویٹر کو اپنا ویزا کارڈ تهما دیا..میرا دوست واش روم گیا اور اتنے میں ویٹر کارڈ اور پرچی واپس کے آیا..میں نے ویسے ہی بل اٹها کر دیکها تو تفصیل یوں تهی...
فریش لائم -/1200
جی ایس ٹی -/204
ٹوٹل -/1404
اس بل کو دیکھ کر نہ مجهے کوئی حیرت هوئی اور نہ میرے دوست نے ایسا محسوس کیا....یہ ایک مثال تهی...ایسی بہت ساری چیزیں ہیں جہاں هم بے دریخ پیسے خرچ کرتے ہیں...تین سال کی وارنٹی والا کوٹ دس هزار میں خرید کر اگلے سال دو اور لیں گے..سال میں چار جوڑے جوتوں کے لیں گے..هوٹلنگ پر هزاروں روپے برباد کریں گے...انٹرنیٹ، تهری جی، موبائل سیٹس، ٹائی، شرٹس، گهڑیاں، پین، لائٹرز، گیجٹس، لیپ ٹاپس اور پتہ نہیں کیا کیا..لیکن هم خرچ کرتے رهتے ہیں...کرنا بهی چاهیے..جب کماتے ہیں تو خرچ کرنے کے لیے ہی کماتے ہیں....
لیکن کبهی غور کریں کہ فریش لائم کے یہ 1404 روپے کسی کی زندگی میں کتنے اہم ہیں...آج بهیگتی بارش میں ایک جگہ انتظار کرتے هوئے درخت کے نیچے یہ خاتون نظر آئیں...
هم کہتے یہ ایک بهکاری هے...بهیک مانگنا ان کا پیشہ هے...کبهی حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر پانچ روپے کا سکہ تهما دیا تو بہت اچها هے ورنہ جهڑک دیتے ہیں.....
غور کریں تو یہ ماں هے...ستر سالہ بوڑهی ماں.... جهریوں سے بهرا چہره....سفید بال.....ایک چادر میں سردی اور بارش سے بچنے کی کوشش میں جانے کس مجبوری اور کس آس میں یہاں بیٹهی انسانیت کا ماتم منا رهی تهی....کبهی اپنی ماں کی مجبوری کا تصور کیجیے اور پهر اپنے دل کو ٹٹولیے کہ کیا یہ ایک بهکاری هے؟
میں اظہار سے قاصر هوں کہ میں اس وقت کس کیفیت کا شکار هوں...میں نے ان اماں جی کو ایک نوٹ تهمایا...بڑی حسرت اور کرب سے کہنے لگیں...بیٹا اس کا کهلا هوتا تو یہاں بیٹھ کر کیا کرتی.....
میں نے کہا ماں جی بس رکھ لیں....جانے کتنی بار انہوں بے یقینی سے مجهے دیکها..پهر ایک نگاه نوٹ پر ڈالی...ایک مجھ پر ڈالی اور ایک آسمان پر ڈالی.....
اس ایک نگاه میں خوشی، طمانیت، دعا، شکر اور پتہ نہیں کیا کیا تها...
اس نگاه نے مجهے جتنی خوشی دی میں بیان کرنے سے قاصر هوں..
اس ایک نگاه مجهے اور ماں جی کو بیک وقت اپنے رب کے حضور جهکا دیا.....
فریش لائم ضرور پیجیے...لیکن اگر فریش لائم سے ختم نہیں هوتے تو کسی کی ادنیٰ خوشی سے بهی کبهی ختم نہیں هوں گے...اپنے آس پاس کے کمزور اور لاچار لوگوں پر ضرور نظر ڈالیے....
آج خوشی کا ایک راز بتاتا هوں...کہیں بہت جلدی میں جاتے هوئے...کہیں ٹریفک میں پھنسے هوئے...کہیں بارش میں چلتے هوئے..کسی ریسٹورنٹ میں بیٹهے هوئے....اپنے آس پاس دیکهیے اور کوئی اس طرح کی اماں یا کوئی بهی ضرورت مند نظر آئے تو دوڑ کر جائیے اور اسے بس ایک نوٹ تهمائیے....اور واپس آکر اپنے کام لگ جائیے..پهر دیکهیں کہ آپ کے دل کی کیا کیفیت هوتی هے..
تحرير ۔ يد بيضا

نامعلوم کا خوف:

www.swatsmn.com
نامعلوم کا خوف:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی میں کوئی بھی منصوبہ ہو،
یا سوچ ہو
جس کا تعلق مستقبل سے ہو۔۔۔
جس کا راستہ مشکل ہو۔۔۔
جس کے نتائج واضح نہ ہوں۔۔۔
اس سے نبرد آزما ہونے کا آسان طریقہ ہے
کہ
سامنے کے پہلو کو دیکھا جائے۔۔۔
اس پر توجہ دی جائے۔۔۔
اسے حل کیا جائے۔۔۔
جب وہ حل ہوجائے
تو
اس سے اگلے مرحلے پر جایا جائے،
پھر اسے حل کیا جائے۔۔۔
اسی طرح مرحلہ بہ مرحلہ پورے منصوبے کو مکمل کیا جائے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خرابی کب آتی ہے؟؟؟
جب انسان پہلے مرحلے پر ہی دوسرے،تیسرے،چوتھے مرحلے کے نتائج سوچنا شروع ہو جائے۔۔۔
پریشان ہونا شروع ہوجائے۔۔۔
ٹینشن لینا شروع ہوجائے۔۔۔
پھر ایک وقت وہ آتا ہے
جب
وہ نامعلوم کے خوف کا شکا ر ہوجاتا ہے۔۔۔
Fear Of Unknown
شاید ایسا نہ ہوجائے۔۔۔
شاید ویسا نہ ہوجائے۔۔۔
یہ ہوگیا تو کیا ہوگا؟؟؟
یہ نہ ہوا تو کیا ہوگا؟؟؟
یہ انسان کو ٹینشن اور ڈپریشن میں لے جاتا ہے
اور
اس طرح انسان پہلے مرحلے کو بھی حل کرنے سے محروم ہوجاتا ہے۔۔۔
انجانے خوف کا شکار ہوجاتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب بھی زندگی میں کوئی کام،کوئی چیلنج،کوئی سوچ طاری ہو
تو
توجہ سامنے کی بات،سامنے کے منصوبے،سامنے کے مرحلے پر رکھی جائے۔۔۔
جب یہ حل ہوجائے تو پھر اگلے مرحلے پر جایا جائے۔۔۔
جو سامنے کا مرحلہ ہو،ذہنی اور جسمانی قوتیں اسی پر مرکوز ہونی چاہئے۔۔۔
یہ عملیت پسندی انسا ن کو نامعلوم کے خوف سے محفوظ رکھتی ہے۔۔۔
اسے کامیابی کا سلیقہ سکھاتی ہے
کہ
کامیابی ایک ایک سیڑھی چڑھنے سے ہی ملتی ہے۔۔۔
اسے راستے پر چلنے کی مستقل مزاجی سکھاتی ہے۔۔۔
جانا میدانی راستے پر ہو
یا
پہاڑی راستے پر۔۔۔
سفر کا آغاز پہلے قدم سے ہی ہوتا ہے۔۔۔
پھر دوسرا،پھر تیسرا قدم۔۔۔
کبھی زندگی میں اگلے مرحلوں کی باتیں،اگلے مرحلوں کے خدشات اور اگلے مرحلوں کی سوچیں پہلے مرحلے پر نہ طاری کریں۔۔۔
پہلے مرحلے کو عبور کریں،پھر دوسرے پر جائیں چاہے ذہنی صلاحیت ہو یا جسمانی صلاحیت۔۔۔
یہی کامیابی کا گُر ہے۔۔۔
یہی بات ذہنی تناؤ سے بچانے والی ہے۔۔۔
یہی نامعلوم کے خوف سے محفوظ رکھنے والی ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ؔوقت سے پہلے وقت کوہم طاری نہ کریں
ان دیکھے دکھوں کی ہم آبیاری نہ کریں
جو ہونا ہے وہ ہوگا،جو پانا ہے ملے گا
اس غوروفکر میں ہم،غم کی سواری نہ کریں
گزرا ہوا جوکل ہے،خواب کی صورت ہے
آنیوالا کل ہے،ان دیکھی حقیقت ہے
' آج 'میں جو ہے،ہاتھ میں وہ بند ہے
آؤ! اس' آج 'کی ہم دل آزاری نہ کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر:آفاق احمد
‪#‎ummahcyberteam‬
# امہ_سائبر_ٹیم
‪#‎Afaaqi‬
http://muftiadnankakakhail.com/

Thursday 27 August 2015

اہرام مصر کس طرح تعمیر کئے جاتے تھے؟ولندیزی سائنس دانوں نے معمہ حل کر لیا

www.swatsmn.com
سائنسی ماہرین نے ایک ایسا معمہ حل کر لیا ہے جس نے کئی صدیوں سے دنیا کو حیران کیا ہوا تھا۔ معمہ یہ تھا کہ قدیم مصری اہراموں کے معماروں نے اپنے بے انتہاء بھاری اور بڑے بڑے بلاک تنصیب کی جگہ تک منتقل کس طرح کئے؟
سائنسدان کہتے ہیں کہ انہوں نے آخرکار ان اہراموں کی تعمیرمیں پوشیدہ اصرار کا پتہ چلا لیا ہے۔
دنیا سینکڑو ں برس سے اس سوال کا جواب تلاش کرتی رہی ہے کہ مزدور آخر 2000قبل مسیح میں بادشاہوں کی وادی کے اس پاراس قدر بڑے بڑے بلاک کس طرح لے جاتے رہے ہیں؟
اب سالہاسال کے حساب کتاب کے بعد طبیعات کے ماہرین نے محض دولفظوں کے ذریعے اس سوال کا جواب تلاش کر لیا ہے اور وہ دو لفظ ہیں، ’’گیلی ریت‘‘۔
ولندیزی محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اہل مصر بھاری بلاکس کو ایک ایسے بڑے سے تختے پر رکھتے تھے جسے سینکڑوں کارکن کھینچتے تھے اور اس منتقلی کے لئے وہ صرف اس بڑے سے تختے کے سامنے ریت پر پانی ڈال کر اسے گیلا کرتے جاتے تھے۔
ایمسٹرڈیم یونیورسٹی میں کئے جانے والے تجربات نے ثابت کیا ہے کہ ریت میں گیلے پن کا درست تناسب کھینچنے کے لئے مطلوب طاقت کو نصف کر دیتا ہے۔
نہایت سادگی سے، سامان کی منتقلی کے لئے استعمال ہونے والے بڑے سے تختے کے سامنے خشک ریت کا ڈھیر لگا دیا جاتا ہو گا جو اس تختے کی حرکت کو ناممکن بنا دیتا ہو گا۔
لیکن یہی تختہ اس وقت نہایت نفاست سے سرکنے لگتا ہو گا جب پانی کی درست مقدار کی حامل ریت پر اسے سرکایا جاتا ہو گا۔ تجربات ثابت کرتے ہیں کہ تختہ گیلی ریت پر نہایت آسانی سے حرکت کرتا ہے۔
ریت پر تختے کا لیبارٹری ایڈیشن تیار کرنے والی سائنسدانوں کی ٹیم کاکہنا ہے ، ’’ممکنہ طور پر اہل مصر اس آسان سے حل سے واقف تھے۔ جیہوتی ہو ٹیب کے مقبرے کی دیوار پر لگی ایک تصویر واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ کھینچے جانے والے تختے کے سامنے کھڑا ایک شخص ، عین اس تختے کے سامنے ریت پر پانی ڈال رہا ہے۔‘‘
لیکن یہ تحقیق کہ قدیم لوگوں نے یہ سب کرنے کا اہتمام کس طرح کیا، ہمیں جدید دور کے نقل و حمل کے نظام کو مزید مؤثر بنانے اور دانے دار اشیاء کو پراسس کرنے میں بھی مدد دے سکتی ہے ۔اس وقت ان کاموں کے لئے استعمال ہونے والی توانائی دنیا میں توانائی کی کل کھپت کے تقریباً دس فیصد پر مشتمل ہے۔

Tuesday 25 August 2015

بچوں کی پرورش اور نگہداشت کی ذمہ داریاں بانٹنے سے جذباتی طور پر زیادہ سے اطمینان محسوس کرتے ہیں

www.swatsmn.com
ایک امریکی تحقیق کے مطابق بچوں کی پرورش اور نگہداشت کی ذمہ داریاں بانٹنے سے جوڑے نہ صرف خوش رہتے ہیں بلکہ ایسا کرنے سے ان کی جنسی تسکین بھی بڑھتی ہے۔
487 خاندانوں پر تحقیق سے پتہ چلا کہ جو والدین بچوں کی نگہداشت کے فرائض آپس میں برابر بانٹ لیتے ہیں وہ جنسی اور جذباتی طور پر زیادہ سے اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق جہاں عورتیں بچوں کی نگہداشت میں زیادہ حصہ ڈالتی ہیں وہاں مرد اور عورت دونوں ہی کم مطمئن نظر آئے۔
لیکن تحقیق کار کہتے ہیں کہ جو مرد بچوں کی نگہداشت میں زیادہ وقت گزارتے ہیں ان پر اتنا اثر نظر نہیں آتا۔ یہ نتائج ایک تحقیق سے اخذ کیے گئے ہیں جس کا نام 2006 میریٹل اینڈ ریلیشن شپ سٹڈی ہے۔
اس ڈیٹا کو امریکن سوشیالوجیکل ایسوسی ایشن میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ وہ جوڑے جہاں خواتین بچوں کی نگہداشت میں 60 فیصد سے زیادہ حصہ ڈالتی ہیں، خصوصاً اصول سازی، تعریف کرنے اور کھیلنے میں، ان کے تعلقات میں اطمینان کم اور لڑائی بہت زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی جنسی زندگی کے متعلق بھی کم خوش ہیں۔
تحقیق کے سربراہ جارجیا یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ڈینیئل کارلسن کہتے ہیں کہ تحقیق کا سب سے اہم نتیجہ یہ ہے کہ جوڑوں کے تعلقات اور جنسی زندگی میں نگہداشت کے مسائل وہیں معیارِ زندگی کو متاثر کرتے ہیں جہاں عورت بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داریاں زیادہ سنبھالتی ہے۔

Thursday 20 August 2015

وہ 7 عادتیں جو آپ کی زندگی کم کرسکتی ہیں

www.swatsmn.com
ہرشخص لمبی اور صحت مند زندگی گزارنے کی خواہش رکھتا ہے لیکن صحت مند زندگی گزارنے کے لیے وہ کچھ  چند چیزوں کا خیال نہیں رکھتا جو اس کے لئے نقصان دہ ہوتی ہیں اور اس سے اس کی زندگی بتدریج کم ہوتی ہے۔
لمبی چھٹی پرجانا:
کبھی کبھی انسان روزمرہ کی روٹین سے اکتا جاتا ہے اورخود کو ذہنی اورجسمانی آرام دینے کے لیے کام سے لمبے وقفے کا فیصلہ کر تا ہے  لیکن وقفے کے دوران بہت زیادہ آرام بھی اس کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے کیونکہ ماہرین کے مطابق کام کے بعد بہت لمبا آرام مدافعتی نظام کو کمزور بھی کردیتا ہے۔
ٹیلی ویژن دیکھنا:
برطانوی جریدے اسپورٹس اینڈ میڈیسن کی رپورٹ کے مطابق ایک گھنٹہ ٹی وی دیکھنے سے انسان کی زندگی سے 22 منٹ کم ہو جاتے ہیں یعنی اگر آپ تقریبا روزانہ 6 گھنٹے ٹی وی دیکھتے ہیں تو آپ کی زندگی سے پانچ سال کم ہو سکتے ہیں جو دراصل بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
زیادہ نیند لینا:
نیند لینا انسان کے لیے بہت ضروری ہے لیکن بہت زیادہ سونے سے آپ کی عمر گٹھ بھی سکتی ہے۔8 گھنٹے سے زیادہ نیند لینا صحت کے مضرہے تاہم باقاعدگی سے نیند لینا بھی ضروری ہے۔
بیٹھے رہنا:
جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی انٹرنل میڈیسن کی تحقیق کے مطابق دن میں 11 گھنٹے بیٹھنے سے موت کا خطرہ 40 فیصد تک بڑھ جاتا ہے جس کے باعث دفترکے اوقات میں یا عام طورپرکام کے درمیان بھی وقفہ لیتے رہنا چاہیئے۔
اکیلا رہنا یا ڈپریشن کا شکار ہونا:
انسان کے لیے کسی کا ساتھ، کسی سے بات چیت کرنا ضروری ہوتا ہے جہاں کچھ لوگ ذہنی دباؤ سے دوررہنے کے لیے اکیلے ہی رہنا پسند کرتے ہیں لیکن دراصل وہ خود کو دنیا کی خوشی سے محروم کر رہے ہوتے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن عمر کم ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
بے روزگاری:
بے روزگاری انسان کو ڈپریشن کی جانب تو لے کر ہی جاتی ہے لیکن ایک تحقیق کے مطابق بے روزگارافراد میں اچانک موت کا شکار ہوجانے کا خطرہ ملازمت پیشہ افراد کے مقابلے میں 63 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
ورزش:
صحت مند زندگی کے لیے ورزش انتہائی ضروری ہے لیکن صرف شوق کی وجہ سے ضرورت سے زیادہ ورزش کرنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

دنیا کے وہ ایئرپورٹ جہاں لوگ پرواز میں تاخیر کا انتظار کرتے ہیں

www.swatsmn.com
ن ایئر پورٹس پر4 ڈی سینماؤں، انڈرو سرفنگ، گالف کورسز سے لیکر سوئمنگ پول تک ہر سہولت موجود ہے، فوٹو: فائل
ٹرین ہو یا جہاز ان دونوں سواریوں کا تاخیر سے پہنچنا ہر شخص کے لیے پریشانی کا باعث بنتا ہے اور ایسے میں لوگ غصے میں بھی آجاتے ہیں لیکن آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ دنیا کے کچھ ایئر پورٹ ایسے بھی ہیں جہاں پروازمیں تاخیر ہوجانے پر لوگ خوشی  اظہار کرتے ہیں اور اس تاخیر کا خوب لطف اٹھاتے ہیں۔
دنیا کے ان خوبصورت ایئر پورٹس پر4 ڈی سینماؤں، انڈرو سرفنگ اورگالف کورسز سے لے کر سوئمنگ پول تک کی سہولت موجود ہے جس سے تاخیر کا شکار مسافر بغیر کسی خرچے کے لطف اٹھاتا ہے اور اسے وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا۔
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/08/p1.jpg
انچون ایئر پورٹ جنوبی کوریا: اس ایئرپورٹ پر تاخیر کا شکار مسافروں کو شاپنگ کا موقع ملتا ہے یہ ایئر پورٹ 2 فور ڈی سینماؤں، دلکش میوزیم، 7 حسین باغات، 18 ہول گالف کورس اور آئس اسکیٹنگ رنک کے ساتھ مسافروں کو ایسی تفریح فراہم کرتا ہے کہ وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی فلائٹ کئی گھنٹے تاخیر کا شکار ہے اس کے علاوہ ایئر پورٹ کے کلچر سینٹر میں لائیو میوزک اور رقص کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے جب کہ اس ایئر پورٹ کو دنیا کے صاف ترین ایئر پورٹ کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/08/p2.jpg
چانگی ایئر پورٹ سنگاپور: اس ایئر پورٹ کی دلکشی اور سحر سے شاید ہی کوئی مسافر خود کو الگ رکھ سکے یہاں گیمرز کے لیے ایکس بکس 360 اور پلے اسٹیشن گیمز، فلم بینوں کے لیے سینما اور بونوں کی دنیا کا شو بھی لوگوں کو تفریح فراہم کرتا ہے جب کہ سوئمنگ پول، شاورز اور آرام کرنے والوں کے لیے سونے کا پرسکون ماحول بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس ایئر پورٹ کی ایک اہم خوبی اس میں سجائے گئے 11 انڈور باغات جن میں لگے 5 لاکھ سے زائد پودے اور آبشاریں مسافروں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں اس کے علاوہ ٹرمینل 2 پر میں موجود سن فلاور گارڈن بھی مسافروں کو راحت اور سکون دیتا ہے اور ائیر پورٹ پر بنائی جانے والی سب سے بڑی واٹر سلائیڈ بچوں کو مصروف رکھتی ہے۔
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/08/p3.jpg
ہانگ کانگ ایئر پورٹ: اس ایئر پورٹ کا سب سے اہم حصہ 4 ڈی آئی میکس سینما ہے جہاں پر کئی طرح کے سینسری ایفکٹس مسافروں کو اپنی خوبصورتی میں جکڑے رکھتے ہیں اس کے علاوہ 9 ہول گالف کورس، کمپیوٹر سے آپریٹ کیا جانے والا باسکٹ بال کورٹ اور آئی اسپورٹس جم بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے جب کہ بچوں کے لیے مختلف پروفیشنز کے لباس زیب تن کرنے کے مواقع بھی موجود ہیں۔
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/08/p4.jpg
کوالالمپور انٹرنیشنل ایئر پورٹ: کچھ لوگ اس ایئر پورٹ کو جنگل میں ایئر پورٹ کا نا م بھی دیتے ہیں کیوں کہ اس ایئر پورٹ کو چاروں طرف سے 86 اقسام کے درختوں سے مزین جنگل نے گھیرا ہوا ہے تاکہ لوگ خود کو ایک پرسکون ماحول میں محسوس کرتے ہوئے آرام کریں۔ قدرتی روشنی سے لطف اندوز ہونے کے لیے پسینجر ٹرمینل کمپلیکس  شیشے سے بنایا گیا ہے جب کہ چھت کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ سورج کی روشنی اندر آسکے اس کے علاوہ 80 اور 422 کمروں پر مشتمل 2 بڑے ہوٹل بھی اس ایئر پورٹ کا حصہ ہیں۔
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/08/p5.jpg
میک کران انٹرنیشنل ایئرپورٹ لاس ویگاس: اس ایئر پورٹ کی اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں 1234 مشین پر مشتمل کیسینو ہے جس سے مسافر خوب لطف اندوز ہوتے ہیں جب کہ اگر یہاں سے خالی ہاتھ ہوجائیں تو پھر اس پر موجود 5 بڑے آرٹ کے شاہکاروں سے اپنا دل بہلائے۔
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/08/p6.jpg
دبئی انٹرنیشنل ایئر پورٹ: اس ایئرپورٹ کو خریداری یا شاپنگ کی جنت بھی کہا جاتا ہے اسی لیے یہاں 58 ہزار اسکوائر فٹ پر بنا دنیا کا سب سے بڑا ڈیوٹی فری اسٹورموجود ہے جس پر شاپنگ کرتے لوگوں کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا  اور جو شاپنگ نہ کرنا چاہیں وہ زینگ گارڈن اور سوئمنگ پول سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں جب کہ یہاں پر موجود جی فورس جم مسافروں کو اپنا وزن کم کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/08/p7.jpg
میونخ ایئرپورٹ: اس ایئرپورٹ پر دنیا کا سب سے بڑا بیئر گارڈن موجود ہے یہاں مسافر بیئر کے ساتھ ساتھ میوزک سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن مسافروں کے لیے اس سے بھی زیادہ پرکشش یہاں مصنوعی موجوں سے بنا سرفنگ ایریا ہے جو سمندر جیسی تفریح فراہم کرتا ہے۔
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/08/p8.jpg
وینکور انٹرنیشنل ایئر پورٹ: ایئرپورٹ پر 20 ہزار گیلن ٹینک میں بنا ایکوا ونڈر لینڈ 5 ہزار آبی حیات کےساتھ لوگوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے جب کہ بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے 4 اسپورٹس ایریاز اور فوڈ آؤٹ لیٹس موجود ہیں۔
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/08/p9.jpg
ہیتھرو انٹرنیشنل ایئر پورٹ لندن: یہ ایئر پورٹ مہنگی ترین شاپنگ کے لیے مشہور ہے یہاں 11 ہزار اسکوائر فٹ پر بنا ہیرروڈس اسٹور کی وجہ سے اس ایئر پورٹ کو اسکائی ٹریکس ورلڈ ایئر لائن ایوارڈ بھی مل چکا ہے اس کے ٹرمینل ایک سے 4 میں موجود ہائیڈرو تھراپی شاور سے بھی مسافر خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/08/p10.jpg
قطر ایئرپورٹ: قطر ایئرپورٹ کے داخلے پر بنا بہت بڑا ٹیڈی بیئر لیمپ لوگوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتا ہے جب کہ گولڈ پلیٹیڈ کافی شاپس بھی مسافروں کو سکون اور راحت دیتی ہے۔

پرکشش اور متاثر کن سی وی

www.swatsmn.com
نوجوان جب بھی ملازمت کی تلاش شروع کرتے ہیں تو ان کے سامنے پہلا مرحلہ ایک پرکشش اور متاثر کن سی وی ( ریزومے) ہوتا ہے اور آج کل انٹرنیٹ کے اس دور میں ایک اچھے سی وی کے کئی نمونے مختلف ویب سائٹس پر مل جاتے ہیں تاہم ان میں بھی کچھ خامیاں ہوتی ہیں جو سی وی کو کچھ دھندلا سی دیتی ہیں اگر سی وی بنانے سے قبل ان پر توجہ دے دی جائے   تو آپ کا سی وی کسی بھی کمپنی کے ایچ آر ڈیپارٹمنٹ کو کال کرنے پر مجبور کردے گا۔
میں (ٹائپو) سےگریز کریں:
اگر آپ سی وی میں ایسے جملوں کا استعمال کریں گے جس میں ’میں‘ کا استعمال زیادہ ہوتو ایسی سی وی کو ایچ آرمینجر دوسری نظر ہی نہیں ڈالے گا۔ اس حوالے سے کچھ سینئر ایچ آرمینیجرزکا کہنا ہے کہ میں بہت کیریئراورینٹیڈ شخص ہوں یا میں نے فلاں جگہ سے گریجویٹ کیا ہے وغیرہ جیسے جملوں آپ کے جاب کے لیے منتخب ہونے کے امکانات کو کم کردیتے ہیں لہذا ان سے پرہیز کریں۔ ٹائپواسٹائل اور اسپیلنگ کی غلطیوں سے احتراز کریں۔ ایچ آر مینیجرز  کا کہنا تھا  کہ سی وی پر عدم توجہی سامنے والے پر تاثر ڈالتا ہے کہ جو شخص اپنا سی وی توجہ سے نہیں بنا سکتا ہے وہ اس کے بزنس پر کیسے توجہ سے کام کرے گا۔
کنفیوزنگ مقاصد اور عام استعمال جملوں کا استعمال نہ کریں:
؎کچھ ٹیلنٹ مینیجرز کہتے ہیں  کہ آپ کے مقاصد بالکل واضح ہونے چاہیئں جب کہ چیلنجنگ پوزیشن کا متلاشی اور پیشہ وارانہ انداز میں آگے بڑھنا چاہتا ہوں جیسے مقاصد کو سامنے رکھیں اور اپنی صلاحیتوں کو زیادہ واضح کریں۔ عام طور پر ہر سی وی میں عام ہوجانے والے جملوں کا استعمال کم کریں مثال کے طور پر میرا ریکارڈ ثابت کرتا ہے، اعلی کمیونی کیشن صلاحتیں رکھتا ہوں، انڈر پریشر اچھا کام کرسکتا ہوں اور نتائج دینے والا ہوں وغیرہ۔
مبالغہ آرائی سے پرہیز کریں: عام طور پر سی وی بناتے وقت نوجوان اپنے ماضی سے متعلق تعریف کرتے وقت مبالغہ آرائی یا پھر کبھی کبھی جھوٹ سے کام لیتے ہیں لیکن یاد رکھیں آج کے اس انٹرنیـٹ کے دور میں کمپنی آپ کے ریکارڈ کی تصدیق کر سکتے ہیں جو بعد میں شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔
مختصر اور جامع ہو:
اگرچہ سی وی کا کوئی آئیڈل سائز تو نہیں ہے لیکن یہ زیادہ طویل نہیں ہونا چاہئے کہ پڑھنے والا اکتاہٹ محسوس کرنے لگے جب کہ اس کی طوالت اتنی ہو کہ یہ آپ کی صلاحیتوں اور تجربے کی بھر پور عکاسی کرے۔ عام طور ہ زیادہ سے زیادہ سی وی  2 صفحات پر مشتمل ہونا چاہئے اور کوشش کریں اپنی صلاحتیں، تجربہ، تعلیم اور آپ کمپنی میں کیا قیمتی اثاثے کا اضافہ کرسکتے ہیں کو اسی کے اندر پورا کرلیں تاہم سی وی کو مختصر کرنے کی کوشش میں اپنی کوئی اہم بات نہ بھولیں۔
سادہ فارمیٹ:
سی وی کو رنگین، فینسی، مختلف ٹیکسٹ سائز اور مختلف فونٹس کا شاہکار مت بنائیں۔ سی وی کا فارمیٹ سادہ، آسانی سے پڑھے جانے والا اور اپیلنگ ہونا چاہئے، یاد رکھیں سیوی کو زیادہ خوبصورت بنانے کی کوشش پڑھنے والے کے سر کا درد بن سکتا ہے۔
کسی اور کے سی وی کی کاپی نہ کریں: بہت سے نوجوان اپنے سی وی پر بھر پورتوجہ نہیں دیتے اورحیرت ہے کہ زندگی کے اہم ترین موڑ پرغفلت اورسستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے سے بنے کسی دوست کی سی وی کی کاپی کرلیتے ہیں جو کہ آپ کی ذات کی ترجمانی نہیں کرتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ہی صفحے کا سی وی کیوں نہ بنائیں لیکن خود بنائیں تاکہ وہ حقیقی نظر آئے۔

Wednesday 19 August 2015

جب تک صرف قومی ٹی وی چینل ہوا کرتا تھا

www.swatsmn.com

مذاق یا حقیقت؟ قومی دن پر پاکستانیت پامال!

آئے دن ٹیلی ویژن پر دیکھنے اور سننے میں آتا ہے کہ ”ہم تو وہ دکھاتے ہیں جس کی ڈیمانڈ ہوتی ہے، ہم تو وہ دکھاتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہوتا ہے، ہمارا میڈیا ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے“۔  وغیرہ وغیرہ۔ یہ خرافات دیکھ اور سن کر ہر شخص یہی سمجھتا ہے کہ شاید واقعی ہمارا معاشرہ اب ایسا ہی ہوگیا ہے۔ میرا سوال ہے کہ جب تک صرف قومی ٹی وی چینل ہوا کرتا تھا یا جب سماجی رابطے کی ویب سائٹس نہیں ہوا کرتی تھیں تو اس وقت ہمارا معاشرہ ایسا کیوں نہیں ہوتا تھا جیسا کہ آج کل پیش کیا جاتا ہے؟
ایسا ٹی وی چینلز کی بھرمار اور سوشل میڈیا ویب سائٹس کے آنے کے بعد ہی کیوں ہوا کہ ہمارا معاشرہ اپنے مذہبی، قومی اور معاشرتی اقدار سے کنّی کاٹتا ہوا کسی تیسری مخلوق جیسا ہوگیا ہے جس کا نہ کوئی دین نہ ایمان، بس جب جدھر دل کیا منہ اٹھا کر چل دیئے، تھالی کے بینگن کی طرح جس طرف چاہا لڑھک گئے؟ چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو نظر سے گذری جس میں قومی دن پر پاکستانیت کا لبادہ اوڑھے دو ’’شیطان نما‘‘ بگڑی اولادیں ایک سڑک پر بے غیرتی اور ذلالت کے تمام ریکارڈ توڑتی پائی گئیں۔ ایک برقعہ پوش خاتون جو کہ 13 یا 14 سالہ لڑکے کے ہمراہ بائیک پر سوارہیں۔ ان کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں، آپ لوگ مذکورہ منسلک ویڈیو اس تحریر کے ساتھ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
پاکستانی پرچم میں ملبوس یہ رذیل انسان، سر پر اپنی اصلیت کے شیطانی سینگ سجائے ہمارے قومی دن پر نہ صرف ہماری پاکستانیت کو چیلنج کر رہا تھا بلکہ ہمارے پاکستانی چہرے پر بدنما داغ بھی لگا رہا تھا اور بدقسمتی دیکھیے کہ اُن کو روکنے کی کسی نے جسارت نہیں کی۔ روکنا تو دور کی بات کوئی منہ سے ’’بھاپ‘‘ تک نکالنے کو راضی نہیں تھا۔ مجھے وقار ذکاء سے کئی اختلافات ہیں لیکن یہاں میں کھل کر یہ بات کہوں گا کہ وقار ذکاء وہ پہلا شخص ہے جس نے اس بے غیرتی کے خلاف آواز بلند کی اور ہمیں ان کی آواز میں شامل ہونے کی ضرورت ہے۔
ہمارے معاشرے میں خواتین کی حد درجہ عزت کی جاتی ہے، گوکہ خواتین کو دیکھنا بُرا نہیں سمجھا جاتا لیکن کم از کم پردہ دار خواتین کا احترام ضرور ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے لیکن یہاں تو حد ہی ہوگئی کہ اگر اس طرح باپردہ خواتین کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے تو ڈوب مرنے کا مقام ایک انتہائی ہلکا استعارہ ہوگا۔ ویسے اس طرح کے واقعات کی صرف مذمت کرنا انتہائی درجے کی بزدلی ہوگی، ایسے واقعات میں ملوث افراد کو مذمت نہیں بلکہ ٹھیک ٹھاک مرمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو انتہائی ڈھٹائی سے اس قسم کی حرکتیں کرکے اپنے والدین کا نام ’’روشن‘‘ کرتے ہیں۔
ایسی ویڈیوز دراصل ترغیبات کے زمرے میں آتی ہیں جو اس قسم کے بے ضمیر لوگوں کو اپنے اندر کی ذلالت باہر نکالنے پر ابھارتی ہیں، جس رفتار سے ہمارے میڈیا پر بے حیائی دکھائی جارہی ہے اس سے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے ہمارا سوشل میڈیا اس بے حیائی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ جس طرح ہمارے میڈیا پر پیمرا کی صورت میں جیسا بھی ہے مگر ایک چیک اینڈ بیلینس تو ہے نا با لکل اسی طرح ہمارے سوشل میڈیا پر بھی ایک مؤثر نظر کی ضرورت ہے۔
جیسے ہی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو طرح طرح کی باتیں بھی سامنے آنا شروع ہوئی جیسے کہ یہ ایک ’’پرانک‘‘ یا ’’پلانٹڈ وڈیو‘‘ ہے۔ یہ وڈیو سچی ہو یا جھوٹی ہمیں اس سے غرض نہیں ہونا چاہیئے بلکہ ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس سے ہمارا قومی وقار اور تشخص کس قدر مجروح ہوا ہے، جس طرح قابیل کے نامہ اعمال میں قیامت تک ہونے والے ہر قتل کا عذاب درج ہو رہا ہے۔ بالکل اسی طرح اس ترغیب کے نتیجے میں اگر خدا نخواستہ مزید ایسا کوئی واقعہ ہوا تو وہ بھی ان انسان نما شیطانوں کے بائیں کاندھے پر موجود فرشتے کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کاغذات کی زینت بنے گا۔

MQM Chief declared Proclaimed offender by the ATC Swat

www.swatsmn.com
altaf2
SWAT:-  An Anti-Terrorism Court in Swat on Tuesday has declared MQM Chief Altaf Hussain an proclaim offender and ordered the police for arrest and produce in the court  within seven days otherwise action would be taken against him as per law.
A case under section 124A, 153A, 505 and 25 telegraph act has been registered against MQM Chief, Altaf Hussain with Police Station Mingora on the complaint no 702, at 16/072015, on the charges of uttering thereat to the Pakistan Army  and instruments in spreading terror in the country by provoking speeches.
More than 100 FIR’s has been registered in across the country against MQM Chief Altaf Hussain owing to his remarks made by him against the Pakistan Army and the paramilitary force in various speeches.
The court has also ordered for publications of advertisement due to non-service for the appearance of Altaf Hussain from normal mode.
The court made it clear that if despite publication of advertisement for appearance in the court and declaring him proclaim offender. MQM Chief had not appeared in the Court within 7 days, the case shall be decided in his absence as per law.

Nagasaki in August 1945, swatsmn.com

www.swatsmn.com

 killed at least 129,000 people, remain the only use of nuclear weapons for warfare in history


The United States dropped atomic bombs on the Japanese cities of Hiroshima and Nagasaki in August 1945, during the final stage of the Second World War. The two bombings, which killed at least 129,000 people, remain the only use of nuclear weapons for warfare in history.
In this final year of the war, the Allies prepared for what was anticipated to be a very costly invasion of the Japanese mainland. This was preceded by a U.S. firebombing campaign that obliterated many Japanese cities. The war in Europe had concluded when Nazi Germany signed its instrument of surrender on May 8, 1945. The Japanese, facing the same fate, refused to accept the Allies' demands for unconditional surrender and the Pacific War continued. Together with the United Kingdom and China, the United States called for the unconditional surrender of the Japanese armed forces in the Potsdam Declaration on July 26, 1945—the alternative being "prompt and utter destruction". The Japanese response to this ultimatum was to ignore it.
In July 1945, the Allied Manhattan Project successfully detonated an atomic bomb in the New Mexico desert and by August had produced atomic weapons based on two alternate designs. The 509th Composite Group of the U.S. Army Air Forces was equipped with the specialized Silverplate version of the Boeing B-29 Superfortress, that could deliver them from Tinian in the Mariana Islands.
On August 6 the U.S. dropped a uranium gun-type atomic bomb (Little Boy) on Hiroshima. American President Harry S. Truman called for Japan's surrender 16 hours later, warning them to "expect a rain of ruin from the air, the like of which has never been seen on this earth." Three days later, on August 9, the U.S. dropped a plutonium implosion-type bomb (Fat Man) on the city of Nagasaki. Within the first two to four months of the bombings, the acute effects of the atomic bombings killed 90,000–146,000 people in Hiroshima and 39,000–80,000 in Nagasaki; roughly half of the deaths in each city occurred on the first day. During the following months, large numbers died from the effect of burns, radiation sickness, and other injuries, compounded by illness and malnutrition. In both cities, most of the dead were civilians, although Hiroshima had a sizable military garrison.
On August 15, just days after the bombing of Nagasaki and the Soviet Union's declaration of war, Japan announced its surrender to the Allies. On September 2, it signed the instrument of surrender, effectively ending World War II. The bombings' role in Japan's surrender and their ethical justification are still debated

Sunday 16 August 2015

غیرت ہو تو ایسی، وزیراعظم نے عوامی تنقید پر استعفیٰ دے دیا

www.swatsmn.com
غیرت ہو تو ایسی، وزیراعظم نے عوامی تنقید پر استعفیٰ دے دیا
 وزیر اعظم عبداللہ الثنی نے ٹی وی انٹرویو کے دوران استعفیٰ دے دیا، وزیر اعظم عبداللہ الثنی نے ٹی وی انٹرویو کے دوران مشتعل شہریوں کی طرف سے ان کی کابینہ کو غیر موثر قرار دینے پر استعفیٰ دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ مستعفی ہوتے ہیں اور اتوار کو اپنا استعفیٰ ایوان نمائندگان میں پیش کریں گے، لیبیا کے عوام کافی عرصے سے طبی سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے سراپا احتجاج ہیں، لیبیا میں مسلح افراد نے27 مئی کو تبروک میں پارلیمان کے اجلاس کے بعد وزیر اعظم عبداللہ الثنی پر قاتلانہ حملہ بھی کیا تھا جس میں ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔

Tuesday 11 August 2015

خون خشک کردینے والے دنیا کے 13 خطرناک ترین

www.swatsmn.com

خون خشک کردینے والے دنیا کے 13 خطرناک ترین ائیرپورٹس


کیا آپ فضائی سفر کو پسند کرتے ہیں ؟ اگر ہاں تو یہ بات شرطیہ ہے کہ کچھ ائیر پورٹ پر طیارے کے اترنے کا منظر دیکھ کر آپ اپنے شوق سے دستبردار ہوسکتے ہیں۔
جی ہاں دنیا کے خطرناک ترین ائیر پورٹس جہاں کی فضائی پٹی پر اترنا تو دور اس کا خیال بھی کمزور دلوں کے پسینے چھڑا دینے کے لیے کافی ہے۔
اگر یقین نہ آئے تو اس کے لیے یہ چند مثالیں موجود ہیں جہاں لینڈنگ کا خیال مسافروں کو تو چھوڑیں پائلٹس تک کے ہوش اڑا دیتا ہے۔

آئس رن وے ، انٹار کٹیکا

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
درحقیقت یہ کوئی ایئر پورٹ نہیں بلکہ اس برفانی براعظم میں طیاروں کے اترنے کے لیے موجود تین رن ویز میں سے ایک ہے اور یہاں زیادہ بڑے طیاروں کا اترنا ممکن نہیں خاص طور پر موسم گرما میں جب یہ رن وے پگھلنے لگتا ہے، تاہم سردیوں میں یہ کنکریٹ کی طرح سخت ہوتا ہے مگر طیاروں کے پھسلنے کا خطرہ پھر بھی موجود ہوتا ہے جس کا اختتام کسی برفانی کھائی میں بھی ہوسکتا ہے۔

پرنسز جولیانا انٹرنیشنل ائیرپورٹ، سینٹ مارٹن

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
کیریبیئن کے خطے پر واقع اس جزیرے کا بین الاقوامی ائیرپورٹ مسافروں کے مقابلے میں وہاں کے ساحل پر موجود افراد کے لیے زیادہ خوفنکا ثابت ہوتا ہے، جس کی وجہ اس کے مختصر رن وے کا اختتام ساحل پر ہونا ہے۔ اگر کوئی طیارہ بہت نیچے پرواز کرے تو ساحل پر موجود افراد طوفائی ہواﺅں اور تیز آواز سے گھبرا کر اپنا دل تھام لیتے ہیں۔

بھوٹان کا ائیرپورٹ

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو
بھوٹان کا واحد بین الاقوامی ائیرپورٹ سطح سمندر سے 7333 فٹ کی بلندی پر واقع ہے او ریہ ارگرد سے کوہ ہمالیہ کی چوٹیوں سے گھرا ہوا ہے جن کی اوسط بلندی ہی 16 ہزار فٹ ہے۔ اس ائیرپورٹ پر لینڈنگ اتنی خطرناک ہے کہ چند انتہائی ماہر پائلٹس کو ہی یہاں اترنے کا اہل سمجھا جاتا ہے کیونکہ کسی غلطی کا نتیجہ سیدھا پہاڑیوں سے جاٹکرانا ہے۔

برہ ایئر پورٹ، اسکاٹ لینڈ

فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
یہ کسی کھائی کے کنارے تو واقع نہیں تاہم اگر آپ یہاں جانے کے خواہشمند ہیں تو وہاں ہوا کے رخ کی نشاندہی کے لیے موجود ونڈ سوک پر ضرور نظر رکھیں کیونکہ یہاں کا رن وے اکثر سمندر میں ڈوبا رہتا ہے اور اکثر یہاں پروازوں کو اترنے کے لیے کئی کئی روز کا انتظار کرنا پڑ جاتا ہے، اسی وجہ سے اسے دنیا کا واحد بیچ ایئر پورٹ بھی کہا جاتا ہے۔

جوناکو ای یاروسوقین ایئر پورٹ، کیریبیئن

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
کیریبیئن کے جزیرے سبا میں واقع اس ایئر پورٹ کا رن وے دنیا میں سب سے چھوٹا ہے یعنی چار سو میٹرز سے بھی کم اور اس کے اندر طیارے کے نہ روکنے کا مطلب سیدھا سمندر میں غوطہ ہے۔ یہاں صرف چھوٹے طیارے ہی قریبی جزیروں سے اترتے ہیں مگر انہیں بھی کافی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے, یہ رن وے ایک پہاڑی کے کونے میں واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں اکثر افراد طیارے کی بجائے کسی کشتی کے ذریعے آنا پسند کرتے ہیں۔

نرساروک، گرین لینڈ

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
ایک تنگ کھاڑی میں گھرا ہوا گرین لینڈ کا نرساروک ائیرپورٹ میں سمندری ہچکولے اور تند و تیز ہوائیں عام ہیں جبکہ یہاں لینڈنگ اور ٹیک آف اتنا حوصلہ شکن کام ہے کہ ایسا صرف دن کے اوقات میں ہی کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ پائلٹس کو بھی یہاں اترنے سے قبل ایک 90 ڈگری کا موڑ کاٹ کر رن وے پر آنا ہوتا ہے اور اگر تیز ہوا چل رہی ہو تو یہ کام بہت زیادہ مشکل ثابت ہوتا ہے جبکہ برفانی تودے گرنے کا خطرہ الگ ہوتا ہے۔

جبرالٹر انٹرنیشنل ائیرپورٹ، جبرالٹر

فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
بندرگاہ پر اختتام اور ایک پرہجوم شہر و بڑی پہاڑی کے درمیان گھرے جبرالٹر انٹرنیشنل ائیرپورٹ کا رن وے بھی اس شہر کے ایک مصروف ترین روڈ ونسٹن چرچل ایونیو پر واقع ہے اور اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی گاڑی اشارے پر نہ روکے تو کیسا خوفناک حادثہ واقع پیش آسکتا ہے۔

میڈیرا ایئرپورٹ، پرتگال

فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
پرتگیزی جزیرے میڈیرا میں طیارے کو اتارنا کسی ماہر سے ماہر پائلٹ کو بھی نروس زدہ کر دیتا ہے، کیونکہ گزشتہ پچاس سال سے یہ ایئر پورٹ اپنے چھوٹے سے رن وے پر پائلٹوں کی مہارت کا امتحان لے رہا ہے۔ خاص طور پر بڑے طیاروں کے لیے تو ایک کلو میٹر سے بھی چھوٹے رن وے پر اترنا کسی چیلنج سے کم نہیں خاص طور پر اس وقت جب پٹی کا اختتام سمندر میں جا کر ہوتا ہے اور مشکل میں مزید اضافہ اس طرح ہوتا ہے کہ یہ رن وے ہموار یا سیدھا ہونے کی بجائے ڈھلوان کی شکل میں ہے جس کی وجہ سے طیارے کی رفتار کو کنٹرول میں رکھنا آسان ثابت نہیں ہوتا۔

میٹیکین ائیر اسٹریپ، لیسوتھو

فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
جنوبی افریقی ملک لیسوتھو میں واقع میٹیکین ائیراسٹریپ کا رن وے محض 1300 فٹ لمبا ہے مگر اس کے آخر میں 2 ہزار گہری کھائی ہے۔ یہاں سے پرواز کرنا بالکل ایسے ہی جیسے کسی پرندے کو گھونسلے سے نیچے پھینک دیا جائے اور اڑنے کا حکم دیا جائے اور پر نہ چلانے پر کیا ہوگا اس کے بارے میں بتانا ضروری نہیں۔

تن زنگ ہلیری ایئرپورٹ، نیپال

کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو
ماﺅنٹ ایورسٹ سر کرنے والے پہلے کوہ پیما کے نام پر رکھی جانے والے فضائی اڈے کو دنیا کا خطرناک ترین ایئر پورٹ بھی سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ بھی بہت سادہ ہے وہ یہ کہ سطح سمندر سے 2800 میٹر بلندی پر واقع اس ایئر پورٹ کی لینڈنگ پٹی بس پانچ سو میٹر ہی لمبی ہے اور اس کا اختتام ایک گہری کھائی پر ہوتا ہے، اب اگر وہاں طیارہ اترنے کے دوران کوئی پائلٹ حاضر دماغی کا مظاہرہ نہ کرے تو مسافر سیدھے دو ہزار فٹ گہری وادی میں جا گریں گے اور یہ خیال ہی یہاں آنے والے مسافروں اور پائلٹس کے ہوش اڑا دیتا ہے۔

کارچویل ایئر پورٹ، فرانس

فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
برف میں چھپے اس ایئر پورٹ میں کسی طیارے کو اتارنا بھول بھلیوں سے کم نہیں کیونکہ یہاں کا رن وے سیدھا ہونے کی بجائے نشیب میں جا رہا ہے اور اس طرح یہ پائلٹس کے اعصاب کے ساتھ کھیلتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈھلوان پر واقع اس رن وے کا اختتام ایک موڑ پر ہوتا ہے جہاں طیارے کو نہ موڑنے کا نتیجہ کسی کھائی میں جانے کی صورت میں نکل سکتا ہے، یہاں پائلٹ کو لینڈ کرنے سے پہلے ایک خصوصی سرٹیفکیٹ حاصل کرنا پڑتا ہے جب ہی اسے یہاں طیارہ اتارنے کی اجازت مل پاتی ہے۔

کیوٹو ائیرپورٹ، ایکواڈور

فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
دنیا کے متحرک ترین آتش فشانی سلسلوں میں سے ایک ساتھ پرواز کرتے ہوئے سطح سمندر سے 9350 فٹ بلند ائیرپورٹ پر اترنا بچوں کا کھیل نہیں۔ یہ دنیا کے سب سے مشکل چیلنج سمجھے جانے والے رن ویز میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے آس پاس گنجان آبادی اور انتہائی تنگ اینگل سے لینڈنگ کرنا اس کام کو مشکل تر بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں لینڈنگ کے دوران اب تک درجن بھر حادثے بھی پیش آچکے ہیں۔

گلگت ائیرپورٹ، پاکستان

فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
دنیا میں جنت نظیر سمجھے جانے والے گلگت بلتستان کے خطے میں واقع گلگت انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر اترنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ بلند و بالاپہاڑوں کے دامن میں واقع مختصر رن جو ایک ڈھلان پر واقع ہے، کی وجہ سے بوئنگ 737 اور چھوٹے سائز کے جیٹ طیاروں کے لیے بھی یہاں اترنا ممکن نہیں۔ اس وقت پی آئی اے کی جانب سے اے ٹی آر 42 طیاروں کو یہاں اتارنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan EXTED.pk

Admission open  MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan   http://facebook.com/ exted.p k http://www.exted.pk/ Lowest Fee ,   No IELTS...