Wednesday 27 November 2019

اپنے شناخت کی پہچان ۔ زبیرتروالی

www.swatsmn.com

اپنی شناخت کیسے تلاشنی چاہے
----------------------
جن قوموں سے ان کی تاریخی یاداشت چھین لی جاتی ہے اور ان کو زیر کرنے والا ان کو ایک نئی یاداشت دینے کی کوشش کرتا ہے تو یہ قوم محکوم ہوجاتی ہے۔ پھر محکومی کے شروع کی ایک دو نسلوں کے بعد یہ قوم اپنی یاداشت مکمل طور پر کھو دیتی ہے۔ وہ وہی شناخت، وہی زبان، وہی کلچر، وہی طور طریقے اور وہی سماجی نظام اپنانے لگتی ہے جو ان کو زیر کرنے والوں نے دی ہو۔
ایسا ہر دور میں ہوا ہے اور یہ برطانوی، فرانسسی یا پرتیگیزی نوابادیت اسی تاریخی عمل کے انتاہی نکتے ہیں۔ شمالی پاکستان میں بستی قوموں کے ساتھ یہ عمل دسویں صدی میں زور و شور سے جاری رہا۔ اسکا نکتہ عروج سولہویں صدی رہی اور اگلے ایک ادھ صدی میں یہاں بسنے والی قوموں کی تاریخی یاداشتیں ختم ہوگئیں۔ ان یاداشتوں میں اب اگر کوئی چیز باقی بچی ہے تو وہ ان کی زبانیں ہیں جو مکمل طور پر زبانی یعنی بولیاں رہیں۔ مگر اس زبانی ادب و تاریخ کے کچھ حصّے سینہ بہ سینہ دوسری نسلوں تک منتقل ہوتے رہے جس کو جدید علوم نے ایک کمتر نام ”لوک ادب یا ورثہ“ (فوک لور) کا نام دیا۔
اگر اپ نے اپنی کلتوری شناخت کو کھوجنا ہے تو اس لوک ادب و ورثہ پر تحقیق کریں۔ جھٹ سے کسی چیز کو جھٹلانا یا اپنے تعصب پر مبنی کوئی نظریہ گھڑنا مناسب عمل نہیں۔ اس سے چند لوگوں کو گمراہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن مختصر وقت تک اور وہ بھی ایک بھیانک نقصان پر منتج ہوتا ہے۔ ہاں یہ بات بھی پہلو میں باندھ کر رکھیں کہ کسی ایک شناخت پر اڑنا نفرتیں پیدا کرتا ہے اور اس سے انسانوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ ہٹلر ایک شناخت پر اترایا اور دنیا کا انجام ہم سب نے دیکھ لیا۔ اجکل جرمنی میں خود کو اریہ کہو تو جرمنیوں کا ردعمل شدید ہوتا ہے۔
شناخت کا عمل زماں و مکاں یعنی Temporal and territorial دونوں سے نبرزازما ہوتا ہے۔ اس کا تعلق فرد کی نفسیات، شخصیت اور سماجی و سیاسی عوامل سے بھی گہرا ہوتا ہے۔
ہندوکش ہو یا قراقرم و پامیر یا ہمالیہ؛ سندھ کا صحرا ہو یا اسٹرالیا کی پہاڑیاں؛ امریکوں کی قدیم ابادیاں ہوں یا ہندوستان کا جنوب؛ افغانستان کا بدخشان ہو یا درہ نور کی وادیاں۔ غرض سب جگہ مقامی لوگ خود کو ”قوم“ کہتے ہیں۔ ”برادری“، ”ایتھنی“، ”قبائل“(Community, ethnie, tribes) وغیرہ الفاظ نوابادیاتی مطالعات کی اصطلاحات ہیں۔
متحدہ ہندوستان میں ایسے مطالعات نے ”قومیت“ کی بنیاد قومیت کی فقط ایک ذریعہ ”عقیدے“ پر رکھ کر اس کا بیڑا غرق کردیا۔ اس دو قومی نظریے نے دوسری قوموں کے وجود سے انکار کردیا اور یوں قومیت کی جنگ ہنوز جاری ہے۔ اس نوابادیاتی مطالعات میں ”قوم اور ریاست“ کا نظریہ پیش کیا گیا کہ اس یورپی سیاسی نظریے میں قوم ریاست کے بغیر نہیں بن سکتی۔ وہاں دو ”قومیں“ وجود میں لائی گئیں۔ ایک ”قوم“ نے کہا ہم قوم ہے اب ہمیں ریاست کی ضرورت ہے۔ مگر حالات ک
ی ستم ظریفی دیکھیں جب ریاست مل گئی تو گزشتہ 72 سالوں سے یہی ریاست ایک ”قوم“ کی تلاش میں ہے اور اس کو یہ ”قوم“ نہیں مل رہی بلکہ اسی ”قوم“ کا ایک اکثریتی حصّہ الگ بھی ہوا۔ قوم سازی کے اسی منصوبے کے لیے ایک ”دیگر“ یعنی دشمن کو تراشا گیا۔ کلتوری و تاریخی روایات کو غیر فطری طور پر سرسید احمد خان اور سید احمد سرہندی کے زمانے سے پیچھے جانے سے روک دیا گیا۔ ایک قوم بنانے کے اس غیر فطری منصوبے نے ایک ایسی تعلیم ٹھونسنے کی کوشش کی کہ جس سے یہاں بسنے والوں کی تاریخی یاداشتیں جو مہرگڑھ، مہنجوداڑو، گندھارا اور ہڑپہ سے جڑی تھیں کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔ ایسے میں ہم جیسی چھوٹی قوموں کو معلق چھوڑ دیا گیا اور ہم ہنوز ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں کہ ہماری شناخت کیا ہے۔ کسی نے ایک ادھ کتاب پڑھی اور اس سے نتائج اخذ کیے۔ کسی نے سرے سے کتاب ہی نہیں پڑھی اور اس پر اکتفا کیا کہ ہم خود کو کیا کہتے ہیں۔
کسی قوم پر اپنی مرضی کی کوئی شناخت ٹھونسنے سے بہتر ہے کہ اس قوم کو علمی، معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر مضبوط کیا جائے۔ جب اسے یہ مضبوطی میسّر ہو تو وہ خود کو کوئی شناخت دینے اور پھر اسے اپنے مجموعی فہم و فراست کے ذریعے قائم رکھ سکے گی اور ساتھ اس کے مضر اثرات سے خود کو بچانے کی طاقت بھی حاصل کرسکے گی۔ محض نعروں اور کھوکھلے نظریات سازی سے قوم طاقت ور نہیں بن سکتی ورنہ پاکستان کی یہ حالت نہ ہوتی۔
شناخت پر تحقیق و فکر ہونی چاہے۔ اپنی لوک ادب و ورثہ پر تحقیق ہونی چاہے۔ شناخت کی تلاش کرنی چاہے لیکن ساتھ یہ بھی ذہین میں رکھنا ضروری ہے کہ شناخت کوئی ساکت چیز نہیں کہ ایک جگہ ٹھر جائے۔ ہم ایک کثیرالشناختی دور میں رہ رہے ہیں۔ ایک فرد کی کئی شناختیں ہوسکتی ہیں۔ کسی ایک شناخت پر زور دینا بقائے باہمی کے لیے ذہر ثابت ہوتا ہے۔ زبیرتروالی

Friday 22 November 2019

یا اللہ میں بیٹی ہوں یا جانور ؟

www.swatsmn.com

ہمارے معاشرے کا ایک کڑوا سچ!
چائے رکھ کر وہ شرماتے ہوئے واپس مڑی تو اسے دیکھنے آنے والی آنٹی نے کہا ”بیٹی ہمارے پاس نہیں بیٹھو گی؟ اسے جانے کیوں لگا تھا کہ آنٹی کے لہجے میں طنز ہے.
وہ جھجکتے ہوئے بیٹھ گئی اس کے مائینڈ میں وہ سب لوگ آنے لگے جو پہلے بھی اسے دیکھ کر جاچکے تھے.
طرح طرح کے سوال کرتے تھے بعد میں وہ ماما پاپا کی باتوں سے اندازہ لگاتی کہ اسے عمر اور کبھی ہائٹ کی وجہ سے ریجیکٹ کیا جاتا ہے۔۔۔آج بھی وہ سوالات سے ڈری بیٹھی تھی کہ آنٹی جی کی آواز سنی..
بہنا کیا بتائیں ہم لڑکے والے جو ہوئےلڑکیاں آج کل کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہیں۔بہت رشتے آتے ہیں مگر کوئی دل کو نہیں لگی۔۔بیٹا ہمارا تو لاکھوں میں ایک ہے..
وہ لہجے میں غرور کو دیکھ سکتی تھی.
بیٹی تم نے میٹرک کب کیا ہے؟“ تم کیا کیا بنا لیتی ہو میرے بیٹے کو خوش رکھ سکو گی؟ بڑا نخریلو ہے..
۔۔جواب دے دے کر اس کا دل رونے لگا تھا...
یا اللہ میں بیٹی ہوں یا جانور ؟ میرا رشتہ ہو رہا ہے یا سودا ؟ کل بھی میں بِک رہی تھی تب پیسوں میں
آج بھی سودا کیا جاتا ہے نکاح کے نام پر
.بیٹی تم میرے بیٹے کے لیے”
بس ماں بس وہ چیخ کر روئی ماں کیا تم مجھے اس گھر میں تھوڈی جگہ نہیں دے سکتی ؟میں جاب کر کے کما لوں گی یہ رشتے کے نام پر روز مجھے بیوپاریوں کے سامنے پیش کر کے رسوا نہ کرو..
مجھے جس دین نے عزت دی آج وہ دین بس نمازوں تک مانا جا رہا ہے ماں اگر وہ دین دلوں میں ہوتا تو اس طرح نہ ہوتا.
ماں رو پڑی مگر کچھ کہا نہیں...
آنٹی نے اسے بد تمیز کہا اور کہا کہ” ہم لڑکے والے ہیں۔۔ہزاروں لڑکیاں مل جائیں گی.
یہ کہانی محض کہانی نہیں آج کل ایسا ہو رہا ہے۔۔میں نے زندگی کی ایک حقیقت تصویر دکھائی ہے.
کہنا یہ ہے کہ ہم لڑکے اپنے والدین کو سمجھا کر بھیجیں کہ سوال جواب کم سے کم لڑکیوں سے ایسے نہ کیے جائیں۔ ان کے بارے کچھ پوچھنا ہو تو تنہائی میں ان کے والدین سے پوچھیں.
وہ بیٹی ہے جیسی بھی ہو جب کوئی انکار کر کے جاتا ہے اس کے دل پر کیا بیتتی ہے۔۔یہ وہ جانتی ہے...
دعا ھے
اللہ ہر لڑکی کا مقدر نیک اور اچھا کرے..
آمین ثم آمین

Thursday 21 November 2019

بہنوں بیٹیوں کے گھر کا پانی پینا حرام نہیں ہے لیکن

www.swatsmn.com

شادی کے کئی سال بعد اابا اور بھائی اسکے گھر آرہے تھے،
وہ بہت خوش تھی، کئی پکوان تیار کیے تھے، مشروب بنائے تھے، خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھی، اللہ اللہ کر کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں...!!!!
وہ بڑے شوق سے انکو بیٹھک (ڈرائینگ روم) میں لیکر آئی، باپ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا، بھائیوں نے بھی حال چال پوچھا وہ جلدی سے ٹھنڈے مشروب لے آئی...!!!!
"ناں پتر " باپ نے دیکھتے ہی کہا"
ہمارے خاندان میں بیٹیوں کے گھر کا پانی بھی حرام سمجھا جاتا ہے، اسے واپس لے جا، ہم تو تجھے دیکھنے آئے تھے بس اب چلتے ہیں" یہ کہہ کر ابا اور بھائی واپس چلے گئے اور اسے وہ دن یاد آگیا جب وہ دلہن بنی بیٹھی تھی کمرے میں اس کی سہیلیاں خوش گپیوں میں مصروف اسے چھیڑ رہی تھیں کہ ابا اور بھائی آگئے تھے...!!!!
"دیکھ پتر" ابا نے اس سے مخاطب ہو کر کہا تھا"
ہمارے خاندان کی ریت ہے کہ شادی سے پہلے بیٹیاں اپنی جائیداد سے دستبرداری کرتی ہیں لے پتر تو بھی اس کاغذ پر سائن کردے۔" اور پھر اس سے دستبرداری کے کاغذات پر دستخط کروا لیے گئے تھے...!!!!
اور اب وہ چپ چاپ کھڑی یہی سوچتی رہ گئی کہ یہ کیسی ریت کیسا رواج ہے کہ بیٹیوں کے گھر کا پانی پینا تو حرام ہے پر ان کی جائیداد کا حصہ ہڑپ کرنا حلال ہے، بہن بیٹیوں کو وراثت میں حصہ دیجئے کیونکہ یہ انسان کا نہیں بلکہ قرآن کا فیصلہ ہے
#ذراسوچیے#


بہنوں بیٹیوں کے گھر کا پانی پینا حرام نہیں ہے
لیکن
بہن بیٹیوں کی جائیداد ہڑپ کر جانا کنفرم حرام ہے

Tuesday 19 November 2019

۔۔بڑے لوگ کیوں بڑے ھوتے ہیں

www.swatsmn.com
۔۔۔۔۔۔بڑے لوگ کیوں بڑے ھوتے ہیں۔۔۔۔۔۔
ایڈسن (Thomas Alva Edison) کو دنیا جانتی ہے کہ انہوں نے الیکٹرک بلب ایجاد کیا
جب وہ ہزارویں تجربہ کے بعد بلب بنانے میں کامیاب ہو گئے اور اسکو لگانے کا وقت آیا تو انہوں نے اپنے آفس کے چپڑاسی کو وہ بلب دیا کہ جاؤ یہ ٹیسٹ کرو۔ وہ لڑکا اتنا نروِس ہوا کہ غلطی سے اس سے بلب گر کر ٹوٹ گیا ۔سب بہت حیران ہوئے
ایڈیسن اگلے دن ایک اور بلب بنا لائے اور اسی لڑکے کو دیا کہ جاؤ یہ بلب ٹیسٹ کرو
بعد میں ساتھیوں نے پوچھا کہ جناب آپ یہ بلب کسی اور کو بھی دے سکتے تھے آپ نے اسی کو کیوں دیا جس سے کل بلب ٹوٹا تھا؟
ایڈیسن نے آبِ زر سے لکھے جانے والا جواب دیا کہ "مجھے ٹوٹے ہوئے بلب کی جگہ نیا بلب بنانے میں 24 گھنٹے لگے لیکن اگر آج میں اسکو بلب نہ دیتا تو شاید اسکی خود اعتمادی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جاتی، جو کہ میں نہیں چاہتا "
بڑے لوگ بظاہر چھوٹے نظر آنے والوں کا بھی خیال رکھا کرتے ہیں، تبھی تو بڑے ہوتے ہیں.
منقول

Friday 15 November 2019

غلطی انسان سے ہوتی ہے جو غلطی نہیں کرتے وہ تو فرشتے ہوتے ہیں۔

www.swatsmn.com

غلطی انسان سے ہوتی ہے جو غلطی نہیں کرتے وہ تو فرشتے ہوتے ہیں۔ عظیم انسان وہ ہے جو اپنے غلطی سے سیکھتا ہے اور اپنے کئے پر انہیں پچھتاوا ہوتا ہے۔ زندگی سے منہ مڑنے کے بجائے اپنی گناہوں سے توبہ کر لیتی ہے اور زندگی ایک نئے سرے سے شروع کر لیتی ہے۔ ہمیں دوسروں کی عیب ڈھونڈنے کے بجائے اپنے گریباں میں بھی جھانکنا چاہئیے یہ خیال کرنا چاہئیے کہ ہم نے اپنی پوری زندگی میں کتنی گناہیں کی ہے اور کتنے خطائیں ہم سے ہوئی ہے اگر اللہ پاک ان سے پردہ ہٹا دے تو ہم پر کیا گزری گی۔یہ تو وہ غفور ورحیم زات ہے جنہوں نے ہماری گناہوں اور خطاوں کو چھپایا ہے اگر ان میں سے ایک گناہ سے بھی پردہ اٹھ گیا تو ہم رہنے کے قابل بھی نہیں رہے گے۔اس لئے دوسروں کی گناہوں اور خطاووں پر تبصرہ کرنے کے بجائے ہمیں اپنی اصلاح بھی کرنی چاہئیے کیونکہ ہم سب اللہ پاک کے گناہ گار اور خطا کار بندے ہیں۔ میں تو اس خاتون کو اپنے آپ سے کئی گناہ اچھا اور عظیم سمجھتا ہو کیونکہ میں ان سے زیادہ گناہ گار ، خطا کار اور انتہائی کمزور ہو ۔اگر ہم سب ایک لمحے کے لئے اپنے گناہوں کو سامنے رکھے اور خیال کرے کہ خدا نخواستہ اس میں ایک بھی عیاں ہو جائے تو ہمارے کیا احساسات اور جذبات ہونگے۔ اس لئے دوسروں کا احساس کرتے ہوئے ان کی زندگیوں کا مزاق نہ اڑایہ کریں اگر آپ کچھ اچھا نہیں کر سکتے تو دوسروں کی برائی سے گریز کریں۔کیونکہ یہ وقت کسی پر بھی آسکتا ہے۔ بس اللہ پاک سے یہی دعا مانگا کریں کہ اللہ پاک ہمارے گناہوں کو اور خطاوں کو تو اپنے ساتھ راز میں رکھیں اور ہمیں کھبی بھی دوسروں کے سامنے ذلیل اور رسوا نہ کرے۔کیونکہ ہمارا معاشرہ پھر جینے نہیں دیتی۔اللہ پاک فرماتے ہیں کہ تم دوسروں کے عیب پر پردہ ڈالو میں تمہارے گناہوں اور خطاوں کو چھپاونگا۔اللہ پاک تمام ماوں، بہنوں، بیٹیوں اور بھائیوں کی عزتیں اور ناموس اپنے حفظ و امان میں رکھیں۔اللہ پاک کسی کو بھی بے پردہ نہ کریں اور ہمیں دوسروں کا احساس اس طرح کرنا چاہئیے جو ہم اپنے لئے سوچتے ہیں کیونکہ زندگی میں احساس ہی وہ عمل ہے جو جینے کا طریقہ سکھاتی ہے ۔ آمین ثمہ آمین ۔۔۔



#RabiPirZada #StayStrong #WeAreBad #YouAreTooGood #StaySafe #Humanity

Thursday 7 November 2019

اس دنیا نے تمھیں نجات نہ دی، حتیٰ کہ تم قبروں میں پہنچ گئے۔

www.swatsmn.com
کہتے ہیں کہ ہارون رشید ؒکا ایک بیٹا تھا
جس کی عمر تقریباً سولہ سال کی تھی۔
وہ بہت کثرت سے
زاہدوں اور بزرگوں کی مجلس میں رہا  کرتا تھا،
اور اکثر قبرستان چلا جاتا،
وہاں جا کر کہتا کہ۔۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 تم لوگ ہم سے پہلے دنیا میں تھے،
دنیا کے مالک تھے،
لیکن اس دنیا نے تمھیں نجات نہ دی،
 حتیٰ کہ تم قبروں میں پہنچ گئے۔
کاش❗
 مجھے کسی طرح خبر ہوتی کہ تم پر کیا گذری ہے اور تم سے کیا کیا سوال و جواب ہوئے ہیں❓
اور اکثر یہ شعر پڑھا کرتا ؎
تَرُوْعُنِيَ الْجَنَائِزُ کُلَّ یَوْ مٍ
وَیَحْزُنُنِيْ بُکَائُ النَّائِحَات
مجھے جنازے ہر دن ڈراتے ہیں
اور مرنے والوں پر رونے والیوں کی آوازیں مجھے غمگین رکھتی ہیں۔

ایک دن،،،،،،،،،،،،
 وہ اپنے باپ ( بادشاہ) کی مجلس میں آیا۔
اس کے پاس وزراء، اُمراء سب جمع تھے اور لڑکے کے بدن پر ایک کپڑا معمولی اور سر پر ایک لنگی بندھی ہوئی تھی۔
 آراکینِ سلطنت آپس میں کہنے لگے کہ
 اس پاگل لڑکے کی حرکتوں نے امیر المؤمنین کو بھی دوسرے بادشاہوں کی نگاہ میں ذلیل کر دیا۔
اگر امیر المؤمنین اس کو تنبیہ کریں تو شاید یہ اپنی اس حالت سے باز آجائے۔
 امیر المؤمنین نے یہ بات سن کر اس سے کہا کہ
 بیٹا❗ تو نے مجھے لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل کر رکھا ہے۔
 اس نے یہ با ت سن کر باپ کو تو کوئی جواب نہیں دیا،
لیکن   '''''''''''''
ایک پرندہ وہاں بیٹھا تھا اس کو کہا کہ
اس ذات کا واسطہ جس نے مجھے پیدا کیا تو میرے ہاتھ پر آکر بیٹھ جا۔
وہ پرندہ وہاں سے اُڑ کر اس کے ہاتھ پر آکر بیٹھ گیا۔
 پھر کہا کہ اب اپنی جگہ پر واپس چلا جا۔
 وہ ہاتھ پر سے اُڑ کر اپنی جگہ چلا گیا۔
اس کے بعد اس نے عرض کیا کہ
ابا جان❗
اصل میں آپ دنیا سے جو محبت کر رہے ہیں اس نے مجھے رسوا کر رکھا ہے۔۔❗
 اب میں نے یہ ارادہ کر لیا ہے کہ آپ سے جدائی اختیار کر لوں۔
 یہ کہہ کر وہاں سے چل دیا
 اور ایک قرآن شریف صرف اپنے ساتھ لیا۔
چلتے ہوئے ماں نے ایک بہت قیمتی انگوٹھی بھی اس کو دے دی (کہ اِحتیاج کے وقت اس کو فروخت کرکے کام میں لائے) وہ یہاں سے چل کر

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بصرہ پہنچ گیا ۔۔۔۔۔۔۔

اور مزدوروں میں کام کرنے لگا۔
 ہفتہ میں صرف ایک دن شنبہ کو مزدوری کرتا اور آٹھ دن تک وہ مزدوری کے پیسے خرچ کرتا اور آٹھویں دن پھر شنبہ کو مزدوری کر لیتا۔
 اور ایک دِرَم اور ایک دانق
 (یعنی دِرَم کا چھٹا حصہ مزدوری لیتا) اس سے کم یا زیادہ نہ لیتا۔ ایک دانق روزانہ خرچ کرتا۔

ابو عامر بصری ؒکہتے ہیں کہ
 میری ایک دیوار گر گئی تھی۔ اس کو بنوانے کے لیے میں کسی معمار کی تلاش میں نکلا۔ (کسی نے بتایا ہوگا کہ یہ شخص بھی تعمیر کا کام کرتا ہے)
میں نے دیکھا کہ نہایت خوبصورت لڑکا بیٹھا ہے، ایک زنبیل پاس رکھی ہے اور قرآن شریف دیکھ کر پڑھ رہا ہے۔
میں نے اس سے پوچھا کہ
لڑکے مزدوری کرو گے❓
 کہنے لگا:
کیوں نہیں ❗کریں گے، مزدوری کے لیے تو پیدا ہی ہوئے ہیں۔ آپ بتائیں کہ کیا خدمت مجھ سے لینی ہے❓
 میں نے کہا: گارے مٹی (تعمیر) کا کام لینا ہے۔
 اس نے کہا کہ ایک دِرَم اور ایک دانق مزدوری ہوگی اور نماز کے اوقات میں کام نہیں کروں گا، مجھے نماز کے لیے جانا ہوگا۔
 میں نے اس کی دونوں شرطیں منظور کر لیں اور اس کو لا کر کام پر لگا دیا۔
مغرب کے وقت جب میں نے دیکھا تو اس نے دس آدمیوں کی بقدر کام کیا۔
 میں نے اس کو مزدوری میں دو دِرَم دیے۔
اس نے شرط سے زائد لینے سے انکار کر دیا،
 اور ایک دِرَم اور ایک دانق لے کر چلا گیا۔

دوسرے دن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں پھر اس کی تلاش میں نکلا۔ وہ مجھے کہیں نہ ملا۔ میں نے لوگوں سے تحقیق کیا کہ ایسی ایسی صورت کا ایک لڑکا مزدوری کیا کرتا ہے، کسی کو معلوم ہے کہ وہ کہاں ملے گا❓
 لوگوں نے بتایا کہ وہ صرف شنبہ ہی کے دن مزدوری کرتا ہے، اس سے پہلے تمھیں کہیں نہیں ملے گا۔
 مجھے اس کے کام کو دیکھ کر ایسی رغبت ہوئی کہ میں نے آٹھ دن کو اپنی تعمیر بند کر دی اور شنبہ کے دن اس کی تلاش کو نکلا۔
 وہ اسی طرح بیٹھا قرآن شریف پڑھتا ہوا ملا۔
 میں نے سلام کیا اور مزدوری کرنے کو پوچھا۔
اس نے وہی پہلی دو شرطیں بیان کیں۔
میں نے منظور کر لیں۔
وہ میرے ساتھ آکر کام میں لگ گیا۔
 مجھے اس پر حیرت ہو رہی تھی کہ پچھلے شنبہ کو اس اکیلے نے دس آدمیوں کا کام کس طرح کر لیا۔
 اس لیے اس مرتبہ میں نے اسی طرح چھپ کر کہ وہ مجھے نہ دیکھے، اس کے کام کرنے کا طریقہ دیکھا،
 ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔تو یہ منظر دیکھا کہ۔۔۔۔۔
 وہ ہاتھ میں گارا لے کر دیوار پر ڈالتا ہے
 اور پتھر اپنے آپ ہی ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے چلے جاتے ہیں۔
مجھے یقین ہو گیا کہ یہ کوئی اللّٰہ کا ولی ہے اور اللّٰہ کے اَولیا کے کاموں کی غیب سے مدد ہوتی ہی ہے۔
 جب شام ہوئی تو میں نے اس کو تین دِرَم دینا چاہے۔ لیکن اس نے لینے سے انکار کر دیا
 کہ میں اتنے دِرَم کیا کروں گا❓اور ایک دِرَم اور ایک دانق لے کر چلا گیا۔
میں نے ایک ہفتہ پھر انتظار کیا
 اور تیسرے شنبہ کو پھر میں اس کی تلاش میں نکلا، مگر وہ مجھے نہ ملا۔
میں نے لوگوں سے تحقیق کیا۔
ایک شخص نے بتایا کہ
وہ تین دن سے بیمار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 فلاں ویرانہ جنگل میں پڑا ہے۔
میں نے ایک شخص کو اجرت دے کر اس پر راضی کیا کہ وہ مجھے اس جنگل میں پہنچا دے۔ وہ مجھے ساتھ لے کر اس جنگل ویران میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بے ہوش پڑا ہے۔
 آدھی اینٹ کاٹکڑا سر کے نیچے رکھا ہوا ہے۔
میں نے اس کو سلام کیا، اس نے جواب نہ دیا۔
میں نے دوسری مرتبہ سلام کیا
 تو اس نے (آنکھ کھولی اور) مجھے پہچان لیا۔
میں نے جلدی سے اس کا سر اینٹ پر سے اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا۔
 اس نے سرہٹالیا اور چند شعر پڑھے
 جن میں سے دو یہ ہیں ؎
یَا صَاحِبِيْ لَا تَغْتَرِرْ بِتَنَعُّمٖ فَالْعُمْرُ یَنْفَدُ وَالنَّعِیْمُ یَزُوْلُ
وَإِذَا حَمَلْتَ إِلَی الْقُبُوْرِ جَنَازَۃً فَاعْلَمْ بِأَنَّکَ بَعْدَھَا مَحْمُول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔           میرے دوست
دنیا کی نعمتوں سے دھوکہ میں نہ پڑ۔
عمر ختم ہوتی جا رہی ہے اور یہ نعمتیں سب ختم ہو جائیں گی۔
 جب تو کو ئی جنازہ لے کر قبرستان میں جائے تو یہ سوچتا رہا کر کہ تیرا بھی ایک دن اسی طرح جنازہ اٹھایا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد اس نے مجھ سے کہا کہ
ابو عامر،❗
 جب میری روح نکل جائے تو مجھے نہلا کر  مجھے میرے اسی کپڑے میں مجھے کفن دے دینا۔
میں نے کہا:
 میرے محبوب ❗اس میں کیا حرج ہے کہ
میں تیرے کفن کے لیے نئے کپڑے لے آ ؤں،❓
 اس نے جواب دیا کہ
 نئے کپڑوں کے زندہ لوگ زیادہ مستحق ہیں۔
 (یہ جواب حضرت ابوبکر صدیقؓ کا جواب ہے۔ انھوں نے بھی اپنے وصال کے وقت یہی فرمائش کی تھی کہ
 میری انہی چادروں میں کفن دے دینا۔ اور جب ان سے نئے کپڑے کی اجازت چاہی گئی تو انھوں نے یہی جواب دیا تھا۔)
 لڑکے نے کہا کہ
 کفن تو (پرانا ہو یا نیا بہر حال) بوسیدہ ہو جائے گا۔
 آدمی کے ساتھ تو صرف اس کا عمل ہی رہتا ہے۔
اور یہ میری لنگی اور لوٹا قبر کھودنے والے کو مزدوری میں دے دینا،
 اور یہ انگوٹھی اور قرآن شریف ہارون رشید تک پہنچا دینا۔ اور اس کا خیال رکھنا کہ خود انہی کے ہاتھ میں دینا
 اور یہ کہہ کر دینا کہ ایک پردیسی لڑکے کی یہ میرے پاس امانت ہے اور وہ آپ سے یہ کہہ گیا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ اسی غفلت اور دھوکہ کی حالت میں آپ کی موت آجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر اس کی روح قفص عنصری سے   پرواز کر گئی ۔۔۔
اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ یہ لڑکا شہزادہ تھا۔
اس کے انتقال کے بعد اس کی وصیت کے مطابق  میں نے اس کو دفن کر دیا،
اور دونوں چیزیں گورکن کو دے دیں،
اور قرآن پاک اور انگوٹھی لے کر

۔۔۔۔۔۔۔ بغداد پہنچا، ،،،،،،،،

اور قصرِ شاہی کے قریب پہنچا تو بادشاہ کی سواری نکل رہی تھی۔
میں ایک اونچی جگہ کھڑا ہو گیا۔
اوّل ایک بہت بڑا لشکر نکلا جس میں تقریباً ایک ہزار گھوڑے سوار تھے۔
 اس کے بعد اسی طرح یکے بعد دیگرے دس لشکر نکلے۔
 ہر ایک میں تقریباً ایک ہزار سوار تھے۔
 دسویں جتھے میں خود امیر المؤمنین بھی تھے۔ میں نے زور سے آواز دے کر کہا کہ
 اے امیر المؤمنین❗
آپ کو حضورِاقدسﷺ کی قرابت رشتہ داری کا واسطہ ،
ذرا سا توقف کر لیجیے۔
میری آواز پر انھوں نے مجھے دیکھا تو میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر کہا کہ
میرے پاس ایک پردیسی لڑکے کی یہ امانت ہے جس نے مجھے یہ وصیت کی تھی کہ یہ دونوں چیزیں آپ تک پہنچادوں۔
بادشاہ نے ان کو دیکھ کر (پہچان لیا)
 تھوڑی دیر سر جھکایا۔
 ان کی آنکھ سے آنسو جاری ہوگئے اور ایک دربان سے کہا کہ اس آدمی کو اپنے ساتھ رکھو، جب میں واپسی پر بلاؤں تو میرے پاس پہنچا دینا۔
جب وہ باہر سے واپسی پر پہنچے تو محل کے پردے گروا کر دربان سے فرمایا:
 اس شخص کو بلا کر لاؤ،
اگرچہ وہ میرا غم تازہ ہی کرے گا۔
دربان میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ
امیر المؤمنین نے بلایا ہے اور اس کا خیال رکھنا کہ امیر پر صدمہ کا بہت اثر ہے۔ اگر تم دس باتیں کرنا چاہتے ہو تو پانچ ہی پر اِکتفا کرنا۔
 یہ کہہ کر وہ مجھے امیر کے پاس لے گیا۔ اس وقت امیر بالکل تنہا بیٹھے تھے۔
مجھ سے فرمایا کہ
میرے قریب آجاو۔
میں قریب جا کر بیٹھ گیا۔
کہنے لگے کہ تم میرے اس بیٹے کو جانتے ہو❓
میں نے کہا: جی ہاں میں ان کو جانتا ہوں۔
کہنے لگے:
 وہ کیا کام کرتا تھا❓
 میں نے کہا:
گارے مٹی کی مزدوری کرتے تھے۔
 کہنے لگے: تم نے بھی مزدوری پر کوئی کام اس سے کرایا ہے❓
 میں نے کہا: کرایا ہے۔
کہنے لگے: تمھیں اس کا خیال نہ آیا کہ
اس کی حضورِ اقدس ﷺ سے قرابت تھی (کہ یہ حضرات حضورﷺ کے چچا حضرت عباس ؓ کی اولاد ہیں)❓
میں نے کہا:
امیر المؤمنین پہلے اللّٰہ سے معذرت چاہتا ہوں،
اس کے بعد آپ سے عذر خواہ ہوں، مجھے اس وقت اس کا علم ہی نہ تھا کہ یہ کون ہیں❓
 مجھے ان کے انتقال کے وقت ان کا حال معلوم ہوا۔ کہنے لگے کہ
 تم نے اپنے ہاتھ سے اس کو غسل دیا❓
میں نے کہا کہ جی ہاں۔
کہنے لگے: اپنا ہاتھ لاو۔
میرا ہاتھ لے کر اپنے سینہ پر رکھ دیا اور
چند شعر پڑھے جن کا ترجمہ یہ ہے:۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے وہ مسافر جس پر میرا دل پگھل رہا ہے اور میری آنکھیں اس پر آنسو بہا رہی ہیں❗
اے وہ شخص جس کا مکان (قبر) دور ہے، لیکن اس کا غم میرے قریب ہے❗
 بے شک موت ہر اچھے سے اچھے عیش کو مکدر کر دیتی ہے۔
 وہ مسافر ایک چاند کا ٹکڑا تھا
(یعنی اس کا چہرہ) جو خالص چاندی کی ٹہنی پر تھا( یعنی اس کے بدن پر)۔ پس چاند کا ٹکڑا بھی قبر میں پہنچ گیا اور چاندی کی ٹہنی بھی قبر میں پہنچ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد ہارون رشید ؒنے بصرہ اس کی قبر پر جانے کا ارادہ کیا، ابو عامر ؒ ساتھ تھے۔ اس کی قبر پر پہنچ کر
 ہارون رشید نے چند شعر پڑھے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔جن کا ترجمہ یہ ہے:
اے وہ مسافر جو اپنے سفر سے کبھی بھی نہ لوٹے گا❗
 موت نے کم عمری کے ہی زمانہ میں اس کو جلدی سے اُچک لیا۔
 اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک ❗تو میرے لیے انس اور دل کا چین تھا، لمبی  راتوں میں بھی اور مختصر راتوں میں بھی۔
تُو نے موت کا وہ پیالہ پیا ہے جس کو عنقریب تیرا بوڑھا باپ بڑھاپے کی حالت میں پئیے گا۔
 بلکہ دنیا کا ہر آدمی اس کو پئیے گا، چاہے وہ جنگل کا رہنے والا ہو یا شہر کا رہنے والا ہو۔
 پس سب تعریفیں اسی وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ کے لیے ہیں جس کی لکھی ہوئی تقدیر کے یہ کرشمے ہیں۔

ابو عامر ؒکہتے ہیں کہ
 اس کے بعد جو رات آئی تو جب میں اپنے وظائف پورے کرکے لیٹا ہی تھا کہ
میں نے خواب میں۔۔۔۔۔۔۔۔
 ایک نور کا قبہ دیکھا جس کے اوپر اَبر کی طرح نور ہی نور پھیل رہا ہے۔
اس نور کے اَبر میں سے اس لڑکے نے مجھے آواز دے کر کہا:
 ابو عامر❗
تمھیں حق تعالیٰ شانہٗ جزائے خیر عطا فرمائے ( تم نے میری تجہیز و تکفین کی اور میری وصیت پوری کی)۔
 میں نے اس سے پوچھا کہ میرے پیارے❗ تیرا کیا حال گزرا❓
کہنے لگا کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
میں ایسے مولیٰ کی طرف پہنچا ہوں جو بہت کریم ہے اور مجھ سے بہت راضی ہے۔
مجھے اس مالک نے وہ چیزیں عطا کیں جو نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھیں، نہ کان نے سنیں، نہ کسی آدمی کے دل پر ان کا خیال گزرا۔

(یہ ایک مشہور حدیثِ پاک کا مضمون ہے۔ حضورِاقدسﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ
 اللّٰہ کا پاک ارشاد ہے کہ
میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں جو نہ کسی آنکھ نے کبھی دیکھیں، نہ کان نے سنیں، نہ کسی کے دل پر ان کا خیال گزرا)
حضرت عبداللّٰہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ
 تورات میں لکھا ہے کہ حق تعالیٰ شانہٗ نے ان لوگوں کے لیے جن کے پہلو رات کو خواب گاہوں سے دور رہتے ہیں (یعنی تہجد گذاروں کے لیے) وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کان نے سنا، نہ کسی آدمی کے دل پر ان کا خیال گذرا، نہ ان کو کوئی مقرب فرشتہ جانتا ہے، نہ کوئی نبی رسول جانتا ہے۔
 اور یہ مضمون قرآنِ پاک میں بھی ہے:
{ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ} (السجدہ)📖⁦❤⁩🌹
کسی شخص کو خبر نہیں جو جو آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ایسے لوگوں کے لیے خزانۂ غیب میں موجود ہے۔ (دُرِّمنثور)

اس کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 اس لڑکے نے کہا کہ
 حق تعالیٰ شانہٗ نے قسم کھا کر فرمایا ھے کہ جو بھی دنیا سے اس طرح نکل آئے جیسا میں نکل آیا،
 اس کے لیے یہی اِعزاز اور اِکرام ہیں جو میرے لیئے ہیں۔۔

MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan EXTED.pk

Admission open  MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan   http://facebook.com/ exted.p k http://www.exted.pk/ Lowest Fee ,   No IELTS...