www.swatsmn.com
اپنی شناخت کیسے تلاشنی چاہے
----------------------
جن قوموں سے ان کی تاریخی یاداشت چھین لی جاتی ہے اور ان کو زیر کرنے والا ان کو ایک نئی یاداشت دینے کی کوشش کرتا ہے تو یہ قوم محکوم ہوجاتی ہے۔ پھر محکومی کے شروع کی ایک دو نسلوں کے بعد یہ قوم اپنی یاداشت مکمل طور پر کھو دیتی ہے۔ وہ وہی شناخت، وہی زبان، وہی کلچر، وہی طور طریقے اور وہی سماجی نظام اپنانے لگتی ہے جو ان کو زیر کرنے والوں نے دی ہو۔
ایسا ہر دور میں ہوا ہے اور یہ برطانوی، فرانسسی یا پرتیگیزی نوابادیت اسی تاریخی عمل کے انتاہی نکتے ہیں۔ شمالی پاکستان میں بستی قوموں کے ساتھ یہ عمل دسویں صدی میں زور و شور سے جاری رہا۔ اسکا نکتہ عروج سولہویں صدی رہی اور اگلے ایک ادھ صدی میں یہاں بسنے والی قوموں کی تاریخی یاداشتیں ختم ہوگئیں۔ ان یاداشتوں میں اب اگر کوئی چیز باقی بچی ہے تو وہ ان کی زبانیں ہیں جو مکمل طور پر زبانی یعنی بولیاں رہیں۔ مگر اس زبانی ادب و تاریخ کے کچھ حصّے سینہ بہ سینہ دوسری نسلوں تک منتقل ہوتے رہے جس کو جدید علوم نے ایک کمتر نام ”لوک ادب یا ورثہ“ (فوک لور) کا نام دیا۔
اگر اپ نے اپنی کلتوری شناخت کو کھوجنا ہے تو اس لوک ادب و ورثہ پر تحقیق کریں۔ جھٹ سے کسی چیز کو جھٹلانا یا اپنے تعصب پر مبنی کوئی نظریہ گھڑنا مناسب عمل نہیں۔ اس سے چند لوگوں کو گمراہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن مختصر وقت تک اور وہ بھی ایک بھیانک نقصان پر منتج ہوتا ہے۔ ہاں یہ بات بھی پہلو میں باندھ کر رکھیں کہ کسی ایک شناخت پر اڑنا نفرتیں پیدا کرتا ہے اور اس سے انسانوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ ہٹلر ایک شناخت پر اترایا اور دنیا کا انجام ہم سب نے دیکھ لیا۔ اجکل جرمنی میں خود کو اریہ کہو تو جرمنیوں کا ردعمل شدید ہوتا ہے۔
شناخت کا عمل زماں و مکاں یعنی Temporal and territorial دونوں سے نبرزازما ہوتا ہے۔ اس کا تعلق فرد کی نفسیات، شخصیت اور سماجی و سیاسی عوامل سے بھی گہرا ہوتا ہے۔
ہندوکش ہو یا قراقرم و پامیر یا ہمالیہ؛ سندھ کا صحرا ہو یا اسٹرالیا کی پہاڑیاں؛ امریکوں کی قدیم ابادیاں ہوں یا ہندوستان کا جنوب؛ افغانستان کا بدخشان ہو یا درہ نور کی وادیاں۔ غرض سب جگہ مقامی لوگ خود کو ”قوم“ کہتے ہیں۔ ”برادری“، ”ایتھنی“، ”قبائل“(Community, ethnie, tribes) وغیرہ الفاظ نوابادیاتی مطالعات کی اصطلاحات ہیں۔
متحدہ ہندوستان میں ایسے مطالعات نے ”قومیت“ کی بنیاد قومیت کی فقط ایک ذریعہ ”عقیدے“ پر رکھ کر اس کا بیڑا غرق کردیا۔ اس دو قومی نظریے نے دوسری قوموں کے وجود سے انکار کردیا اور یوں قومیت کی جنگ ہنوز جاری ہے۔ اس نوابادیاتی مطالعات میں ”قوم اور ریاست“ کا نظریہ پیش کیا گیا کہ اس یورپی سیاسی نظریے میں قوم ریاست کے بغیر نہیں بن سکتی۔ وہاں دو ”قومیں“ وجود میں لائی گئیں۔ ایک ”قوم“ نے کہا ہم قوم ہے اب ہمیں ریاست کی ضرورت ہے۔ مگر حالات ک
ی ستم ظریفی دیکھیں جب ریاست مل گئی تو گزشتہ 72 سالوں سے یہی ریاست ایک ”قوم“ کی تلاش میں ہے اور اس کو یہ ”قوم“ نہیں مل رہی بلکہ اسی ”قوم“ کا ایک اکثریتی حصّہ الگ بھی ہوا۔ قوم سازی کے اسی منصوبے کے لیے ایک ”دیگر“ یعنی دشمن کو تراشا گیا۔ کلتوری و تاریخی روایات کو غیر فطری طور پر سرسید احمد خان اور سید احمد سرہندی کے زمانے سے پیچھے جانے سے روک دیا گیا۔ ایک قوم بنانے کے اس غیر فطری منصوبے نے ایک ایسی تعلیم ٹھونسنے کی کوشش کی کہ جس سے یہاں بسنے والوں کی تاریخی یاداشتیں جو مہرگڑھ، مہنجوداڑو، گندھارا اور ہڑپہ سے جڑی تھیں کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔ ایسے میں ہم جیسی چھوٹی قوموں کو معلق چھوڑ دیا گیا اور ہم ہنوز ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں کہ ہماری شناخت کیا ہے۔ کسی نے ایک ادھ کتاب پڑھی اور اس سے نتائج اخذ کیے۔ کسی نے سرے سے کتاب ہی نہیں پڑھی اور اس پر اکتفا کیا کہ ہم خود کو کیا کہتے ہیں۔
کسی قوم پر اپنی مرضی کی کوئی شناخت ٹھونسنے سے بہتر ہے کہ اس قوم کو علمی، معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر مضبوط کیا جائے۔ جب اسے یہ مضبوطی میسّر ہو تو وہ خود کو کوئی شناخت دینے اور پھر اسے اپنے مجموعی فہم و فراست کے ذریعے قائم رکھ سکے گی اور ساتھ اس کے مضر اثرات سے خود کو بچانے کی طاقت بھی حاصل کرسکے گی۔ محض نعروں اور کھوکھلے نظریات سازی سے قوم طاقت ور نہیں بن سکتی ورنہ پاکستان کی یہ حالت نہ ہوتی۔
شناخت پر تحقیق و فکر ہونی چاہے۔ اپنی لوک ادب و ورثہ پر تحقیق ہونی چاہے۔ شناخت کی تلاش کرنی چاہے لیکن ساتھ یہ بھی ذہین میں رکھنا ضروری ہے کہ شناخت کوئی ساکت چیز نہیں کہ ایک جگہ ٹھر جائے۔ ہم ایک کثیرالشناختی دور میں رہ رہے ہیں۔ ایک فرد کی کئی شناختیں ہوسکتی ہیں۔ کسی ایک شناخت پر زور دینا بقائے باہمی کے لیے ذہر ثابت ہوتا ہے۔ زبیرتروالی
اپنی شناخت کیسے تلاشنی چاہے
----------------------
جن قوموں سے ان کی تاریخی یاداشت چھین لی جاتی ہے اور ان کو زیر کرنے والا ان کو ایک نئی یاداشت دینے کی کوشش کرتا ہے تو یہ قوم محکوم ہوجاتی ہے۔ پھر محکومی کے شروع کی ایک دو نسلوں کے بعد یہ قوم اپنی یاداشت مکمل طور پر کھو دیتی ہے۔ وہ وہی شناخت، وہی زبان، وہی کلچر، وہی طور طریقے اور وہی سماجی نظام اپنانے لگتی ہے جو ان کو زیر کرنے والوں نے دی ہو۔
ایسا ہر دور میں ہوا ہے اور یہ برطانوی، فرانسسی یا پرتیگیزی نوابادیت اسی تاریخی عمل کے انتاہی نکتے ہیں۔ شمالی پاکستان میں بستی قوموں کے ساتھ یہ عمل دسویں صدی میں زور و شور سے جاری رہا۔ اسکا نکتہ عروج سولہویں صدی رہی اور اگلے ایک ادھ صدی میں یہاں بسنے والی قوموں کی تاریخی یاداشتیں ختم ہوگئیں۔ ان یاداشتوں میں اب اگر کوئی چیز باقی بچی ہے تو وہ ان کی زبانیں ہیں جو مکمل طور پر زبانی یعنی بولیاں رہیں۔ مگر اس زبانی ادب و تاریخ کے کچھ حصّے سینہ بہ سینہ دوسری نسلوں تک منتقل ہوتے رہے جس کو جدید علوم نے ایک کمتر نام ”لوک ادب یا ورثہ“ (فوک لور) کا نام دیا۔
اگر اپ نے اپنی کلتوری شناخت کو کھوجنا ہے تو اس لوک ادب و ورثہ پر تحقیق کریں۔ جھٹ سے کسی چیز کو جھٹلانا یا اپنے تعصب پر مبنی کوئی نظریہ گھڑنا مناسب عمل نہیں۔ اس سے چند لوگوں کو گمراہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن مختصر وقت تک اور وہ بھی ایک بھیانک نقصان پر منتج ہوتا ہے۔ ہاں یہ بات بھی پہلو میں باندھ کر رکھیں کہ کسی ایک شناخت پر اڑنا نفرتیں پیدا کرتا ہے اور اس سے انسانوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ ہٹلر ایک شناخت پر اترایا اور دنیا کا انجام ہم سب نے دیکھ لیا۔ اجکل جرمنی میں خود کو اریہ کہو تو جرمنیوں کا ردعمل شدید ہوتا ہے۔
شناخت کا عمل زماں و مکاں یعنی Temporal and territorial دونوں سے نبرزازما ہوتا ہے۔ اس کا تعلق فرد کی نفسیات، شخصیت اور سماجی و سیاسی عوامل سے بھی گہرا ہوتا ہے۔
ہندوکش ہو یا قراقرم و پامیر یا ہمالیہ؛ سندھ کا صحرا ہو یا اسٹرالیا کی پہاڑیاں؛ امریکوں کی قدیم ابادیاں ہوں یا ہندوستان کا جنوب؛ افغانستان کا بدخشان ہو یا درہ نور کی وادیاں۔ غرض سب جگہ مقامی لوگ خود کو ”قوم“ کہتے ہیں۔ ”برادری“، ”ایتھنی“، ”قبائل“(Community, ethnie, tribes) وغیرہ الفاظ نوابادیاتی مطالعات کی اصطلاحات ہیں۔
متحدہ ہندوستان میں ایسے مطالعات نے ”قومیت“ کی بنیاد قومیت کی فقط ایک ذریعہ ”عقیدے“ پر رکھ کر اس کا بیڑا غرق کردیا۔ اس دو قومی نظریے نے دوسری قوموں کے وجود سے انکار کردیا اور یوں قومیت کی جنگ ہنوز جاری ہے۔ اس نوابادیاتی مطالعات میں ”قوم اور ریاست“ کا نظریہ پیش کیا گیا کہ اس یورپی سیاسی نظریے میں قوم ریاست کے بغیر نہیں بن سکتی۔ وہاں دو ”قومیں“ وجود میں لائی گئیں۔ ایک ”قوم“ نے کہا ہم قوم ہے اب ہمیں ریاست کی ضرورت ہے۔ مگر حالات ک
ی ستم ظریفی دیکھیں جب ریاست مل گئی تو گزشتہ 72 سالوں سے یہی ریاست ایک ”قوم“ کی تلاش میں ہے اور اس کو یہ ”قوم“ نہیں مل رہی بلکہ اسی ”قوم“ کا ایک اکثریتی حصّہ الگ بھی ہوا۔ قوم سازی کے اسی منصوبے کے لیے ایک ”دیگر“ یعنی دشمن کو تراشا گیا۔ کلتوری و تاریخی روایات کو غیر فطری طور پر سرسید احمد خان اور سید احمد سرہندی کے زمانے سے پیچھے جانے سے روک دیا گیا۔ ایک قوم بنانے کے اس غیر فطری منصوبے نے ایک ایسی تعلیم ٹھونسنے کی کوشش کی کہ جس سے یہاں بسنے والوں کی تاریخی یاداشتیں جو مہرگڑھ، مہنجوداڑو، گندھارا اور ہڑپہ سے جڑی تھیں کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔ ایسے میں ہم جیسی چھوٹی قوموں کو معلق چھوڑ دیا گیا اور ہم ہنوز ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں کہ ہماری شناخت کیا ہے۔ کسی نے ایک ادھ کتاب پڑھی اور اس سے نتائج اخذ کیے۔ کسی نے سرے سے کتاب ہی نہیں پڑھی اور اس پر اکتفا کیا کہ ہم خود کو کیا کہتے ہیں۔
کسی قوم پر اپنی مرضی کی کوئی شناخت ٹھونسنے سے بہتر ہے کہ اس قوم کو علمی، معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر مضبوط کیا جائے۔ جب اسے یہ مضبوطی میسّر ہو تو وہ خود کو کوئی شناخت دینے اور پھر اسے اپنے مجموعی فہم و فراست کے ذریعے قائم رکھ سکے گی اور ساتھ اس کے مضر اثرات سے خود کو بچانے کی طاقت بھی حاصل کرسکے گی۔ محض نعروں اور کھوکھلے نظریات سازی سے قوم طاقت ور نہیں بن سکتی ورنہ پاکستان کی یہ حالت نہ ہوتی۔
شناخت پر تحقیق و فکر ہونی چاہے۔ اپنی لوک ادب و ورثہ پر تحقیق ہونی چاہے۔ شناخت کی تلاش کرنی چاہے لیکن ساتھ یہ بھی ذہین میں رکھنا ضروری ہے کہ شناخت کوئی ساکت چیز نہیں کہ ایک جگہ ٹھر جائے۔ ہم ایک کثیرالشناختی دور میں رہ رہے ہیں۔ ایک فرد کی کئی شناختیں ہوسکتی ہیں۔ کسی ایک شناخت پر زور دینا بقائے باہمی کے لیے ذہر ثابت ہوتا ہے۔ زبیرتروالی