Tuesday 28 January 2020

اپنے بابا کے نام کھلا خط ، انیقہ

www.swatsmn.com

میرے پیارے بابا☹️
یہاں وقت کا پتہ نہیں لگتا پر سنا ہے ایک سال گذر گیا ہے۔ پر میں ایک پل کو بھی اس دن کو بھولی نہیں ہوں۔ پتہ ہے اس دن میں بہت خوش تھی کہ آج میں اپنے بابا کو اپنے ہاتھ سے روٹی بنا کر کھلاؤں گی اور مجھے اس بات کا یقین بھی تھا کہ آپ میری اس کوشش کی بہت تعریف کریں گے، میرے ماتھے کو بوسہ دیں گے، میرے ہاتھوں کو پکڑ کر کبھی اپنے رخسار سے لگائیں گے اور کبھی اپنے آنکھوں پر رکھ کر میرے اس کارنامے کی تعریف کریں گے، میری ہتیھلی پر دس بیس کا نوٹ رکھ کر کہیں گے کہ جا اپنی من پسند چیز کھا لے اور میں آپ کی اس شاباش سے خوشی سے پھولے نہ سماؤں گی۔👍
ابھی یہ سپنا دیکھا ہی تھا کہ آپ نے دروازے پر زور زور سے دستک دی، اس دستک کے سنتے ہی کچھ دل دہل سا گیا، ایک انجانا خوف سا دل میں ہوا، دروازہ کھولتے ہی آپ کو سلام کیا مگر بابا آپ نے مجھے سلامتی کی دعا نہ دی اور میں اپنی موت کا سبب بنے والی روٹی پکانے کو بھاگی، میرے ہاتھوں سے پکی روٹی آپا آپ کو دے کر ہی آئی تھی کہ آپ کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ یہ وہ آواز تھی جس کا مجھے انتظار تھا مگر اس آواز میں شہد کی شیرینی نہ تھی بلکہ اس میں غصے کی شدید کڑواہٹ تھی۔

میں بھاگی بھاگی سہمے دل کے ساتھ آپ کے پاس آئی تو آپ غصے سے بے قابو ہو رہے تھے، آپ کا چہرہ شعلے برسا رہا تھا، جس کی تپش مجھے دور تک محسوس ہو رہی تھی، آپ مجھ سے نالاں تھے کہ میں نے آپ کو گول روٹی پکا کر نہیں دی، مگر بابا میری عمر تو صرف بارہ سال تھی، جس وقت میں نے آپ کے لئے روٹی پکائی اس وقت میری کچھ ہم جولیاں درختوں پر جھولا ڈالے جھولا جھول رہی تھیں اور کچھ گلی محلے میں اپنے بہن بھائی اور دوستوں کے ساتھ کھیل میں مصروف تھیں اور میں اپنے بابا کو خوش کرنے کے لئے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے روٹی توے پر ڈال رہی تھی۔
مجھے کیا معلوم تھا کہ آپ خوش ہونے کی بجائے اتنے خفا ہو جائیں گے کہ آپ میرے اوپر ڈنڈوں کی برسات ہی کر دیں گے، اس وقت میں نے سوچا کاش بابا میں نے آپ کو خوش کرنے کے لئے یہ روٹی نہ پکائی ہوتی، لیکن اس سوچ کے آتے ہی میں نے یہ شکر کیا کہ یہ روٹی میں نے ہی پکائی تھی، ورنہ آج میری جگہ آپا یہ ڈنڈے کھا رہی ہوتیں اور ہر ایک ڈنڈے پر آپ سے معافی کی طلبگار ہوتیں، شکر ہے آپا تم اس کرب اور تکلیف سے بچ گئیں۔
بابا میں موت کو گلے لگاتے یہ سوچ رہی تھی کہ آپ تو میرے پیارے بابا ہو، آپ مجھے اس دنیا میں لانے کا سبب بنے ہو، آپ میری موت کی وجہ کیسے بن سکتے ہو، بابا میں نے کوئی ایسی خطا تو نہ کی تھی کہ جس کی سزا مجھے اتنی بھیانک دی گئی۔ ایک روٹی ہی تو تھی جس کے گول ہونے یا نہ ہونے سے پیٹ کے ایندھن کو کیا فرق پڑتا، کاش بابا میں اماں کی طرح آپ سے روٹھ کر اماں کے ساتھ چلی جاتی تو میں اس اذیت ناک موت سے بچ جاتی۔

ڈنڈے کی ہر ضرب پر یہ خیال آیا کہ شاید اس بار آپ کا دل لرزے گا، آپ کا ہاتھ کانپے گا مگر ہر بار ضرب کاری سے کاری ہوتی چلی گی، سر پر ڈنڈے برسانے کی وجہ سے مجھے ایسا لگا کہ میرا دماغ مفلوج ہوتا جا رہا ہے مگر اس مفلوج دماغ کے ساتھ بھی مجھے یہ اُمید تھی کہ آپ مجھ پر رحم کرو گے کیوں کہ آپ میرے بابا جان تھے، میرے اچھے بابا تھے، مگر میرے یقین کو آپ نے بے یقینی میں بدل ڈالا۔
میں نے تو یہ سن رکھا تھا کہ ماں باپ بچوں کو تکلیف میں دیکھ کر بوکھلا جاتے ہیں، ان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں، ان میں سوچنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، ان کے دماغ کام کرنا بند کر دیتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ آپ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہوگا، ڈنڈے برسانے کی وجہ سے میرے سر سے جو خون بہنے لگا تھا تو آپ میرے خون کو دیکھ کر گھبرا گئے ہوں گے اور جس وقت آپ نے اپنی لاڈلی کے سر سے خون بہتے دیکھا تو آپ کا دماغ بھی مفلوج ہوگیا ہوگا، آپ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہوں گے، ہے نا بابا؟، کہو نا بابا، ایسا ہی ہوا تھا۔ بابا اگر آپ نے یہ نہ کہا تو میں ایک بار پھر سے مرجاؤں گی۔ ایک بار صرف ایک بار کہہ دیں بابا، اگر یہ جھوٹ بھی ہے تو آپ کو میری قسم آپ سچ مت بولنا۔
مجھے آپ سے صرف ایک گلہ ہے، مجھے بتائیں کیا میں آپ سے بہت فرمائشیں کرتی تھیں، چند کپڑے اور دو وقت کی روٹی ہی تو مانگتی تھی، اس کے علاوہ تو کسی چیز کی فرمائش کبھی نہ کی تھی، باپ تو اپنی بیٹی کو رخصت کرتے وقت دنیا جہان کی دولت اس پر نچھاور کرتے ہیں، ان کے بن مانگے، بن کہے ان کی ہر خواہش پوری کرتے ہیں اور آپ نے، آپ نے بابا میری لاش کو بے کفن بے یارو مددگار مردہ خانے کے باہر چھوڑ دیا۔ میں لاوارث نہیں تھی میں آپ کی سگی بیٹی تھی، میں تو آپ کا اپنا خون تھی، کیوں بابا آپ نے ایسا کیوں کیا؟
اس کے باوجود بابا آپ اب بھی مجھے بہت پیارے ہو، جان سے پیارا کہہ نہیں سکتی کیونکہ اب میرے جسم سے جان نکل چکی ہے، لیکن میرا آپ سے وعدہ ہے جب آپ اس دنیا میں آؤ گے تو میں آپ کے لئے ڈھیر ساری گول روٹیاں پکاؤں گی۔ عدالت نے ایک سال کے بعد آپ کو سزائے موت سنا دی ہے۔ مجھے اب آپ کا انتظار ہے مگر بابا، یہاں سارے کہتے ہیں آپ جنت کے دروازے کو پار نہیں کر سکو گے۔ میں کیا کروں بابا، یہ وعدہ پورا نہیں ہو پائے گا۔ ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا
تمہاری لاڈلی
انیقہ خالد😭

Monday 13 January 2020

میں نہ کہتا تھا کہ پوچھتے سب ہیں مداوا کوئی نہیں کرتا۔

www.swatsmn.com
حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ آپ نے پہلی دفعہ حضور نبی کریم (ص) کو کیسے دیکھا؟
بلال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مکے کے لوگوں کو بہت ہی کم جانتا تھا۔ کیونکہ غلام تھا اور عرب میں غلاموں سے انسانیت سوز سلوک عام تھا، انکی استطاعت سے بڑھ کے ان سے کام لیا جاتا تھا تو مجھے کبھی اتنا وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ باہر نکل کے لوگوں سے ملوں، لہذا مجھے حضور پاک یا اسلام یا اس طرح کی کسی چیز کا قطعی علم نہ تھا۔
ایک دفعہ کیا ہوا کہ مجھے سخت بخار نے آ لیا۔ سخت جاڑے کا موسم تھا اور انتہائی ٹھنڈ اور بخار نے مجھے کمزور کر کے رکھ دیا، لہذا میں نے لحاف اوڑھا اور لیٹ گیا۔ ادھر میرا مالک جو یہ دیکھنے آیا کہ میں جَو پیس رہا ہوں یا نہیں، وہ مجھے لحاف اوڑھ کے لیٹا دیکھ کے آگ بگولا ہو گیا۔ اس نے لحاف اتارا اور سزا کے طور پہ میری قمیض بھی اتروا دی اور مجھے کھلے صحن میں دروازے کے پاس بٹھا دیا کہ یہاں بیٹھ کے جَو پیس۔
اب سخت سردی، اوپر سے بخار اور اتنی مشقت والا کام، میں روتا جاتا تھا اور جَو پیستا جاتا تھا۔ کچھ ہی دیر میں دروازے پہ دستک ہوئی، میں نے اندر آنے کی اجازت دی تو ایک نہائت متین اور پر نور چہرے والا شخص اندر داخل ہوا اور پوچھا کہ جوان کیوں روتے ہو؟
جواب میں میں نے کہا کہ جاؤ اپنا کام کرو، تمہیں اس سے کیا میں جس وجہ سے بھی روؤں، یہاں پوچھنے والے بہت ہیں لیکن مداوا کوئی نہیں کرتا۔
قصہ مختصر کہ بلال نے حضور کو کافی سخت جملے کہے۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ جملے سن کے چل پڑے، جب چل پڑے تو بلال نے کہا کہ بس؟ میں نہ کہتا تھا کہ پوچھتے سب ہیں مداوا کوئی نہیں کرتا۔۔
حضور یہ سن کر بھی چلتے رہے۔۔ بلال کہتے ہیں کہ دل میں جو ہلکی سی امید جاگی تھی کہ یہ شخص کوئی مدد کرے گا وہ بھی گئی۔ لیکن بلال کو کیا معلوم کہ جس شخص سے اب اسکا واسطہ پڑا ہے وہ رحمت اللعالمین ہے۔
بلال کہتے ہیں کہ کچھ ہی دیر میں وہ شخص واپس آ گیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا پیالہ اور دوسرے میں کھجوریں تھیں۔ اس نے وہ کھجوریں اور دودھ مجھے دیا اور کہا کھاؤ پیو اور جا کے سو جاؤ۔
میں نے کہا تو یہ جَو کون پیسے گا؟ نہ پِیسے تو مالک صبح بہت مارے گا۔ اس نے کہا تم سو جاؤ یہ پسے ہوئے مجھ سے لے لینا۔۔
بلال سو گئے اور حضور نے ساری رات ایک اجنبی حبشی غلام کے لئے چکی پیسی۔
صبح بلال کو پسے ہوئے جو دیے اور چلے گئے۔ دوسری رات پھر ایسا ہی ہوا، دودھ اور دوا بلال کو دی اور ساری رات چکی پیسی۔۔ ایسا تین دن مسلسل کرتے رہے جب تک کہ بلال ٹھیک نہ ہو گئے۔۔
یہ تھا وہ تعارف جس کے بطن سے اس لافانی عشق نے جنم لیا کہ آج بھی بلال کو صحابی ءِ رسول بعد میں، عاشقِ رسول پہلے کہا جاتا ہے۔
وہ بلال جو ایک دن اذان نہ دے تو خدا تعالی سورج کو طلوع ہونے سے روک دیتا ہے، اس نے حضور کے وصال کے بعد اذان دینا بند کر دی کیونکہ جب اذان میں ’أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘ تک پہنچتے تو حضور کی یاد میں ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور زار و قطار رونے لگتے تھے۔
ایثار اور اخوت کا یہ جذبہ اتنا طاقتور ہے۔
اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔۔ آمین
دوستو...!!!چلتے، چلتے ہمیشہ کی طرح وہ ہی ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کہ اگر کبھی کوئی ویڈیو، قول، واقعہ، کہانی یا تحریر وغیرہ اچھی لگا کرئے تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے، یقین کیجئے کہ اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردا تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو ....!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔....

ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے مرے دل پر

www.swatsmn.com
تمہارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے
کوئی بھی لفظ لکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تری یادوں کی خوشبو کھڑکیوں میں رقص کرتی ہے
ترے غم میں سلگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
میں ہنس کے جھیل لیتا ہوں جدائی کی سبھی رسمیں
گلے جب اس کے لگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
نہ جانے ہو گیا ہوں اس قدر حساس میں کب سے
کسی سے بات کرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
وہ سب گزرے ہوئے لمحے مجھ کو یاد آتے ہیں
تمہارے خط جو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
میں سارا دن بہت مصروف رہتا ہوں مگر جونہی
قدم چوکھٹ پہ رکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ہر اک مفلس کے ماتھے پر الم کی داستانیں ہیں
کوئی چہرہ بھی پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
بڑے لوگوں کے اونچے بدنما اور سرد محلوں کو
غریب آنکھوں سے تکتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ترے کوچے سے اب مرا تعلق واجبی سا ہے
مگر جب بھی گزرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے مرے دل پر
وصی میں جب بھی ہنستا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں . . . .
وصی شاہ

Wednesday 1 January 2020

میں تو کچھ بھی نہیں

www.swatsmn.com
آپ نہ جانے مجھ کو سمجھتے ہیں کیا؟
میں تو کچھ بھی نہیں
اس قدر پیار، اتنی بڑی بھیڑ کا

میں رکھوں گا کہاں؟
اس قدر پیار رکھنے کے قابل نہیں
میرا دل، میری جاں
مجھ کو اتنی محبت نہ دو دوستو
سوچ لو دوستو!
اس قدر پیار کیسے نبھاؤں گا میں
میں تو کچھ بھی نہیں
عزتیں، شہرتیں، چاہتیں، الفتیں
کوئی بھی چیز دنیا میں رہتی نہیں
آج میں ہوں جہاں، کل کوئی اور تھا
یہ بھی اک دور ہے، وہ بھی اک دور تھا
آج اتنی محبت نہ دو دوستو
کہ میرے کل کی خاطر نہ کچھ بھی بچے
آج کا پیار تھوڑ ا بچا کر رکھو
میرے کل کے لئے
کل جو گمنام ہے، کل جو سنسان ہے
کو جل انجان ہے، کل جو ویران ہے
میں تو کچھ بھی نہیں
میں تو کچھ بھی نہیں

MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan EXTED.pk

Admission open  MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan   http://facebook.com/ exted.p k http://www.exted.pk/ Lowest Fee ,   No IELTS...