Sunday 22 December 2019

تمہارے لئے ایک خط چھوڑ گئی ھے

www.swatsmn.com
میں اور میری ماں ایک متوسط سے گھر میں رھتے تھے ۔۔ میرے والد فوت ھو چکے تھے ۔
لہزا زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے میری ماں ۔۔ کو سکول کی کینٹین میں صبح سے لیکر سکول بند ھونے تک سخت کام کرنا پڑتا تھا ۔۔ میری ماں کے کپڑے بھی کوئی اتنےاچھے نہ ھوتے تھے ۔۔ یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں تھی ۔۔ کیونکہ مجھے اپنی ماں سے کسی اور بات پر سخت نفرت تھی وہ یہ کہ میری ماں کی ایک آنکھ نہیں تھی ۔۔ جس سے مجھے میری ماں بالکل بھی اچھی نہیں لگتی تھی ۔۔ اور دوسری طرف سکول کے بچے بھی مجھے اکثر کہتے تمہاری ماں ایک آنکھ سے کانی ھے ۔۔ جس سے میری نفرت میں اور اضافہ ھوتا ۔۔ جبکہ میری ماں مجھ سے بےحد پیار کرتی اور پڑھائی کے معاملے میں ھر وہ سہولت مہیا کرتی جو دوسرے بچوں کو حاصل تھیں ۔۔ مگر میں نے آپنی ماں سے ھمیشہ نفرت کی ۔۔ خیر میں تعلیم حاصل کرتا گیا ۔۔ ایک وقت آیا کہ میں کالج کے بعد یونیورسٹی اور پھر کورس کے لئے سنگاپور چلا گیا ۔۔ اور میری ماں جیسے کیسے میر ا خرچہ برداشت کرتی رھی ۔۔ لیکن میری نفرت باقاعدہ برقرار رھی ۔۔ پھرواپس آکر مجھے بہت اچھی جاب مل گئی اور میں آپنی ماں سے بالکل قطعہ تعلق ھو گیا ۔۔ جس کا میری ماں کو رنج ھوا ۔۔ مگر مجھے پروا نہیں تھی ۔۔ میں نے شادی کر لی اور میرے دو بچے بھی ھو گئے ۔ میں آپنا زاتی گھر خرید لیا ۔۔۔
ایک دن اچانک میرے گھر کی گھنٹی بجی ۔۔ دروازہ کھولا تو سامنے ماں کھڑی تھی ۔۔ میری بیوی اور بچے تجسس سے میرے پیچھے کھڑے ھو کر بولے یہ کون ہیں ۔۔؟؟ جبکہ مجھے بے حد غصہ آیا ۔۔۔ میں نے ماں کو کہا کہ تو یہاں کیوں آئی ھے ۔۔ کیوں میرے بچوں کو ڈرانا چاھتی ھے ان کو کیوں ڈسٹرپ کیا ھے ۔۔ میری ماں نے کوئی لفظ نہ کہا اور انہی قدموں سے واپس چلی گئی ۔۔ تھورا وقت گزار ۔۔ پتہ نہیں کیوں میں ایک دن جاب سے واپسی پر آپنی ماں کے گھر کی طرف چلا گیا ۔۔ ماں گھر نہیں تھی ۔۔ ھمسایوں سے دریافت کرنے پر معلوم پڑا کہ ماں کچھ دن پہلے فوت ھو گئی ھے ۔۔ لیکن ھمسائے نے کہا اچھا ھوا تم آگئے تمہاری ماں تمہارے لئے ایک خط چھوڑ گئی ھے ۔۔ میں نےلیا اور پڑھنا شروع کیا
پیارے بیٹے ھمیشہ سلامت اور خوش رھو
مجھے پتہ ھے تم مجھ سے میری آنکھ کی وجہ سے ساری زندگی نفرت کرتے رھے ۔۔
لیکن بیٹا سنو ۔۔ تم بہت چھوٹے تھے کہ تمارا ایکسیڈٹ ھو گیا ۔۔ تمہاری ایک آنکھ باکل ضائع ھو گئی ۔۔ جس کا مجھے بہت دکھ ھوا میں تمہیں اس طرح نہیں دیکھنا چاھتی تھی ۔۔ لہزا میں نے آپنی ایک آنکھ تم کو دے دی ۔۔ تاکہ میرا لال دونوں آنکھوں سے دیکھ سکے ۔۔ اگر یہ میرا جرم تھا تو بیٹا مجھے معاف کر دینا ۔۔ اور میں معافی چاھتی ھوں کہ تم کو اور تمہارے بچوں کو ڈسٹرپ کیا تھا
فقط تمہاری ماں
مجھے ایسا لگا میری دنیا تباہ و برباد ھو گئ ھے ۔۔۔ دل چاھتا تھا زمین پھٹے اور میں اس میں غرق ھو جاوں۔
(اردو اسلامک #وڈیوز #واقعات اور #دلچسپ باتیں پڑھنے کے لیے آپ مجھے Facebook سے (فالو Follow) کریں اور (سی فسٹ See First) کو سلیکٹ کرے تاکہ آپ کو ھر پوسٹ پہلےملے۔ جزاک اللہ خیر بہت شکریہ۔

Wednesday 27 November 2019

اپنے شناخت کی پہچان ۔ زبیرتروالی

www.swatsmn.com

اپنی شناخت کیسے تلاشنی چاہے
----------------------
جن قوموں سے ان کی تاریخی یاداشت چھین لی جاتی ہے اور ان کو زیر کرنے والا ان کو ایک نئی یاداشت دینے کی کوشش کرتا ہے تو یہ قوم محکوم ہوجاتی ہے۔ پھر محکومی کے شروع کی ایک دو نسلوں کے بعد یہ قوم اپنی یاداشت مکمل طور پر کھو دیتی ہے۔ وہ وہی شناخت، وہی زبان، وہی کلچر، وہی طور طریقے اور وہی سماجی نظام اپنانے لگتی ہے جو ان کو زیر کرنے والوں نے دی ہو۔
ایسا ہر دور میں ہوا ہے اور یہ برطانوی، فرانسسی یا پرتیگیزی نوابادیت اسی تاریخی عمل کے انتاہی نکتے ہیں۔ شمالی پاکستان میں بستی قوموں کے ساتھ یہ عمل دسویں صدی میں زور و شور سے جاری رہا۔ اسکا نکتہ عروج سولہویں صدی رہی اور اگلے ایک ادھ صدی میں یہاں بسنے والی قوموں کی تاریخی یاداشتیں ختم ہوگئیں۔ ان یاداشتوں میں اب اگر کوئی چیز باقی بچی ہے تو وہ ان کی زبانیں ہیں جو مکمل طور پر زبانی یعنی بولیاں رہیں۔ مگر اس زبانی ادب و تاریخ کے کچھ حصّے سینہ بہ سینہ دوسری نسلوں تک منتقل ہوتے رہے جس کو جدید علوم نے ایک کمتر نام ”لوک ادب یا ورثہ“ (فوک لور) کا نام دیا۔
اگر اپ نے اپنی کلتوری شناخت کو کھوجنا ہے تو اس لوک ادب و ورثہ پر تحقیق کریں۔ جھٹ سے کسی چیز کو جھٹلانا یا اپنے تعصب پر مبنی کوئی نظریہ گھڑنا مناسب عمل نہیں۔ اس سے چند لوگوں کو گمراہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن مختصر وقت تک اور وہ بھی ایک بھیانک نقصان پر منتج ہوتا ہے۔ ہاں یہ بات بھی پہلو میں باندھ کر رکھیں کہ کسی ایک شناخت پر اڑنا نفرتیں پیدا کرتا ہے اور اس سے انسانوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ ہٹلر ایک شناخت پر اترایا اور دنیا کا انجام ہم سب نے دیکھ لیا۔ اجکل جرمنی میں خود کو اریہ کہو تو جرمنیوں کا ردعمل شدید ہوتا ہے۔
شناخت کا عمل زماں و مکاں یعنی Temporal and territorial دونوں سے نبرزازما ہوتا ہے۔ اس کا تعلق فرد کی نفسیات، شخصیت اور سماجی و سیاسی عوامل سے بھی گہرا ہوتا ہے۔
ہندوکش ہو یا قراقرم و پامیر یا ہمالیہ؛ سندھ کا صحرا ہو یا اسٹرالیا کی پہاڑیاں؛ امریکوں کی قدیم ابادیاں ہوں یا ہندوستان کا جنوب؛ افغانستان کا بدخشان ہو یا درہ نور کی وادیاں۔ غرض سب جگہ مقامی لوگ خود کو ”قوم“ کہتے ہیں۔ ”برادری“، ”ایتھنی“، ”قبائل“(Community, ethnie, tribes) وغیرہ الفاظ نوابادیاتی مطالعات کی اصطلاحات ہیں۔
متحدہ ہندوستان میں ایسے مطالعات نے ”قومیت“ کی بنیاد قومیت کی فقط ایک ذریعہ ”عقیدے“ پر رکھ کر اس کا بیڑا غرق کردیا۔ اس دو قومی نظریے نے دوسری قوموں کے وجود سے انکار کردیا اور یوں قومیت کی جنگ ہنوز جاری ہے۔ اس نوابادیاتی مطالعات میں ”قوم اور ریاست“ کا نظریہ پیش کیا گیا کہ اس یورپی سیاسی نظریے میں قوم ریاست کے بغیر نہیں بن سکتی۔ وہاں دو ”قومیں“ وجود میں لائی گئیں۔ ایک ”قوم“ نے کہا ہم قوم ہے اب ہمیں ریاست کی ضرورت ہے۔ مگر حالات ک
ی ستم ظریفی دیکھیں جب ریاست مل گئی تو گزشتہ 72 سالوں سے یہی ریاست ایک ”قوم“ کی تلاش میں ہے اور اس کو یہ ”قوم“ نہیں مل رہی بلکہ اسی ”قوم“ کا ایک اکثریتی حصّہ الگ بھی ہوا۔ قوم سازی کے اسی منصوبے کے لیے ایک ”دیگر“ یعنی دشمن کو تراشا گیا۔ کلتوری و تاریخی روایات کو غیر فطری طور پر سرسید احمد خان اور سید احمد سرہندی کے زمانے سے پیچھے جانے سے روک دیا گیا۔ ایک قوم بنانے کے اس غیر فطری منصوبے نے ایک ایسی تعلیم ٹھونسنے کی کوشش کی کہ جس سے یہاں بسنے والوں کی تاریخی یاداشتیں جو مہرگڑھ، مہنجوداڑو، گندھارا اور ہڑپہ سے جڑی تھیں کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔ ایسے میں ہم جیسی چھوٹی قوموں کو معلق چھوڑ دیا گیا اور ہم ہنوز ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں کہ ہماری شناخت کیا ہے۔ کسی نے ایک ادھ کتاب پڑھی اور اس سے نتائج اخذ کیے۔ کسی نے سرے سے کتاب ہی نہیں پڑھی اور اس پر اکتفا کیا کہ ہم خود کو کیا کہتے ہیں۔
کسی قوم پر اپنی مرضی کی کوئی شناخت ٹھونسنے سے بہتر ہے کہ اس قوم کو علمی، معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر مضبوط کیا جائے۔ جب اسے یہ مضبوطی میسّر ہو تو وہ خود کو کوئی شناخت دینے اور پھر اسے اپنے مجموعی فہم و فراست کے ذریعے قائم رکھ سکے گی اور ساتھ اس کے مضر اثرات سے خود کو بچانے کی طاقت بھی حاصل کرسکے گی۔ محض نعروں اور کھوکھلے نظریات سازی سے قوم طاقت ور نہیں بن سکتی ورنہ پاکستان کی یہ حالت نہ ہوتی۔
شناخت پر تحقیق و فکر ہونی چاہے۔ اپنی لوک ادب و ورثہ پر تحقیق ہونی چاہے۔ شناخت کی تلاش کرنی چاہے لیکن ساتھ یہ بھی ذہین میں رکھنا ضروری ہے کہ شناخت کوئی ساکت چیز نہیں کہ ایک جگہ ٹھر جائے۔ ہم ایک کثیرالشناختی دور میں رہ رہے ہیں۔ ایک فرد کی کئی شناختیں ہوسکتی ہیں۔ کسی ایک شناخت پر زور دینا بقائے باہمی کے لیے ذہر ثابت ہوتا ہے۔ زبیرتروالی

Friday 22 November 2019

یا اللہ میں بیٹی ہوں یا جانور ؟

www.swatsmn.com

ہمارے معاشرے کا ایک کڑوا سچ!
چائے رکھ کر وہ شرماتے ہوئے واپس مڑی تو اسے دیکھنے آنے والی آنٹی نے کہا ”بیٹی ہمارے پاس نہیں بیٹھو گی؟ اسے جانے کیوں لگا تھا کہ آنٹی کے لہجے میں طنز ہے.
وہ جھجکتے ہوئے بیٹھ گئی اس کے مائینڈ میں وہ سب لوگ آنے لگے جو پہلے بھی اسے دیکھ کر جاچکے تھے.
طرح طرح کے سوال کرتے تھے بعد میں وہ ماما پاپا کی باتوں سے اندازہ لگاتی کہ اسے عمر اور کبھی ہائٹ کی وجہ سے ریجیکٹ کیا جاتا ہے۔۔۔آج بھی وہ سوالات سے ڈری بیٹھی تھی کہ آنٹی جی کی آواز سنی..
بہنا کیا بتائیں ہم لڑکے والے جو ہوئےلڑکیاں آج کل کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہیں۔بہت رشتے آتے ہیں مگر کوئی دل کو نہیں لگی۔۔بیٹا ہمارا تو لاکھوں میں ایک ہے..
وہ لہجے میں غرور کو دیکھ سکتی تھی.
بیٹی تم نے میٹرک کب کیا ہے؟“ تم کیا کیا بنا لیتی ہو میرے بیٹے کو خوش رکھ سکو گی؟ بڑا نخریلو ہے..
۔۔جواب دے دے کر اس کا دل رونے لگا تھا...
یا اللہ میں بیٹی ہوں یا جانور ؟ میرا رشتہ ہو رہا ہے یا سودا ؟ کل بھی میں بِک رہی تھی تب پیسوں میں
آج بھی سودا کیا جاتا ہے نکاح کے نام پر
.بیٹی تم میرے بیٹے کے لیے”
بس ماں بس وہ چیخ کر روئی ماں کیا تم مجھے اس گھر میں تھوڈی جگہ نہیں دے سکتی ؟میں جاب کر کے کما لوں گی یہ رشتے کے نام پر روز مجھے بیوپاریوں کے سامنے پیش کر کے رسوا نہ کرو..
مجھے جس دین نے عزت دی آج وہ دین بس نمازوں تک مانا جا رہا ہے ماں اگر وہ دین دلوں میں ہوتا تو اس طرح نہ ہوتا.
ماں رو پڑی مگر کچھ کہا نہیں...
آنٹی نے اسے بد تمیز کہا اور کہا کہ” ہم لڑکے والے ہیں۔۔ہزاروں لڑکیاں مل جائیں گی.
یہ کہانی محض کہانی نہیں آج کل ایسا ہو رہا ہے۔۔میں نے زندگی کی ایک حقیقت تصویر دکھائی ہے.
کہنا یہ ہے کہ ہم لڑکے اپنے والدین کو سمجھا کر بھیجیں کہ سوال جواب کم سے کم لڑکیوں سے ایسے نہ کیے جائیں۔ ان کے بارے کچھ پوچھنا ہو تو تنہائی میں ان کے والدین سے پوچھیں.
وہ بیٹی ہے جیسی بھی ہو جب کوئی انکار کر کے جاتا ہے اس کے دل پر کیا بیتتی ہے۔۔یہ وہ جانتی ہے...
دعا ھے
اللہ ہر لڑکی کا مقدر نیک اور اچھا کرے..
آمین ثم آمین

Thursday 21 November 2019

بہنوں بیٹیوں کے گھر کا پانی پینا حرام نہیں ہے لیکن

www.swatsmn.com

شادی کے کئی سال بعد اابا اور بھائی اسکے گھر آرہے تھے،
وہ بہت خوش تھی، کئی پکوان تیار کیے تھے، مشروب بنائے تھے، خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھی، اللہ اللہ کر کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں...!!!!
وہ بڑے شوق سے انکو بیٹھک (ڈرائینگ روم) میں لیکر آئی، باپ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا، بھائیوں نے بھی حال چال پوچھا وہ جلدی سے ٹھنڈے مشروب لے آئی...!!!!
"ناں پتر " باپ نے دیکھتے ہی کہا"
ہمارے خاندان میں بیٹیوں کے گھر کا پانی بھی حرام سمجھا جاتا ہے، اسے واپس لے جا، ہم تو تجھے دیکھنے آئے تھے بس اب چلتے ہیں" یہ کہہ کر ابا اور بھائی واپس چلے گئے اور اسے وہ دن یاد آگیا جب وہ دلہن بنی بیٹھی تھی کمرے میں اس کی سہیلیاں خوش گپیوں میں مصروف اسے چھیڑ رہی تھیں کہ ابا اور بھائی آگئے تھے...!!!!
"دیکھ پتر" ابا نے اس سے مخاطب ہو کر کہا تھا"
ہمارے خاندان کی ریت ہے کہ شادی سے پہلے بیٹیاں اپنی جائیداد سے دستبرداری کرتی ہیں لے پتر تو بھی اس کاغذ پر سائن کردے۔" اور پھر اس سے دستبرداری کے کاغذات پر دستخط کروا لیے گئے تھے...!!!!
اور اب وہ چپ چاپ کھڑی یہی سوچتی رہ گئی کہ یہ کیسی ریت کیسا رواج ہے کہ بیٹیوں کے گھر کا پانی پینا تو حرام ہے پر ان کی جائیداد کا حصہ ہڑپ کرنا حلال ہے، بہن بیٹیوں کو وراثت میں حصہ دیجئے کیونکہ یہ انسان کا نہیں بلکہ قرآن کا فیصلہ ہے
#ذراسوچیے#


بہنوں بیٹیوں کے گھر کا پانی پینا حرام نہیں ہے
لیکن
بہن بیٹیوں کی جائیداد ہڑپ کر جانا کنفرم حرام ہے

Tuesday 19 November 2019

۔۔بڑے لوگ کیوں بڑے ھوتے ہیں

www.swatsmn.com
۔۔۔۔۔۔بڑے لوگ کیوں بڑے ھوتے ہیں۔۔۔۔۔۔
ایڈسن (Thomas Alva Edison) کو دنیا جانتی ہے کہ انہوں نے الیکٹرک بلب ایجاد کیا
جب وہ ہزارویں تجربہ کے بعد بلب بنانے میں کامیاب ہو گئے اور اسکو لگانے کا وقت آیا تو انہوں نے اپنے آفس کے چپڑاسی کو وہ بلب دیا کہ جاؤ یہ ٹیسٹ کرو۔ وہ لڑکا اتنا نروِس ہوا کہ غلطی سے اس سے بلب گر کر ٹوٹ گیا ۔سب بہت حیران ہوئے
ایڈیسن اگلے دن ایک اور بلب بنا لائے اور اسی لڑکے کو دیا کہ جاؤ یہ بلب ٹیسٹ کرو
بعد میں ساتھیوں نے پوچھا کہ جناب آپ یہ بلب کسی اور کو بھی دے سکتے تھے آپ نے اسی کو کیوں دیا جس سے کل بلب ٹوٹا تھا؟
ایڈیسن نے آبِ زر سے لکھے جانے والا جواب دیا کہ "مجھے ٹوٹے ہوئے بلب کی جگہ نیا بلب بنانے میں 24 گھنٹے لگے لیکن اگر آج میں اسکو بلب نہ دیتا تو شاید اسکی خود اعتمادی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جاتی، جو کہ میں نہیں چاہتا "
بڑے لوگ بظاہر چھوٹے نظر آنے والوں کا بھی خیال رکھا کرتے ہیں، تبھی تو بڑے ہوتے ہیں.
منقول

Friday 15 November 2019

غلطی انسان سے ہوتی ہے جو غلطی نہیں کرتے وہ تو فرشتے ہوتے ہیں۔

www.swatsmn.com

غلطی انسان سے ہوتی ہے جو غلطی نہیں کرتے وہ تو فرشتے ہوتے ہیں۔ عظیم انسان وہ ہے جو اپنے غلطی سے سیکھتا ہے اور اپنے کئے پر انہیں پچھتاوا ہوتا ہے۔ زندگی سے منہ مڑنے کے بجائے اپنی گناہوں سے توبہ کر لیتی ہے اور زندگی ایک نئے سرے سے شروع کر لیتی ہے۔ ہمیں دوسروں کی عیب ڈھونڈنے کے بجائے اپنے گریباں میں بھی جھانکنا چاہئیے یہ خیال کرنا چاہئیے کہ ہم نے اپنی پوری زندگی میں کتنی گناہیں کی ہے اور کتنے خطائیں ہم سے ہوئی ہے اگر اللہ پاک ان سے پردہ ہٹا دے تو ہم پر کیا گزری گی۔یہ تو وہ غفور ورحیم زات ہے جنہوں نے ہماری گناہوں اور خطاوں کو چھپایا ہے اگر ان میں سے ایک گناہ سے بھی پردہ اٹھ گیا تو ہم رہنے کے قابل بھی نہیں رہے گے۔اس لئے دوسروں کی گناہوں اور خطاووں پر تبصرہ کرنے کے بجائے ہمیں اپنی اصلاح بھی کرنی چاہئیے کیونکہ ہم سب اللہ پاک کے گناہ گار اور خطا کار بندے ہیں۔ میں تو اس خاتون کو اپنے آپ سے کئی گناہ اچھا اور عظیم سمجھتا ہو کیونکہ میں ان سے زیادہ گناہ گار ، خطا کار اور انتہائی کمزور ہو ۔اگر ہم سب ایک لمحے کے لئے اپنے گناہوں کو سامنے رکھے اور خیال کرے کہ خدا نخواستہ اس میں ایک بھی عیاں ہو جائے تو ہمارے کیا احساسات اور جذبات ہونگے۔ اس لئے دوسروں کا احساس کرتے ہوئے ان کی زندگیوں کا مزاق نہ اڑایہ کریں اگر آپ کچھ اچھا نہیں کر سکتے تو دوسروں کی برائی سے گریز کریں۔کیونکہ یہ وقت کسی پر بھی آسکتا ہے۔ بس اللہ پاک سے یہی دعا مانگا کریں کہ اللہ پاک ہمارے گناہوں کو اور خطاوں کو تو اپنے ساتھ راز میں رکھیں اور ہمیں کھبی بھی دوسروں کے سامنے ذلیل اور رسوا نہ کرے۔کیونکہ ہمارا معاشرہ پھر جینے نہیں دیتی۔اللہ پاک فرماتے ہیں کہ تم دوسروں کے عیب پر پردہ ڈالو میں تمہارے گناہوں اور خطاوں کو چھپاونگا۔اللہ پاک تمام ماوں، بہنوں، بیٹیوں اور بھائیوں کی عزتیں اور ناموس اپنے حفظ و امان میں رکھیں۔اللہ پاک کسی کو بھی بے پردہ نہ کریں اور ہمیں دوسروں کا احساس اس طرح کرنا چاہئیے جو ہم اپنے لئے سوچتے ہیں کیونکہ زندگی میں احساس ہی وہ عمل ہے جو جینے کا طریقہ سکھاتی ہے ۔ آمین ثمہ آمین ۔۔۔



#RabiPirZada #StayStrong #WeAreBad #YouAreTooGood #StaySafe #Humanity

Thursday 7 November 2019

اس دنیا نے تمھیں نجات نہ دی، حتیٰ کہ تم قبروں میں پہنچ گئے۔

www.swatsmn.com
کہتے ہیں کہ ہارون رشید ؒکا ایک بیٹا تھا
جس کی عمر تقریباً سولہ سال کی تھی۔
وہ بہت کثرت سے
زاہدوں اور بزرگوں کی مجلس میں رہا  کرتا تھا،
اور اکثر قبرستان چلا جاتا،
وہاں جا کر کہتا کہ۔۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 تم لوگ ہم سے پہلے دنیا میں تھے،
دنیا کے مالک تھے،
لیکن اس دنیا نے تمھیں نجات نہ دی،
 حتیٰ کہ تم قبروں میں پہنچ گئے۔
کاش❗
 مجھے کسی طرح خبر ہوتی کہ تم پر کیا گذری ہے اور تم سے کیا کیا سوال و جواب ہوئے ہیں❓
اور اکثر یہ شعر پڑھا کرتا ؎
تَرُوْعُنِيَ الْجَنَائِزُ کُلَّ یَوْ مٍ
وَیَحْزُنُنِيْ بُکَائُ النَّائِحَات
مجھے جنازے ہر دن ڈراتے ہیں
اور مرنے والوں پر رونے والیوں کی آوازیں مجھے غمگین رکھتی ہیں۔

ایک دن،،،،،،،،،،،،
 وہ اپنے باپ ( بادشاہ) کی مجلس میں آیا۔
اس کے پاس وزراء، اُمراء سب جمع تھے اور لڑکے کے بدن پر ایک کپڑا معمولی اور سر پر ایک لنگی بندھی ہوئی تھی۔
 آراکینِ سلطنت آپس میں کہنے لگے کہ
 اس پاگل لڑکے کی حرکتوں نے امیر المؤمنین کو بھی دوسرے بادشاہوں کی نگاہ میں ذلیل کر دیا۔
اگر امیر المؤمنین اس کو تنبیہ کریں تو شاید یہ اپنی اس حالت سے باز آجائے۔
 امیر المؤمنین نے یہ بات سن کر اس سے کہا کہ
 بیٹا❗ تو نے مجھے لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل کر رکھا ہے۔
 اس نے یہ با ت سن کر باپ کو تو کوئی جواب نہیں دیا،
لیکن   '''''''''''''
ایک پرندہ وہاں بیٹھا تھا اس کو کہا کہ
اس ذات کا واسطہ جس نے مجھے پیدا کیا تو میرے ہاتھ پر آکر بیٹھ جا۔
وہ پرندہ وہاں سے اُڑ کر اس کے ہاتھ پر آکر بیٹھ گیا۔
 پھر کہا کہ اب اپنی جگہ پر واپس چلا جا۔
 وہ ہاتھ پر سے اُڑ کر اپنی جگہ چلا گیا۔
اس کے بعد اس نے عرض کیا کہ
ابا جان❗
اصل میں آپ دنیا سے جو محبت کر رہے ہیں اس نے مجھے رسوا کر رکھا ہے۔۔❗
 اب میں نے یہ ارادہ کر لیا ہے کہ آپ سے جدائی اختیار کر لوں۔
 یہ کہہ کر وہاں سے چل دیا
 اور ایک قرآن شریف صرف اپنے ساتھ لیا۔
چلتے ہوئے ماں نے ایک بہت قیمتی انگوٹھی بھی اس کو دے دی (کہ اِحتیاج کے وقت اس کو فروخت کرکے کام میں لائے) وہ یہاں سے چل کر

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بصرہ پہنچ گیا ۔۔۔۔۔۔۔

اور مزدوروں میں کام کرنے لگا۔
 ہفتہ میں صرف ایک دن شنبہ کو مزدوری کرتا اور آٹھ دن تک وہ مزدوری کے پیسے خرچ کرتا اور آٹھویں دن پھر شنبہ کو مزدوری کر لیتا۔
 اور ایک دِرَم اور ایک دانق
 (یعنی دِرَم کا چھٹا حصہ مزدوری لیتا) اس سے کم یا زیادہ نہ لیتا۔ ایک دانق روزانہ خرچ کرتا۔

ابو عامر بصری ؒکہتے ہیں کہ
 میری ایک دیوار گر گئی تھی۔ اس کو بنوانے کے لیے میں کسی معمار کی تلاش میں نکلا۔ (کسی نے بتایا ہوگا کہ یہ شخص بھی تعمیر کا کام کرتا ہے)
میں نے دیکھا کہ نہایت خوبصورت لڑکا بیٹھا ہے، ایک زنبیل پاس رکھی ہے اور قرآن شریف دیکھ کر پڑھ رہا ہے۔
میں نے اس سے پوچھا کہ
لڑکے مزدوری کرو گے❓
 کہنے لگا:
کیوں نہیں ❗کریں گے، مزدوری کے لیے تو پیدا ہی ہوئے ہیں۔ آپ بتائیں کہ کیا خدمت مجھ سے لینی ہے❓
 میں نے کہا: گارے مٹی (تعمیر) کا کام لینا ہے۔
 اس نے کہا کہ ایک دِرَم اور ایک دانق مزدوری ہوگی اور نماز کے اوقات میں کام نہیں کروں گا، مجھے نماز کے لیے جانا ہوگا۔
 میں نے اس کی دونوں شرطیں منظور کر لیں اور اس کو لا کر کام پر لگا دیا۔
مغرب کے وقت جب میں نے دیکھا تو اس نے دس آدمیوں کی بقدر کام کیا۔
 میں نے اس کو مزدوری میں دو دِرَم دیے۔
اس نے شرط سے زائد لینے سے انکار کر دیا،
 اور ایک دِرَم اور ایک دانق لے کر چلا گیا۔

دوسرے دن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں پھر اس کی تلاش میں نکلا۔ وہ مجھے کہیں نہ ملا۔ میں نے لوگوں سے تحقیق کیا کہ ایسی ایسی صورت کا ایک لڑکا مزدوری کیا کرتا ہے، کسی کو معلوم ہے کہ وہ کہاں ملے گا❓
 لوگوں نے بتایا کہ وہ صرف شنبہ ہی کے دن مزدوری کرتا ہے، اس سے پہلے تمھیں کہیں نہیں ملے گا۔
 مجھے اس کے کام کو دیکھ کر ایسی رغبت ہوئی کہ میں نے آٹھ دن کو اپنی تعمیر بند کر دی اور شنبہ کے دن اس کی تلاش کو نکلا۔
 وہ اسی طرح بیٹھا قرآن شریف پڑھتا ہوا ملا۔
 میں نے سلام کیا اور مزدوری کرنے کو پوچھا۔
اس نے وہی پہلی دو شرطیں بیان کیں۔
میں نے منظور کر لیں۔
وہ میرے ساتھ آکر کام میں لگ گیا۔
 مجھے اس پر حیرت ہو رہی تھی کہ پچھلے شنبہ کو اس اکیلے نے دس آدمیوں کا کام کس طرح کر لیا۔
 اس لیے اس مرتبہ میں نے اسی طرح چھپ کر کہ وہ مجھے نہ دیکھے، اس کے کام کرنے کا طریقہ دیکھا،
 ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔تو یہ منظر دیکھا کہ۔۔۔۔۔
 وہ ہاتھ میں گارا لے کر دیوار پر ڈالتا ہے
 اور پتھر اپنے آپ ہی ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے چلے جاتے ہیں۔
مجھے یقین ہو گیا کہ یہ کوئی اللّٰہ کا ولی ہے اور اللّٰہ کے اَولیا کے کاموں کی غیب سے مدد ہوتی ہی ہے۔
 جب شام ہوئی تو میں نے اس کو تین دِرَم دینا چاہے۔ لیکن اس نے لینے سے انکار کر دیا
 کہ میں اتنے دِرَم کیا کروں گا❓اور ایک دِرَم اور ایک دانق لے کر چلا گیا۔
میں نے ایک ہفتہ پھر انتظار کیا
 اور تیسرے شنبہ کو پھر میں اس کی تلاش میں نکلا، مگر وہ مجھے نہ ملا۔
میں نے لوگوں سے تحقیق کیا۔
ایک شخص نے بتایا کہ
وہ تین دن سے بیمار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 فلاں ویرانہ جنگل میں پڑا ہے۔
میں نے ایک شخص کو اجرت دے کر اس پر راضی کیا کہ وہ مجھے اس جنگل میں پہنچا دے۔ وہ مجھے ساتھ لے کر اس جنگل ویران میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بے ہوش پڑا ہے۔
 آدھی اینٹ کاٹکڑا سر کے نیچے رکھا ہوا ہے۔
میں نے اس کو سلام کیا، اس نے جواب نہ دیا۔
میں نے دوسری مرتبہ سلام کیا
 تو اس نے (آنکھ کھولی اور) مجھے پہچان لیا۔
میں نے جلدی سے اس کا سر اینٹ پر سے اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا۔
 اس نے سرہٹالیا اور چند شعر پڑھے
 جن میں سے دو یہ ہیں ؎
یَا صَاحِبِيْ لَا تَغْتَرِرْ بِتَنَعُّمٖ فَالْعُمْرُ یَنْفَدُ وَالنَّعِیْمُ یَزُوْلُ
وَإِذَا حَمَلْتَ إِلَی الْقُبُوْرِ جَنَازَۃً فَاعْلَمْ بِأَنَّکَ بَعْدَھَا مَحْمُول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔           میرے دوست
دنیا کی نعمتوں سے دھوکہ میں نہ پڑ۔
عمر ختم ہوتی جا رہی ہے اور یہ نعمتیں سب ختم ہو جائیں گی۔
 جب تو کو ئی جنازہ لے کر قبرستان میں جائے تو یہ سوچتا رہا کر کہ تیرا بھی ایک دن اسی طرح جنازہ اٹھایا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد اس نے مجھ سے کہا کہ
ابو عامر،❗
 جب میری روح نکل جائے تو مجھے نہلا کر  مجھے میرے اسی کپڑے میں مجھے کفن دے دینا۔
میں نے کہا:
 میرے محبوب ❗اس میں کیا حرج ہے کہ
میں تیرے کفن کے لیے نئے کپڑے لے آ ؤں،❓
 اس نے جواب دیا کہ
 نئے کپڑوں کے زندہ لوگ زیادہ مستحق ہیں۔
 (یہ جواب حضرت ابوبکر صدیقؓ کا جواب ہے۔ انھوں نے بھی اپنے وصال کے وقت یہی فرمائش کی تھی کہ
 میری انہی چادروں میں کفن دے دینا۔ اور جب ان سے نئے کپڑے کی اجازت چاہی گئی تو انھوں نے یہی جواب دیا تھا۔)
 لڑکے نے کہا کہ
 کفن تو (پرانا ہو یا نیا بہر حال) بوسیدہ ہو جائے گا۔
 آدمی کے ساتھ تو صرف اس کا عمل ہی رہتا ہے۔
اور یہ میری لنگی اور لوٹا قبر کھودنے والے کو مزدوری میں دے دینا،
 اور یہ انگوٹھی اور قرآن شریف ہارون رشید تک پہنچا دینا۔ اور اس کا خیال رکھنا کہ خود انہی کے ہاتھ میں دینا
 اور یہ کہہ کر دینا کہ ایک پردیسی لڑکے کی یہ میرے پاس امانت ہے اور وہ آپ سے یہ کہہ گیا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ اسی غفلت اور دھوکہ کی حالت میں آپ کی موت آجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر اس کی روح قفص عنصری سے   پرواز کر گئی ۔۔۔
اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ یہ لڑکا شہزادہ تھا۔
اس کے انتقال کے بعد اس کی وصیت کے مطابق  میں نے اس کو دفن کر دیا،
اور دونوں چیزیں گورکن کو دے دیں،
اور قرآن پاک اور انگوٹھی لے کر

۔۔۔۔۔۔۔ بغداد پہنچا، ،،،،،،،،

اور قصرِ شاہی کے قریب پہنچا تو بادشاہ کی سواری نکل رہی تھی۔
میں ایک اونچی جگہ کھڑا ہو گیا۔
اوّل ایک بہت بڑا لشکر نکلا جس میں تقریباً ایک ہزار گھوڑے سوار تھے۔
 اس کے بعد اسی طرح یکے بعد دیگرے دس لشکر نکلے۔
 ہر ایک میں تقریباً ایک ہزار سوار تھے۔
 دسویں جتھے میں خود امیر المؤمنین بھی تھے۔ میں نے زور سے آواز دے کر کہا کہ
 اے امیر المؤمنین❗
آپ کو حضورِاقدسﷺ کی قرابت رشتہ داری کا واسطہ ،
ذرا سا توقف کر لیجیے۔
میری آواز پر انھوں نے مجھے دیکھا تو میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر کہا کہ
میرے پاس ایک پردیسی لڑکے کی یہ امانت ہے جس نے مجھے یہ وصیت کی تھی کہ یہ دونوں چیزیں آپ تک پہنچادوں۔
بادشاہ نے ان کو دیکھ کر (پہچان لیا)
 تھوڑی دیر سر جھکایا۔
 ان کی آنکھ سے آنسو جاری ہوگئے اور ایک دربان سے کہا کہ اس آدمی کو اپنے ساتھ رکھو، جب میں واپسی پر بلاؤں تو میرے پاس پہنچا دینا۔
جب وہ باہر سے واپسی پر پہنچے تو محل کے پردے گروا کر دربان سے فرمایا:
 اس شخص کو بلا کر لاؤ،
اگرچہ وہ میرا غم تازہ ہی کرے گا۔
دربان میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ
امیر المؤمنین نے بلایا ہے اور اس کا خیال رکھنا کہ امیر پر صدمہ کا بہت اثر ہے۔ اگر تم دس باتیں کرنا چاہتے ہو تو پانچ ہی پر اِکتفا کرنا۔
 یہ کہہ کر وہ مجھے امیر کے پاس لے گیا۔ اس وقت امیر بالکل تنہا بیٹھے تھے۔
مجھ سے فرمایا کہ
میرے قریب آجاو۔
میں قریب جا کر بیٹھ گیا۔
کہنے لگے کہ تم میرے اس بیٹے کو جانتے ہو❓
میں نے کہا: جی ہاں میں ان کو جانتا ہوں۔
کہنے لگے:
 وہ کیا کام کرتا تھا❓
 میں نے کہا:
گارے مٹی کی مزدوری کرتے تھے۔
 کہنے لگے: تم نے بھی مزدوری پر کوئی کام اس سے کرایا ہے❓
 میں نے کہا: کرایا ہے۔
کہنے لگے: تمھیں اس کا خیال نہ آیا کہ
اس کی حضورِ اقدس ﷺ سے قرابت تھی (کہ یہ حضرات حضورﷺ کے چچا حضرت عباس ؓ کی اولاد ہیں)❓
میں نے کہا:
امیر المؤمنین پہلے اللّٰہ سے معذرت چاہتا ہوں،
اس کے بعد آپ سے عذر خواہ ہوں، مجھے اس وقت اس کا علم ہی نہ تھا کہ یہ کون ہیں❓
 مجھے ان کے انتقال کے وقت ان کا حال معلوم ہوا۔ کہنے لگے کہ
 تم نے اپنے ہاتھ سے اس کو غسل دیا❓
میں نے کہا کہ جی ہاں۔
کہنے لگے: اپنا ہاتھ لاو۔
میرا ہاتھ لے کر اپنے سینہ پر رکھ دیا اور
چند شعر پڑھے جن کا ترجمہ یہ ہے:۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے وہ مسافر جس پر میرا دل پگھل رہا ہے اور میری آنکھیں اس پر آنسو بہا رہی ہیں❗
اے وہ شخص جس کا مکان (قبر) دور ہے، لیکن اس کا غم میرے قریب ہے❗
 بے شک موت ہر اچھے سے اچھے عیش کو مکدر کر دیتی ہے۔
 وہ مسافر ایک چاند کا ٹکڑا تھا
(یعنی اس کا چہرہ) جو خالص چاندی کی ٹہنی پر تھا( یعنی اس کے بدن پر)۔ پس چاند کا ٹکڑا بھی قبر میں پہنچ گیا اور چاندی کی ٹہنی بھی قبر میں پہنچ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد ہارون رشید ؒنے بصرہ اس کی قبر پر جانے کا ارادہ کیا، ابو عامر ؒ ساتھ تھے۔ اس کی قبر پر پہنچ کر
 ہارون رشید نے چند شعر پڑھے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔جن کا ترجمہ یہ ہے:
اے وہ مسافر جو اپنے سفر سے کبھی بھی نہ لوٹے گا❗
 موت نے کم عمری کے ہی زمانہ میں اس کو جلدی سے اُچک لیا۔
 اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک ❗تو میرے لیے انس اور دل کا چین تھا، لمبی  راتوں میں بھی اور مختصر راتوں میں بھی۔
تُو نے موت کا وہ پیالہ پیا ہے جس کو عنقریب تیرا بوڑھا باپ بڑھاپے کی حالت میں پئیے گا۔
 بلکہ دنیا کا ہر آدمی اس کو پئیے گا، چاہے وہ جنگل کا رہنے والا ہو یا شہر کا رہنے والا ہو۔
 پس سب تعریفیں اسی وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ کے لیے ہیں جس کی لکھی ہوئی تقدیر کے یہ کرشمے ہیں۔

ابو عامر ؒکہتے ہیں کہ
 اس کے بعد جو رات آئی تو جب میں اپنے وظائف پورے کرکے لیٹا ہی تھا کہ
میں نے خواب میں۔۔۔۔۔۔۔۔
 ایک نور کا قبہ دیکھا جس کے اوپر اَبر کی طرح نور ہی نور پھیل رہا ہے۔
اس نور کے اَبر میں سے اس لڑکے نے مجھے آواز دے کر کہا:
 ابو عامر❗
تمھیں حق تعالیٰ شانہٗ جزائے خیر عطا فرمائے ( تم نے میری تجہیز و تکفین کی اور میری وصیت پوری کی)۔
 میں نے اس سے پوچھا کہ میرے پیارے❗ تیرا کیا حال گزرا❓
کہنے لگا کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
میں ایسے مولیٰ کی طرف پہنچا ہوں جو بہت کریم ہے اور مجھ سے بہت راضی ہے۔
مجھے اس مالک نے وہ چیزیں عطا کیں جو نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھیں، نہ کان نے سنیں، نہ کسی آدمی کے دل پر ان کا خیال گزرا۔

(یہ ایک مشہور حدیثِ پاک کا مضمون ہے۔ حضورِاقدسﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ
 اللّٰہ کا پاک ارشاد ہے کہ
میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں جو نہ کسی آنکھ نے کبھی دیکھیں، نہ کان نے سنیں، نہ کسی کے دل پر ان کا خیال گزرا)
حضرت عبداللّٰہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ
 تورات میں لکھا ہے کہ حق تعالیٰ شانہٗ نے ان لوگوں کے لیے جن کے پہلو رات کو خواب گاہوں سے دور رہتے ہیں (یعنی تہجد گذاروں کے لیے) وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کان نے سنا، نہ کسی آدمی کے دل پر ان کا خیال گذرا، نہ ان کو کوئی مقرب فرشتہ جانتا ہے، نہ کوئی نبی رسول جانتا ہے۔
 اور یہ مضمون قرآنِ پاک میں بھی ہے:
{ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ} (السجدہ)📖⁦❤⁩🌹
کسی شخص کو خبر نہیں جو جو آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ایسے لوگوں کے لیے خزانۂ غیب میں موجود ہے۔ (دُرِّمنثور)

اس کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 اس لڑکے نے کہا کہ
 حق تعالیٰ شانہٗ نے قسم کھا کر فرمایا ھے کہ جو بھی دنیا سے اس طرح نکل آئے جیسا میں نکل آیا،
 اس کے لیے یہی اِعزاز اور اِکرام ہیں جو میرے لیئے ہیں۔۔

Tuesday 24 September 2019

آسمان سے بھینس گری اور جہاز تباہ

www.swatsmn.com
آسمان سے بھینس گری اور جہاز تباہ

یہ واقعہ 1956ء میں پیش آیا اس واقعہ میں ایک سبق پوشیدہ ہے۔
1956ء میں امریکا میں ایک بحری جہاز تیل لے کر جا رہا تھا‘
یہ جہاز اچانک اپنے روٹ سے ہٹ گیا۔
اور پھر اچانک بلند ہوتی لہروں یا کسی اور وجہ سے یہ جہاز اپنا توازن برقرار نہ رکھ پایا اور سمندر میں موجود ایک چٹان سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔
حادثے کے موقع پر جہاز کے کپتان نے لائف بوٹ کی مدد سے اپنی جان بچا ئی۔
لیکن حادثے کے بعد جہاز کے کپتان کو گرفتار کر لیا گیا کیونکہ تیل کے نقصان کے ساتھ ساتھ جہاز بھی تباہ ہوگیا تھا اور اس کا ذمہ دار جہاز کا کپتان تھا گرفتاری کے بعد اس سے حادثے کی وجہ پوچھی گئی۔
تو کپتان نے بتایا وہ جہاز کے ڈیک پر موجود تھا‘ آسمان بالکل صاف تھا۔ اچانک آسمان سے آبشار کی طرح ڈیک پر پانی گرا اور پانی کے ساتھ ہی آسمان سے ایک موٹی تازی بھینس نیچے گری۔ بھینس کے گرنے سے جہاز کا توازن بگڑ گیا اور یہ چٹان سے ٹکرا گیا۔
جس کی وجہ سے جہاز تباہ ہوکر ڈوب گیا۔
یہ ایک عجیب قسم کی سٹوری یا جواز تھا اور کوئی بھی نارمل شخص اس سٹوری پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ شائد آپ بھی اس پر یقین نہیں کریں گے کیونکہ اگر آسمان بالکل صاف ہو‘ آسمان صاف ہو‘ آسمان سے اچانک آبشار کی طرح پانی گرے اور ذرا دیر بعد ایک دھماکے کے ساتھ آسمان سے ایک بھینس نیچے گر جائے تو اس پر کون یقین کرے گا۔
کپتان کی بات پر بھی کسی نے یقین نہیں کیا تھا۔
آئل کمپنی نے اس کو جھوٹا قرار دے دیا۔ پولیس نے اسے مجرم ڈکلیئر کر دیا اور آخر میں نفسیات دانوں نے بھی اسے پاگل اور جھوٹا قراردے دیا۔
اور کپتان کو پاگل خانے میں داخل کروا دیا گیا۔ یہ وہاں پچیس سال تک قید رہا اور اس قید کے دوران اور پاگلوں کے درمیان رہنے کی وجہ سے یہ حقیقتاً پاگل ہو گیا۔
یہ اس کہانی کے سکے کا ایک رخ تھا۔ اگر میں بھی آپ سے پوچھوں کہ کیا یہ کپتان سچ بول رہا تھا تو آپ میں سے بھی اکثر دوست کہیں گے یہ ممکن ہی نہیں کہ آسمان صاف ہو اور آسمان سے کوئی بھینس گرے۔اس پہلو کو پڑھنے والے اس کپتان کو پاگل یا جھوٹا ہی کہیں گے۔
اب آپ اس کہانی کے سکے کا دوسرا رخ ملاحظہ کیجئے اور اس رخ کو سننے کے بعد آخر میں آپ کو یہ کپتان دنیا کامظلوم ترین شخص دکھائی دے گا۔
اس واقعے کے پچیس سال بعد ائیر فورس کے ایک ریٹائرڈ افسر نے اپنی یادداشتوں پر مبنی ایک کتاب لکھی‘ اس کتاب میں اس نے انکشاف کیا‘
1956ءمیں ایک پہاڑی جنگل میں آگ لگ گئی تھی اور اسے آگ بجھانے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔
اس نے ایک ہوائی جہاز کے ساتھ پانی کا ایک بہت بڑا ٹینک باندھا‘
وہ اس ٹینک کو سمندر میں ڈبو کر بھرتا‘ جنگل کے اوپر جاتا اور پانی آگ پرگرا دیتا اور ٹینک بھرنے کیلئے دوبارہ سمندر کی طرف رخ کرلیتا‘ وہ ایک بار پانی کا ٹینک لے کر جا رہا تھا کہ اسے اچانک ٹینک کے اندراچھل کود محسوس ہوئی‘
اسے محسوس ہوا ٹینک کے اندر کوئی زندہ چیز چلی گئی ہے اور اگراس نے ٹینک نیچے نہ گرایا تو اس چیز کی اچھل کود سے اس کا ہوائی جہاز گر جائے گا‘ اس نے فوراً پانی والا ٹینک بٹن دبا کر کھول دیا‘
ٹینک سے پانی آبشار کی مانند نیچے گرا اور اس کے ساتھ ہی موٹی تازی بھینس بھی نیچے کی طرف گر گئی‘
یہ پانی اور بھینس نیچے ایک بحری جہاز کے ڈیک پر جا گری۔
آپ اب کہانی کے اس پہلو کو پہلے اینگل سے جوڑ کر دیکھئے‘ آپ کو سارا منظر نامہ تبدیل ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔
دوستو! یاد رکھیے آپ جب تک دوسرے فریق کا موقف نہ سن لیں‘ اور اس کی اچھی طرح جانچ نہ کرلیں اس وقت تک آپ کسی شخص کی کہانی کو جھوٹا کہنے سے بچیں۔کیونکہ جب تک ملزم اور مدعی کا موقف سامنے نہیں آتا اس وقت تک صورتحال واضح نہیں ہوتی...!!!
"کاپیڈ"

Thursday 19 September 2019

کائنات کی عمر کیسے ناپی گئی؟

www.swatsmn.com
سوال: ہم کیسے دعویٰ کرتے ہیں کہ کائنات 13.8 ارب سال پرانی ہے، کائنات کی عمر کیسے ناپی گئی؟
جواب: چلیے اس کا آغاز ہم ایک پہیلی سے کرتے ہیں فرض کیجیئے اگر آپ کے سامنے کوئی بچہ کھڑا ہو اور آپ سے اس کی عمر کے متعلق اندازہ لگانے کو کہا جائے تو آپ کیا کریں گے؟ یقیناً دوسرے بچوں سے اس کا موازنہ کرکے جواب دیں گے... لیکن کائنات کے معاملے میں ہم ایسا نہیں کرسکتے.. کیونکہ اب تک ہمیں اپنی کائنات کے علاوہ کوئی اور کائنات دکھائی ہی نہیں دی... لہٰذا کائنات کی عمر کھوجنا ایک ایسی پہیلی تھی جس نے ماہرین فلکیات کو ایک عرصے تک الجھائے رکھا... اس کے لیے کچھ طریقہ کار کا انتخاب کیا گیا... ایک طریقہ کار تو یہ تھا کہ کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار نوٹ کی جائے (جوکہ 70 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے) اور پھر وقت کو reverse کرکے نوٹ کیا جائے کہ کائنات کو واپس ایک نقطے میں بند ہونے کے لیے کتنا عرصہ لگے گا... اس طریقہ کار کے ذریعے ہمیں "9 ارب سال" جواب ملا لیکن یہاں دو مسائل آرہے تھے کہ ایک تو یہ کہ کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جارہی ہے، یعنی ماضی میں یقیناً کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار کم رہی ہوگی، دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ہمیں اپنی کائنات کا سائز اب تک معلوم نہیں ہوسکا جس وجہ سے ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ 9 ارب سال والا جواب درست نہیں ہوسکتا... لہذا اس طریقہ کار کو ترک کردیا.. جس کے بعد سائنس دانوں نے اپنی تحقیق کا رخ کائنات میں قدیم ترین ستارے اور کہکشائیں ڈھونڈنے کی جانب کردیا... ان تحقیقات کے ذریعے ہمیں اندازہ ہونا شروع ہوا کہ کائنات میں قدیم ترین ستارے/کہکشائیں 13 ارب سال پرانی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ کائنات میں ستارے 13 ارب سال پہلے وجود میں آنا شروع ہوئے... لیکن یہ جواب حتمی نہیں تھا کیونکہ اس میں یہ احتمال بہرحال موجود تھا کہ زیادہ جدید ٹیلی سکوپس کی مدد سے ہوسکتا ہے کہ مزید پرانے ستارے ہم کھوج نکالیں... سن 2001ء میں ناسا نے WMAP نامی ایک خلائی مشن خلاء میں بھیجا جس نے کائنات کا نقشہ تیار کیا اور کائنات کے متعلق ایسے حیرت انگیز انکشافات کیے جنہوں نے سائنسدانوں کو ورطہ حیرت میں ڈبو دیا، اسی مشن سے ملنے والے ڈیٹا کی مدد سے ہمیں اندازہ ہوا کہ ہماری کائنات 13.77 ارب سال پرانی ہے.... مگر 2013ء میں یورپین اسپیس ایجنسی کے Planck نامی خلائی جہاز نے بگ بینگ واقعے کے 4 لاکھ سال بعد پیدا ہونے والی روشنی کو حساس آلات کی مدد سے دیکھ کر ان کا نقشہ بنایا اور کائنات کا درجہ حرارت نوٹ کیا... ہمیں معلوم ہے کہ کائنات جس وقت معرض وجود میں آئی تو اس دوران اس کا درجہ حرارت کھربوں ڈگری سینٹی گریڈ تھا.... لیکن پھر بگ بینگ کے چار لاکھ سال بعد کائنات پھیل کر اس حد تک ٹھنڈی ہوگئی تھی کہ سب ایٹامک پارٹیکلز کو ملکر ہائیڈروجن کے بادل بنانے کا موقع ملا... بگ بینگ کے 4 لاکھ سال بعد ہائیڈروجن کے بادل بنے، کائنات شفاف ہوئی اور یوں کائنات میں روشنی کو پھیلنے کو موقع ملا، ہمیں تجربات کے ذریعے معلوم ہوچکا ہے کہ ہائیڈروجن کے ایٹم 3 ہزار ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت پہ stable نہیں رہتے، یعنی بگ بینگ کے چار لاکھ سال بعد ہماری کائنات کا درجہ حرارت 3 ہزار ڈگری سینٹی گریڈ تک گر چکا تھا... پلانک خلائی جہاز نے کائنات میں پھیلی Cosmic Microwave Background Radiations کے ذریعے معلوم کیا کہ کائنات کا درجہ حرارت اس وقت منفی 270 ڈگری سینٹی گریڈ ہے.... ہم فزکس اور ریاضی کی مساواتوں کے ذریعے بآسانی معلوم کرسکتے ہیں کہ کائنات کو 3 ہزار ڈگری سینٹی سے منفی 270 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچنے میں کتنا عرصہ لگا ہوگا... یہ 13.82 ارب سال بنتے ہیں... یہی وجہ ہے کہ ماہرین فلکیات اب کافی پراعتماد ہیں کہ ہم کائنات کی ٹھیک ٹھیک عمر معلوم کرچکے ہیں، اس میں اگر کہیں غلطی ہوگی بھی تو وہ 10 کروڑ سال تک کی ہوسکتی ہے یعنی ہوسکتا ہے کہ کائنات 13.9 ارب سال کی ہو یا ہوسکتا ہے کہ کائنات 13.7 ارب سال کی ہو... اس کے علاوہ دیگر مشاہدات بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں جیسا کہ ہم جب ہبل ٹیلی سکوپ کے ذریعے 13 ارب نوری سال دور جھانکتے ہیں تو ہمیں نئی نئی کہکشائیں بنی ہوئی دکھائی دیتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ 13 ارب سال قبل کائنات بالکل نئی تھی، اس کے علاوہ 13.8 ارب سال سے زیادہ پرانی اب تک ہمیں کوئی کہکشاں نہیں مل پائی لہذا دقیق مشاہداتی اور تجرباتی تحقیقات کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ کائنات 13.8 ارب سال پرانی ہے...
محمد شاہ زیب صدیقی
زیب نامہ
کائنات کی عمر کے متعلق مختصر اردو ڈاکومنٹری دیکھنے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پہ کلک کیجئے:
https://youtu.be/toiRpZubVY8
#زیب_نامہ
#کائنات #ناسا #

Tuesday 3 September 2019

جب گناہوں ہر آسانی ملنے لگے تو سمجھ لینا آخرت خراب ہو گئی

www.swatsmn.com
ابو جان ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ
کسی قبرستان میں ایک شخص نے رات کے وقت نعش کیساتھ زنا کیا۔
بادشاہ وقت ایک نیک صفت شخص تھا اسکے خواب میں ایک سفید پوش آدمی آیا اور اسے کہا کہ فلاں مقام پر فلاں شخص اس گناہ کا مرتکب ہوا ہے، اور اسے حکم دیا کہ اس زانی کو فوراً بادشاہی دربار میں لا کر اسے مشیر خاص کے عہدے پر مقرر کیا جائے۔ بادشاہ نے وجہ جاننی چاہی تو فوراً خواب ٹوٹ گیا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا۔
بہر حال
سپاہی روانہ ہوئے اور جائے وقوعہ ہر پہنچے، وہ شخص وہیں موجود تھا۔۔
سپاہیوں کو دیکھ کر وہ بوکھلا گیا اور اسے یقین ہو گیا کہ اسکی موت کا وقت آن پہنچا ہے۔۔
اسے بادشاہ کے سامنے حاضر کیا گیا۔ بادشاہ نے اسے اسکا گناہ سنایا اور کہا ۔
آج سے تم میرے مشیر خاص ہو،
دوسری رات بادشاہ کو پھر خواب آیا۔
تو بادشاہ نے فوراً اس سفید پوش سے اس کی وجہ پوچھی کہ ایک زانی کیساتھ ایسا کیوں کرنے کا کہا آپ نے؟؟
سفید پوش نے کہا
اللّٰہ کو اسکا گناہ سخت نا پسند آیا، چونکہ اسکی موت کا وقت نہیں آیا تھا اسی لیے تم سے کہا گیا کہ اسے مشیر بنا لو، تاکہ وہ عیش میں پڑ جائے اور کبھی اپنے گناہ پر نادم ہو کر معافی نا مانگ سکے۔ کیوں کہ اسکی سزا آخرت میں طے کر دی گئی ہے۔ مرتے دم تک وہ عیش میں غرق رہے گا، اور بلکہ خوش بھی ہوگا کہ جس گناہ پر اسے سزا دی جانے چاہیے تھی اس گناہ پر اسے اعلیٰ عہدہ مل گیا۔۔
سو اسے گمراہی میں رکھنا مقصد تھا۔۔
ابو اٹھے میرے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہا بیٹا۔۔
جب گناہوں ہر آسانی ملنے لگے تو سمجھ لینا آخرت خراب ہو گئی۔ اور توبہ کے دروازے بند کر دیے گئے تم پر۔۔
میں سن کر حیران رہ گیا۔۔ اپنے گریباں میں اور آس پاس نگاہ دوڑائی۔
کیا آج ایسا نہیں ہے؟؟
بار بار گناہوں کا موقع ملتا ہے ہمیں اور کتنی آسانی سے ملتا ہے اور کوئی پکڑ نہیں ہوتی ہماری۔ ہم خوش ہیں۔ عیش میں ہیں۔۔ کتنے ہی مرد و خواتین کتنی ہی بار گھٹیا فعل کے مرتکب ہوتے ہیں اور مرد اسے اپنی جیت اور عورت اپنی جیت کا نام دیتی ہے۔
اور اگلی بار ایک نیا شکار ہوتا ہے۔۔
پہلی بار گناہ پر دل زور زور سے دھڑکے گا آپکا، دماغ غیر شعوری سگنل دے گا۔ ایک ٹیس اٹھے گی ذہن میں۔ جسم لاغر ہونے لگے گا ، کانپنے لگے گا
یہ وہ وقت ہوگا جب ایمان جھنجھوڑ رہا ہوتا ہے، چلا رہا ہوتا ہے کہ دور ہٹو، باز رہو۔
مگر دوسری بار یہ شدت کم ہو جائے گی۔ اور پھر ختم۔
پھر انسان مست رہتا ہے اور خوش بھی، مگر افسوس کہ اوپر والا اس سے اپنا تعلق قطع کر لیتا ہے۔۔
گناہ کا راستہ ہمیشہ ہموار ہوگا اور آسان بھی، مگر یاد رکھیے سچ کا راستہ دشوار ہوتا ہے اس میں بے شمار تکلیفیں ہونگی، آزمائشیں، مصیبتیں سب ہونگی مگر گناہ کا راستہ ہمیشہ ہموار ہوگا۔۔
کسی زمین میں گندم خود بخود نہیں اگ آتی، آگائی جاتی ہے۔ محنت کی جاتی ہے، خیال کیا جاتا ہے، حفاظت کی جاتی ہے تب جا کے پھل ملتا ہے مگر کسی زمین میں جھاڑیاں، غیر ضروری گھاس پھوس ، کانٹے دار پودے خود ہی اگتے ہیں۔ ان پہ کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی، وہ خود ہی اگتی ہیں اور کچھ ہی دنوں میں پوری زمین کو لپیٹ میں لیکر اسے ناکارہ بنا دیتی ہے۔۔
اسی طرح بالکل آپکے دل کی زمین ہے جہاں گناہوں کا تصور از خود پیدا ہوگا اور بڑھے گا۔ مگر نیکیوں کے لیے گناہوں سے بچنے کے لیے محنت کرنی پڑے گی، دشواریوں سے گذرنا ہوگا۔۔
خدارا اس لعنت سے بچیں۔ اس میں ملوث ہونا کوئی کمال نہیں،
بچنا کمال ہے۔۔ باز رہنا کمال ہے۔ سوچیے، نکلیے اس گناہ سے، کیوں حیا کا اٹھ جانا ایمان اٹھ جانے کی نشانی ہے۔ نشانی ہے اس بات کی کہ اندھیری قبر میں بہت برا ہونے والا ہے۔
خدا ہم سب کو ہدایت دے۔۔ آمین

Friday 16 August 2019

ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮐﯿﻮﮞ

www.swatsmn.com


ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮐﯿﻮﮞ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯿﮟ *

ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺍﯾﮏ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﮐﺎﺭ ﻋﺎﻟﻢ ﺩﯾﻦ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ :
ﺷﺮﻭﻉ ﺷﺮﻭﻉ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺴﻨﺪ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﮕﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﺱ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﮕﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺟﯿﺴﯽ ﮐﺌﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﭘﮭﺮ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮ ﻟﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮐﺌﯽ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻈﺮ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﯾﮟ۔
ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﭼﻨﺪ ﺳﺎﻝ ﮔﺰﺭﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﻟﮕﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ۔ﺑﯿﻮﯼ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮨﯿﮟ
ﺷﯿﺦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﮐﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻋﺠﯿﺐ ﻭ ﻏﺮﯾﺐ ﭼﯿﺰ ﻧﮧ ﺑﺘﺎﺅﮞ؟
ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ : ﮨﺎﮞ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ !
ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮ ﻟﻮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﻟﮕﮯ ﮔﺎ ﮐﮧ ﮔﻠﯽ ﮐﻮﭼﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺁﻭﺍﺭﮦ ﮐﺘﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮨﯿﮟ۔
ﺁﺩﻣﯽ ﮨﻠﮑﯽ ﺳﯽ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ : ﺣﻀﺮﺕ ! ﺁﭖ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ؟
* ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ : ﺍﺻﻞ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺻﻞ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﺩﻝ ﻻﻟﭽﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﺑﮭﭩﮑﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺷﺮﻡ ﻭ ﺣﯿﺎ ﺳﮯ ﻋﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻗﺒﺮ ﮐﯽ ﻣﭩﯽ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﭼﯿﺰ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺮ ﺳﮑﺘﯽ۔ *
ﺳﻨﻮ ! ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﻧﯿﭽﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﺳﮑﺘﮯ۔
ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻋﻮﺭﺕ ﺑﻨﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﻮ؟
ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ : ﺟﯽ ﮨﺎﮞ !
ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : * ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﻧﯿﭽﯽ ﺭﮐﮭﻮ۔ *

Thursday 15 August 2019

لڑکی کشمکش میں پڑ گئی بہت

www.swatsmn.com
پروفیسر نے ایک married لڑکی کو کھڑا کیا
اور کہا کہ آپ بلیک بورڈ پہ ایسے 25- 30 لوگوں کے نام لکھو جو تمہیں سب سے زیادہ پیارے ہوں.
لڑکی نے پہلے تو اپنے خاندان کے لوگوں کے نام لکھے، پھر اپنے سگے رشتہ دار، دوستوں، پڑوسی اور ساتھیوں کے نام لکھ دیے ...
اب پروفیسر نے اس میں سے کوئی بھی کم پسند والے 5 نام مٹانے کے لیے کہا ...
لڑکی نے اپنے دوستوں کے نام مٹا دیے ..
پروفیسر نے اور 5 نام مٹانے کے لیے کہا ...
لڑکی نے تھوڑا سوچ کر اپنے پڑوسيو کے نام مٹا دیے ...
اب پروفیسر نے اور 10 نام مٹانے کے لیے کہا ...
لڑکی نے اپنے سگے رشتہ داروں کے نام مٹا دیے ...
اب بورڈ پر صرف 4 نام بچے تھے جو اس کے ممي- پاپا، شوہر اور بچے کا نام تھا ..
اب پروفیسر نے کہا اس میں سے اور 2 نام مٹا دو ...

لڑکی کشمکش میں پڑ گئی بہت سوچنے کے بعد بہت دکھی ہوتے ہوئے اس نے اپنے ممي- پاپا کا نام مٹا دیا ...
تمام لوگ دنگ رہ گئے لیکن پرسکون تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ کھیل صرف وہ لڑکی ہی نہیں کھیل رہی تھی بلکی ان کے دماغ میں بھی یہی سب چل رہا تھا.
اب صرف 2 ہی نام باقی تھے ..... شوہر اور بیٹے کا ...
پروفیسر نے کہا اور ایک نام مٹا دو ...
لڑکی اب سہمی سی رہ گئی ........ بہت سوچنے کے بعد روتے ہوئے اپنے بیٹے کا نام کاٹ دیا ...
پروفیسر نے اس لڑکی سے کہا تم اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ جاؤ ... اور سب کی طرف غور سے دیکھا ..... اور پوچھا: کیا کوئی بتا سکتا ہےکہ ایسا کیوں ہوا کہ صرف شوہر کا ہی نام بورڈ پر رہ گیا.
سب خاموش رہے .
پھر پروفیسر نے اسی لڑکی سے پوچھا کہ اسکی کیا وجہ ھے؟
اس نے جواب دیا کہ میرا شوہر ہی مجھے میرے ماں باپ، بہن بھائی، حتا کے اپنے بیٹے سے بھی زیادہ عزیز ھے. وہ میرے ھر دکھ سکھ کا ساتھی ھے، میں اس ھر وہ بات شیئر کر سکتی ھوں جو میں اپنے بیٹے یا کسی سے بھی شیئر نہیں کر سکتی،
میں اپنی زندگی سے اپنا نام مٹا سکتی ھوں مگر اپنے شوہر کا نام کبھی نی مٹا سکتی.
بیوی گھر کی ملکہ ھوتی ھے پاوں کی جوتی نھی،

Saturday 3 August 2019

زیر زمین پانی کے ذخائر ری چارج کیسے ہوتے ہیں؟

www.swatsmn.com

زیرِ زمین پانی کے ذخائر میں کمی کا شور تو سنتے ہیں لیکن کبھی اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی؟ کیوں ہماری پانی والی موٹریں کام کرنا چھوڑ جاتی ہیں اور پھر ہمیں پانی حاصل کرنے کیلئے ذیادہ گہرا بور کروانا پڑتا ہے؟ جس گھر میں پہلے چالیس فٹ بور والا ہینڈپمپ یا نلکا بہترین کام کرتا تھا وہاں کیوں اب اڑھائی سو فٹ پہ بھی پانی نہیں مل رہا؟

اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہم جتنا پانی زمین سے لے کر استعمال کر رہے ہیں، اسے اتنا پانی واپس نہیں کر رہے، یعنی ہمارے زیر زمین پانی کے ذخائر ری چارج نہیں ہو رہے۔

زیر زمین پانی کے ذخائر ری چارج کیسے ہوتے ہیں؟ بارش سے اور ہمارے استعمال شدہ پانی سے (اگر ہم وہ پانی زمین کو واپس کریں تو)

ہزاروں سال تو یہ ذخائر ری چارج ہوتے رہے، اب کیوں نہیں ہو رہے؟ کیونکہ بارش اور دیگر استعمال شدہ پانی کے زمین میں جانے کا قدرتی راستہ (کچی زمین) کو ہم نے سیمنٹ، تارکول اور کنکریٹ سے بند کر دیا ہے، وہ پانی جو زیر زمین پانی کی سطح کو برقرار رکھتا تھا اسے اب واپس زمین میں جانے کا راستہ نہیں ملتا اور ہم اسے نالیوں میں بہا دیتے ہیں۔

اگر ہم سب اپنے اپنے گھر کا کچھ حصہ باغیچے کیلئے چھوڑ دیں تو نہ صرف یہ کہ باغیچے کی کچی زمین بارش کے پانی کو ہمارے زیر زمین پانی کے لیول کو برقرار رکھنے کیلئے استعمال کرے گی بلکہ ہمارا باغیچہ ہمیں روز تازہ پھل اور سبزیاں بھی دے گا۔ لہذا اس نام نہاد ترقی کے خول سے باہر آئیں اور حقیقی ترقی اپنائی

Saturday 13 July 2019

جب عورت مرد کے ساتھ ہو تو ظلم کے خلاف ان کی مزاحمت کامیاب ہوجاتی ہے

www.swatsmn.com

یہ رومنی اساطیری کہانی ہے اور کافی ترغیبی ہے۔ جب عورت مرد کے ساتھ ہو تو ظلم کے خلاف ان کی مزاحمت کامیاب ہوجاتی ہے۔
باپ بیٹی کی یہ لازوال محبت کی حیرت انگیز کہانی ہے-
اس فوٹو کو دیکھ کر آپ ہر ایک کے دماغ میں کچھ عجیب قسم کے خیالات آرہے ہوں گی، لیکن اس فوٹو کی سچائی کو جاننے کے بعد آپ کی آنکھوں میں بھی آنسو آ جائیں گے ...!
یہ فوٹو یورپ کے ایک مشہور پینٹر "Murillo" نے بنائی تھی! یورپ کے ایک ملک میں ایک شخص کو بھوک سے تڑپ تڑپ کر مرجانے کی سزا دے کر جیل میں بند کر دیا گیا، یہ سزا اُس زمانے میں سب سے زیادہ سخت تھی کیوں کہ سزا یافتہ انسان کو بھوک اور پیاس سے تڑپا تڑپا کر مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا تھا اور جب وہ مرے تو وہ شدید بھوکا اور پیاسا ہونا چاہیے! اس کی بیٹی نے حکومت وقت سے درخواست کی کہ اُسے اپنے والد سے ہر روز ملاقات کرنے کی اجازت دی جائے اور حکومت وقت نے اُس کو اپنے والد سے روزانہ ملنے کی اجازت دے دی لیکن اُس کی ملاقات سے پہلے اُس کی روزانہ سخت تلاشی لی جاتی تھی کہ کہیں وہ کھانے پینے کی کوئی چیز اندر نہ لے جاسکے. اس نے ملاقات کے وقت اپنے والد کی حالت کو دیکھا تو وہ بہت پریشان ہوگئی کیونکہ اُس کا والد پانی اور بھوک کی شدد کی وجہ سے تڑپ رہا تھا۔۔۔! اس نے ایک فیصلہ کیا کہ وہ اپنے والد کو ایسے پڑتی موت مرنے نہیں دے گی اور اُس نے اپنے والد کو زندہ رکھنے کے لئے اپنا دودھ پلانا شروع کر دیا۔۔۔! جب شخص بہت دنوں کے بعد بھی نہیں مرا تو گارڈز کو اِس لڑکی پر شق ہوا اور اُنہوں نے اِس مشکوک لڑکی کی چانچ پڑتال کرنا شروع کر دیا اور ایک دن انہوں نے اُس لڑکی کو اپنا دودھ اُس آدمی کو پلاتے ہوئے پکڑ لیا۔ پھر اس لڑکی پر مقدمہ کیا گیا اور حکومت وقت کے قانون کے مطابق اُس لڑکی کو بھی یہی سزا ملنی چاہئے تھی لیکن جو جج صاحباں نے اِس مقدمے کا فیصلہ کیا وہ عجیب اور جذبات سے بھرپور تھا اُنہوں نے اِس لڑکی کو اور اُس کے والد کو آزاد کر دیا۔
عورت چاہے کسی بھی روپ میں ہو ماں، بیوی، بہن یا بیٹی وہ ہر روپ میں، ممتا کی مورت ہے اور قربانی دیتی ہے.
نوٹ: یہ پینٹنگ آج بھی یورپ میں سب سے زیادہ مہنگی پینٹنگ ہے ... !!
(انگریزی ادب سے ترجمہ)
Copied


Wednesday 3 July 2019

ہر موڑ پہ ابرک ہمیں ہوتا ہے گماں یہ اس موڑ پہ ہم پھر سے کہانی میں ملیں گے

www.swatsmn.com
وہ لوگ جو کچھ روز جوانی میں ملیں گے
ہر شام وہ پھر تیری کہانی میں ملیں گے
ڈھونڈو نہ ہمیں دنیا کی رنگین فضا میں
ہم لوگ کسی یاد پرانی میں ملیں گے
حالات کی تپتی ہوئی دوپہر میں بچھڑے
یہ طے ہے کسی شام سہانی میں ملیں گے
اک خواب تُلا رہتا ہے ہجرت پہ ہمہ وقت
اک روز اسی نقل مکانی میں ملیں گے
دعوی نہیں، امید نہیں، رکھتے یقیں ہیں
ہم پھر سے اسی کوچہِِ فانی میں ملیں گے
ملنا ہے اگر ہم سے تو پڑھ لیجئے ہم کو
ہم لوگ تری آنکھ کے پانی میں ملیں گے
یونہی نہ ٹٹولو ہمیں لفظوں میں ہمارے
ہم بات نہیں بات کے معنی میں ملیں گے
جب تک غمِ مطلوب ٹھکانے نہیں لگتا
لگتا ہے سخن، شعر روانی میں ملیں گے
اک بات یہی سوچ کے سنتا نہیں دل کی
کچھ اور نئے غم ہی نشانی میں ملیں گے
ہر موڑ پہ ابرک ہمیں ہوتا ہے گماں یہ
اس موڑ پہ ہم پھر سے کہانی میں ملیں گے
............. اتباف ابرک .
یہ مصرعہِ اول تو یونہی کھینچ دیا ہے
مطلب تجھے سب مصرعہِ ثانی میں ملیں گے

Monday 1 July 2019

ﯾﮩﺎﮞ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﺑﮭﺮﮮ ﭘﮍﮮ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﮐﮯ

www.swatsmn.com

ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮐﻮ ﭘﮩﻠﯽ ﺭﺍﺕ ﮨﯽ ﭘﺘﺎ ﭼﻞ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺑﯿﻮﯼ ﭘﺎﮎ ﺩﺍﻣﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺁﻧﮕﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﺑﮩﻦ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﯿﺖ ﮔﺎﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﭗ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ ۔ﯾﮧ ﺳﺎﻟﮧ ﺑﮭﯽ ﻋﺰﺕ ﮐﺎ ﺣﻘﺪﺍﺭ ﮨﮯ...ﻭﮦ ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺁﺭﺍﻡ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻣﺤﻨﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﺳﮯ ﭘﺘﺎ ﭼﻼ ﮐﮯ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮯ ﻋﺸﻖ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮨﮯ ۔ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﺎﺭ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ۔۔ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﭗ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ ﯾﮧ ﻣﺮﺩ ﻧﺎﻡ ﮐﯽ ﮔﮭﭩﯿﺎ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺑﮩﺖ ﻋﺰﺕ ﮐﺎ ﺣﻖ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ ۔ ﺁﺷﻨﺎ ﺳﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﻣﻘﺘﻮﻝ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﺎﭖ ﺗﮭﺎ ۔ ﻣﺠﺎﻝ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺧﺒﺮ ﭘﺮ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﮐﺎﻥ ﺩﮬﺮﮮ ﮨﻮﮞ ۔ﻏﯿﺮﺕ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﻗﺘﻞ ﺗﻮ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺳﺮ ﭘﺮ ۔ﯾﮩﺎﮞ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﺑﮭﺮﮮ ﭘﮍﮮ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﺨﺘﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﻮ ﻏﯿﺮﺕ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﻣﺮ ﮔﺌﮯ...ﻟﯿﮑﻦ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺫﮐﺮ؟؟ﯾﮩﺎﮞ ﺑﺲ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﻣﻈﻠﻮﻡ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﯽ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺑﯿﭽﻨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮏ ﺑﮭﯽ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ۔ ﺑﯿﭽﺘﮯ ﺟﺎﺅ...ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﻧﮩﯿﮟ...ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺮﺩ ﻧﺎﻡ ﮐﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺑﮩﺖ ﻋﺰﺕ ﺑﺨﺶ ﺩﻭ ۔ﮨﺮ ﺑﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﯾﮩﯽ ﻏﻠﻂ ﻧﮩﯿﮟ ۔ﺣﺎﻝ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﻋﺎﺻﻤﮧ ﺍﻭﺭ ﻓﯿﺼﻞ ﻭﺍﻻ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﻮ ۔ﻋﻮﺭﺕ ﺳﺮ ﻣﻨﮉﻭﺍ ﮐﺮ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﭘﺮ ﺁﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﺑﮍﺍ ﻇﻠﻢ ﮨﻮﺍ ۔ﻧﺎﭼﻨﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺳﺎﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻧﮯ ﺗﮭﻮ ﺗﮭﻮ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻧﮑﻼ ﮐﯿﺎ ؟ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺳﻮ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻧﺎﭼﺘﮯ ﮨﻮﮮ ﻭﯾﮉﯾﻮ ﻧﮑﻞ ﺁﺋﯽ ۔ﭘﮭﺮ ﭘﺘﺎ ﭼﻼ ﻣﺨﺘﺮﻣﮧ ﺁﺋﺲ ﮐﺎ ﻧﺸﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺩﻭ ﺩﻥ ﭘﮩﻠﮯ ﺭﻭ ﺭﻭ ﮐﺮ ﺑﺘﺎ ﺭﮨﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺷﺮﺍﺏ ﭘﯿﻨﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ....ﺧﺪﺍﺭﺍ ﻟﺒﺮﻟﺰ ﮐﯽ ﮐﺎﭘﯽ ﺷﺪﮦ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﻮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺑﻨﺎﻧﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﮟ..
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺑﮍﯼ ﻋﺰﺕ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﮏ ﺧﺴﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ...ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺟﻮ ﻣﺎﻧﮓ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻞ ﺳﮑﺘﺎ...!!
source ... Waqas 

Saturday 22 June 2019

انسان کی حیثیت ہی کیا ہے؟

Saleem Medias

تدفین کے ایک دن بعد یعنی ٹھیک 24 گھنٹے بعد انسان کی آنتوں میں ایسے کیڑوں کا گروہ سرگرم عمل ہو جاتا ہے جو مردے کے پاخانہ کے راستے سے نکلنا شروع ہو جاتا ہے،
ساتھ نا قابل برداشت بدبو پھیلنا شروع کرتا ہے،
جوکہ در اصل اپنے ہم پیشہ کیڑوں کو دعوت دیتے ہیں۔
یہ اعلان ہوتے ہی بچھو اور تمام کیڑے مکوڑے انسان کے جسم کی طرف حرکت کرنا شروع کر دیتے ہیں اور انسان کا گوشت کھانا شرو ع کر دیتے ہیں۔
تدفین کے 3 دن بعد سب سے پہلے ناک کی حالت تبدیل ہونا شرو ع ہو جاتی ہے۔
6 دن بعد ناخن گرنا شرو ع ہو جاتے ہیں۔
9 دن کے بعد بال گرنا شرو ع ہو جاتے ہیں۔
انسان کے جسم پر کوئی بال نہیں رہتا اور پیٹ پھولنا شروع ہو جاتا ہے۔
17 دن بعد پیٹ پھٹ جاتا ہے اور دیگر اجزاء باہر آنا شرو ع ہو جاتے ہیں۔
60 دن بعد مردے کے جسم سے سارا گوشت ختم ہو جاتا ہے۔ انسان کے جسم پر بوٹی کا ایک ٹکڑا باقی نہیں رہتا۔
90 دن بعد تمام ہڈیاں ایک دوسرے سے جدا ہونا شرو ع ہو جاتی ہیں۔
ایک سال بعد ہڈیاں بوسیدہ ہو جاتی ہیں،
اور بالآخر جس انسان کو دفنایا گیا تھا اس کا وجود ختم ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔
۔
تو میرے دوستوں غرور، تکبر، حرص، لالچ، گھمنڈ، دشمنی، حسد، بغض، جلن، عزت، وقار، نام، عہدہ، بادشاہی،
یہ سب کہاں جاتا ہے؟
سب کچھ خاک میں مل جاتا ہے
انسان کی حیثیت ہی کیا ہے؟ 
مٹی سے بنا ہے، مٹی میں دفن ہو کر مٹی ہو جاتا ہے۔
پانچ یا چھ فٹ کا انسان قبر میں جا کر بے نام و نشان ہو جاتا ہے۔۔۔
دنیا میں اکڑ کر چلنے والا، 
اپنے آپ کو طاقت ور سمجھنے والا
دوسروں کو حقیر سمجھنے والا 
دنیا پر حکومت کرنے والا
قبر میں آتے ہی اس کی حیثیت، صرف "مٹی" رہ جاتی ہے
لہٰذا انسان کو اپنی ابدی اور ہمیشہ کی زندگی کو خوبصورت اور پرسکون بنانے کے لئے ہرلمحہ فکر کرنی چاہیئے،
اللہ کو یاد کرنا چاہیئے،
ہر نیک عمل اور عبادت میں اخلاص پیدا کرنا چاہیئے
اور
خاتمہ بالخیر کی دعا کرنی چاہیئے۔۔۔!
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔آمین
منقول

احساسِ کمتری

www.swatsmn.com

مجھے یہ تو علم نہیں کہ ایرانی فوج کا عالمی رینکنگ میں کیا نمبر ہے لیکن کل ایران نے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے امریکی ڈرون کو مار گرا کر مجھے شدید ترین احساسِ کمتری میں مبتلا کر دیا ہے۔
تمام اقسام کی عالمی پابندیوں کے باوجود ایران نے اپنے وسائل او
ر مقامی مہارت سے زمین سے فضا میں مار کرنے والا میزائل بنایا۔ اس ایرانی ساختہ میزائل نے RQ-4A Global Hawk نامی امریکہ کا ڈرون طیارہ مار گرایا۔ امریکیوں کا دعویٰ تھا کہ Raytheon کمپنی کے اس جدید ترین ڈرون کو دشمن کا ریڈار نہیں دیکھ سکتا۔ اس کی ٹیکنالوجی اتنی شاندار ہے کہ یہ اپنی طرف آنے والے میزائل یا راکٹ وغیرہ کوغچہ دے کر بچنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اس طرح کے ایک ڈرون طیارے کی قیمت 22 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہے۔ جبکہ اس کی تیاری کے پروگرام پر 10 ارب ڈالر سے زیادہ کا خرچ آ چکا ہے۔
امریکیوں کو اپنے جہاز پر اسقدر اعتماد تھا کہ اس کی تباہی کے ایرانی دعوے کی فوری طور پر تردید جاری کر دی۔ پھر کئی گھنٹے بعد امریکی بحریہ کے ترجمان نے اپنے ڈرون کی تباہی کا اعتراف کیا۔ دوسری جانب امریکیوں کے لیے یہ یقین کرنا بھی بہت مشکل تھا کہ یہ ایران اُن کے ڈرون کو سوچی سمجھی پلانگ کے تحت تباہ کر سکتا ہے۔ اسی لیے اپنے رد عمل میں ان کا کہنا تھا کہ یہ کسی ایرانی جنرل یا مقامی کمانڈر کی پاگل پن و حماقت پر مبنی کاروائی ہے۔
لیکن جب ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ حسین سلامی کا سامنے آیا تو امریکیوں نے بغلیں جھانکنیں لگے۔ حسین سلامی ان کا کہنا تھا، ’’امریکی ڈرون گرا کر انھوں نے ایک واضح پیغام بھیجا ہے۔ ہماری سرحدیں ہمارے لیے سرخ لکیر کی مانند ہیں اور جو بھی دشمن انھیں پار کرنے کی کوشش کرے گا اسے تباہ کر دیا جائے گا۔ ہم اعلانیہ کہتے ہیں کہ ہم کسی ملک کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے لیکن ہم اس کے لیے تیار ہیں۔‘‘
ایران کا واضع موقف سامنے آنے کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے بیان دیا، ’’ایران کی کاروائی کے نتیجے میں اگر کسی امریکی کی جان متاثر ہوئی ہوتی، تو میرا ردعمل بڑا مختلف ہوتا۔‘‘
میرے احساس کمتری کی وجہ یہ ہے کہ میرے ملک پر 2004 سے 2018 کے درمیان امریکیوں نے 4 سو29 ڈروان حملے کئے۔ جن میں عورتوں اور بچوں سمیت 5 ہزار سے زیادہ انسان مارے گئے۔ خود امریکیوں کے اعداد و شمار کے مطابق مرنے والوں میں 90 فیصد تک بے گناہ ہو سکتے ہیں۔ ہائی پروفائل ٹارگٹس صرف 84 تھے۔ امریکیوں نے سینکڑوں کلومیٹر اندر گھس کر ایبٹ آباد میں فوجی کاروائی کی۔ سلالہ میں کئی گھنٹے تک جاری رہنے والے حملے میں پاکستانی فوج کے درجنوں اہلکاروں کو بھون ڈالا۔لیکن ہم نمبر ون ہونے کے باوجود نیم دلانہ مذمت کے سوا کچھ نہ کر سکے۔

Tuesday 18 June 2019

"سر ! 3 مئی 1995کادِن امریکی ہمیشہ یاد رکھیں گے"

www.swatsmn.com
"سر ! 3 مئی 1995کادِن امریکی ہمیشہ یاد رکھیں گے"
3 مئی 1995 کا دِن جب امریکی بحریہ اور فضائیہ کے غرور کوپاکستان ائیر فورس کے دو شاہینوں نے خاک میں مِلا دیا۔ پاکستان ائیر فورس کا ایک انوکھا کارنامہ جس نے دُنیا کو حیرت زدہ کردیا۔
1995میں سپائڈرالرٹ کے نام سے پاکستان اور امریکہ کی مُشترقہ جنگی مشقیں شُروع ہوئیں جس میں دونوں ممالک کی بری، بحری اور فضائی افواج نے حصّہ لیا۔
جنگی مشقوں کے آخری مراحل میں فِضا سے سمندر میں حملے کا مقابلے کا انعقاد کیا گیا جِس میں پاکستان ائیرفورس کو ٹارگٹ دیا گیا کہ اُنہیں سمندر میں موجود بحری بیڑے اِبراہم لنکن (CN-72) کےانتہائی قریب جا کر اُس پر حملہ کرکے مصنوعی طور پر کے تباہ کرنا ہے اور دُوسری طرف امریکی بحری بیڑے پر موجود امریکی بحریہ کو یہ ہدف دیا گیا کہ اُنہیں ہوا میں موجود پاکستانی ہوابازوں کا بحری بیڑے کے قریب پہنچنے سے قبل سُراغ لگانا ہے تاکہ بیڑے پر موجود امریکی F-14جنگی تیارے فوری اُڑان بھر کے پاکستانی طیاروں کو ہوا میں ہی دبوچ لیں اور بحری بیڑے کے قریب آنے سے پہلے ہی ہوا میں مصنوعی طور پر گِرا کر یہ مِشن اپنے نام کرلیں۔
اس مشق میں امریکی بحری اور فضائی افسران انتہا کی حد تک مطمئن اور پُر اعتماد تھے۔ اُن کے اعتماد کی وجہ امریکی بحری بیڑے پر موجوددُنیاکاسب سے بہترین ریڈارسسٹم تھا جو میلوں دور سے کسی بھی قسم کی فضائی نقل وحرکت کی بالکل درست نشاندہی کرنے کی صلاحیت کا حامل تھا۔ امریکیوں کے اعتماد کی دُوسری اور اہم وجہ یہ تھی کہ بحری بیڑے پر موجود امریکی طیارے جدید ترین طیارے تھے جو برق رفتاری میں پاکستانی معراج طیاروں سے کہیں آگے تھے۔
دُوسری طرف پاکستان کے ایک فضائی اڈے کا منظر! جہاں پر پاکستان کے فضائی نگرانوں کو اس مُشکل ترین مشن پر جانے کےلئے پوچھا گیا اور حسبِ معمول تمام پائلٹس ایک عزم اور ولوّلے کے ساتھ اس مشن پر جانے کے لئے اگےآئے لیکن اس مِشن پر صرف دو پائلٹ مُنتخب ہونے تھے جنہوں نے اپنے معراج طیاروں کے ساتھ اس مُشکل ترین مشن پر جانا تھا۔
سینئر کمانڈ کے فیصلے کے مطابق اس مشن کےلئے وِنگ کمانڈر عاصم سلمان اور فلائٹ لیفٹیننٹ احمد حسن کا انتخاب کیا گیا۔ وِنگ کمانڈر عاصم سلمان اُن دِنوں پاکستان فضائیہ میں سکوارڈن نمبر آٹھ کے بطورکمانڈرفرائض سرانجام دے رہے تھے۔
دِن تین بجے کے وقت دونوں پاکستانی شاہین مشن پر روانہ ہونے سے قبل اپنے طیاروں کی جانچ پڑتال میں مشغول تھے جب وِنگ کمانڈر عاصم سلمان نے فلائٹ لیفٹیننٹ احمد حسن کو اپنے پاس بُلایا اور کہا۔ احمد میں اُمید کرتا ہوں آپ اس مشن کےلئے مُکمل طورپر تیارہو۔ لیفٹیننٹ احمد حسن کےچہرےپر ایک پُراعتماد اور جوش سے بھرپور مُسکراہٹ آئی اور وہ انتہائی ادب لیکن اعتماد سے بولے "سرآج تین مئی 1995کادِن امریکی ہمیشہ یاد رکھیں گے"
وِنگ کمانڈر کو اپنےنوجوان شاہین کی بات پر مُکمل اعتماد تھا کیونکہ آج اُنہوں نے اپنی زندگی کا ایک انتہائی انوکھا فیصلہ کیا جو آج تک کی فضائی تاریخ میں نہیں ہوا تھا لیکن ونگ کمانڈر عاصم سلمان نے اپنے اس فیصلے سے احمد حسن کو آگاہ نہیں کیا اور فیصلہ کیا کہ ہدایات مشن پر روانہ ہونے کے بعدطیارے کے وائرلیس سےدیں گے۔
چند لمحوں بعد دونوں شاہین اپنے اپنے معراج طیاروں کے کاک پٹ میں موجود تھے۔ پھر اُن کے طیاروں نے نعرہ تکبیر کی صداؤں کی گونج میں ہوا میں اُڑان بھری اور ایک مُشکل ترین فضائی مشن پر روانہ ہوگئے۔
اِس مشن میں ونگ کمانڈر عاصم سلمان لیڈر جبکہ فلائٹ لیفٹیننٹ احمدحسن ونگ مین کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
امریکی بحری بیڑے پر موجود تمام بحری اور فضائی افسران انتہائی اطیمنان سے پاکستانی طیاروں کی ریڈار پر نشاندہی کا انتظار کررہے تھے کہ جیسے ہی پاکستانی طیاروں کی نشاندہی ہو اُن کے جدید ترین ایف چودہ طیارے فوری اُڑان بھر کے پاکستانی معراج طیاروں کو بحری بیڑے سے میلوں دُور دبوچ لیں اور امریکی اپنی فتح کا جشن منائیں۔
تمام امریکی افسران ریڈرا روم میں موجود تھے اور امریکی پائلٹ اپنے طیاروں میں موجود اگلے حُکم کے مُنتظر تھے۔
دونوں پاکستانی شاہین اپنے اپنے طیاروں کو ہدف کی طرف لے جا رہے تھے جب اچانک فلائٹ لیفٹیننٹ احمد حسن کو طیارے کے وائرلیس پر اپنے لیڈر کا ایک انوکھا اور پُر خطر حُکم سُنائی دیا اور پھربیک وقت دونوں طیارے بجلی کی رفتار سےنیچے کی طرف جانا شُروع ہوگئے۔
امریکی بحری بیڑے پر اُس وقت سناٹا چھا گیا جب پاکستان کے دونوں شاہینوں نےامریکیوں کو حرکت کا موقع دئیے بغیرامریکی بحری بیڑے کی بالائی سطح کے بھی نیچےسے سمندر سے محض چند فُٹ اوپر سے اپنے معراج طیارے برق رفتاری سے فضاء میں بُلند کئے اور امریکی بحری بیڑے کو کامیابی سے مصنوعی طور ہراپنے ہدف کا نشانہ بناکر پاکستان کی امریکیوں پر فتح کا پیغام کنٹرول روم کو دیا۔
پاکستانی ہوائی اڈہ ایک بار پھر نعرہ تکبیر کی صداؤں سے گونج اُٹھا جبکہ دُوسری جانب امریکی بحری بیڑے پر ایک سناٹا چھا چُکا تھا اور امریکی ایک صدمے کی کیفیت میں ایک دوسرے کا مُنہ دیکھ رہے تھے۔ امریکی سوچ رہے تھے کہ آخر ایسا کیسے ممکن ہوا کہ پاکستانی معراج طیارے جدید ترین ریڈار پر نظرآئے بغیر کامیابی سے بحری بیڑے کے اُوپر سے گُزر گئے اور اُنہیں سنبھلنے کا موقع بھی نہیں دِیا۔
ونگ کمانڈر عاصم سلمان نے ہوائی اڈے سے اُڑان بھرنے سےقبل ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ امریکی ریڈار سے بچنےکےلئے اُنہیں دونوں طیاروں کو انتہائی نِچلی اور خطرناک سطح پر تیزرفتاری سے پرواز کرنا پڑے گی چُنانچہ اُنہوں نے اُڑان بھرنے کے چند لمحوں بعد ہی فلائٹ لیفٹیننٹ احمد حسن کو اچانک یہ حُکم دیا۔ قارئینِ کرام اتنی نچلی سطح پر یہ پرواز معراج طیاروں کے ساتھ نامُمکن تھی اوردُنیا میں آج تک کسی پائلٹ نے جدیدترین طیارےپربھی ایسی خطرناک پرواز نہیں کی تھی۔ سطح سمندر پر یہ پرواز اور بھی مُشکل تھی کیونکہ زمین اور پانی پر ہوا کا دباؤ مُختلف ہوتا ہے لیکن آفرین کہ پاکستان کے بہادر اور نڈرسپوتوں نے ایسے نامُمکن کو ایک جذبے سے مُمکن کر دِکھایا اور امریکیوں کے غرور کوخاک میں مِلا کر فضائی معرکوں میں ایک تاریخ رقم کر دی اور اپنےسبزہِلالی پرچم کی لاج رکھ کر اقبال (رح) کے اس قول کی کو سچ کر دِکھایا "مومن ہو تو بےتیغ بھی لڑتا ہے سِپاہی"
ہمارا سلام ہو وطن کے تمام بہادر سپوتوں پر۔
افواجِ پاکستان زندہ باد
پاکستان پائندہ باد۔

Sunday 14 April 2019

کہاں سے لاوں طاقت دین کا سچی ترجمانی کی کہ کسی جانجال میں گزری ہے گڑیاں زندہ گانی کی

www.swatsmn.com
کہاں سے لاوں طاقت دین کا سچی ترجمانی کی
 کہ کسی جانجال میں گزری ہے گڑیاں زندہ گانی کی 

Wednesday 30 January 2019

MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan EXTED.pk

Admission open  MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan   http://facebook.com/ exted.p k http://www.exted.pk/ Lowest Fee ,   No IELTS...