Sunday 28 December 2014

خلاف معمول اس دن حسنین اسکول جاتے ہوئے مجھ سے گلے ملا،

www.swatsmn.com
گم صم مگر ہونٹوں پر ہر وقت ہلکی ہلکی سی مسکراہٹ رکھنے والا حسنین کسی مرغی کو بھی خون میں لت پت نہیں دیکھ سکتا۔
یہی وجہ تھی کہ  وہ  مرغی فروش کی دکان کے سامنے سے گزرنے سے بھی کتراتا تھا۔ آرمی پبلک اسکول کے سانحے میں محکمہ ابتدائی و ثانونی تعلیم کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر میل پشاور شریف گل کا لخت جگر حسنین شریف شہید بھی اﷲ کو پیارا ہو گیا ہے، بہت سے دیگر والدین کی طرح ماہر تعلیم شریف گل بھی اپنے بچوں کے بہتر اور شان دار مستقبل کی خاطر اپنے گاؤں محب بانڈہ سے ہجرت کرکے پشاور میں آبسے تھے، تاکہ ان کے بچے بہتر تعلیم کی روشنی سے اپنے ملک و قوم کے مستقبل کو سنوار سکیں، لیکن ان کو کیا معلوم تھا کہ چند درندے  چنگیز خان اور ہلاکو خان سے بھی بڑھ کر ظلم و بربریت اور سفاکی کی داستانیں رقم کرنے والے ان کے پھول مسل کر ان کے مستقبل کو ظلمت کدہ بنا دیں گے۔
حسنین شریف جس کا بھائیوں میں تیسرا نمبر تھا، واقعی بہت معصوم تھا اور اگر کوئی معصومیت کے معنی نہیں سمجھتا تھا تو حسنین جیسی کلی کو دیکھ کر وہ معصومیت کے معنی جان جاتا۔ گھر میں  سب سے زیادہ گم صم رہنے والا حسنین شریف ہر وقت ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے پھرتا۔ حسنین کی زندگی صرف ان تین الفاظ کا مجموعہ تھی یعنی اس کے علاوہ اس کے پاس الفاظ ہی نہیں تھے یا شاید اسے اس دنیا کی بے ثباتی اور کم مائیگی کا بہت پہلے احساس ہوچلا تھا، چناں چہ اس کا کلام عموماً،’’جی اچھا، جی نہیں اور اسلام علیکم‘‘ ہی پرمشتمل ہوتا۔ شہید حسنین شریف کے والد جو ایک صابر انسان ہیں، حسنین کی شہادت کا تذکرہ سُن کر اپنا غم ضبط نہ کرسکے۔
جب شریف گل سے ان کے لخت جگر  کے بارے میں بات کی گئی تو کہنے لگے کہ خلاف معمول اس دن حسنین اسکول جاتے ہوئے مجھ سے گلے ملا، عام روٹین میں وہ صرف سلام کر کے چلا جاتا تھا۔ اس دن نہ جانے کیوں وہ مجھ سے گلے ملا، شاید اسے اپنے وداع ہونے کا علم تھا۔ شہید حسنین شریف کی والدہ ایک اسکول کی سربراہ ہیں۔ روز وہ اسکول کے بچوں کے مسائل حل کرتی اور شرارتی بچوں کو چُپ کراتی رہتی ہیں، لیکن آج ان کے اپنے بچے نے ان کے ساتھ ایسی انہونی شرارت کردی کہ وہ دم بخود، چپ چاپ اور گم صم ہوکر رہ گئی ہیں اور  دروازے پر نظریں لگائے اسی انتظار میں بیٹھی ہیں کہ ابھی دروازہ کھلے گا اور میرا جگرگوشہ اسلام علیکم کہہ کر مجھ  سے آلپٹے گا۔ معصوم حسنین شریف واقعی شرافت کا چلتا پھرتا نمونہ تھا۔
اتنا رحم دل کہ وہ بازار سے مرغی لانے سے بھی انکار کردیتا۔ وہ کہتا کہ مرغی والا بڑا ظالم ہے۔ وہ اس کے پروں کو پاؤں کے نیچے دباکر اس کی گردن پر بڑی بے رحمی سے چھری پھیرتا ہے۔ یہ سب کچھ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا، لیکن حسنین کو کیا خبر تھی کہ اصل سفاک قصاب تو اس کی گردن پر چھری پھیرنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں اور ایک دھندلی صبح والی 16 دسمبر کو وہ درندے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔
’’ہاں! اس نے شہادت کا رتبہ پالیا۔ مجھے فخر ہے کہ میں شہید کی ماں کہلاؤں گی۔ انسان کو تو ویسے بھی اس فانی جہاں سے ایک نہ ایک دن جانا ہی ہے، میری اور میرے لخت جگر کی جو خواہش تھی وہ پوری نہ ہوسکی، چوں کہ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ ماں یہ میری بڑی آرزو ہے کہ جس وقت مجھے موت آئے تو فوجی وردی میں آئے۔‘‘
بدقسمت آرمی پبلک اسکول اینڈ کالج کے 4Th ایئر کا طالب علم وسیم اقبال بھی دیگر بچوں کی طرح جام شہادت نوش کرنے والوں میں شامل ہے۔ ضلع نوشہرہ کی زرخیز مٹی ترخہ سے تعلق رکھنے والے حاجی محمد ارشاد کے قابل فخر سپوت اور ایک بھائی اور تین بہنوں کے بہت ہی پیارے وسیم اقبال کی حوصلہ مند والدہ کا کہنا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ آج مجھے اپنے جگر گوشے کی شہادت پر یہ حوصلہ اور صبر کہاں سے ملا ہے۔ مجھے اپنے بیٹے پر فخر ہے۔ میری آنکھوں میں آنسو ضرور ہیں، لیکن میں آج سرخ رو ہوچکی ہوں۔
انھوں  نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا کہ میری اور میرے بیٹے کی یہ حسرت پوری نہ ہ سکی کہ وہ آرمی کی یونی فارم میں شہید ہو، جس کی وہ شدید خواہش رکھتا تھا۔ اسی مقصد کے لیے میرے دل کے ٹکڑے نے آرمی میں کمیشن حاصل کرنے کے لیے آئی ایس ایس بی میں ٹیسٹ بھی دیے تھے، لیکن ہماری یہ آرزو پوری نہ ہوسکی اگر میرا بیٹا یونی فارم میں شہادت کا رتبہ پاتا تو میں خود کو سب سے زیادہ خوش قسمت ماں سمجھتی۔
۔۔۔۔۔۔۔
جمعیت علماء اسلام (ف) کے ضلعی ترجمان حاجی محمد ابراہیم خان کا 14سالہ بھتیجا ہمایوں اقبال ولد محمد اقبال بھی آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہوگیا۔ اس کا ایبٹ آباد کیڈٹ کالج میں ایڈمیشن ہوگیا تھا اور وہ چند روز  میں اسکول سے کیڈٹ کالج  شفٹ ہونے والا تھا۔
چھے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہمایوں اقبال آرمی پبلک اسکول میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ شہادت کا رتبہ پانے والے ہمایوں اقبال کے والد محمد اقبال کا کہنا ہے کہ میرا لخت جگر آرمی میں کیپٹن بننا چاہتا تھا،  لیکن اسے اﷲ نے اس سے پہلے ہی شہادت کے رتبے سے سرفراز کردیا۔ ہمایوں کے چچا محمد ابراہیم نے بتایا کہ میرا بھتیجا اسکول میں ہمیشہ اچھے نمبروں سے پاس ہوتا تھا اور کیڈٹ کالج میں  اس کا ایڈمیشن بھی ہوگیا تھا۔ وہ چند روز بعد وہاں جانے والا تھا، لیکن  زندگی نے وفا نہیں کی۔
۔۔۔۔۔۔۔
آرمی پبلک اسکول ورسک روڈ پر دہشت گردوں کا نشانہ بننے والا والدین کا اکلوتا بیٹا پورے خاندان کو رلا کے چلاگیا۔ اس حملے نے ان کا گھر ہی اُجڑ گیا، کیوں کہ 14سالہ حماد عزیز اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا، جو سکتے کی سی حالت میں ہیں۔ وہ جب بھی بولتے ہیں اپنے ساتھ دوسروں کو بھی خون کے آنسو رلاتے ہیں۔
حماد عزیز آرمی پبلک اسکول میں آٹھویں جماعت کے ذہین طالب علموں میں سرفہرست تھا۔ اس نے  ایک دفعہ آرمی پبلک اسکول چھوڑ کر سینٹ میری اسکول میں داخلہ لے لیا تھا، لیکن موت اسے  دوبارہ آرمی پبلک اسکول میں لے آئی۔ حماد عزیز تنظیم اعوان برادری کے سرپرست اعلیٰ ملک خورشید انور اعوان کا نواسہ اور تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن ملک شاد محمد مرحوم کا پڑپوتا تھا۔ آرمی میں کیپٹن بننا یا ڈاکٹر بننا اس کا خواب تھا، جس کے لیے وہ دن رات پڑھا کرتا تھا اور اپنی کلاس میں ہمیشہ پہلی پوزیشن لیا کرتا تھا۔ ان کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ ہر بڑے کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کے سر پر شادی کا سہرا سجائے، لیکن آج ہم اپنے پھول جیسے حمادعزیز کی قبر پر پھول چڑھارہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔
دہشت گردوں کے حملے میں محکمۂ تعلیم کے  محمد امین کا اکلوتا 15سالہ بیٹا حیدرامین بھی زندگی کی بازی ہارگیا۔ اس کے والدین غم میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ ان پر غشی کے دورے پڑرہے ہیں۔ حیدر امین کے والد محمد امین نے سسکیاں لیتے ہوئے بہ مشکل بتایا کہ ان کا بیٹا جو بننا چاہتا تھا وہ بن گیا۔ انھوں نے کہا کہ اس کے سہارے زندگی کی سانسیں رواں تھیں اب کس کے سہارے زندگی بسر ہوگی اور کیسے بسر ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔
شہید ہونے والے طالب علم ذوالقرنین کو والدین نے کفن کی بجائے اپنے اسکول کے یونی فارم میں مٹی کے سپرد کردیا، ان کے عزیزوں نے بتایا کہ ذوالقرنین شہید ہے اس لیے اسے اس  کے یونی فارم میں خود سے جدا کردیا۔ انھوں نے بتایا کہ آرمی میں کیپٹن بننے کا شوق ذوالقرنین کو  کیڈٹ کالج جھنگ سے آرمی پبلک اسکول دوبارہ کھینچ لایا۔
۔۔۔۔۔۔
’’یہ دوستی ہم نہیں توڑیں گے، توڑیں گے دم مگر تیرا ساتھ نہ چھوڑیں گے۔‘‘  اس گیت کے بولوں کو سچا ثابت کرنے والے اذان اور محمدعلی الرحمان ہیں، جنہوں نے زندگی میں  بھی دوستی  نبھائی اور موت کے راستے پر بھی ہاتھ میں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ایک ساتھ چلے گئے۔ یوں وہ سچی دوستی کی کہانی چھوڑ گئے۔ یہ دوست جن کی دوستی  نوسال پر محیط تھی، اکٹھے ہی راہی عدم ہوئے۔ انھوں نے  پہلی جماعت سے لے کر نویں جماعت تک پورے 9 سال دوستی ایسی نبھائی کہ ایک ہی ڈیسک پر بیٹھتے اور  اور ہر جگہ ساتھ ساتھ ہوتے۔
اذان نے جماعت نہم میں بیالوجی کے مضمون کا انتخاب کیا تو محمد علی الرحمان بھی اپنے والد سے محمد حسین سے بیالوجی لینے کی خواہش کرنے لگا اور اس نے اپنی بات منوالی۔ دونوں کی ڈاکٹر بننے کی تمنا تھی جو ادھوری رہ گئی۔ ان کے جاننے والے بتاتے ہیں کہ ان کی سچی اور پکی دوستی دوسروں کے لیے ایک مثال تھی۔ دونوں کو اسکول کے بعد مسجد میں اور پڑھائی کے علاوہ کسی اور جگہ پر کسی نے نہیں دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
سولہ دسمبر کو درندوں کا نشانہ بننے والا حاجی زئی متھرا اور داؤد خان آرمی پبلک اسکول اینڈ کالج میں سیکنڈایئر کے طالب علم تھے۔ داؤدخان کے والد خالدخان جو آرمی اور ایف سی سے ریٹائر ڈرل انسٹرکٹر ہیں، نے بتایا کہ اس روز جب داؤدخان  اسکول جارہا تھا، اس کے چھوٹے بھائی ولی اﷲ نے اس سے کہا کہ بھائی کہاں جارہے ہو؟ تو داؤد خان نے جواب دیا،’’قبرستان جارہاہوں۔‘‘ اس کے چچازاد بھائی حمزہ نے اس سے کہا تھا کہ جب تم پرچہ دے کر فارغ ہوجاؤ تو پھر دونوں اکٹھے جیکٹ خریدنے صدر بازار جائیں گے۔
داؤد خان اکثر گھر میں کہا کرتا تھا کہ میں آرمی میں جاؤں گا اور میری یہ آرزو ہے کہ میں اپنے وطن کی حفاظت کے لیے شہید ہوجاؤں اور میری قبر کے کتبے پر شہید لکھا ہو۔ اس کی یہ آرزو پوری ہوگئی۔ اس کا چھوٹا بھائی ولی اللہ اس سے بہت پیار کرتا تھا۔ اب وہ ہر لمحہ اسے یاد کرتا ہے اور باربار پوچھتا ہے کہ بھائی کب آئے گا؟
۔۔۔۔۔۔
’’وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ میں ایک آرمی آفیسر بنوں گا، لیکن وہ فوج میں جائے بغیر ہی شہادت حاصل کرگیا۔‘‘
یہ الفاظ پشاور کے علاقے ورسک روڈ پر واقع خوش حال باغ کالونی سے تعلق رکھنے والے محمد علی رحمان شہید کے والد نے گفتگو کرتے ہوئے ادا کیے۔  اس بچے کا  وطن عزیز کی حفاظت کرنے کا ارادہ اس کے فیس بک پر اپنی پروفائل پکچر کی صورت میں دی جانے والی  پاک آرمی اور پاکستان کے جھنڈے کی تصویر سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ محمد علی رحمان شہید کے والد محمد حسین نے بتایا کہ وہ خود بھی پاک آرمی میں ہیں۔ انھوں نے کہا،’’صبح سویرے میرا بیٹا تیار ہوا۔ میں اسے خود چھوڑ کر آیا۔ وہ میرا سب سے بڑا بیٹا تھا۔
کاش مجھے معلوم ہوتا تو میں اسے گھر پر ہی روک لیتا، لیکن خدا کو اس کی شہادت منظور تھی۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ اسکول کے قریب ہی واقع آرمی یونٹ میں تعینات ہیں۔ وہ اپنی ڈیوٹی پر تھے کہ اچانک گولیوں کی آواز آئی۔ چند ہی لمحوں کے بعد انھیں معلوم ہوا کہ اسکول پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ان کے بیٹے کو ہمیشہ سے شوق تھا کہ وہ بڑا ہوکر آرمی آفیسر بنے گا۔ وہ آرمی آفیسر تو بن نہیں پایا لیکن اس ملک کی بقا کے لیے  جام شہادت ضرور نوش کرگیا۔
۔۔۔۔۔۔
’’پلیزامی! آج اسکول جانے کو دل نہیں چاہ رہا۔‘‘
دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے آٹھویں جماعت کے طالب علم صاحب زادہ محمد عمر کی والدہ نے بتایا کہ صبح اسکول جانے سے پہلے مجھ سے عمر کی آخری گفتگو یہی تھی۔ وہ کہنے لگا، امی جان آج اسکول جانے کو دل نہیں چاہ رہا، مگر میں نے کہا نہیں بیٹا! اسکول نہیں جاؤگے تو پہلی پوزیشن کیسے لوگے۔ یہ عمر کے مجھ سے آخری کلمات تھے۔ مجھے کیا پتا تھا کہ عمر مجھے ساری عمر کے لیے یوں ہی روتا ہوا چھوڑ جائے گا۔ عمر کی ہمشیرہ مشعل نے بتایا کہ اسے انٹرنیٹ کا بہت شوق تھا۔ وہ نت نئے سافٹ ویئرز اور گیمز ڈاؤن لوٹ کرتا رہتا تھا۔ حملے والے روز عمر کا چھوٹا بھائی افراسیاب اور بہن مشعل بھی اسی اسکول میں تھے، مگر خوش قسمتی سے وہ اس سانحے سے محفوظ رہے۔
وہ روزے سے تھا
آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردی کے دوران شہید ہونے والا 15 سالہ میٹرک کا طالب علم حیدرامین ولد محمد امین درانی روزہ کی حالت میں شہید ہوا۔ تین بہنوں کا اکلوتا بھائی حیدر امین صوم وصلوٰۃ کا پابند تھا۔
اس نے پشاور کے سادات گھرانے کے مولوی امیرشاہ گیلانی ؒ کے صاحبزادے سید نورالحسنین گیلانی سلطان آغا کے زیرسایہ تربیت حاصل کی۔ 16 دسمبر کو حیدر امین نے نمازفجر ادا کی، قرآن پاک کی تلاوت کی اور جائے نماز وہیں چھوڑ گیا۔ اسے کیا پتا تھا کہ وہ آج آخری بار اﷲ کے حضور سجدہ ریز ہورہا ہے اور اپنے والدین اور بہنوں کو تمام عمر کے لیے غم زدہ چھوڑ کر اسکول جارہا ہے۔ واقعے کے دن وہ حسب معمول اسکول جانے کے لیے اپنے دوست اور ہم جماعت ملک عماد ولد ملک انیس کے ساتھ روانہ ہوا اور دونوں دوست دہشت گردوں کے اسکول پر حملے میں ایک ساتھ شہید ہوگئے۔
اسکول میں آویزاں تحریریں
قیامت سے دوچار ہونے والے آرمی پبلک اسکول، پشاور کی عمارت کے اندرونی مناظر دیکھنے والی ہر آنکھ نم تھی۔ اسکول میں داخل ہونے کے بعد دہشت گردوں کی جانب سے ابتدائی طور پر مین ہال کو نشانہ بنایا گیا، جہاں خون کے دھبے اور دیواروں پر گولیوں کے نشانات اس سانحے کی کہانی سنا رہے تھے۔ شہید بچوں کی کتابیں، جوتے اور پینسلیں بکھری پڑی تھیں۔ عمارت میں آویزاں تحریریں اس سانحے کے تناظر میں زیادہ بامعنی ہوگئی تھیں اور دل گداز تاثر پیش کر رہی تھیں۔
جیسے،’’کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے برابر ہوسکتے ہیں؟ ’’ایگزیکیوشن پلان‘‘ یہ تحریر نوٹس بورڈ پر آویزاں تھی، جس کے مطابق طلباء کو ان کے پورے روز کا معمول بتایا گیا تھا۔ تاہم دہشت گردوں کا ایگزیکیوشن پلان کچھ اور ہی تھا۔ ان تحریروں کے معنیٰ ومفہوم کے بارے میں شہید ہونے والے طلباء کے والدین اور دیگر افراد سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان تحریروں سے ان بچوں اور دہشت گردوں کی سوچ کا فرق واضح طور پر سمجھا جاسکتا ہے، کاش دہشت گرد ان تحریروں میں استعمال ہونے والے الفاظ اور حرف کے اصل معنی ومفہوم کو پڑھ سکتے اور اس کے سیاق وسباق کو سمجھ سکتے تووہ یہ ظلم کبھی نہ ڈھاتے۔
’’ہر بچہ خود کو پشاور کے سانحے سے نتھی کر رہا ہے‘‘
پروفیسر شعبہ نفسیات جامعہ کراچی، ڈاکٹرفرح اقبال کا اظہار خیال
پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں ہونے والی وحشت و بربریت نے نہ صرف وہاں زیرتعلیم بچوں کی نفسیات پر برے اثرات مرتب کیے ہیں بل کہ اس افسوس ناک واقعے نے پورے پاکستان کے بچوں کو خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ اس حوالے سے ہم نے جامعہ کراچی کے شعبۂ نفسیات کی پروفیسر، ڈاکٹر فرح اقبال سے گفتگو کی، انھوں نے کہا:
دہشت گردوں نے ہمارے مستقبل کو ہمارے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا ہے۔ نہ صرف دہشت گردی کا نشانہ بننے والے اسکول کے بچے بل کہ پورے پاکستان کے بچے اسے خود پر حملہ سمجھ رہے ہیں اور عدم تحفظ کا شکار ہوگئے ہیں۔ اس واقعے کے بعد بچوں میں دو طرح کا طرز عمل سامنے آیا ہے۔ اول یہ کہ بچے بہت زیادہ جذباتی، دبائو اور غصے کا شکار ہیں۔ ان میں سفاکیت پیدا ہورہی ہے۔ ان کی سوچ مرنے اور مارنے والی ہوگئی ہے۔ اس وقت بچوں کو نفسیاتی مشاورت کی ضرورت ہے۔ یہ بچے ہر دہشت گرد کو اذیت ناک موت سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ رجحان آگے جاکر ہمارے لیے مسائل پیدا کرے گا۔ ہر بچہ خود کو پشاور کے سانحے سے نتھی کر رہا ہے۔ اگر اس وقت ان کی اچھی طرح کونسلنگ نہیں کی گئی تو ان بچوں کا سفاکانہ رجحان پاکستان کے مستقبل کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔
اس واقعے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بچے بہت ڈرے سہمے ہوئے ہیں۔ وہ بہت مایوسی اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اُن کے ذہن پر خوف سوار ہے کہ اگر وہ باہر نکلے یا اسکول گئے تو گندے انکل (دہشت گرد) انہیں ماردیں گے۔ ان بچوں کا بھروسا نہ صرف اپنے اساتذہ بل کہ اپنے والدین پر سے بھی اٹھ گیا ہے۔
انہیں یہی خوف ہے کہ کوئی بھی ، کسی بھی دن انہیں اسکول یا گھر میں گھُس کر گولیوں سے چھلنی کردے گا۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ اس واقعے کی ایسی ویڈیوز نہ دکھائے جو بچوں پر مزید برے اثرات مرتب کریں۔ ہمیں اور ہمارے بچوں کو گھر سے باہر تو ہر حال میں نکلنا ہی ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم چنگیزخان بن کر تمام مجرموں کو قتل کردیں، اور یہ بھی ناممکن ہے کہ ہم بچوں کو زرہ بکتر پہنا کر گھر سے باہر کھیلنے یا پڑھنے بھیجیں۔ اس وقت دہشت گردی کے خلاف پالیسی مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کی نفسیاتی کونسلنگ کے لیے بھی ایک مربوط پالیسی بنانا نہایت ضروری ہے۔ بچوں کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے۔ انہیں نہ بہت زیادہ آزادی دی جائے اور نہ ہی بہت زیادہ پروٹیکشن دی جائے جس سے وہ خود کو عدم تحفظ کا شکار سمجھیں۔ اساتذہ، والدین اور بچوں کو سیلف ڈیفنس کی تربیت دی جائے۔ بچوں اور ٹیچرز کی نفسیاتی ٹریننگ کی جائے۔
بچوں کو بچہ ہی رہنے دیں۔ انہیں صرف اتنا ہی بتائیں جتنا ان کی عمر کے لحاظ سے ضروری ہے۔ اس وقت ہم بچوں کو غیرضروری معلومات دے رہے ہیں۔ یہ اضافی معلومات انہیں مزید نفسیاتی دبائو میں مبتلا کر رہی ہے۔ اس وقت بچوں کو صرف یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ سب لوگ غلط نہیں ہیں۔ اگر ایک انکل گندے ہیں تو دوسرے سارے انکل اچھے ہیں۔ یہ نہ صرف والدین بل کہ ہم سب کی اخلاقی ذمے داری ہے کہ پاکستان کے مستقبل کو بچانے کے لیے بچوں کی نفسیاتی مشاورت کی جائے۔ انہیں اُس غصے ، مایوسی اور جذباتی ہیجان سے باہر نکالا جائے، جو ان کے دل میں انتقام کے رجحان کو ابھار رہا ہے۔
اگر ہم آرمی پبلک اسکول پشاور میں ہونے والے دہشت گردی کے تناظر میں دیکھیں تو اُس وقت اسکول میں موجود بچوں کو بہت زیادہ کونسلنگ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے بہن بھائیوں، دوستوں، اساتذہ کو خون میں لت پت اذیت ناک صورت حال میں موت سے ہم کنار ہوتے دیکھا ہے۔ ان بچوں کو دو طرح کی کونسلنگ کی ضرورت ہے، اول مختصر المدتی اور دوئم طویل المدتی۔
انہیں ذہنی طور پر اس بات کے لیے تیار کیا جائے کہ وہ اُس اسکول میں آٹھ گھنٹے کس طرح گزاریں گے جس کے درو دیوار کو انہوں نے گولیوں سے چھلنی اور اپنے ہی دوستوں کے خون میں نہاتے دیکھا ہے۔ انہیں نئے عزم و حوصلے کے ساتھ اسی اسکول، اسی عمارت انہی بینچوں پر پڑھنے کے لیے تیار کیا جائے۔ ان بچوں کو ذہنی صدمے سے باہر نکالنے کے لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی بہتر تربیت کی جائے۔ بچوں کے ذہنوں پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو ختم کیا جائے۔ اُن میں پیدا ہونے والے مرو اور مارو والے رجحان کو ختم کر کے مثبت پہلو اجاگر کیے جائیں۔f

Thursday 11 December 2014

مجبوراً نیلام کیا گیا نوبیل تمغہ واپس کرنے کا فیصلہ

www.swatsmn.com

روس کے امیر ترین شخص نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی سائنسدان جیمز واٹسن سے طلائی نوبیل تمغہ انھوں نے خریدا تھا اور اب اس کی خواہش ہے کہ وہ یہ تمغہ واپس کر دیں۔
روس میں سٹیل اور ٹیلی کمونیکیشن کے کاروباروں سے منسلک مشہور شخصیت علیشر عثمانوف کا کہنا ہے کہ اس تمغے پر جیمز واٹسن کا ’حق‘ ہے اور انھیں یہ ’جان کر دکھ ہوا‘ کہ جیمز واٹسن کو یہ تمغہ مجبوراً نیلام کرنا پڑا تھا۔
یہ طلائی تمغہ جیمز واٹسن کو سنہ 1962 میں حیاتیاتی مادے (ڈی این اے) کی ساخت دریافت کرنے پر دیا گیا تھا۔ بعد میں انھوں نے اسے 30 لاکھ پاؤنڈ میں نیلام کر دیا تھا۔
یہ پہلا موقع تھا کہ جب نوبیل انعام حاصل کرنے والے کسی شخص نے اپنی زندگی میں ہی یہ تمغہ نیلام کر دیا تھا۔
سنہ 1962 میں سائنس کی دنیا میں خدمات کے صلے میں یہ تمغہ جمیز واٹسن اور دو دیگر سائنسدانوں، ماریس وِکنز اور فرانسز کِرک، کو مشترکہ طور پر دیا گیا تھا اور ہر ایک سائنسدان کو الگ الگ طلائی تمغے بھی دیے گئے تھے۔

مسٹر عثمانوف کے بقول مسٹر واٹسن جن حالات میں ہیں وہ ان کے لیے ناقابل قبول ہیں
علیشر عثمانوف کے تمغہ واپس کر دینے کے حوالے سے جیمز واٹسن نے کہا تھا کہ وہ اس سے حاصل ہونے والی رقم کا ایک حصہ خیراتی اداروں اور سائنسی تحقیق کی مدد کے لیے مختص کر دیں گے۔
حال ہی میں روزنامہ فائنشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے جیمز واٹسن نے یہ بھی کہا تھا کہ سات برس قبل جب انھوں نے ایک دوسرے برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے نسل اور ذہانت کے درمیان تعلق کی بات کی تھی، اس کے بعد سے انھیں یہ احساس دلایا گیا کہ وہ ’انسان‘ ہی نہیں رہے۔
دوسری جانب علیشر عثمانوف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گذشتہ ہفتے ہونے والی کرسٹیز کی نیلامی میں جس نامعلوم شخص نے ٹیلی فون کے ذریعے بولی لگائی تھی وہ کوئی اور نہیں بلکہ وہ خود تھے۔
مجھے یہ احساس دلایا گیا کہ میں ’انسان‘ ہی نہیں رہا: جیمز واٹسن
علیشر عثمانوف کا کہنا تھا: ’میرے خیال میں یہ بات ناقابل قبول ہے کہ ایک نامور سائنسدان کو ایسا تمغہ فروخت کرنا پڑ جائے جو اسے اس کی کامیابیوں کے صلے میں دیا گیا تھا۔‘
’جیمز واٹسن انسانی تاریخ کے عظیم ترین سائنسدانوں میں سے ہیں اور یہ ضروری ہے کہ ڈی این اے کی ساخت کی دریافت پر دیا جانے والا انعام انھیں واپس کر دیا جائے کیونکہ اس پر ان کا حق ہے۔‘
مشہور رسالے ’فوربز‘ کا کہنا ہے کہ علیشر عثمانوف کے اثاثوں کی مالیت 15.8 ارب ڈالر ہے اور انگلینڈ کے مشہور فٹ بال ’آرسنل‘ کے حصص میں بھی ایک بڑا حصہ ان کا ہے۔
روزنامہ سنڈے ٹائمز نے سنہ2013 کے دنیا کے امیر ترین افراد کی جو فہرست شائع کی تھی اس میں علیشر عثمانوف کو برطانیہ کا امیر ترین شخص بتایا گیا تھا۔


سنہ 1998 سے 12 کوششوں کے بعد پہلی جیت ہے

www.swatsmn.com
پاکستان نے بھارت کے شہر بھونیشور میں چیمپئنز ٹرافی کے کوارٹر فائنل میں نیدرلینڈز کو دو کے مقابلے میں چار گول سے ہرا کر سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر لیا ہے۔

انٹرنیشل ہاکی فیڈریشن کی ویب سائٹ کے مطابق یہ چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان کی نیدرلینڈز کے خلاف سنہ 1998 سے 12 کوششوں کے بعد پہلی جیت ہے۔
نیدر لینڈ نے شاندار طریقے سے کھیل کا آغاز کیا اور جیرائن نے اپنے ٹیم کو ایک گول کی برتری دلا دی۔
کھیل کے آغاز ہی سے نیدرلینڈ کی کھیل پر گرفت سخت تھی لیکن پاکستان کے جوابی حملے کام آئے۔
پاکستان کی جانب سے محمد توثیق نے محمد وقاص کے پاس پر گول کر دیا اور اپنی ٹیم کو کھیل میں واپس لے آئے۔ عمران نے ہاف ٹائم سے پہلے گول کر کے پاکستان کو برتری دلائی۔
وقفے کے بعد نیدرلینڈ نے دوبارہ کھیل پر گرفت مضبوط کر دی اور 38 ویں منٹ میں کونسٹینٹینن جونکر نے گول کر کے میچ برابر کر دیا۔ تاہم پاکستان نے دباؤ کے باوجود عرفان کے ذریعے اپنا تیسرا گول کیا اور ایک بار پھر میچ میں برتری حاصل کر لی۔
اس کے بعد ایک جوابی حملے عرفان نے دوسرا اور ٹیم کا چوتھا گول کر کے پاکستان کو جیت دلا دی۔
اس سے پہلے اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کی کارکردگی مایوس کن رہی اور وہ تین میچوں میں ایک بھی پوائنٹ حاصل نہیں کر سکا تھا۔
پاکستان اپنے ابتدائی میچ میں بیلجیئم سے ہار گیا تھا جبکہ دوسرے میچ میں انگلینڈ نے یک طرفہ مقابلے کے بعد اسے دو کے مقابلے میں آٹھ گول سے شکست دی تھی۔
اپنے تیسرے میچ میں بھی پاکستانی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور دفاعی چیمپیئن آسٹریلیا نے یہ میچ صفر کے مقابلے میں تین گول سے جیت لیا تھا۔
پاکستان کے برعکس نیدر لینڈ گروپ بی میں ٹاپ پر تھا لیکن اسے کواٹر فائنل میں پاکستان کے ہاتھوں شکست کھا کر ٹورنامنٹ سے باہر ہونا پڑ رہا ہے۔

Wednesday 3 December 2014

پاکستان اسٹیٹ آئل نے پی آئی اے کو ایندھن کی فراہمی روک دی

www.swatsmn.com
پاکستان اسٹیٹ آئل نے جیٹ فیول کا ذخیرہ ختم ہونے کے قومی ایئرلائنز کو ایندھن کی فراہمی بند کردی ہے۔
پاکستان اسٹیٹ آئل کے ترجمان کے مطابق آئل ریفائنریوں نے پی ایس او کو ادھار پر جیٹ فیول دینے سے انکار کردیا ہے جبکہ طیاروں میں استعمال ہونے والے ایندھن کا ذخیرہ بھی ختم ہوگیا ہے جس کی وجہ سے پی آئی اے کو جیٹ فیول کی فراہمی بند کی گئی ہے۔ پی ایس او نے وزارت پٹرولیم سے درخواست کی ہے کہ آئل ریفائنریز سے ادھار پر جیٹ فیول دلوایا جائے۔
واضح رہے کہ پی ایس او کراچی اور لاہور سمیت ملک کے 9 ہوائی اڈوں پر پی آئی اے کو ادھار پر ایندھن فراہم کرتا ہے۔

عمران خان دھرنے کے اثرات و ثمرات

www.swatsmn.com


وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اگر تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان 8 دسمبر کو فیصل آباد میں کئے جانے والا احتجاج منسوخ کرتے ہیں تو ہم 6 یا 7 دسمبر کو ان سے مذاکرات کے لئے تیار ہیں جب کہ تحریک انصاف کے نائب چیرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ اگر حکومت 6 دسمبر کو مذاکرات کی حامی بھرتی ہے تو وہ عمران خان اور کور کمیٹی سے درخواست کریں گے کہ وہ احتجاج منسوخ کردیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ’’کل تک‘‘ میں بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ مذاکرات ہی مسائل کا حل ہوتے ہیں اور حکومت کی بھی  ہمیشہ سے یہ کوشش رہی کہ وہ مذاکرات کے ذریعے ہی تمام مسائل کا حل نکالے لیکن بدقسمتی سے تحریک انصاف سے ستمبر میں مذاکرات منقطع ہوگئے تاہم ہم دوبارہ مذاکرات کے لئے تیار ہیں، اس وقت حکومت کے لئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری اہم ہے کیونکہ اس کے لئے سپریم کورٹ کی جانب سے 5 دسمبر کی مہلت دی گئی ہے اس لئے حکومت اس کے بعد وزیر اعظم کی مشاورت سے کبھی بھی مذاکرات کے لئے تیار ہے اور اگر عمران خان اپنا 8 دسمبر کا احتجاج منسوخ کرتے ہیں تو ہم 6 یا 7 دسمبر کو مذاکرات کرسکتے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کے لئے تجویز کردہ ناموں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری ہوسکتی ہے لیکن میں خورشید شاہ سے کہوں گا کہ وہ تحریک انصاف کو بھی ناموں کے حوالے سے اعتماد میں لیں۔
اس موقع پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا تاہم ہمارا مطالبہ ہے کہ آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن ہو، انتخابی اصلاحات کی جائیں اور انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان ملکی مفاد میں وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئے تاہم جوڈیشل کمیشن کے قیام تک دھرنا جاری رہے گا، اگر حکومت واقعی چاہتی ہے کہ احتجاج نہ ہو تو ہم سے 6 دسمبر کو مذاکرات کرلیں اور اگر ایسا ہوا تو ہم عمران خان اور کور کمیٹی سے درخواست کریں گے کہ وہ احتجاج منسوخ کردیں۔




Monday 24 November 2014

Swat Inter schools and inter colleges competitions 2014

www.swatsmn.com


Khpal Kor Model School & College Athletes Got 14 positions out of 30 in district Swat Inter schools and inter colleges competitions 2014 and got aggregate and the best player in these competitions

ﮨﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﯾﮉﻓﻮﺭﮈ ﮐﮯ ﺗﻌﺎﻡ ﮈﺍﺋﺮﯾﮑﭩﺮﺯ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺗﺎﻟﯿﺎﮞ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﺩ ﺩﯾﻨﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ


www.swatsmn.com

Must Read

ﺑﺮﯾﮉ ﻓﻮﺭﮈ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﮐﺎ ﺷﻤﺎﺭ ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﻪ ﮐﯽ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﺗﺎ ﮨﮯ- ﯾﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ 50 ﺍﻭﺭ ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﮧ ﮐﯽ 7 ﺍﭼﮭﯽ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﮨﮯ2005 - ﻣﯿﮟ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﮐﻮ ﭼﺎﻧﺴﻠﺮ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺗﮭﯽ- ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ 100 ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﮑﺎﻟﺮﺯ ﺍﻭﺭ ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﻨﯿﺠﺮﺯ ﮐﻮ ﺑﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ –ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﮧ ﻭﺭ ﺍﻣﺮﯾﮑﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺮﻣﻦ ﺳﮑﺎﻟﺮﺯ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ – ﺍﺱ ﻟﺴﭧ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮉﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﻮ ﺑﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ – ﺳﻠﯿﮑﺸﻦ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﺮﻣﻦ ﺴﺎﺋﻨﭩﺴﭧ ﮐﻮ ﭼﺎﻧﺴﻠﺮ ﮐﯽ ﺳﯿﭧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﺍﻣﯿﺪﻭﺍﺭ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ - ﻣﮕﺮ ﺗﻌﺎﻡ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺍﺱ ﭨﺎﺋﻢ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮨﻮﺋﯽ ﺟﺐ "ﭨﯿﻠﻨﭧ " ﻟﯿﮉﺭﺷﭗ " ﻣﻮﮈﺭﻥ ﺍﺳﭩﮉﯾﺰ " ﭘﺮ ﺑﺤﺚ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻧﺰﺍﺩ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻣﯿﺪﻭﺍﺭ ﮐﻮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ -

ﺍﺱ ﮨﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﯾﮉﻓﻮﺭﮈ ﮐﮯ ﺗﻌﺎﻡ ﮈﺍﺋﺮﯾﮑﭩﺮﺯ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺗﺎﻟﯿﺎﮞ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﺩ ﺩﯾﻨﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ - ﺗﺐ ﺟﺮﻣﻦ ﺳﺎﺋﻨﭩﺴﭧ ﺍﺱ ﺳﮑﺎﻟﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﺍﺱ ﭘﻮﺳﭧ ﭘﺮ ﺗﻢ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻗﺎﺑﻞ ﺑﻨﺪﮮ ﮨﻮ- ﮐﺎﺑﯿﻨﮧ ﮐﯽ ﺍﮐﺜﺮﯾﺖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮑﺎﻟﺮ ﮐﻮ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ - ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﺑﻮﻟﻮ ﮐﺘﻨﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﻟﻮ ﮔﮯ- ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﮐﻠﻤﺎﺕ ﺑﻮﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﺑﺰﻧﺲ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﮩﮟ ﺁﯾﺎ - ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﺴﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﻣﻮﺍﺯﺍﻧﮧ ﻧﮩﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ - ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻠﮏ ﺳﮯ ﮨﻮﮞ ﯾﮩﺎﮞ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺳﮩﻮﻟﯿﺎﺕ ﻧﮩﮟ ﮨﯿﮟ -ﮨﻤﺎﺭﺍ ﭘﯿﺴﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﮯ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ- ﺟﺐ ﮐﮯ ﻏﺮﯾﺐ ﻟﻮﮒ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺣﺴﺪ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ - ﯾﮧ ﮨﯽ ﻭﮦ ﺧﺎﺹ ﻭﺟﮧ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻏﺮﯾﺐ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯿﺮ ﮐﺎ ﻓﺮﻕ ﺩﻥ ﺑﺎ ﺩﻥ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮﺗﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ- ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺟﻮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﮟ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﮯ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺭﮦ ﮐﺮ ﺍﭼﮭﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﯾﮉﻓﻮﺭﮈ ﺟﯿﺴﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﮐﯽ ﮈﮔﺮﯼ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﺳﮑﯿﮟ- ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺮﯾﮉﻓﻮﺭﮈ ﭘﮭﺮ ﮨﯽ ﺟﻮﺍﺋﻦ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﮔﺮ ﺍﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﯾﮧ ﺳﮩﻮﻟﺖ ﺩﯾﮟ - ﮐﺎﺑﯿﻨﮧ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺭﮐﺎﻥ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ - ﮐﺎﺑﯿﻨﮧ ﮐﯽ ﺍﮐﺜﺮﯾﺖ ﺍﺱ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﻣﻤﮑﻦ ﻧﮩﮟ ﮐﮯ ﮨﻢ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮈﮔﺮﯼ ﻣﺘﻌﺎﺭﻑ ﮐﺮﻭﺍﺋﯿﮟ - ﺳﮑﺎﻟﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﺮﯾﮉﻓﻮﺭﮈ ﮐﺎ ﭼﺎﻧﺴﻠﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ - ﺑﺎﺕ ﯾﮩﺎﮞ ﺁ ﮐﺮ ﺭﻭﮎ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺳﮑﺎﻟﺮ ﺍﭨﮫ ﮐﮯ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ - ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ Chris Taylor ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺎﺑﯿﻨﮧ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﺍﺱ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﻭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﮐﺮ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺻﻼﺣﯿﺖ ﻣﺠﻮﺩ ﮨﮯ-

ﺟﻮ ﺑﻨﺪﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﻭﻓﺎﺩﺍﺭ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻋﺰﻡ ﮨﻮ ﻭﮦ ﮐﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﺴﮯ ﮐﺎ ﻻﻟﭻ ﻧﮩﮟ ﮐﺮﺗﺎ - ﺁﭖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﮟ- ﮐﺎﺑﯿﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮑﺎﻟﺮ ﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﺁﭘﮑﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﯿﮟ -ﺁﭖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺟﮩﺎﮞ ﭼﺎﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﯿﻤﭙﺲ ﺑﻨﺎ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ- ﻭﮦ ﺍﺳﮑﺎﻟﺮ ﭘﭽﮭﻠﮯ 9 ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﺑﺮﯾﮉﻓﻮﺭﮈ ﮐﺎ ﭼﺎﻧﺴﻠﺮ ﮨﮯ1986 - ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﯾﮧ ﭘﮩﻼ ﻣﻮﻗﻊ ﮨﮯ ﮐﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﻨﺪﮦ ﺍﺗﻨﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻋﺮﺻﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭼﺎﻧﺴﻠﺮ ﺑﻨﺎ ﺭﮨﺎ - ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻋﻤﺮﺍﻥ ﺧﺎﻥ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻣﻨﺎﻓﻖ ﻃﺎﻟﺒﺎﻥ ﺧﺎﻥ .ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺍﺟﻨﭧ ﺍﻭﺭ ﻏﺪﺍﺭ ﺳﯿﺎﺳﺘﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺟﺎﻧﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ- ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﭘﮩﻼ ﻣﻨﺎﻓﻖ ﺑﻨﺪﮦ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﺟﻮ ﭘﯿﺴﮯ ﮐﺎ ﻻﻟﭻ ﻧﮩﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﺎ ﭘﮩﻼ ﻏﺪﺍﺭ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﺟﻮ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﺑﺎ ﮨﺮ ﺟﺎ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﺴﮯ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻠﮏ ﮐﻮ ﺗﺮﺟﯿﺢ ﺩﮮ ...
tanx Qaisar bai .....

Saturday 22 November 2014

لیبیا کے "ظالم ڈکٹیٹر" معمر قذافی کے عوام پر ڈھائے جانے والے "مظالم" کی تفصیل۔

www.swatsmn.com
لیبیا کے "ظالم ڈکٹیٹر" معمر قذافی کے عوام پر ڈھائے جانے والے "مظالم" کی تفصیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!

۱۔ لیبیا میں بجلی مفت ہے، پورے لیبیا میں کہیں بجلی کا بل نہیں بھیجا جاتا۔۔


۲۔ سود پر قرض نہیں دیا جاتا، تمام بینک ریاست کی ملکیت تھے اور صفر فیصد سود پر شہریوں کو قرض کی سہولت دیتے تھے۔۔

۳۔ اپنا گھر لیبیا میں انسان کا بنیادی حق سمجھا جاتا تھا اور اس کے لئے حکومت شہریوں کو مکمل مالی مدد فراہم کرتی تھی۔۔

۴۔ تمام نئے شادی شدہ جوڑوں کو اپنا نیا گھر بنانے کی مد میں حکومت پچاس ہزار ڈالرز مفت میں فراہم کرتی تھی۔۔

۵۔ پڑھائی اور علاج کی سہولتیں لیبیا کے تمام شہریوں کو بنا پیسوں کے حاصل ہیں۔ قذافی سے پہلے 25 فیصد لوگ پڑھے لکھے تھے جبکہ آج 83 فیصد لوگ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں۔۔

۶۔ کسانوں کو زرعی آلات، بیج اور زرعی زمین مفت میں فراہم کی جاتی تھی۔۔

۷۔ اگر کسی باشندے کو لیبیا میں علاج معالجے یا تعلیم کی صحیح سہولت میسر نہیں تو حکومت بنا کسی خرچے کے بیرون ملک بھجواتی تھی۔۔

۸۔ لیبا میں اگر کوئی شخص اپنی گاڑی خریدنا چاہتا ہے تو حکومت 50 فیصد سبسڈی فراہم کرتی تھی۔۔

۹۔ پیٹرول کی قیمت 0.14$ فی لیٹر تھی۔۔

۱۰۔ لیبیا پر کوئی بیرونی قرضہ نہیں اور لیبیا کے اثاثوں کی کل مالیت تقریبا 150$ ارب ڈالر سے زائد تھے، جن پر اب مغربی ممالک کا قبضہ ہے۔۔

۱۱۔ اگر کوئی باشندہ گریجوایشن کرنے کے بعد بھی نوکری حاصل نہیں کر پارہا تو حکومت اسے اسکی تعلیمی استعداد کے مطابق مفت تنخواہ ادا کرتی تھی تا وقت کہ اس باشندے کی ملازمت لگ جائے۔۔

۱۲۔ ملک کے تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک مخصوص حصہ تمام لیبیائی باشندوں کے بینک اکاؤنٹوں میں جمع کروا دیا جاتا تھا۔

۱۳۔ ماں کو ہر بچے کی پیدائش پر حکومت کی طرف سے 5000$ ڈالر مفت فراہم کئے جاتے تھے۔

۱۴۔ قذافی نے ملک کی صحرائی آبادی کے پیش نظر دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی دریا بنانے کا پروجیکٹ بھی شروع کیا تھا ، تا کہ پورے ملک میں صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔

یہ ان مظالم میں سے کچھ کی تفصیل ہے جو قذافی نامی ڈکٹیٹر نے لیبیا کی عوام پر ڈھائے ۔

ان مظالم کے علاوہ قذافی نے تین بہت بڑے گناہ اور بھی کیے تھے ۔

پہلا کہ پاکستان کو ایٹمی پروگرام کے لیے 100 ملین ڈالر کی رقم اس وقت فراہم کی جب پاکستان پر ہر طرح کی پابندیاں تھیں ۔ اسی رقم سے پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا تھا ۔

دوسرا اس نے ہمیشہ مسلمان ممالک کو اکھٹا کر کے انکا ایک بلاک بناے کی کوشش کی ۔ کبھی افریقی ممالک کا بلاک کبھی عرب ممالک کا ۔ لیکن ہمارے مسلمان ممالک قضافی کی اس " چال " میں نہیں آئے اور آپس میں ہی لڑنے مرنے پر متفق رہے ۔

تیسری چیز میں تو اسنے حد ہی کر دی جب اس نے سونے اور چاندی کے سکوں میں لین دین کرنے کا فیصلہ کیا اور اعلان کیا کہ پیپر کرنسی جعلی کرنسی ہے ۔

ان کے ان کرتوتوں کی بدولت ہی امریکہ نے قذافی کو قتل کروا دیا تاکہ لیبیا کے عوام کو ایک ظالم ڈکٹیٹر سے نجات دلائی جا سکے ۔

اب لیبیا میں مکمل جمہوریت آچکی اور لیبیا جمہوریت کے مزے لے رہا ہے !!

دوستوں کیساتھ ضرور شیر کریں . شکریہ

Thursday 20 November 2014

عرب شہزادوں کو مختلف علاقے بانٹ دئیے اور انٹرنیشنل قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے

www.swatsmn.com
عرب ممالک اکثرو بیشتر پاکستانی حکومت پر مہربان ہوتے رہتے ہیں لیکن ان احسانات کابدلہ بھی حکومت پاکستان کو کسی نہ کسی طریقے سے چکانا پڑتاہے ۔حال ہی میں حکومت پاکستان نے عرب ممالک کے شاہی خاندانوں کو نایاب پرندے ’دہوبارا بسٹرڈ‘کے شکار کے خصوصی لائسنس جاری کیے ہیں ۔ان لائسنسوں کی تعداد 29ہے اور یہ سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات ،قطر اور بحرین کے شاہی خاندانوں کوجاری گئے ہیں ۔
اقوام عالم کے قوانین کے مطابق یہ انتہائی نایاب پرندہ ہے اور پاکستان بین اقوامی معاہدوں کا دستخط کنندہ ہے جن کے مطابق اس نایا ب پرندے کا شکار غیرقانونی ہے لیکن پھر بھی حکومت پاکستان نے ان معاہدوںکی خلاف ورزی کرتے ہوئے عرب شیوخ کو وزیراعظم پاکستان نواز شریف کی خصوصی اجازت کے بعد لائسنس جاری کیےہیں۔ ذرائع کے مطابق ایک صدر ،ایک بادشاہ ،ایک امیر ،دو ولی عہدوں اور ملک کے سربراہ کے والداورچچا کو یہ لائسنس جاری کیے گئے ۔قطر کے شاہی خاندا ن کو سب سے زیادہ یعنی 11لائسنس جاری کیے گئے۔اسی طرح متحدہ عرب امارات کے صدر اور حکمران شیخ خلیفہ بن زید النہیان کو سب سے زیادہ علاقے میں شکار کرنے کا پرمٹ دیا گیا ہے۔عرب ممالک کے شیوخ کو جن اضلاع میں شکارکی آزادی ہے وہ درج ذیل ہیں۔
سعودی عرب
سعودی عرب کے ولی عہد سلمان بن عبدالعزیز السعود کو ڈیرہ بگٹی ،ڈیرہ مراد جمالی ،نصیرہ آباد ،جعفرآباد ، اور ڈکی ،وہاڑی ،ملتان،میانوالی اور سرگودھا کے علاقے میں شکار کی آزادی ہو گی۔
تبوک کے گورنر پرنس فہد بن سلطان بن عبدلعزیز السعود کو آوران، نوشکی ،اور چاغی کی علاقوں میں شکار کی اجازت دی گئی ہے ۔
ابوظہبی
متحدہ عرب امارات کے صدر اور شیخ خلیفہ بن زید النہیان کو سکھر ،گھوٹکی ،نواب شاہ ،سا نگھڑ ،رحیم یار خان ،راجن پور ،ڈیرہ غازی خان، چکوال،زوب،ارمارا،پسنی ،گوادر،خاران،پنج گر اورواشک میں شکار کی اجازت ہے ۔
متحدہ عرب امارات کے فوج کے نائب اور ولی عہد ابو ظہبی جنرل شیخ محمد بن زید النہیان کو لہراں اور سبی کے علاقے میں شکار کی اجازت ہوگی۔متحدہ امارات کے نائب وزیر اعظم شیخ سلطان بن النہیان کو خیر پور میں شکار کرنے کی اجا زت ہو گی۔
دبئی
نائب صدر اور وزیراعظم متحدہ عرب امارات اور دبئی کے امیر شیخ محمد بن راشد المکتوم کو مظفر گڑھ، خضدار، لسبیلا ،چاغی میں شکار کی اجازت ہو گی۔ڈپٹی پولیس چیف اورشاہی خاندان کے فردمیجر جنرل شیخ احمد بن راشد المکتوم کو عمر کوٹ ،تھرپارکر ،مٹھی اور ناگرپارکرمیں شکارکی اجازت ہو گی۔دبئی حکومت کے ایک ملازم ناصر عبداللہ لوتاکو ٹھٹھہ میں شکار کی اجازت ہو گی۔
بحرین
بحرین کے حکمران شیخ حماد بن عیسی بن سلمان الخلیفہ کو جامشورو ،بادشاہ کے چچا شیخ ابراہیم بن حماد کو مستونگ میں شکار کی اجازت ہو گی۔
کمانڈر انچیف آف بحرین شیخ خلیفہ بن احمد الخلیفہ کو مو سی خیل میں نایاب پرندے کے شکار کی اجازت ہو گی۔
قطر
قطر کے امیر تمیم بن حماد الثانی کو جیکب آباد اور خوشاب میں شکار کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔امیر قطر کے بھائی شیخ جاسم بن حماد کو موسیٰ خیل میں شکار کی اجازت ہو گی۔سابق شیخ حماد بن جاسم کو بھکر اور جھنگ جبکہ سابق وزیراعظم کے بھائی شیخ فلاح بن جاسم کو جھل مگسی کے اضلاع دیے گئے ہیں۔

Thursday 30 October 2014

یہودیوں کا ایجنٹ عمران خان تھا یا آپ تھے

یہودیوں کا ایجنٹ عمران خان تھا یا آپ تھے
www.swatsmn.com

عمران خان اسٹیٹس کو کو للکار رہا ہے ، اپنے عوام کو بیدا کررہا ہے ، اعصاب شکن جدوجہد کے ذریعہ عوامی بیداری کی نئی تاریخ رقم کررہا ہے ، اس کی دھاڑ للکار اور چھنگاڑ سے اسٹیٹس کوکے نمائندے تھر تھر کانپ رہے ہیں، جہاںجاتے ہیں گو نواز گو کے نعرے ان کے کمزور اعصاب پر بجلی بن کر گرتے ہیں ، مگر ایک ایسے موقع پر ایک فربہ ہیولی اآگے بڑھتا ہے ، سینے پر ہاتھ مارکر کہتا ہے ، اے اسٹیٹس کو کے نمائندو! غم کیوں کرتے ہو، اسے سرمایہ دارانہ نظام کے علمبردارو! اداس کیوں ہو، اے تاریکی کے سوداگروں خوف کس بات کا، میں وہ سانپ نہیں جس کا کاٹا پانی مانگے ، میں وہ درندہ نہیں جس سے جس کا شکار بچ سکے ، میں وہ عذاب الیم نہیں کہ جس پر مسلط ہوجائوں ،اسے یوں ہی چھوڑ دوں ،،، سو میری طرف دیکھو ، میں کھودتا ہوں میدان میں ، اور میرے سر پر دیکھو ، یہ پگڑھی نہیں خود ہے جس سے میں لوگوں کو دھوکے میں ڈالتاہوں ، میرے چہرے کو دیکھو! یہ نورانیت نہیں ، میرا وہ خطرناک ہتیار ہے جس سے میرے فتوے نشتر و تلوار کا کام کرتے ہیں ، میرے کندھے کو دیکھو ! اس پریہ رومال نہیں ، راکٹ لانچر ہے جس سے میں اسلام کے نام پر مخالفین پرکفرکے راکٹ چلاتا ہوں ، بس تم نے کوئی دریغ نہیں کرنا میرا منہ بھرنے سے میراجیب بھرنے سے ، مجھے نوازنے سے اور میرا پیٹ بھرنے سے ،تماشا کرو میرے پاس ایک سے بڑ ھکر ایک فتوے کا ہتیار میرے ذہن اور دل و دماغ میں مرتسم ہے ۔
ذہنی معذورو! تم کس پر یہودی ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے ہو؟ 
اس پر جو سرکش ہے ، خود دار ہے اور، ضدی پٹھان ہے ، ؟
وہ یہودیوں کا ایجنٹ کیوں بنے گا؟
پیسے کیلئے ؟


اگر اسے پیسے سے محبت ہوتی تو اپنی بیوی کو چھوڑتے وقت اربوں روپے کو جو قانونا اسے ملنے والے تھے ، یوں شان استغنا سے ٹھوکر لگا کر آگے نہ بڑھتا۔
اسے دولت سے محبت ہوتی ،تو کروڑوںروپے کوچنگ سے اور کمنٹری سے کما سکتا تھا؟
شہرت کیلئے؟
شہرت تو اسے بے پایاں حاصل تھی۔ جو لوگ پاکستان کو نہیں جانتے تھے وہ بھی عمران خان کو جانتے تھے ، جہاں جاتا راستہ بند ہوجاتا ہجوم لگ جاتا اور آٹو گراف لینے والوں کی قطاریں لگ جاتیں۔
عیش و عشرت اور نشاط کیلئے؟
عیش و عشرت اور نشاط کی زندگی تو اس نے اپنے اختیار سے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے چھوڑ دی تھی ، اسے شراب و شباب کی ضرورت ہوتی تو دنیا کی بہترین شراب اس کے دسترس میں اور بہترین نسوانی حسن اس کے در کاغلام ہوتا۔
شرم آنی چاہیئے جو لوگ عمران خان کو یہودی ایجنٹ ہونے کا الزام دیتے ہیں ، جس کاایک ایک روپیہ اس ملک کے اندر ہے ، جس کے ایک ایک روپیہ کا حساب کتاب قوم کے سامنے رکھا ہے ، جس کی اٹھارہ سال کی جدوجہد اس قوم کے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہے ، جو عمران خان کو جانتے ہیں وہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ عمران خان کچھ بھی ہوسکتا ہے مگر کسی کا ایجنٹ نہیں ہوسکتا ، کسی کے اشاروں پر نہیں چل سکتا کہ یہ چیز اس کے فطرت میں ہی نہیں ، و فطرتا آزاد ہے اس لئے وہ اپنے ہر تقریر کی ابتدا اسی سے کرتا ہے کہ یااللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ،
اب اس کی خبر لیجئے جودر سرمایہ دار پر رقص مجنون میں دیوانہ وار مصروف ہے ۔
مولانا صاحب ! آپ یہودیوں کے ایجنٹ کیوں نہیں ہوسکتے ؟
آپ کی ظاہری وضع قطع ایسی ہے کہ لوگ دھوکہ کھاسکتے ہیں 
آپ کی پگڑی آپ کی داڑھی آپ کے کندھے پر رکھا ہوا رومال اور آپ کا ظاہری حلیہ بالکل علما اسلام جیسا ہے ، تیرا صرف دل اور دماغ آل یہود کا تابع ہونا چاہیئے ۔
بے شک بے شک مولانا صاحب آپ نے اپنے مشکوک اقدامات سے ہر قدم پر ثابت کردیا کہ تو یہودیوں کا ایجنٹ ہے ۔نوجوانی میں مخالفین سے پیسے لیکر اپنے والد کی مخبری کرنے کا فن تو تم نے سیکھ ہی لیا تھا، جمعیت کے اکابرین میں تیرے نامور والد کی تنہا جدوجہد نہیں تھا جو تمہارےعلما کی اس جماعت کی امارت اینٹھنے کا سبب بن گئی ، کل کے لونڈے کو مولانا عبیداللہ انور جیسے علم و تقویٰ اور سیاسی تدبر و دانش کے پہاڑ کے مقابلے میں لانے کیلئے یہودییوں نے کس طرح محنت کی ہوگی اور تم بھی بڑٰی اآسانی سے ان کاآلہ کار بننے پر راضی ہوگئے، جماعت علما کی تقسیم ہوگئی ، دھڑے بندے ہوگئی اور جو بہت بڑی مشترکہ قوت تھی ٹکڑیوں میں بٹ گئی۔
پھر تم نے اپنے یہودی آقائوں کے ہر مشن کو پورا کرنے میں پورا پورا تعاون کیا، ملک میں فرقہ واریت کی جڑیں مضبوط کرنے کیلئے لوگ تیری ہی پارٹی میں تیار ہوئے اور تیری ہی ہلہ شیری سے یہ ناسور مدارس میں پھیل گیا، تجھے یہودی ایجنڈے کی تکمیل کی خوشی میں انعام کے طور پرہر حکومت میں ایک دو وزارتیں دینے کا اہتمام کیا جاتا رہا اور ایک بارتو تجھے کے پی کے کی حکومت بھی عطا کردی گئی ، مگر تم نے ظاہر ہے اس حکومت سے کونسا تیر مارنا تھا کونسی اسلام کی اور مسلمانوں کی خدمت کرنا تھی، کرپشن کے ریکارڈ تم نے بھی خوب قائم کیئے ، مگر عیاری اور چالاکی میں تیرا بھی ثانی نہیں ہمیشہ اپنے فرنٹ مینوں کو ہی سامنے رکھا، مولانا یہ تو بتائیو جامعہ حفصہ پر جب آپریشن کرنے کا پروگرام تھا تو تم کہاں چلے گئے؟ برطانیہ؟ شاہ واشے۔۔۔۔۔یہاں ملک میں ہوتے تو لوگ کہتے مولانا اپنا کردار اداکرو ، مگر تمہارے ڈانڈے تو کہیں اورسے ہلائے جاتے ہیں تم کردار کیسے ادا کرتے ۔
اور ہاں مولانا صاحب کندھار تو تیرا آبائی علاقہ ہے ، مگر تیرے سر پرغرور کی میں سمائی ہوئی انانیت کس قدر بلند اور ہمالہ کو شرماکر چلو بھر پانی میں ڈبودینے والی ہے ۔۔۔۔اپنے استقبال کیلئے طالبان جیسے درویشوں سے بھی اکیس توپیں داغنے کا مطالبہ ہوتا تھا،،کیونکہ جناب مولانا کے قوی الہیکل جسم کے اندر جو دل ہے نا، وہ جلتا بہت ہے ، سو ملا عمر سے بھی جلتا بہت تھا، لوگ انتطار کررہے تھے مولانا صاحب ملا عمر کے ساتھ وقت بتائیں گے انہیں کار حکومت چلانے کیلئے مفید مشورے دیں گے ، مگر مولنا صاحب کیلئے اکیس توپیں روز کون داغتا۔۔۔
اب جب یہودیوں کو خطرہ پیدا ہوا کہ عمران خان تو سچ مچ نیا پاکستان بنا رہا ہے پاکستان کو آزاد کرانے کی بات کرتا ہے امریکہ کی آنکھوں میں ابھی سے آنکھیں ڈال کر بات کررہا ہے ، یہ تو سچ میں ایسا کرلے گا ، پھر ہمارا کیا ہوگا ، یہ تو کسی سے نہیں ڈرتا ، اگر پاکستان آزاد ہوگیا سمجھو عالم اسلام آزادی ہوگیا، پھر ہمارا کیا ہوگا کالیا؟؟؟یہ جو ہم مسلمانوں کے وسائل لوٹ لوٹ کر لے جارہے ہیں وہ تو پھر بند ہوجائیں گے عالم اسلام تو ہمارے ہم پلہ ہوجائے گا ،یہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں عالم اسلام میں بنادے گا یہ تو صرف پاکستان میں نہیں پوری اسلامی دنیامیں انقلاب لے آئے گا،یہ تو سچ میں ڈرون گرادے گا کیونکہ یہ سرپھرا کہاں برداشت کرے گا کہ کوئی اس کے ملک پر بمباری کرے ، ہم ایک اردغان کو رورہے ہیں یہ تو اس کا بھی باپ ہے ،،،تب ایسے موقع پر جس کو تیار کیا گیا تھا ایجنٹ زیرو زیرو سیون مولنافضل الرحمن کو ، وہ آگے آیا اور ایسے آگے آیا کہ دین درھرم ایمان سب کچھ بوسیدہ کپڑے کی طرح بانس کے ڈنڈے پر لٹکاکرکر سامنے آیا اور ایسا غل غپاڑہ مچایا کہ حقیقت آنکھوں سے مستور ہوگئی، لوگ حیرت سے انگلیاں دانتوں میں دباکر کر نظارہ کرنے لگے کہ یا خدا یہ کیا ماجرا ہے ، یہ کس سنپولئے کو ہم اپنے آستین مین پال رہے تھے ،،،،مگر ایک بات یار رکھیں مولانا صاحب، تم نے اپنے یہودی آقائوں کو خوش کرنے کیلئے ہر حد پار تو کرلی مگر اپنے مسلک کے علما برحق کو کٹہرے میں کھڑا کردیا۔دینی مدارس کے کثیر علما جو عمران خان کی مومنٹ کو سپورٹ کرتے ہیں وہ پریشان ہیں اور مضطرب انہیں سمجھ ہی نہیں آرہی کہ جس مولانا کو ہم علما کا سرخیل سمجھ رہے تھے یہ تو کچھ اور ہے۔۔۔مولنا صاحب تھوڑی دیر صبر کرو یہ غبار بیٹھ جائے گا ، سب پتہ چل جائے گا یہودیوں کا ایجنٹ عمران خان تھا یا آپ تھے ،،پتہ چل جائے گا تم جس چیز پر سوار ہو وہ گدھا ہے یا گھوڑا۔۔۔

Wednesday 29 October 2014

اس دنیا نے مجھے 19 سال جینے کا موقع دیا تھا

اس دنیا نے مجھے 19 سال جینے کا موقع دیا تھا

www.swatsmn.com
’’میری عزیز ماں!
مجھے آج پتہ چلا کہ مجھے قصاص (ایرانی نظام میں سزا کا قانون) کا سامنا کرنا پڑے گا، مجھے یہ جان کر بہت دکھ ہو رہا ہے کہ آخر آپ اپنے دل کو یہ یقین کیوں نہیں دلا رہی ہیں کہ میں اب اپنی زندگی کے آخری مقام تک پہنچ چکی ہوں۔
آپ کو پتہ ہے کہ آپ کی اداسی مجھے کس قدر پریشان کرتی ہے؟ آپ مجھے اپنے اور پاپا کے ہاتھوں کو چومنے کا موقع کیوں نہیں دیتی ہیں۔

ماں، اس دنیا نے مجھے 19 سال جینے کا موقع دیا تھا۔ اس منحوس رات کو میری قتل ہو جانا چاہئے تھا۔ میری لاش کو شہر کے کسی کونے میں پھینک دیا گیا ہوتا اور پھر پولیس آپ کو میری لاش کو پہچاننے کے لیے بلواتی اور آپ کو پتہ چلتا کہ قتل سے پہلے میرا ریپ بھی ہوا تھا۔
میرا قاتل کبھی بھی گرفت میں نہیں آتا، کیونکہ آپ پاس اس کی طرح نہ ہی دولت ہے، نہ ہی طاقت۔
اس کے بعد آپ کچھ سال اسی عذاب اور پریشانی میں گزار تیں اور پھر اسی عذاب میں آپ بھی انتقال کرجاتیں۔
لیکن، کسی لعنت کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔ میری لاش تب پھینکی نہیں گئی۔ لیکن، یہاں جیل کی قبر میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔
اسے ہی میری قسمت سمجھیے اور اس کا الزام کسی کے سر نہ ڈالیے۔ آپ بہت اچھی طرح جانتی ہیں کہ موت زندگی کا خاتمہ نہیں ہوتی۔
آپ نے ہی تو کہا تھا کہ انسان کو مرتے دم تک اپنے اقدار کی حفاظت کرنی چاہیے۔
ماں، جب مجھے ایک قاتل کے طور پر عدالت میں پیش کیا گیا، تب بھی میں نے ایک آنسو نہیں بہایا۔ میں نے اپنی زندگی کی بھیک نہیں مانگی۔ میں چلّانا چاہتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا کیونکہ مجھے قانون پر پورا بھروسہ تھا۔
ماں، آپ جانتی ہیں کہ میں نے کبھی ایک مچھر بھی نہیں مارا۔ میں كاكروچ کو مارنے کی بجائے اس کو مونچھ سے پکڑ کر اسے گھر سے باہر پھینک آیا کرتی تھی، لیکن اب مجھے ایک ارادے کے تحت قتل کرنے کا مجرم بتایا جا رہا ہے۔
وہ لوگ کتنے پُر امید ہیں جنہوں نے ججوں سے انصاف کی امید کی تھی۔
آپ جو سن رہی ہیں، مہربانی کرکے اس پر مت روئیے۔
میں اپنی موت سے پہلے آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ ماں، میں مٹی کے اندر سڑنا نہیں چاہتی۔ میں اپنی آنکھوں اور جوان دل کو مٹی میں بدلنا نہیں چاہتی، اس لیے استدعا کرتی ہوں کہ پھانسی کے بعد جلد سے جلد میرا دل، میرے گردے، میری آنکھیں، ہڈیاں اور وہ سب کچھ جس کا ٹرانسپلاٹ ہو سکتا ہے، اسے میرے جسم سے نکال لیا جائے اور انہیں ضرورت مند شخص کو عطیے کے طور پر دے دیا جائے۔ میں نہیں چاہتی کہ جسے میرے اعضاء دیے جائیں اسے میرا نام بتایا جائے۔‘‘



ایران میں سنی العقیدہ خاتون ریحانہ جباری کو پھانسی-
ریحانہ جباری کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنے ساتھ ریپ کرنے والے ایرانی انٹیلی جنس افسر کو قتل کردیاتھا۔
ذیل میں ریحانہ کا اپنی ماں کے نام خط :
--------------------------------------------------

Tuesday 28 October 2014

سوات سوشل میڈیا نیوز

سوات سوشل میڈیا نیوز

www.swatsmn.com

Alcohol and Energy Drinks A Dangerous Combo, lik redbul etc

www.swatsmn.com

Alcohol and Energy Drinks A Dangerous Combo, Study Says....

Researchers have published a study that shows college students combining caffeinated drinks with booze don’t realize how intoxicated they really are In a study published in the Journal of Adolescent Health, researchers at the Institute for Social Research at the University of Michigan have concluded that mixing alcohol and energy drinks poses a serious public health risk, especially among college students. "We found that college students tended to drink more heavily, become more intoxicated, and have more negative drinking consequences on days they used both energy drinks and alcohol, compared to days they only used alcohol," said Megan Patrick, a research assistant professor and co-author of the study.

According to the study, students who either drank alcohol and energy drinks on the same day or who combined the two at the same time wound up spending more time drinking – thus consuming more alcohol – than they would have without the caffeinated drinks. The result of spending more hours drinking raised users' blood alcohol levels to higher peaks. But because of the stimulant effects of the energy drinks, the users reported that they felt less drunk than they actually were. "This can have serious potential health impacts, for example if people don't realize how intoxicated they actually are and decide to drive home," Patrick said.
But a similar study conducted by the Department of Community Health at the Boston University School of Public Health found that it wasn’t necessarily the combination of alcohol and caffeine that posed a risk, but the profile of the drinkers themselves that led to negative consequences. "It appears that the consumption of caffeinated alcoholic beverages has a direct effect on increasing risk by masking intoxication and making it easier for youth to consume more alcohol,” said Dr. Michael Siegel, one of the authors of the Boston University’s study. “It also appears that consumption of alcohol with caffeine may itself be a marker for youth who engage in riskier behavior.”

اسکول کی تعمیر کے لئے مختص کروڑوں روپے کی زمین پر قبضہ

www.swatsmn.com





پشاور کے پوش اور مہنگے ترین علاقے حیات آباد فیز 6 نواب مارکیٹ کے عقب میں واقع سرکاری پرائمری اسکول کے کچھ مناظر ۔ ۔ ۔ ۔
اسکول میں وزیرستان سے نقل مکانی کر کے آنے والے خاندانوں کے بچے بھی شامل ہیں ۔ اسکول کی تعمیر کے لئے مختص کروڑوں روپے کی زمین پر قبضہ مافیا پنجے جمانے کے لئے سرگرم عمل ہے ۔ پچے کروڑوں کی اسکول کی جائیداد ہونے کے باوجود کھلے آسمان تلے حصول علم کے لئے کوشاں ہیں.
Please Share and Media Friends Kindly Report it
Teacher Contact Number : 03339888805


Please Share for the Future of these Child..

Monday 27 October 2014

اب تیری باری میری باری نہیں

اب تیری باری میری باری نہیں
www.swatsmn.com


امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کادور گزر چکا، مسلم لیگ ن کا دور بھی جلد ختم ہوجائے گا۔ اب تیری باری میری باری نہیں بلکہ اب باری اسلامی تحریکوں کی ہے۔ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الاللہ کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آگیا ہے اسلامی نظام کے نفاذ تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔ اسلام زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ مغربی تہذیب زوال پذیر ہے مستقبل اسلامی تحریکوں کا ہے۔ پاکستان کو بنانے کے لئے لاکھوں لوگوں نے بے مثال قربانیاں اس لئے نہیں دی تھیں کہ ملک کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چلایا جائے اور غریبوں کے بچے گندگی کے ڈھیر میں اپنے لئے روزی تلاش کریں اور سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور مفاد پرست کرپٹ اشرافیہ کے کتے بھی بہترین کھانے کھائیں ۔ علماء کرام عوام کو متحد کرنے اور فرقہ واریت کی بیخ کنی کے لئے اپنا کردار ادا کریں ۔ علماء اس ملک کی سب سے بڑی طاقت ہیں ۔ ایسے نظام کو نہیں مانتا جس میں غریب شخص انصاف کے لئے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے عدالت کا دروازہ نہ کھٹکا سکے۔ 21نومبر سے مینار پاکستان میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام تین روزہ عظیم الشان اجتماع عام میں لاکھوں لوگ شریک ہوکر ایک مرتبہ پھر تحریک پاکستان کا آغاز کریں گے اور پاکستان کو اسلام کا قلعہ ، ترقی اور خوشحالی کا نمونہ بنانے کے لئے جدوجہد کرنے کا عزم کریں گے۔ جماعت اسلامی کے مرکزی میڈیاسیل کے پریس ریلیز کے مطابق وہ ہفتہ کے روز پنج پیر صوابی میں جماعت اشاعۃ التوحید والسنۃ کے زیراہتمام سالانہ اجتماع عام کے دوسرے روز صوبہ بھر اور قبائلی علاقوں سے لاکھوں کی تعداد میں علماء کرام اور دینی مدارس کے طلبہ اور عوام کے ایک جم غفیر سے خطاب کررہے تھے۔اجتماع عام سے اشاعۃ التوحید والسنۃ کے مرکزی امیر شیخ القرآن مولانا محمد طیب طاہری اور جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے بھی خطاب کیا ۔جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے سیکرٹری جنرل شبیر احمد خان ، جماعت اسلامی کے صوبائی ترجمان اسراراللہ ایڈووکیٹ اور جماعت اسلامی ضلع صوابی کے امیر محمد عثمان ایڈووکیٹ سمیت جماعت اسلامی کے دیگر رہنما بھی اس موقع پر موجود تھے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے استفسار کیا کہ کیا پاکستان اس لئے بنایا گیا تھا کہ یہاں پر مٹھی بھر اشرافیہ ، جاگیردار ، خوانین ، چوہدری اور سردار ملک کے سیاہ و سپید کے مالک بن جائیں اور غریب عوام دووقت کی روٹی کے لئے ترسیں؟ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے قدرتی اور انسانی وسائل سے مالامال کیا ہے۔ دریائے سندھ ، پنجاب ، راوی ، ستلج ، دریائے پنجکوڑہ ، جہلم اور دیگر چھوٹے بڑے دریا اور آبی وسائل موجود ہیں لیکن پھر بھی ملک میں لوڈ شیڈنگ ہے اور توانائی کا بحران ہے۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے معدنیات کی دولت سے نوازا ہے اور اسے سونا اگلنے کی طاقت رکھنے والی زرعی زمینیں دی ہیں ، لیکن پھر بھی پاکستان ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا مقروض ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو انشاء اللہ تعالیٰ اہل اور دیانتدار قیادت فراہم کرنے کے لئے جماعت اسلامی میدان میں آچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسان چاند پر قدم رکھ چکا ہے جبکہ ہمارے بچے تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، لیکن ہم یہ صورتحال مزید برداشت نہیں کریں گے اور ملک بھر کے غریبوں ، مزدوروں ،کسانوں اور نوجوانوں کو منظم کریں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ علماء کرام کی حمایت اور رہنمائی میں پاکستان کو ایک جدید ، ترقی یافتہ اسلامی ریاست بنادیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جب آئین پاکستان میں بادشاہی اللہ تعالیٰ کی تسلیم کی گئی ہے تو پھر اللہ کا نظام کیوں قبول نہیں ؟ شریعت کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لئے سازگار ماحول اور لوگوں کو اسلامی بنیادوں پر تربیت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ نیکی کرنے کو آسان اور بدی کرنے کو مشکل بنادے۔لیکن پاکستان میں صورتحال الٹی ہے۔ یہاں نیکی کرنامشکل جبکہ بدی کے فروغ کے لئے پوری ریاستی مشینری استعمال ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیٹو افواج افغانستان میں شکست کھاچکی ہیں جبکہ پاکستان میں امریکی پٹھوؤں کو بھی شکست ہوگی۔ جماعت اشاعۃالتوحید والسنۃ کے مرکزی امیر شیخ القرآن مولانا محمد طیب طاہری نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے جماعت اسلامی کی طرف دوستی اور تعاون کا جو ہاتھ بڑھایا تھا انہیں خوشی ہے کہ جماعت اسلامی نے اسے نہیں بھلایا اور آج کے اجتماع عام میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی شرکت پر انہیں دلی خوشی ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اشاعۃالتوحید و السنۃ نے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے کبھی بندوق نہیں اٹھائی اور مسلح جدوجہد کا راستہ نہیں اپنایا ۔ جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی نے ہمیشہ قرآن و سنت کی بالادستی کے لئے جدوجہد کی ہے ۔ جماعۃ اشاعۃ التوحید والسنۃ اور جماعت اسلامی کے درمیان اخوت اور تعاون کا رشتہ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے پرامن، آئینی اور جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتی ہے

Wednesday 22 October 2014

A visit to Church

www.swatsmn.com


Christmas is the annual festival, which is celebrated on 25th of December on Jesus Christ birth. Christians do celebrated it with joy and great reverence.
This year I was invited by one of my acquaintance Christian family named Mr. Nadeem and Mrs. Rubi Nadeem, to join them on their festive occasion. I was given two timings of the church. One was from 9pm-11pm on 24th of December and another from 10am-12pm on 25th of December.
I decided to visit on 25th of December.
My host family has attended church prayer on 24th December so they were free to facilitate me on Christmas day. They took permission from the bishop so that I can do their festival coverage. They cordially received me.


When I enter inside the church I found that prayer was going inside. Priest was giving Christmas sermon. Those people who didn’t attend prayer on eve of 24th December were now here to attend that. I took some pictures and have some short videos.

Later on I come outside and went to their stalls, where been keeping some Christ calendars for the New Year 2010. On the next stall was keeping small decorative ornaments for the Christmas tree hangings. There were some small golden balls and white stars for decoration. Some of the kids were dressed in the angel attires, which making them looks like small angels. 



















































MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan EXTED.pk

Admission open  MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan   http://facebook.com/ exted.p k http://www.exted.pk/ Lowest Fee ,   No IELTS...