Saturday 31 May 2014

،صحافت میں قدم رکھنے کا فیصلہ،نیلم چٹان

www.swatsmn.com

غیر سرکاری تنظیموں کو خیرباد،صحافت میں قدم رکھنے کا فیصلہ،نیلم چٹان

سوات(محمد ر حمن)سماجی ورکرز مختلف غیر سرکاری این جی اوز میں کام کر نیوالے نیلم چٹان نے صحافت اور سیاست میں قدم رکھنے کا فیصلہ کر لیا
 ،انہوں نے کہا کہ میں عوام کی خدمت قلم اور سیاست کے ذریعہ سے کرنا چاہتا ہوں میرا والدمرحوم ابرار چٹان بھی ایک سیا سی لیڈر تھا،
 انکی قربا نیوں کے وجہ سے آج ہمارے پہچان انکی نام سے ہو رہی ہیں،غیر سرکاری تنظیموں میں بہت کام کی لیکن دل کو وہ صلہ نہیں
 ملا جو میرے والد نے کیا تھا ،میرا والد عوامی خادم بھی اور کالم نگار بھی تھا میں انکی راستے پر چل رہی ہوں اور بہت جلد اپنے منزل تک پہنچ جا ؤنگا ،
میں تعلیم کے ساتھ ساتھ سیاست اور صحافت بھی کر ونگا

کوئی معجزہ ہی پاکستان کو شکست سے بچا سکتا تھ

www.swatsmn.com

اس مرحلے پر کوئی معجزہ ہی پاکستان کو شکست سے بچا سکتا تھا اور اس معجزے کا نام تھا فضل محمود۔ وہ انگلینڈ اور فتح کے درمیان دیوار بن گئے اور پاکستان نے 24 رنز سے یہ مقابلہ جیت کر تاریخ رقم کردی۔ پہلے دورۂ انگلینڈ ہی میں سیریز برابر! ۔
پھر فضل کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ اپنے پہلے ہی دوروں میں انڈیا اور انگلستان کے خلاف یادگار فتوحات سمیٹنے کے بعد پاکستان نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم گراؤنڈ پر شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ ان کی کارکردگی کی بدولت پاکستان نے بین الاقوامی کرکٹ میں ایسی شروعات کی جو کسی ٹیم کو نصیب نہیں ہوئی تھی۔ ویسٹ انڈیز، ہندوستان، جنوبی افریقہ، سری لنکا اور دیگر ٹیموں کو اپنی پہلی فتح حاصل کرنے کے لیے کئی سال لگے لیکن پاکستان نے کوئی ایسی سیریز نہ کھیلی، جہاں وہ کوئی مقابلہ نہ جیتا ہو اور ان سب میں فضل کا کردار کلیدی تھا۔

"اچھا کھیلے، لیکن ہندوستان سے جیت نہیں سکتے

www.swatsmn.com
 ہندوستان جواہر لعل نہرو کی صاحبزادی اندرا گاندھی نے، جو بعد ازاں خود بھی وزیراعظم بنیں اور اس جملے کے مخاطب تھے
فضل نے اس طعنے کا جواب لکھنؤ میں کھیلے گئے اگلے ٹیسٹ میں دیا، پہلی اننگز میں 5 اور دوسری اننگزمیں 7 یعنی کل 12 وکٹیں لے کر، جس کی بدولت پاکستان نے ایک اننگز اور 43 رنز کے بڑے مارجن سے مقابلہ جیت کر کرکٹ تاریخ میں اپنی فتح درج کروائی۔
اس فتح کی اہمیت اس لیے بھی بہت زیادہ ہے کیونکہ 1948ء میں ہندوستان نے فضل محمود کو پیشکش کی تھی کہ اگر وہ راضی ہوں تو دورۂ آسٹریلیا کے لیے ٹیم میں ان کا نام بھی شامل کیا جائے لیکن فضل پر پاکستان کی محبت سوار تھی۔ انہوں نے ہندوستان کی جانب سے کھیلنے سے انکار کردیا، صرف اس امید پر کہ ایک دن ایسا آئے گا جب پاکستان کو بھی ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا درجہ ملے گا اور وہ وطن عزیز کی نمائندگی کرسکیں گے۔ اس خواب کی تعبیر کے لیے انہیں 4 سال انتظار کرنا پڑا اور انہوں نے پہلے ہی دورے میں کارکردگی کے ذریعے اپنی اہلیت ثابت کردی۔ کسی نے کہا تھا کہ کاش فضل ہندوستان کی جانب سے آسٹریلیا کے خلاف کھیلتے تو ڈان بریڈمین کا اوسط کبھی 99 نہ ہوتا۔

موجودہ جمہوریت کوتھری ڈی کرپٹ سسٹم قراردیا

www.swatsmn.com

سابق نائب وزیراعظم چوہدری پرویزالہیٰ بھی اپنے بیٹے رکن پنجاب اسمبلی مونس الہٰی اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے ساتھ لندن میں موجود ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس اتحاد کا بنیادی مقصد نوازشریف کی حکومت کے خلاف ایک مشترکہ حکمت عملی ترتیب اور ستمبر میں لانگ مارچ کے انعقاد کو ممکن بنانا ہے۔
اسی سلسلے میں آج یعنی جمعے کو لندن میں عوامی تحریک اور مسلم لیگ ق کے وفود کے درمیان ملاقات ہوئی جس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں طاہرالقادری نے موجودہ جمہوریت کوتھری ڈی کرپٹ سسٹم قراردیا اور کہا کہ دھاندلی پرمبنی نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت عوام تک اختیارات کبھی منتقل نہیں کرے گی۔
سربراہ پاکستان عوامی تحریک کا کہنا تھا کہ عوام کا طرز زندگی بلند کرنے والا نظام بنانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوریت نہیں ہے بلکہ کرپشن کا نام جمہوریت رکھ دیا گیا ہے۔
'ملک میں خاندانی بادشاہت ہے،اس کو جمہوریت نہیں سجھتے۔'
اس موقع پر چوہدری شجاعت کا کہنا تھا کہ نظام کی درستگی کےلیے درست انتخابی اصلاحات کی جائیں۔
سربراہ مسلم لیگ ق نے کہا کہ پاکستان کےعوام کےمسائل حل کیےجائیں۔

کہ دنیا کو معلوم ہو کہ پاکستان نامی ایک ریاست معرض وجود میں آ چکی ہے

www.swatsmn.com

اگست 1947ء میں پاکستان معرض وجود میں آیا، اس نئی مملکت کے باسیوں کو نئی شناخت اور نئی پہچان کی ضرورت تھی اور اس حقیقت کو قائد اعظم محمد علی جناح سے زیادہ کون سمجھ سکتا تھا؟ انہوں نے نومولود ریاست کو درپیش سنگین مالی بحران کے باوجود ہر قیمت پر پاکستان کی قومی ہاکی ٹیم کو 1948ء کے لندن اولمپکس میں بھیجا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ یہی وہ موقع ہے کہ دنیا کو معلوم ہو کہ پاکستان نامی ایک ریاست معرض وجود میں آ چکی ہے۔ یوں پاکستان کھیلوں کے میدانوں سے نمودار ہوا اور 'پھر وہ آیا، اس نے دیکھا، اور فتح کرلیا۔'

لاوارث اور یتیم بچوں کی رجسٹریشن سے متعلق ایک نئی پالیسی کا اعلان کیا۔

www.swatsmn.com

اسلام آباد: جمعرات کے روز نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے ایک تاریخی اقدام اُٹھاتے ہوئے لاوارث اور یتیم بچوں کی رجسٹریشن سے متعلق ایک نئی پالیسی کا اعلان کیا۔
اس نئی پالیسی کے تحت ایک یتیم خانے کے سربراہ جہاں کوئی بچہ رہتا ہے، ایک حلف نامہ فراہم کرنے کے بعد بچے کا قانونی سرپرست بن جائے گا۔ یہ نیا طریقہ کار پرانے طریقہ کار کی جگہ لے گا، جس کے تحت اس طرح کے بچے کی سرپرستی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے متعلقہ عدالت سے رجوع کیا جاتا تھا۔
اس سے قبل گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ 1890ء کے تحت ایک بچے کو اسی صورت میں قانونی طور پر سرپرستی میں لیا جاسکتا تھا، جب کہ ایک گارڈین کورٹ سرپرستی حاصل کرنے والے شخص کو ایک حکمنامہ جاری کردے۔
عدالت کے ایک حکمنامے کے بغیر کوئی بھی شخص قانونی طور پر لاوارث یا یتیم بچے کی قانونی سرپرستی حاصل نہیں کرسکتا تھا۔
ماضی میں یتیموں کو نادرا کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں کیا جاسکتا تھا، اس لیے کہ ان کا کوئی قانونی سپرست نہیں ہوتا تھا، جس کی وجہ سے انہیں قومی شناختی کارڈ جو شہریت کا بنیادی ثبوت ہوتا ہے، حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
اس پالیسی کا انکشاف چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے کیا گیا، انہوں نے چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹریز کو حکم دیا کہ وہ متعلقہ صوبائی محکموں میں نئی پالیسی کو متعارف کروائیں اور اس کے نفاذ میں حکام کو مکمل مدد فراہم کریں۔
یہ معاملہ سب سے پہلے انسان دوست شخصیت اور سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کی جانب سے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے نوٹس میں لایا گیا تھا۔
اس وقت کے چیف جسٹس کو اپنے ایک خط میں عبدالستار ایدھی نے شکایت کی تھی کہ نادرا ایسے بچوں کو ب فارم جاری نہیں کررہا ہے، جن کے والدین کا علم نہیں یا جن کے والدین نے انہیں لاوارث چھوڑدیا تھا اور وہ اب ایدھی کی شیلٹرز یا پناہ گاہوں میں مقیم تھے۔
عبدالستار ایدھی کی بیٹی جو اس شیلٹر کا انتظام انصرام چلارہی ہیں، جب انہوں نے ایسے بچوں کو گود لینے اور ان کو رجسٹرڈ کروانے کی کوشش کی تو باضابطہ سرپرستی کے سرٹیفکیٹ کی عدم موجودگی کی وجہ سے نادرا نے ان کی درخواست کو مسترد کردیا۔
عدالت نے اس سے پہلے لاوارث بچوں کو گود لینے کے سلسلے میں اہم سوالات تیار کیے، جس پر مذہبی اسکالرز اور قانونی ماہرین کی تشریح درکار تھی۔
اس کے علاوہ ہائی کورٹ کے سابق جج طارق محمود اور کراچی میں مقیم قانونی ماہر مخدوم علی خان کو اس معاملے میں عدالت کا معاون مقرر کیا گیا۔
جمعرات کی عدالتی کارروائی میں نادرا کے نمائندے افنان کندی نے عدالت کو بتایا کہ نادرا نے اب تک 610 لاوارث بچوں کو رجسٹرڈ کیا ہے، جو یتیم خانوں میں مقیم ہیں۔ کل تین ہزار ستاسی بچے رجسٹرڈ ہونے سے رہ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس نئی پالیسی کے نفاذ کے ساتھ لاوارث بچوں کی رجسٹریشن میں حائل ہونے والی زیادہ تر رکاوٹیں دور ہوجائیں گی۔
نادراکے آرڈیننس 2000ء کے سیکشن 9(1) کے تحت نادرا پاکستان کے ہر ایک شہری کو چاہے وہ ملک میں ہو یا بیرون ملک مقیم ہو، جو اٹھارہ برس کی عمر کو پہنچ گیا ہو، رجسٹر کرنے کی پابند ہے۔
اس کے علاوہ ایک بچے کی پیدائش کے بعد ایک مہینے کے اندر اندر والدین کی طرف سے اس کو رجسٹر کروانا لازم ہے۔
نئی پالیسی کے تحت یہ لازم ہے کہ یہ یتیم خانہ نادرا کے ساتھ رجسٹرڈ ہو، اس میں مقیم بچوں کا مکمل ریکارڈ اور ان کی پچھلی رہائش کا ریکارڈ جو دستیاب ہو اور یتیم خانے کے متعلقہ حکام کی تمام دستاویزات بھی نادرا کو فراہم کی جائیں۔
اس صورت میں کہ ایک بچے کے ولدیت کا علم نہ ہو، تو یتیم خانے کی طرف سے اس کو جوبھی نام دیا گیا ہوگا، اس کو نادرا کے ساتھ رجسٹرڈ کیا جائے گا۔
یتیم خانہ ان تمام تفصیلات کی فراہمی کا ذمہ دار ہوگا اور بچے کے والدین کا کوئی بھی نام تفویض کرسکے گا، جیسا کہ ایدھی، عبداللہ، آدم یا حوا۔
ہر ایک نئی رجسٹریشن کے لیے یتیم خانے کے لیے لازم ہوگا کہ وہ ہر نئی پیدائش کی نادرا کو رپورٹ دے، اور مستقبل میں والدین کی جانب سے حق شفع کے دعوے کے لیے اگر ممکن ہو تو یتیم خانے کی جانب سے ڈی این اے کا ٹیسٹ کروایا جانا چاہیٔے۔
نادرا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ چیئرمین نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ یتیموں کو شناختی کارڈ مفت جاری کیے جائیں گے۔
عبدالستار ایدھی کی شکایت کو دور کرنے کے لیے تیار کی جانے والی اس پالیسی کو عدالت اس کے نفاذ کے ساتھ شایع کرنے کا اہتمام کرے گی۔

Friday 30 May 2014

حکومت اس حوالے سے واضح اسٹینڈ لئنے سے ڈرتی ہے

فضل اللہ نہیں، سجنا گروپ سے مذاکرات آگے بڑھ سکتے ہیں، ایاز خان، فوٹو: فائل
لاہور: دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر رٹائرڈ محمودشاہ نے کہاہے کہ مذاکرات کے حوالے سے کوئی پیشرفت نہیں ہوئی اور حکومت اس حوالے سے واضح اسٹینڈ لئنے سے ڈرتی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام خبر سے آگے میں میزبان نبیلہ سندھوسے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ حکومت مذاکرات کا شوق پورا کر لے لیکن ایک ٹائم لائن بھی دے، اس طرح کی صورتحال دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی رہی ہے جہاں پرحالات کی بہتری میں کئی کئی سال لگے ہیں، ٹی ٹی پی کا محسود قبائل سے اتحاد تھا اورٹی ٹی پی کی لڑائی حکومت پاکستان سے تھی، ٹی ٹی پی کمزور ہو چکی ہے، پہلی مرتبہ ٹی ٹی پی کی قیادت محسود قبائل کے ہاتھ سے نکل گئی ہے، تحریک انصاف کے رہنما مراد سعید نے کہا کہ وزیر اطلاعات پرویزرشید نے جو کہا ہے وہ ٹھیک ہے۔
اگریہی الیکٹورل سسٹم رہتا ہے تو پھر کوئی بھی نہیں جیت سکتا، جب ایک ایک پولنگ اسٹیشن سے بیس بیس ہزار ووٹوں کافرق نکلے گا تو پھر کوئی اور کیسے جیتے گا،ہم الیکٹورل ریفارمز کامطالبہ اسی لیے کر رہے ہیں کہ شفاف انتخابات ہوں،جب تک شفاف انتخابات نہیں ہوں گے ملک کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔سینئر تجزیہ کار ایاز خان نے کہا کہ حکومت نے پی ٹی آئی کو سڑکوں پر نکلنے کا خود جواز فراہم کیا ہے جس طرح ان کا مطالبہ تھا کہ 4 حلقوں میں دوبارہ ووٹوں کی گنتی کرائی جائے اگر حکومت مان لیتی تو شاید حالات ایسے نہ ہوتے، میں اب بھی اس مؤقف پر قائم ہوں کہ حکومت 4 حلقوں میں دوبارہ ووٹوں کی گنتی کروا کر اس معاملے کو نارمل کر لے، طالبان آپس میں تقسیم ہو گئے ہیں، اب سجنا گروپ سے مذاکرات آگے بڑھ سکتے ہیں۔
فضل اللہ گروپ سے نہیں، ہمارے معاشرتی رویے بہت حد تک بدل گئے ہیں، آج بھی پولیس نے ایک بھکاری خاتون کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے، یہ ایکشن اس وقت ہونا چاہیے جب ریاست نے اپنے سارے فرائض پورے کیے ہوں۔ ماہرنفسیات ڈاکٹر رافعہ رفیق نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں بے حسی بہت بڑھ چکی ہے، اگر کوئی سانحہ ہوتا ہے تو لوگ اس کو روکنے کے بجائے اس کی وڈیو بنانے میں لگے ہوتے ہیں ہم تماشائی بنتے جا رہے ہیں، جتنے بھی غیر روایتی سانحے ہو رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کو بنیادی ضروریات مہیا نہیں ہیں، لوگ اپنی فرسٹریشن ان لوگوں پر نکالتے ہیں جو ان کے آگے بول نہیں سکتے۔
www.swatsmn.com

جس میں مسائل کی بھرمار تھی

میں نے جب دنیا کو دیکھنا اور محسوس کرنا شروع کیا تو میرے اردگرد پھول، چاند، ستاروں، سورج، بادل، پرندوں کی دنیا تھی۔ یہ دنیا مہربان، عطا کرنے والی اور خوبصورت تھی۔ جس میں نفرت، غصے، تعصب و بدلہ لینے کا کوئی رجحان نہیں تھا۔ یہ تتلی کے پروں جیسی سبک رفتار اور پھولوں کی مہک جیسی سرشار زندگی تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ دھیرے دھیرے پھر ایک نئی دنیا میرے سامنے تھی۔ جس میں مسائل کی بھرمار تھی۔
عمل اور ردعمل کی یہ دنیا، جس میں لوگ سبب یا جواز ڈھونڈتے تھے یا پھر ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے۔ یہ دنیا ہمیشہ سراپا سوال دکھائی دی کہ آخر قصور کس کا ہے؟ وہ کون ہے جس نے سکون کی ندی میں انتشار کا پہلا کنکر پھینکا تھا۔ یہ دنیا عجیب تھی اسباب و اثرات کی دنیا، جس میں رویے پر تغیر اور سوچ میں ٹھہراؤ نہیں ملتا۔
حقیقت یہ ہے کہ انفرادی مسائل ہوں یا اجتماعی، کہیں بھی حل نہیں ملتا سوائے تکرار کے۔ یہ انسان کے ذہن کے شور کی دنیا ہے، جہاں باہر کی آوازیں منقطع ہو جاتی ہیں۔ ہمارے جیسے معاشرے جو Victim Syndrome مظلومیت و بے بسی کے سائے تلے پروان چڑھتے ہیں، لامتناہی راستوں پر بھٹکتے رہتے ہیں۔ جہاں منزل کا تصور سراب دکھائی دیتا ہے۔
یہ تصور خود انحصاری کی سوچ کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ لوگ خود کو بے بس و بے اثر محسوس کرتے ہیں یہ بااثر طبقوں کا مخصوص ہتھکنڈا ہے، جو ہمیشہ پسماندہ طبقوں کی ناسمجھی کے زینے سے چڑھتے ہوئے کامیابی کے آسمان کو چھوتے ہیں۔ مظلومیت کے احساس میں مبتلا طبقے معاشرے میں انتشار پھیلا دیتے ہیں۔
بعض اوقات مظلومیت بھی اکثر دفاعی ردعمل کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ یہ انا و نرگسیت کا کھیل ہے، اپنی ذات سے محبت کی انتہا! سگمنڈ فرائڈ کہتا ہے کسی بھی تضاد کا دفاع کرنے کے لیے انا لاشعوری طور پر دفاعی میکانیت استعمال کرتی ہے۔ سیاست میں بھی الزام تراشیوں کے کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ یہ منفی رجحان اب قومی مزاج بن چکا ہے۔ جسے مرر نیورون بھی کہا جاتا ہے۔ یہ چھوت کی بیماری جیسے ہوتے ہیں۔ یہ چھوت کی بیماری کی طرح ہوتے ہیں اور خوب پھلتے  پھولتے ہیں۔
یہ Mirror Neurons مرر نیورونز (نیورون سیل ہے جو نروس سسٹم کا اہم جزو ہے، یہ دفاع کا پیغام جسم کے دوسرے حصوں تک پہنچاتا ہے) بالکل اسی طرح سے ہے کہ جیسے ایک بچے نے منہ چڑایا تو دوسرا بھی جوابی طور پر وہی حرکت کرے گا۔ اس رویے میں سوچ و سمجھ برائے نام ہی ہوتی ہے۔ یہ رجحان سطحی رویوں سے جنم لیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے منفی رویوں کی فصل پک کر تیار ہو جاتی ہے۔ جو بوئیں گے وہی کاٹیں کے مصداق منافع کسی کے حصے میں نہیں آتا۔ منفی رویے یا ناپسندیدہ رجحان تکرار سے کبھی حل نہیں ہوتے۔
یہ سوجھ بوجھ، عقل اور منطقی دلیل سے انجام کو پہنچتے ہیں۔ مگر جھوٹی تعریف کا زہر پلا کر احساس برتری کے پل باندھ دیے جاتے ہیں۔ اگر کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اسے جھوٹی شان اور ستائش کا زہر پلا دو وہ صفحہ ہستی سے خودبخود مٹ جائے گی۔ یہ نقصانات اٹھاتے سالہا سال گزر گئے مگر ہماری آنکھ نہ کھل سکی۔ ماضی کے تجربوں سے ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔ جب کہ منفی رویے اور زندگی کے تضادات اور حادثے انسان کو بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ دکھ شخصیت کی تعمیر کرتا ہے۔ انسان میں ہمدردی، برداشت، سمجھ اور عفو و درگزر جیسے اوصاف پیدا ہو جاتے ہیں۔
معاشرے میں انفرادی یا اجتماعی طور پر مظلومیت و بے بسی کی یہ چھاپ نفی کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ Denial (نفی و انحرافی) ایک ایسا رویہ ہے، جو انسانی قدروں کو جڑ پکڑنے نہیں دیتا۔ انفرادی سوچ کی ترویج کرتا ہے۔ یہ رویے ذاتی مفاد، سوچ، احساس اور رویے کی پرچار کرتا ہے۔ ایک دوسرے کی نفی اور جھٹلانے کے باعث مسائل کا حقیقت پسندانہ اور منطقی حل نہیں مل پاتا۔
موجودہ حالات میں وکٹم سنڈروم کا رجحان جو معاشرتی زندگی کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ جس کی رو سے فرد اپنی تکالیف، محرومیاں اور قربانیاں کیش کراتا ہے۔ اور خوب شور مچا کر لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہ رویہ اپنی بدحالی کا صلہ یا ستائش زبردستی حاصل کرتا ہے۔ اس رجحان کو ہوا دینے میں سوشل میڈیا نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ وہ ڈرامہ ہے جو اینٹی کلائی میکس پر ختم ہوتا ہے۔ اور جس میں بہروپیے کی نشاندہی کبھی نہیں ہو پاتی۔
اس طرح کے متضاد مسائل جب نسل در نسل چلتے ہیں تو یہ منفی رویے موروثی طور پر ایک نسل دوسری نسل کو منتقل کرتی ہے۔ احساس محرومی اور عدم تحفظ کا شکار لوگ ہمیشہ ایک ایسی صورت حال پیدا کرتے ہیں، جہاں وہ توجہ کا مرکز بننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جسے نفسیات کی رو سے Attention seeking deficit disorder کہتے ہیں۔ یہ منفی رویہ ایک بچہ بھی اپنا لیتا ہے، جسے والدین نظر انداز کرتے ہیں۔ بیوی کی لڑائی کے پس منظر میں بھی یہ عدم توجہی کی شکایت ہوتی ہے۔ منفی رویے خطرے کی گھنٹی جیسے ہیں، جن کا سدباب وقت پر ہونا ضروری ہے۔ جس کا واحد حل ڈائیلاگ، موثر گفتگو یا بات چیت ہے۔
معاشرتی زندگی سے لے کر ایوان سیاست تک ہر شخص دوسرے کی شکایت اور برائیاں بیان کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جہاں الزام تراشیوں کے موسم ہمیشہ سرسبز رہتے ہیں۔ ایک ڈرامائی انداز میں پیش ہونے والی مظلومیت درحقیقت پس پردہ کئی پوشیدہ محرکات کی حامل ہے۔ جس کے پیچھے ذاتی ذمے داری کا فقدان صاف نظر آتا ہے۔ بقول کسی مفکر کے یہ خود  رحمی منشیات کی طرح بری عادت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ جو وقتی خوشی دیتی ہے اور مظلوم کو حقیقت سے بہت دور لے جاتی ہے۔
ذاتی ناکامی، محرومی و مایوسی کا الزام دوسروں کے کھاتے میں ڈال دینے والے حالات کے بھنور سے شاذ و نادر ہی باہر نکل پاتے ہیں۔ اگر حقیقت پسند ہو کر دیکھا جائے تو ناکامی کامیابی کا پہلا زینہ ہے۔ شکایت کرنے والے لوگ ذاتی تجزیے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ وہ خود احتسابی کا جوہر نہیں رکھتے۔ اور زندگی ایک ہی دائرے میں گھومتی رہتی ہے۔ اسے باہر نکلنے کا راستہ نہیں مل پاتا۔ اگر انسان مان لے کہ بدترین حالات پیدا کرنے میں کہیں اس کا بھی ہاتھ تھا تو یہ سوچ اصلاح کی طرف پہلا قدم ہو گی۔
مسائل کا منطقی تجزیہ اور اس منفی رجحان سے علیحدگی اختیار کر لینے سے ذات کی کھوئی ہوئی خود اعتمادی بحال ہوتی ہے اور مسائل کا حل مل جاتا ہے۔ ایک حکایت گوش گزار ہے۔ ایک رات چور نے کھڑکی سے مکان کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی۔ کھڑکی ٹوٹی ہوئی تھی لہٰذا چور گر گیا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ چور عدالت میں گیا اور مالک مکان کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا۔ مالک مکان کی جواب طلبی ہوئی تو اس نے کہا کہ یہ میرا نہیں بلکہ بڑھئی کا قصور ہے، جس نے ناقص سامان سے کھڑکی بنائی ہے۔
بڑھئی نے اپنا دفاع کرتے ہوئے سارا قصور راج پر ڈال دیا۔ راج کو بلایا گیا تو اس نے کہا یہ یہاں سے گزرنے والی عورت کی غلطی ہے جس کی طرف میرا دھیان گیا تو عمارت میں نقص رہ گیا۔ وہ عورت عدالت میں پیش ہوئی اور وضاحت کی کہ اس وقت میں نے ایک دیدہ زیب گائون پہن رکھا تھا۔ قصور رنگ ریز کا ہے کہ اس نے ایسے اشتہا آمیز رنگ کیوں استعمال کیے۔ جج نے حکم دیا کہ رنگ ریز کو پیش کیا جائے۔ جب رنگ ریز آیا تو وہ شخص اس عورت کا شوہر اور بذات خود چور نکلا۔
www.swatsmn.com

151 بھارتی قیدیوں کی رہائی کے بدلے بھارت نے صرف 37 پاکستانی قیدیوں كو رہا کیا

بھارت سے رہائی پانے والے قیدیوں میں 5 عام شہری جب کہ 32 ماہی گیر شامل ہیں۔ فوٹو:فائل
لاہور: پاكستان كے جذبہ خیر سگالی كے تحت 151 بھارتی قیدیوں کی رہائی کے بدلے بھارت نے  صرف 37 پاکستانی قیدیوں كو رہا کیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق بھارتی سیكیورٹی فورسز نے پاكستانی قیدیوں كو آج واہگہ بارڈر پر پاک رینجرز كے حوالے كیا، رہا کئے جانے والے قیدیوں میں 5 عام شہری جب کہ 32 ماہی گیر شامل ہیں جنہیں راستہ بھٹک جانے پر بھارت کی میری ٹائم سیکیورٹی کے اہلکاروں نے گرفتار کرلیا تھا۔ بھارتی جیلوں سے رہائی پانے کے بعد وطن پہنچنے پر قیدیوں کے خوشی دیدنی تھی اوروہ جیسے ہی پاک سرزمین پرپہنچے تو سجدہ شکر میں گرگئے۔
دوسری جانب دفتر خارجہ کا کہناہے بھارت میں اب بھی 484 پاکستانی قید  ہیں جن میں سے 25 اپنی سزائیں بھی پوری کرچکے ہیں لیکن بھارت نے انہیں ابھی تک رہا نہیں کیا۔
واضح رہے کہ وزیراعظم نوازشریف كی ہدایت پر بھارتی وزیراعظم نریندرمودی كی تقریب حلف برداری كے روز جذبہ خیر سگالی كے تحت بھارت كے 151 قیدیوں كو واہگہ كے راستے بھارتی سكیورٹی فورسز كے حوالے كیا گیا تھا۔
www.swatsmn.com

، ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت جیو اور جنگ گروپ کیساتھ ملی ہوئی ہے

پیمرا ایک مکمل اور بااختیار ادارہ ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت جیو اور جنگ گروپ کیساتھ ملی ہوئی ہے، فریحہ افتخار فوٹو؛فائل
اسلام آباد: پیمرا کی ممبر فریحہ افتخار نے کہا ہے کہ ہم وزارت دفاع کی جیوکیخلاف درخواست پرفیصلہ کرنا چاہتے ہیں لیکن حکومت نے اس اہم معاملے کواپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔
ایکسپریس سے گفتگوکرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ پیمراایک مکمل اور بااختیار ادارہ ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت جیو اور جنگ گروپ کیساتھ ملی ہوئی ہے۔ حکومتی مداخلت کی وجہ سے اب تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔ انھوں نے کہاکہ اجلاس میں پرائیویٹ ممبران توشریک ہوتے ہیں لیکن سرکاری ممبران شریک نہیں ہوتے
www.swatsmn.com

میچ فکسنگ کی وبا ویمنز کرکٹ کو بھی لپیٹ میں لینے لگی

لندن: میچ فکسنگ کی وبا ویمنز کرکٹ کو بھی لپیٹ میں لینے لگی۔
آئی پی ایل کے سابق چیئرمین للت مودی نے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ اینٹی کرپشن یونٹ کے ایک آفیشل نے انھیں بتایاکہ ویمنز ورلڈ کپ میں انگلینڈ کا ایک میچ بھی شکوک کی زد میں تھا، مگر جائلزکلارک نے اس کے بارے میں تحقیقات رکوا دیں، انھوں نے کہا کہ سری نواسن تو اپنے انجام کوپہنچ رہے ہیں، کلارک اب ہم تم پر توجہ  دیں گے، مودی نے کہا کہ چند ممالک کے کرکٹ بورڈز چیئرمین میرے ساتھ رابطے میں ہیں، جلد ہی حقائق سامنے آجائیں گے، تمام سربراہوں کو غفلت کی نیند سے جاگنا اور کلارک کو باہر کا دروازہ دکھانا ہوگا، میں اس مافیا کے خاتمے میں مدد دینے کو تیارہوں۔
مودی نے یہ بھی کہا کہ نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز کے سربراہان سری نواسن کے خلاف مگر اس کے باوجود بی سی سی آئی کے معطل صدر آئی سی سی پوسٹ پر قبضے کیلیے تیار ہیں۔ انھوں نے الزام لگایا کہ آئی سی سی کو فکسرز چلارہے ہیں، انھوں نے بی سی سی آئی کے صدر این سری نواسن اور انگلش بورڈ کے چیئرمین جائلز کلارک پر فکسنگ تحقیقات روکنے کا بھی الزام عائد کیا، مودی نے چیلنج کیا کہ اگر میرے کمنٹس غلط ہیں تو مجھے عدالت لے جاؤ، انھوں نے آئی سی سی کوبدمعاشوں کی عالمی کونسل قرار دیا۔ مودی نے اپنی ٹویٹر پروفائل کی تصویر بھی تبدیل کردی، جس میں آئی سی سی کے لوگو کو تبدیل کرتے ہوئے لکھا گیاکہ ’’ انٹرنیشنل کرکٹ آف کروکس‘‘۔
www.swatsmn.com

پاکستانی ٹیم 43 سال میں پہلی بار اس میگا ایونٹ میں شرکت نہیں کرے گی

ورلڈ کپ کا آغاز 1971میں ہوا اور قومی ٹیم نے خالدمحمودکی قیادت میں بارسلونا میں میزبان اسپین کوشکست دے کرپہلا ورلڈ کپ جیتا، فوٹو: فائل
لاہور: 13واں ہاکی ورلڈ کپ کل سے شروع ہوگا لیکن پاکستانی ٹیم 43 سال میں پہلی بار اس میگا ایونٹ میں شرکت نہیں کرے گی۔
ہالینڈ کے شہر ہیگ میں 31 مئی سے 15 جون تک جاری رہنے والے میگا ایونٹ میں 12 ٹیمیں شریک ہوں گی لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ 4 بار عالمی کپ کا اعزاز حاصل کرنے والی پاکستانی ٹیم پہلی بار کوالیفائی نہ کرنے کے باعث اس میں شرکت نہیں کرے گی اور قومی کھلاڑی باہر بیٹھ کر ہی میچ دیکھیں گے جبکہ پاکستان ہاکی کے کرتا دھرتا اپنی کوتاہیوں اور بے بسی کا ملبہ دوسروں پر گراتے رہیں گے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ورلڈ کپ کی خوبصورت ٹرافی بھی پاکستان نے خود تیار کرکے انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کو تحفے میں پیش کی تھی۔
عالمی کپ میں آسٹریلوی ٹیم اعزاز کا دفاع کرے گی جبکہ ایونٹ میں شریک ٹیموں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے، گروپ ’’اے‘‘ میں دفاعی چیمپئن آسٹریلیا، انگلینڈ، اسپین، بیلجیئم، ملائشیا اور بھارت شامل ہیں جبکہ گروپ ’’بی‘‘ میں جرمنی، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، جنوبی کوریا، جنوبی افریقا اور ارجنٹائن کی ٹیمیں شامل ہیں، ایونٹ کے سیمی فائنلز 13 جبکہ فائنل 15 جون کو کھیلا جائے گا۔
واضح رہے کہ  ورلڈ کپ کا آغاز 1971میں ہوا اور قومی ٹیم نے خالدمحمودکی قیادت میں بارسلونا میں میزبان اسپین کوشکست دے کرپہلا ورلڈ کپ جیتا، 1978 کو بیونس آئرس کے عالمی کپ میں اصلاح الدین کی کپتانی میں پاکستان نےفائنل میں ہالینڈ کو 2-3 سے زیر کیا ، 1982 کا سال خوب رہا اس بار قومی ٹیم نے بھارت میں 2 بار کامیابی کےجھنڈے گاڑے ، نئی دہلی میں ایشیائی کھیل کاٹائٹل جیتا اورپھراختررسول کی کپتانی میں قومی ٹیم ممبئی سےورلڈکپ بھی چھین لے آئی، گرین شرٹس نے عالمی کپ کے فائنل میں ہالینڈ کو 0-3 سےشکست دی۔ 1986 میں ایشیائی اعزازچھن گیا اورپھرورلڈکپ لندن میں قومی ٹیم گیارھویں پوزیشن پرجا پہنچی لیکن 1994 پھر فضا کا خوشگوارجھونکا لے کرآیا اور شہباز سینئرکی قیادت میں لاہورمیں چیمپئنزٹرافی اور سڈنی میں ورلڈکپ کی فتح نے کئی عبرتناک ناکامیوں کےزخموں پر مرہم رکھ دیا لیکن قومی ہاکی ٹیم  کو اب تو ایسا زخم لگا ہے کہ اسے پتہ نہیں کون آکر بھرے گا۔
www.swatsmn.com

پنڈی بھٹیاں میں نصیبو لیگ کو تحریک انصاف کے ہاتھوں شکست


پنڈی بھٹیاں میں نصیبو لیگ کو تحریک انصاف کے ہاتھوں شکستمولانا فضل الرحمان کا کشمیر کمیٹی کی چئیرمین شپ سے
مستعفی ہونے کا امکان،نواز شریف اور پٹواریوں کے دکھ میںبرابر کے شریک ہیں،ڈیزل کے خالی ڈرموں میں برنول فوری
رائیونڈ بجھوانے کا فیصلہ،مولانا بہت جلد دو من سرخ اور تازہگاجروں کے ہمراہ رائیونڈ کا دورہ کریں گے
مولانا عبدالغفور حیدری کی ہنگامی پریس کانفرنس

www.swatsmn.com

پھر بسنتی کے پیچھے پڑا ہوا دیکھا ہے



جب سے ہوش سنبھالا بس یہی سُنتے آئے ہیں کہ چین ہمارا 'بیسٹ فرینڈ' ہے مگر عجب اِتفاق ہے کہ میں نے تو بچپن سے اب تک آدھے پاکستان کو یا تو گبّر جیسا پایا ہے یا پھر بسنتی کے پیچھے پڑا ہوا دیکھا ہے۔


'پاک چین دوستی زندە باد' کے نعرے بھی اُس دن خوب لگائے تھے جب ہمیں اسکول سے اُٹھا کر ہاتھوں میں پاکستانی اور چینی پرچم پکڑا کر سڑی دھوپ میں اُس وقت کے پاکستانی صدر مرحوم ضیااُلحق اور چینی سربراەِ مملکت کے استقبال کے لئےسڑک کے دونوں طرف کھڑا کردیا گیا تھا۔


نہ مجھے اُس دن اور نہ ہی آج یہ پتہ ہے کہ چین کے صدر یا وزیرِاعظم کا نام کیا ہے، چین کے کتنے صوبے ہیں، اُن کے سیاسی رہنماوں کے نام کیا کیا ہیں، چلیں یہ تو مشکل سوال ہیں میں نے آج تک چینی زبان کی کوئی فلم کوئی ڈرامہ نہیں دیکھا. حد تو یہ ہے کہ آج تک کوئی چینی زبان کا گانا نہ تو میرے کانوں تک پہنچا اور نہ ہی میں نے اپنے ملک میں ہونی والی کسی شادی میں اپنے ملک کے بیسٹ فرینڈ ملک کے کسی آئیٹم نمبر پر کبھی کسی کو ڈانس کرتے دیکھا۔


اس کے برعکس اپنے ملک کے سب سے قریبی اور سب سے بڑے دشمن ملک کے سرکاری ٹی وی کی نشریات کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے اپنے محلے کے اُس گھر پر ہر شام جمع ہوئے اُس جمِ غفیر کو میں شائید کبھی نہ بھول پاٴوں جسکے چھت پر لگے انٹینا سے بُوسٹر نامی کوئی چیز چپکی ہوا کرتی تھی۔


ہم تو چھوٹے بچےتھے تو ہمیں تو آگے ہی جگہ مِل جایا کرتی تھی مگر جو لوگ پیچھے رە جایا کرتے تھے اُن کے لئے ٹی وی کے دُور سے درشن بھی کافی ہوا کرتےتھے۔ کیا گیت مالا اور کیا فلمی ماحول اُس دور میں وە ایک چینل لوگوں کو تفریح کے وە مواقع دے دیا کرتا تھا جو آج ١٠٠ ٹی وی چینلز مِل کے بھی نہیں دے پا رہے۔


جی یہ زکر زمانہِ بلیک اینڈ وہائیٹ کا ہے، تھوڑی اور ترقی ہوئی ٹیلیوژن کی، زندگیوں میں کچھ رنگ آئے یا یوں کہہ لیجیئے کہ ہم غریبوں کے گھر تک رنگین ٹی وی پہنچا (کیونکہ شائید رنگین ٹی وی اور پہلے ہی ایجاد ہو گیا تھا) اور بس پھر کیا تھا دشمن مُلک کی ثقافت ہمارے محلے کی نُکڑ والی ویڈیو کیسیٹ کی دکان پر پانچ پانچ دس دس روپے میں کرائے پر ملنے لگی۔ وی سی آر کے ساتھ چار فلمیں نوے روپے میں پوری رات کے لئے کرائے پر مِل جایا کرتی تھیں اور پورا محلہ کسی ایک کے گھر پر جمع ہو کر شبِ جمعہ کو دشمن ملک کی چارفلموں اور کُل ملا کر کم و بیش بیس گانوں سے مُستفید ہوا کرتا تھا۔ پھر کیا کسی کی سالگرە کیا عقیقہ اور کیا محلے کی کوئی شادی جس تقریب میں ایک بولی وڈ گانا نہ ہو سمجھئے کہ جیسے تقریب نامکمل ہے۔


یہ کچھ عجیب سا فرق تھا جسے میں آج تک سمجھ نہ پایا کہ ایک ملک کی عوام اپنے مُلک کے قریبی ترین بلکہ بہترین دوست مُلک سے ایسے لاتعلق اور سب سے بڑے دشمن سے ثقافتی طور پر اُتنے ہی قریب؟


خیر صاحب اِس بات کو سمجھنے سے میں تو کیا شائید میری اولاد اور اُن کی اولادیں بھی قاصر ہی رہیں گی کیونکہ ہم اِس بات کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے. اپنی اِس چاہت میں ہم بحیثیت ایک قوم اپنا کتنا نقصان کر رہے ہیں یہ ایک الگ بحث ہے اور میری کوئی آشا نہیں کہ میں ایسی کسی بھی بحث کا حصہ بنوں۔ سیاست بڑے لوگوں کا کام ہے ہم غریب تو بس ووٹ ڈال کر اپنے فرض سے فراغت حاصل کر لیتے ہیں اور نہ جانے ایسے کتنے غریب ہیں جو مشکل ہی آج تک کسی پولنگ بُوتھ تک بھی پہنچ پائے ہوں مگر اِس ترقی پزیر مُلک میں بھی ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے کہ آپ اپنے گھر ہی بیٹھے رہئیے اور آپ کا ایک ووٹ کم سے کم آٹھ دفعہ تو کاسٹ ہو ہی جاتا ہے۔


پڑوسی دشمن ملک کا حال بھی زیادە مختلف نہیں مگر بس وہاں 'تبدیلی' کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے اور شائید یہی وجہ ہے کہ جس دیش میں گنگا بہتی ہے اُسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔


زیادە قدیم تو میں ہوں نہیں اِسی لئے کانگریس کے پچھلے دو ادوار جس میں ڈاکٹر منموہن سنگھ لوک سبھا کی قیادت کرتے پائے گئے کو زرا غور سے دیکھنے کا اِتفاق ہوا. ان دو ادوار میں پاکستان دورِ مشرف سے گزرتا ہوا زرداری صاحب کے جمہوری دور میں داخل ہوا اور جمہوریت تاریخ میں پہلی بار --ٹہلتی ہوئی ہی سہی-- اپنے پانچ سال مکمل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ میاں صاحب ١۴ سالہ وقفے کے بعد آگے بڑھے اور جمہوریت کی کمان سنبھال کر اپنا پہلا سال مکمل کرنے ہی والے تھے کہ عین اُسی وقت پڑوسی مُلک اپنی تاریخ کے پندرہویں انتخابات سے گزرنے لگا۔


ڈاکٹر سنگھ کے یکے بعد دیگرے دونوں کانگریسی ادوار ہندوستانیوں کے لیے عام طور پر اور خاص طور پر پاکستانیوں کے لئے کُچھ مایوس کُن ہی رہے۔ صنعت و تجارت سے لے کر خارجہ پالیسی تک تقریباً ہر محاذ پر ہی کانگریس کو منہ کی کھانی پڑی. کرپشن کے بھی خوب ریکارڈ بنے مگر کیا کہنے عوام کے جنہوں نے ایک ہی جماعت کو دو دفعہ موقعہ دیا اور مجال ہے جو دھاندلی کے الزامات کے باوجود بھی کسی نے ووٹ کے سوا کسی اور دوسری یا تیسری طاقت سے حکومت یا جمہوریت کا راستہ روکنے کی کوشش کی ہو۔


جب وفاق میں کانگریس جیسی اعتدال پسند یا بائیں بازو کی جماعت حکومت کے مزے لُوٹ رہی تھی عین اُسی وقت ریاست گُجرات میں دائیں بازو کی اور قدرے متعصب جماعت بی۔جے۔پی اقتدار میں تھی اور مسلمانوں کے بارے نہ صرف اچھے خیالات نہ رکھنے والے بلکہ گجرات میں ہوئے مسلمانوں کے قتلِ عام میں مبینہ طور پر ملوث متنازع ترین شخصیت نریندر مودی صاحب وزیرِ اعلٰی کے طور پر اپنے فرائض ادا کر رہے تھے۔


نہ جانے مودی صاحب کے پاس ایسی کونسی جادو کی چھڑی تھی یا اُنہوں نے ایسی کونسی دُودھ کی نہریں گجرات میں بہادیں کہ ناصرف ہندوستانی عوام بلکہ سرمایہ دار بھی اُن پر فریفتا ہو گئے یہاں تک کہ میرے ایک ہندوستانی مسلم دوست نے بھی مجھ سے کہا کہ ہم سب تو مودی صاحب کو ہی ووٹ دیں گے کیونکہ اُن کے وژن کے سامنے ہندو مسلم مسئلہ ایک بہت چھوٹی سی بات ہے۔


بحرحال جس وژن کے پیچھے پورا ہندوستان اور ہندوستانی سرمایہ دار دیوانہ ہوا پھر رہا ہے اُس کی ایک جھلک گجرات میں نظر تو آتی ہے اور اب وہی وژن گجرات سے سفر کرتا ہوا دلی آن پہنچا ہے۔ انتخابات میں شاندار کامیابی کے بعد اگر خطے کے سب سے بڑے مُلک کا سربراە اپنے حلف لینے والے دن سے ہی پاس پڑوس کے ملکوں کو ساتھ لیکر چلنے کے عملی اِقدامات کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو ہمیں بھی ماضی کی تلخیوں کو ایک طرف رکھ کر عزت و وقار کے ساتھ اُس کا ساتھ دینا چاہئیے۔


کیا ہی اچھا ہو اگر پاکستان، ہندوستان اور بنگلادیش یورپی یونین کی طرز پر ایک ساؤتھ ایشین بلاک بنائیں۔ جنگ کرتے تو ٦٧ سال بِتا دئیے، کیا بُرا ہو اگر افغانستان جاتے ہندوستانی ٹرک پاکستان سے گزرتے ہوئے کروڑوں بلکہ شائید اربوں ڈالر سالانہ چُنگی ادا کرتے جائیں۔ ہماری ایسی روزمرە استعمال کی چیزیں جو یا تو ہندوستان میں بنتی یا پیدا ہوتی ہیں، براستہ دبئی آنے کے بجائے اگر براەِ راست امرتسر سے لاہور پہنچیں تو شائید ہمیں اتنی سستی قیمت میں دستیاب ہوں کہ ہم ایک ماە کے خرچے میں اُن اشیاٴ کا پورے سال کا کوٹہ برابر کر سکیں اور اِسی طرح ہماری مصنوعات کی رسائی ہندوستانی مارکیٹ تک ممکن ہو۔


بات پھر وہی ہے، غریب یا تو ووٹ دے سکتا ہے یا مشورە، عمل تو حضور بڑے لوگ ہی کرتے ہیں۔ ایک طرف مودی جی ہیں تو دوسری طرف اپنے میاں صاحب اور کُچھ بھی ممکن ہے مگر اگر ہم اپنے دردناک ماضی پر نظر ڈالیں تو میاں صاحب ہوں یا کوئی بھی حکمراں اُسے 'دشمن ملک' سے قُربت کبھی راس نہیں آتی۔ میاں صاحب کی اِس دوستانہ پالیسی سے کسی کا بھی اختلاف جائز ہے، لیں آپ کی باری بھی آنی ہے بس تھوڑا انتظار کر لیجئیے اور کوشش یہی کیجئیے گا کہ تبدیلی کے لئے ووٹ کی طاقت کا ہی استعمال ہو اور وە بھی اپنے مقررە وقت پر
www.swatsmn.com

ڈاکٹر مہدی علی قمر کو علی الصبح چناب نگر

پیر کی صبح دفتر نکلنے سے پہلے حسب معمول میں اپنا ٹویٹر چیک کر رہا تھا کہ ایک ٹویٹ پر نظر پڑی. ایک سو چالیس حروف میں لکھی ایک خوفناک عبارت اور ایک خون میں لت پت تصویر ایک عجیب کہانی سنا رہی تھی.
ٹویٹ کچھ یوں تھی;
"احمدیہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مہدی علی قمر کو علی الصبح چناب نگر (ربوہ) میں انکی بیوی اور بچے کی آنکھوں کے سامنے گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا"
ٹویٹ کے ساتھ ہی ایک شخص کی تصویر تھی جسکی سفید قمیض خون سے تر تھی مگر چہرے پر ایک عجیب سا سکوں تھا.... ایک طمانیت تھی. دفتر پہنچتے ہی میں نے خبر کی تفصیلات تلاش کرنے کی کوشش کی پر بے سود، چند ٹویٹس کے سوا کچھ نہ ملا. تمام اخبارات جناب نواز شریف کے دورہ ہندوستان اور نریندرامودی کی حلف برداری پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے، اب اتنی اہم خبر کے مقابلے میں ظاہر ہے یہ معمول کا خون خرابہ اتنا اہم تھا بھی نہیں.
لیکن شاید اس عورت کی لیے یہی خبر سب سے اہم تھی جس کی آنکھوں کے سامنے اسکے شوہر کو گیارہ گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا یا اس بچے کے لیے جس کی آنکھوں کے سامنے اس کا باپ خاک و خوں میں لت پت پڑا تھا. وہ بچہ جسے شاید مذہب، مسلک اور فرقے کا پتا بھی نہ ہو.
سارا دن ایسے ہی سوال میرے ذہن میں گھومتے رہے، دن گزرنے کے ساتھ کچھ مزید تفصیلات سامنے آئیں؛ ڈاکٹر مہدی قمر امریکی ریاست اوہائیو کے شہر کولمبس میں کارڈیالوجسٹ تھے اور پاکستان میں انسانی ہمدردی کی بنا پر رضاکارانہ طور پر چناب نگر کے ایک ہسپتال (طاہر ہارٹ سنٹر) میں کام کرنے کی غرض سے آئے تھے.
اس ہسپتال کے بارے میں پہلے ہی مختلف اوقات میں فتوے جاری کیے جا چکے ہیں کہ یہاں علاج کروانا شریعت کی رو سے حرام ہے اور نفرت انگیز لٹریچر میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یہاں علاج کروانا کفر کے زمرے میں آتا ہے.
ڈاکٹر مہدی امریکا میں اوہائیو کے شہر کولمبس میں رہائش پذیر تھے اور وہیں پریکٹس بھی کرتے تھے. کولمبس ایک خوبصورت اور پرامن شہر ہے، مجھے سن دو ہزار بارہ میں کچھ ہفتے وہاں رہنے کا اتفاق ہوا اور اوہائیو یونیورسٹی میں ہی ایک کورس کرنے کا موقع بھی ملا.
ڈاکٹر مہدی بھی اسی یونیورسٹی سے منسلک تھے. میں سارا دن یہی سوچتا رہا کہ ایسا کیا تھا جو انہیں پاکستان لے آیا؟
اسکا جواب تو شاید وہی شخص دے سکتا تھا لیکن جب ایک دوست جو ان حالات پر جلتا کڑھتا رہتا ہے اس سے ذکر کیا تو اس نے جل کر جواب دیا "اچھا ہوا اسے کس نے کہا تھا یہاں آ، یہ قوم اس قابل نہیں کہ ان سے ہمدردی کی جائے! یہاں پولیو کے قطرے پلانے والوں کو نہیں بخشتےاور تم ڈاکٹر کی بات کر رہا ہے اور وہ بھی......."
میں اسکی تلخ باتیں مزید سننا نہیں چاہتا تھا اسی لیے چپ سادھ لی اور وہ بولتا رہا. ذہن میں ایک عجیب سی فلم چل رہی تھی جسکا فیتا بار بار ایک خون میں لت پت تصویر پر آکر ٹوٹ جاتا تھا اور ہر بار ڈاکٹر مہدی کے لنکڈ ان پروفائل پر لکھے شارٹ بائیو کے یہ الفاظ تارے بن کر میری آنکھوں کے سامنے ناچنے لگتے
"I believe in delivering the best possible patient care, maintaining the highest professional standards, contributing to the progress of the institutions I am affiliated with. My first priority is to deliver my professional responsibilities with competency, honesty and integrity”.
بار بار ایک سوال میرے دماغ کو جھنجھوڑ رہا تھا کہ ہم من حیث القوم کہاں جا رہے ہیں؟ عدم برداشت اور مذہبی منافرت کا ناسور ہمارے رگ و پے میں اس حد تک سرایت کرچکا ہے کی اب اس میں سے بو آنے لگی ہے اور اسکے تعفن سے اب دم گھٹنے سا لگا ہے. سوچ سوچ کر دماغ کی رگیں تن جاتی ہیں کہ آنے والی نسلوں کے لیے ہم کیسا پاکستان چھوڑے جا رہے ہیں؟ اور کیا ہماری آئندہ آنے والی نسلیں بھی آج کی بوئی ہوئ نفرتوں کی فصل کاٹیں گی؟
یہ واقعہ اور اس جسے دوسرے واقعات دیکھ کر ڈر لگتا ہے... اب تو بولنے سے بھی ڈر لگتا ہے .. قلم اٹھانے سے ڈر لگتا ہے.... بچوں کو پولیو ویکسین پلانے سے ڈر لگتا ہے.... کسی سے ہمدردی کرنے سے ڈر لگتا ہے.. گھر سے باہر نکنلے سے ڈر لگتا ہے اور تو اور اب تو ٹی وی چینلز دیکھنے سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں فتویٰ نہ لگ جائے اور کہیں ہماری کہانی بھی ٹویٹر کے ایک سو چالیس کیریکٹرز میں نہ سما جائے.
شام گھر واپس آیا تو عجیب سی حالت تھی، اپنے دونوں بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے بار بار ایک اندیکھے بچے کا چہرہ نظروں کے سامنے گھوم رہا تھا جو اپنے باپ کی لاش کے پاس کھڑا ہے، جس کی ماں دھاڑیں مار مار کر رو رہی ہے اور اس بچے کو سمجھ نہیں آ رہا کی یہ ہوا کیا ہے؟
وہ کبھی اپنی ماں کی طرف دیکھتا ہے کبھی زمین پر پڑے اپنے باپ کی طرف اور کبھی آسمان کی طرف، اسکی معصوم آنکھوں میں کئی سوال ہیں، اسکا باپ جو کچھ ہی دیر پہلے اس سے بات کر رہا تھا، اسے سن رہا تھا، اسے جواب دے رہا تھا، یکا یک خاموش کیوں ہے... اور جو دو لوگ موٹر سائیکل پر آئے انھوں نے بابا پر گولیاں کیوں چلائیں؟ میرے بابا تو لوگوں کی زندگیاں بچاتے تھے وہ تو ڈاکٹر تھے وہ تو یہاں لوگوں کی مدد کرنے آئے تھے کیا وہ کچھ غلط کر رہے تھے؟ میرے ہی بابا کو کیوں مارا؟
اور یہ سوال صرف اس بچے کے نہیں ہیں، یہ سوال وہ سب بیگناہ کر رہے ہیں جنہیں ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر بسوں سے اتار کر مارا گیا، جنہیں پشاور کے آل سینٹ چرچ میں مارا گیا، جنہیں گڑھی شاہو میں مارا گیا، جنہیں گوجرہ میں مارا گیا…. یہی وہ سوال ہیں جو سلمان تاثیر کی فیملی کرتی ہے اور یہی وہ سوال ہیں جو راشد رحمان کی بیوہ کر رہی ہے اور یہی وہ سوال ہیں جو ہمارے بچے ہم سے کریں گے …….
اس سے پہلے کہ نفرت کی یہ آگ پورے معاشرے کو بھسم کر ڈالے، پاکستان کو جلد ہی ان سوالوں کا جواب دینا ہو گا
www.swatsmn.com

پاکستان تحریک انصاف کی امیدوار نگہت انتصار نے واضح برتری حاصل کرلی۔

حافظ آباد: کل تحصیل پنڈی بھٹیاں میں پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی-107 میں ضمنی انتخاب کے سلسلے میں ووٹ ڈالے گئے۔
غیر حتمی اور غیرسرکاری نتیجے کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی امیدوار نگہت انتصار نے واضح برتری حاصل کرلی۔
ڈان نیوز ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اس ضمنی انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کے امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا۔ ابتدائی غیر حتمی اور غیرسرکاری نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی امیدوار نگہت انتصار بیالس ہزار سے زائد ووٹ لے کر سبقت لے گئیں۔ جبکہ مسلم لیگ نون کے امیدوار سرفراز بھٹی سینتیس ہزار ووٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔
یاد رہے کہ یہ نشست ن لیگ کے شعیب شاہ کو دھاندلی کےالزام میں نااہل قرار دیے جانے کے بعد خالی ہوئی تھی۔
پولنگ کے دوران دونوں سیاسی جماعتوں کے کارکنان میں تصادم میں سات افراد زخمی ہوگئے۔ مبینہ طور پر تحریک انصاف کے کارکنوں نے نون لیگ کی پنجاب اسمبلی کی دو خواتین اراکین کے ساتھ بدتمیزی کی اور پولنگ اسٹیشن سے نکلنے پر مجبور کردیا۔

Thursday 29 May 2014

کیا ایسے ہوتے ہیں شفاف الیکشن

کیا ایسے ہوتے ہیں شفاف الیکشن ؟؟
تحریک انصاف کے آفیشل وورکرز نے جعلی ووٹوں سے بھرا تھیلا اور جعلی مہریں پکڑ لیں
چیف سیکرٹری پنجاب عثمان سعید بسرا کے مطابق جعلی ووٹوں کی تعداد 2500 تھی
جمہوریت سیاسی ٹھگوں کے ہاتھوں اغوا ہو چکی ہے۔ اب نہ کوئی کاروائی ہو گی، نہ اس دھاندلی کا فیصلہ ہوگا
آپ کیا کہتے ہیں ؟؟
Like ·  ·  · 21786154
www.swatsmn.com

یہ روایت مسلمانوں کے خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے شروع کرائی


www.swatsmn.com

مودی نے الزامات کی فہرست تھمائی ،وزیراعظم کو بھی ٹھوس موقف اپنانا چاہیے تھا

مودی نے الزامات کی فہرست تھمائی ،وزیراعظم کو بھی ٹھوس موقف اپنانا چاہیے تھا،سراج الحق

29 مئی 2014 (11:34)

مودی نے الزامات کی فہرست تھمائی ،وزیراعظم کو بھی ٹھوس موقف اپنانا چاہیے تھا،سراج الحق
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف بھارتی حکمرانوں سے اپنی بات چیت میں مسئلہ کشمیر پر واضح اور دو ٹوک موقف اپناناچاہیے تھا ۔ بھارتی وزیراعظم نے پاکستا ن پر الزامات کی ایک فہرست میاں نوازشریف کو پکڑا دی ہے۔ ملک بھر کی دینی و سیاسی جماعتیں ملک میں جمہوری اداروں کے تحفظ کے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں۔ جماعت اسلامی کسی ایسی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی جس کے نتیجے میں جمہوریت پٹڑی سے اُترجائے۔اسلام آباد کے حکمرانوں نے طالبان سے مذاکرات کے سنہری موقع سے فائدہ نہیں اُٹھایا ۔ طاقت کے استعمال سے مسئلے حل نہیں ہو تے بلکہ نفرتیں جنم لیتی ہیں۔ جماعت اسلامی ملک میں حقیقی معنوں میں تبدیلی اور انقلاب کے لئے بہت جلد ایک عوامی ایجنڈے کو عوام کے سامنے پیش کرےگی جس کے نتیجے میں ظلم و جبر کا نظام خس و خشاک کی طرح بہہ جائے گا۔ الخدمت فاؤنڈیشن نے پشاور میں یتامیٰ کی کفالت کے لئے آغوش سنٹر کا آغاز کرکے بہت بڑی خدمت انجام دی ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن کے رضا کار ہر مشکل میں عوام کے درمیان موجود ہوتے ہیں جس کے لئے انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔جماعت اسلامی کے مرکزی میڈیا سیل کے پریس ریلیزکے مطابق ان خیالات کااظہار انہوں نے پشاور میں الخدمت فاؤنڈیشن خیبر پختونخوا کے زیر اہتمام یتامٰی کی کفالت کے لئے آغوش سنٹر کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان ، الخدمت فاؤنڈیشن کے مرکزی نائب صدر احسان اللہ وقاص، صوبائی صدر نور الحق، سابق عالمی سکواش چیمپیئن قمر زمان اور الخدمت فاؤنڈیشن ضلع پشاو رکے صدر خالد وقاص چمکنی نے بھی خطاب کیا۔ تقریب میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں صوبائی وزراء عنایت اللہ، حبیب الرحمن خان، مہر تاج روغانی، ممبران صوبائی و قومی اسمبلی کے علاوہ جماعت اسلامی کے صوبائی سیکرٹری جنرل شبیر احمد خان بھی موجود تھے۔سراج الحق نے غریب اور مظلوم عوام پر زور دیا کہ وہ اپنی حالت بدلنے اور ملک کو جاگیر داروں ، سرمایہ داروں کے چنگل سے نجات دلانے کے لئے جماعت اسلامی کے پرچم تلے جمع ہو جائیں۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ نظام سے جرنیلوں کے بچے جرنیل ، بیورو کریٹ کے بچے بیور وکریٹ بنتے ہیں ،جبکہ غریبوں کے بچوں کی قسمت میں صرف چوکیداری لکھ دی گئی ہے لیکن جماعت اسلامی اس ظالمانہ نظام کو تبدیل کرکے دم لے گی۔ انہوں نے کہا کہ مدینہ کی پہلی اسلامی ریاست ہمارے لئے رول ماڈل ہے جہاں پر سوشل سیکورٹی کا ایسا نظام قائم تھا جس میں عوام کی بنیادی ضروریات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری تھی ۔ انہوں نے کہاکہ مغربی ممالک نے بھی اپنے عوام کے لئے سوشل سیکورٹی کا نظام دیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو رہنے کے لئے گھر ، خوراک صحت اور تعلیم کی سہولیات کی فراہمی ایک فلاحی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
www.swatsmn.com

وزیرستان اور بنوں میں دھماکے، چھ سیکیورٹی اہلکار شہید

وزیرستان اور بنوں میں دھماکے، چھ سیکیورٹی اہلکار شہید

29 مئی 2014 (12:59)

وزیرستان اور بنوں میں دھماکے، چھ سیکیورٹی اہلکار شہید
راولپنڈی (مانیٹرنگ ڈیسک) شمالی وزیرستان اور ایف آر بنوں میں سڑک کنارے نصب بارودی مواد کے دھماکوں میں چھ سیکیورٹی اہلکار شہید اورچار زخمی ہوگئے ۔ پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق نوشیرقلعہ کے قریب دہشتگردوں نے سڑک کنارے دوبارودی سرنگیں نصب کررکھی تھیں ۔دھماکے سے تین اہلکار زخمی ہوگئے جن میں ایک بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ اُدھر ایف آر بنوں میں ٹودہ چینہ میں سیکیورٹی فورسز کی گاڑی بارودی سرنگ سے ٹکراگئی جس کے نتیجے میں تین اہلکار شہید اور دوزخمی ہوگئے ۔سیکیورٹی ذرائع کے مطابق بنوںدھماکے کے شہداءمیں ناصرعلی ، جعفر خان اور مظفر شامل ہیں۔مقامی ذرائع کے مطابق دھماکے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کردیا۔
www.swatsmn.com

پی پی 107میں ضمنی انتخابات، دھاندلی کا راج ، بیلٹ پیپر سے بھری گاڑی پکڑی گئی

پی پی 107میں ضمنی انتخابات، دھاندلی کا راج ، بیلٹ پیپر سے بھری گاڑی پکڑی گئی

29 مئی 2014 (13:07)

پی پی 107میں ضمنی انتخابات، دھاندلی کا راج ، بیلٹ پیپر سے بھری گاڑی پکڑی گئی
حافظ آباد(مانیٹرنگ ڈیسک ) پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 107 پنڈی بھٹیاں میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے مبینہ طور پر لاہور سے بیلٹ پیپر لانے والی ن لیگ کی خواتین کارکنان کی گاڑی کو روک لیا اور بتا یا گیا کہ گاڑی میں سوار یہ خواتین پولنگ سٹیشن نمبر 109پر دھاندلی کے لیے بیلٹ باکس لے کر جا رہی تھیں جبکہ دوسری طرف پولنگ سٹیشن نمبر 111پر انگوٹھوں پر لگانے والی سیاہی ختم ہونے کے با وجود پولنگ جاری ہے ۔ نجی ٹی وی کے مطابق پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 107 پنڈی بھٹیاں میں پولنگ جاری تھی جس کے دوران پولنگ سٹیشن نمبر 109پر پاکستان تحریک انصاف کے کا رکنوں نے پولنگ سٹیشن کے باہر ن لیگ کی خواتین کارکنان کی ایک گاڑی کو روک لیا جس میں مبینہ طور پر دھاندلی کے لیے بیلٹ پیپر بھر کر لائے گئے تھے ،اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری بھی وہاں پہنچ گئی، تحریک انصاف کے کارکنوں پولیس کی موجودگی کے باوجود اس گاڑی پر پتھراﺅ کیا اور جعلی ووٹ بر آمد کرنے کا مطالبہ بھی کیا تاہم پولیس کے تعاون سے گاڑی میں سوارن لیگ کی خواتین کارکن ،جو مبینہ طور پر لاہور سے دھاندلی کے لیے بیلٹ پیپرز لے کر آئیں تھیں ،وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئیں ۔ دوسری جانب پولنگ سٹیشن نمبر 111پر انگو ٹھوں پر لگانے والی سیاہی ختم ہوگئی لیکن اس کے با وجود پولنگ جاری تھی ۔علاوہ ازیں پی پی 107پر ضمنی انتخابات کے لیے پولنگ کا عمل شام 5 بجے تک جاری ہے ، حلقے میں 154 پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے ہیں جن میں سے20 کو حسا س قرار دیئے گئے ہیں۔ پی پی 107 میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 75 ہزار 339 ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے۔ضمنی انتخابات میں مجموعی طور پر 6 امیدوار حصہ لے رہے ہیں لیکن ن لیگ کے سرفرار بھٹی اور تحریک انصاف کی خاتون امیدوار نگہت انتصار بھٹی کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔ ووٹنگ کو پر امن بنانے کے لیے سیکیورٹی کے بھی سخت انتظامات کئے گئے ہیں جب کہ اسلحہ کی نمائش پر بھی پابندی ہے۔واضح رہے کہ 11 مئی کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے پیر سید شعیب شاہ کامیاب ہوئے تھے لیکن ان کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی کہ کچھ پولنگ سٹیشنز پر خالی بیلٹ پیپرز کو بھی گنتی میں شامل کیا گیا جس پر ہائی کورٹ نے حلقے میں دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا
www.swatsmn.com

MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan EXTED.pk

Admission open  MBBS , BDS , MD in Kyrgyzstan   http://facebook.com/ exted.p k http://www.exted.pk/ Lowest Fee ,   No IELTS...