یہ میچ ۱۹۸۹ میں آسٹریلیا کے خلاف پرتھ میں کھیلا جارھا تھا۔ آسٹریلیلا کو میچ جیتنے کیلئے آخری اوور میں صرف چار رنز چاہیئے تھے اور اس کا سیٹ بیٹسمین کریز پر موجود تھا۔ باؤلنگ سائیڈ کی شکست صاف نظر آرہی تھی۔ میچ تو ہار ہی چکے تھے چنانچہ کوئی بھی باؤلر آخری اوور پھینکنے میں دلچسپی نہیں لے رھا تھا۔ پھر اس نے گیند اپنے ہاتھ میں لی اور آخری اوور خود پھینکنے کا فیصلہ کیا۔ وہ حال ہی میں اپنی ٹانگ کی دوسری سرجری کروا چکا تھا اور مکمل طور پر فٹ بھی نہیں تھا۔
اس نے پہلی گیند کی جس پر لیگ بائی کا ایک سکور بنا۔ اب پانچ گیندوں پر تین رنز درکار تھے۔
اگلی گیند پھینکی اور سیٹ بیٹسمین کو ایل بی ڈبلیو کردیا۔
تیسری گیند بیٹ کی۔
چوتھی گیند پر ایک سنگل ہوئی۔
پانچوں گیند پر کلین بولڈ کردیا۔
اب آخری گیند تھی اور میچ جیتنے کیلئے دو رنز۔
باہر پوہلین میں بیٹھے مینیجر اور سینئر پلئیرز نے بارھویں کھلاڑی کو کچھ ہدایات دے کر گراؤنڈ میں اس باؤلر کے پاس بھیجا۔ جب باؤلر کی نظر پڑی تو اس نے دور سے ہی اس بارھویں کھلاڑی کو ڈانٹ کر واپس بھجوا دیا اور ساتھ ہی ہنس کر پولین کی طرف طنزیہ انداز میں اشارہ کر کے کہا کہ آرام سے بیٹھے رھو، مجھے پتہ ھے کیا کرنا ھے۔
آخری گیند کی جو بیٹسمین سے کھیلی نہ گئیاور پاکستان ایک یقینی طور پر ہارا ہوا میچ جیت گیا۔
وہ باؤلر کوئی اور نہیں، بلکہ اپنا کپتان عمران خان تھا جو ہر مشکل صورتحال کو ایک لیڈر کی طرح آگے بڑھ کو خود فیس کرتا تھا، چاھے باؤلنگ ھو یا بیٹنگ، وہ ہمیشہ اپنی پوری ایفرٹ کرکے اپنی ٹیم کو جتوا دیا کرتا تھا۔
میرے نزدیک اس میچ کی اہم بات عمران خان کا وہ شاندار آخری اوور نہیں تھا، بلکہ اس کا وہ اعتماد تھا جس سے اس نے زخمی حالت میں ہوتے ہوئے بھی آخری اوور خود کرنے کا رسک لیا۔ پھر اس سے بھی زیادہ وہ اعتماد تھا جب اس نے بارھویں کھلاڑی کو ڈانٹ کو واپس بھجوا دیا کیونکہ وہ کھیل کے معاملے میں دماغی طور پر سب سے زیادہ مظبوط تھا اور اسے کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں تھی۔
www.swatsmn.com
No comments:
Post a Comment