www.swatsmn.com
اسلام آباد: جمعرات کے روز نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے ایک تاریخی اقدام اُٹھاتے ہوئے لاوارث اور یتیم بچوں کی رجسٹریشن سے متعلق ایک نئی پالیسی کا اعلان کیا۔
اس نئی پالیسی کے تحت ایک یتیم خانے کے سربراہ جہاں کوئی بچہ رہتا ہے، ایک حلف نامہ فراہم کرنے کے بعد بچے کا قانونی سرپرست بن جائے گا۔ یہ نیا طریقہ کار پرانے طریقہ کار کی جگہ لے گا، جس کے تحت اس طرح کے بچے کی سرپرستی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے متعلقہ عدالت سے رجوع کیا جاتا تھا۔
اس سے قبل گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ 1890ء کے تحت ایک بچے کو اسی صورت میں قانونی طور پر سرپرستی میں لیا جاسکتا تھا، جب کہ ایک گارڈین کورٹ سرپرستی حاصل کرنے والے شخص کو ایک حکمنامہ جاری کردے۔
عدالت کے ایک حکمنامے کے بغیر کوئی بھی شخص قانونی طور پر لاوارث یا یتیم بچے کی قانونی سرپرستی حاصل نہیں کرسکتا تھا۔
ماضی میں یتیموں کو نادرا کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں کیا جاسکتا تھا، اس لیے کہ ان کا کوئی قانونی سپرست نہیں ہوتا تھا، جس کی وجہ سے انہیں قومی شناختی کارڈ جو شہریت کا بنیادی ثبوت ہوتا ہے، حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
اس پالیسی کا انکشاف چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے کیا گیا، انہوں نے چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹریز کو حکم دیا کہ وہ متعلقہ صوبائی محکموں میں نئی پالیسی کو متعارف کروائیں اور اس کے نفاذ میں حکام کو مکمل مدد فراہم کریں۔
یہ معاملہ سب سے پہلے انسان دوست شخصیت اور سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کی جانب سے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے نوٹس میں لایا گیا تھا۔
اس وقت کے چیف جسٹس کو اپنے ایک خط میں عبدالستار ایدھی نے شکایت کی تھی کہ نادرا ایسے بچوں کو ب فارم جاری نہیں کررہا ہے، جن کے والدین کا علم نہیں یا جن کے والدین نے انہیں لاوارث چھوڑدیا تھا اور وہ اب ایدھی کی شیلٹرز یا پناہ گاہوں میں مقیم تھے۔
عبدالستار ایدھی کی بیٹی جو اس شیلٹر کا انتظام انصرام چلارہی ہیں، جب انہوں نے ایسے بچوں کو گود لینے اور ان کو رجسٹرڈ کروانے کی کوشش کی تو باضابطہ سرپرستی کے سرٹیفکیٹ کی عدم موجودگی کی وجہ سے نادرا نے ان کی درخواست کو مسترد کردیا۔
عدالت نے اس سے پہلے لاوارث بچوں کو گود لینے کے سلسلے میں اہم سوالات تیار کیے، جس پر مذہبی اسکالرز اور قانونی ماہرین کی تشریح درکار تھی۔
اس کے علاوہ ہائی کورٹ کے سابق جج طارق محمود اور کراچی میں مقیم قانونی ماہر مخدوم علی خان کو اس معاملے میں عدالت کا معاون مقرر کیا گیا۔
جمعرات کی عدالتی کارروائی میں نادرا کے نمائندے افنان کندی نے عدالت کو بتایا کہ نادرا نے اب تک 610 لاوارث بچوں کو رجسٹرڈ کیا ہے، جو یتیم خانوں میں مقیم ہیں۔ کل تین ہزار ستاسی بچے رجسٹرڈ ہونے سے رہ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس نئی پالیسی کے نفاذ کے ساتھ لاوارث بچوں کی رجسٹریشن میں حائل ہونے والی زیادہ تر رکاوٹیں دور ہوجائیں گی۔
نادراکے آرڈیننس 2000ء کے سیکشن 9(1) کے تحت نادرا پاکستان کے ہر ایک شہری کو چاہے وہ ملک میں ہو یا بیرون ملک مقیم ہو، جو اٹھارہ برس کی عمر کو پہنچ گیا ہو، رجسٹر کرنے کی پابند ہے۔
اس کے علاوہ ایک بچے کی پیدائش کے بعد ایک مہینے کے اندر اندر والدین کی طرف سے اس کو رجسٹر کروانا لازم ہے۔
نئی پالیسی کے تحت یہ لازم ہے کہ یہ یتیم خانہ نادرا کے ساتھ رجسٹرڈ ہو، اس میں مقیم بچوں کا مکمل ریکارڈ اور ان کی پچھلی رہائش کا ریکارڈ جو دستیاب ہو اور یتیم خانے کے متعلقہ حکام کی تمام دستاویزات بھی نادرا کو فراہم کی جائیں۔
اس صورت میں کہ ایک بچے کے ولدیت کا علم نہ ہو، تو یتیم خانے کی طرف سے اس کو جوبھی نام دیا گیا ہوگا، اس کو نادرا کے ساتھ رجسٹرڈ کیا جائے گا۔
یتیم خانہ ان تمام تفصیلات کی فراہمی کا ذمہ دار ہوگا اور بچے کے والدین کا کوئی بھی نام تفویض کرسکے گا، جیسا کہ ایدھی، عبداللہ، آدم یا حوا۔
ہر ایک نئی رجسٹریشن کے لیے یتیم خانے کے لیے لازم ہوگا کہ وہ ہر نئی پیدائش کی نادرا کو رپورٹ دے، اور مستقبل میں والدین کی جانب سے حق شفع کے دعوے کے لیے اگر ممکن ہو تو یتیم خانے کی جانب سے ڈی این اے کا ٹیسٹ کروایا جانا چاہیٔے۔
نادرا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ چیئرمین نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ یتیموں کو شناختی کارڈ مفت جاری کیے جائیں گے۔
عبدالستار ایدھی کی شکایت کو دور کرنے کے لیے تیار کی جانے والی اس پالیسی کو عدالت اس کے نفاذ کے ساتھ شایع کرنے کا اہتمام کرے گی۔
No comments:
Post a Comment