فوج بحیثیت ایک ریاستی ادارہ جسے عرف عام میں اسٹیبلشمنٹ بھی کہا جاتا ہے، ہر ملک میں اپنی ایک مسلمہ حیثیت اور اثر رسوخ رکھتی ہے، اس کی وجوہات موجود ہیں۔ سیاست دان چونکہ ایک مخصوص وقت اور حالات کے تحت مسند اقتدار پر بٹھایا جاتا ہے لیکن فوج جس میں بھرتی ہونے والا افسر اپنی تقریباََ تمام زندگی ملک یا ریاست کے لئے وقف کرتا ہے بلاشبہ سیاست دان سے زیادہ با علم، متعلق اور فکر مند ہوتا ہے، سیاست دان کے پاس یہ آپشن موجود ہوتا ہے کہ اگر اس کے فیصلوں کے غلط نتائج نکلے تو وہ اگلی مرتبہ منتخب نہیں کیا جائے گا لیکن فوج کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہوتا سوائے ہر حالت میں ملک کا دفاع اور اس کو لاحق اندرونی خطرات سے تدارک کرنے کے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کلنٹن کے مقابلے میں جارج بش اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو امریکہ میں پہلی مرتبہ الیکشن رزلٹ روک لئے گئے اور کافی تاخیر کے بعد بل کلنٹن کو امریکہ کا صدر منتخب کروایا گیا کہ وہ معتدل مزاج
سیاستدان تھا جب کہ جارج بش انتہا پسندانہ سوچ کا حامل جو پہلے ہی گلف وار میں امریکہ کی جگ ہنسائی کا باعث بن چکا تھا۔ پھر جو حشر یہودیوں نے کلنٹن کا کیا تھا وہ سب کے سامنے ہے۔
اسی طرح صدر بش جونیئر کو امریکہ کا صدر منتخب کروانے کی وجوہات بین وہی تھیں جو مشرف کو پاکستان کا صدر منتخب کروانے کی تھیں۔ برطانیہ میں فوج کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے وزیراعظم کے انتخاب میں، لیکن ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ فوج کی اس دخل اندازی پر اسکو لعن طعن کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ دیگر ممالک میں فوج کو ایک اسٹیک ہولڈر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ فرق جب تک ختم نیہں کیا جاتا تب تک یہاں پر مارشل لاؤں کے خطرات بالکل ختم نہیں کئے جا سکتے۔ پاکستان میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص امن کے حوالے سے ہمیشہ ہی ایم کیو ایم پر تنقید کی جاتی ہے، کیا کبھی کسی نے یہ سوچا کہ اس قتل و غارت گری کا سیاسی فائدہ کس جماعت کو پہنچتا ہے؟ ایم کیو ایم کا حال بد سے بدنام برا والا ہے۔ ایم کیو ایم اینٹی پاکستان نہیں بلکہ پرو انڈین جماعت ہے۔ اس طرح تو نون لیگ بھی پرو انڈین جماعت ہے پھر اسے غدار جماعت کا ٹائٹل کیوں نہیں دیا جاتا، اس فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ضیا الحق کے دور میں جب ایم کیو ایم کا بیج بویا جا رہا تھا تو اس کا مقصد ہی یہ تھا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو لگام دی جا سکے۔ اپنی اس کوشش میں سیکیورٹی ادارے اس حد تک کامیاب ہیں کہ پیپلز پارٹی سندھ میں سمٹتی جا رہی ہے اور ایم کیو ایم بڑھتی جا رہی ہے۔ کراچی میں ہونے والی قتل و غارت گری میں سب سے زیادہ ہاتھ پیپلز پارٹی کا ہوتا ہے اور الزام لگتا ہے ایم کیو ایم پر، اگر یہ قتل و غارت گری آج رک جائے تو اگلے الیکشن میں ایم کیو ایم پورے سندھ میں پیپلز پارٹی کو ناکوں چنے چبوا دے۔
الیکشن دھاندلی کرنا بھی ایم کیو ایم کی مجبوری ہے۔ سندھ کا کلچر ہاری اور وڈیرے والا ہے، الیکشن عملہ زیادہ تر اندرون سندھ سکول ٹیچرز پر مشتمل ہوتا ہے جو سندھ کے وڈیروں کے زیر اثر رہنے والے لوگ ہیں۔ اس لئے ایم کیو ایم چاہے غلط کرتی ہے دھاندلی کرتی ضرور ہے۔ فوج کا اس لڑائی میں یہ فائدہ ہے کہ سندھ کو بچا لیتی ہے بغیر زیادہ تگ و دو کئے۔ ورنہ تاریخ کے طالبعلموں کو شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کے وہ اقوال زریں یاد ہوں گے کہ وہ جب بھی پاکستان آئیں گے انڈین ٹینکوں پر بیٹھ کر آئیں گے۔ اس لئے ایم کیو ایم فوج کی حمایت یافتہ جماعت ضرور ہے لیکن غدار جماعت کہنا زیادتی ہو گی، اس کی سیاست کا اپنا انداز ہے، غلط یا صحیح یہ الگ بات ہے لیکن پیپلز پارٹی کی ملک دشمنی اور غداری پر کوئی دو رائے نہیں ہے۔ لازم نہیں کہ جو ملک کو دو لخت کروائے وہی ریاست کا غدار ہوتا ہے، جو ملک کو کھوکھلا کرے وہ بھی ریاست کا غدار ہی ہوتا ہے۔ باقی پیپلز پارٹی نے کب کب اور کن کن مواقع پر ریاست کا بیڑا غرق کیا اور سندھ کو پاکستان سے الگ صوبہ بنانے کی کوشش کی۔ اس پر پھر کبھی بات کروں گا۔۔۔۔۔
:::عامر رؤف منہاس:::
www.swatsmn.com
No comments:
Post a Comment